الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

پریس ریلیز حزب التحریر "غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے" کے عنوان سے عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس غزہ اور پورے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لئےعالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہا ہے،جس میں فلسطین کو پنجہ یہود سے آزادی کے لئے اُس طریقہ کار کو واضح کیا جائے گا جسے شرع نے واجب کیا ہے۔اس کانفرنس کا عنوان ہے:
"غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے"
کانفرنس لبنان - بیروت میں 19 شوال 1435 ہجری بمطابق 15 اگست 2014 کو بعد ازنمازِ جمعہ 2 بجے منعقد ہورہی ہے۔

کانفرنس میں حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس اور مصر،اردن اورلبنان میں حزب کے میڈیا دفاتر کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس میں حزب التحریر ترکی کے میڈیا آفس کےنمائندے بھی شرکت کررہے ہیں جبکہ سیکورٹی صورتحال کے پیش ِ نظر حزب التحریر فلسطین اور شام کے میڈیا آفس کے نمائندوں کی ذاتی طور پر شرکت مشکل ہےاس لئےان کی طرف سے ریکارڈ نگ ہی سنائی جائیں گی۔
کانفرنس میں غزہ وفلسطین میں جاری صورتحال کی حقیقت اور اہم مسائل پر روشنی ڈالنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور فلسطین کے اصل مسئلے ،اس کےاسباب اور کا میاب حل کو پیش کیا جائے گا۔ نیز مسلمانوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے،اس کو واضح کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ مذاکرات اور فلسطین سے متعلق معاہدات اور عرب ممالک کی افواج کا کردار اور ان کی حقیقی صلاحیت جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا.....آخر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حزب التحریر کے موقف پر زور دیا جائے گا اس لئے کہ حزب التحریر امت کا وہ قائد ہے جو ان سے جھوٹ نہیں بولتا جبکہ اس دور میں سیاست جھوٹ، دھوکہ اور گمراہی کا عنوان اختیار کرچکی ہے۔
یہ کانفرنس اس مہم کے ضمن میں ہی منعقد کی جارہی ہے ،جسے اہل غزہ پر تازہ ترین جارحیت کے آغاز کے فوراً بعد حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی طرف سےاہل غزہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی۔ اس مہم کا عنوان ہے: "اے مسلم افواج!اہل فلسطین کی نصرت پر لبیک کہو"۔
http://www.hizb-ut-tahrir.info/info/index.php/contents/entry_38124
اس اعلان کے ساتھ ساتھ ٹویٹر پر بھی ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک عالمی مہم شروع کی گئی ہے۔

#MuslimArmies4Gaza

کانفرنس کے احوال اور کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لئےمیڈیا سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے عام دعوت ہے اور وہ ذاتی طور پر کوریج کے لئے شرکت کرسکتے ہیں یا پھر حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی لائیو ٹی وی نشریات کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر

پریس ریلیز اوباما کا مردہ ضمیر!

جمعہ یکم اگست 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر اوبامہ نے کہا کہ "ہم وضاحت کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ غزہ میں جنگ میں پھنسے ہوئے معصوم شہری ہمارے ضمیر سےاوجھل نہ ہوں ۔۔۔ہمیں ان کے بچاؤ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے "۔
زمینی حقائق اور امریکہ کے جرائم جو کہ ان گنت اور لامحدود ہیں اوبامہ کے ضمیر اور اس کے مگر مچھ کے آنسووں کے برعکس ہیں:
۔ سب سے پہلے تو خود اس کے بیان کے مطابق شہری "جو جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں"!!! اس نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ یہود کی جنگی مشینری نے ہی غزہ میں چھتوں کو ان کے اندر رہنے والوں پر گرادیا اور اپنی بری ،بحری اور فضائی حملے میں اس نے امریکی اسلحہ استعمال کیا ہے۔
۔ جو چیز اس کے جھوٹ کو مزید بے نقاب کرتی ہے وہ یہ کہ اوبامہ نے جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کی جانب سے پہلے سے موجود امریکی اسلحہ "جنگ میں پھنسے ہوئے شہریوں" پر استعمال کر کے مزید طلب کرنے پر فوراًاسلحہ سپلائی کرنے کی حامی بھر لی ، کیا یہ شہریوں کو بچانے کا طریقہ ہے!؟
۔اوبامہ کا جرائم سے بھر پور عہد اس کے جھوٹ اور جرائم کو بے نقاب کر تا ہے۔ اس کی فوج نے اس کے عہدہ صدارت کے دورات 350 ڈرون حملے کیے جو اس کے پیش رو بش کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں جس نے 50 ڈرون حملے کیے تھے۔ یہ بات مصدقہ اور مشہور ہے کہ ان حملوں میں 80 فیصد شہری مرے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد 2009 کی ابتداء میں اس نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ "وہ اپنے پیش رو بش جونیئر کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کو مسترد کر تا ہے کیونکہ وہ "غلط راستے " پر گامزن تھا، جو کہ "ہمارے تحفظ اور اقدار " کے خلاف تھیں۔ اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو امریکی اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے گالیکن اس نےعملاً یہ ثابت کر دیا کہ امریکی پالیسی مجرمانہ اور جارحانہ ہے اور امریکی صدور اپنے جمہوری تہذیب یافتہ امریکی عوام کی حمائت سے جو کے مجسمہ آزادی کے رکھوالے ہیں اور جو اب نیویارک کے ساحل میں دفن ہو چکی ہے، ایک دوسرے سے اس بات میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون زیادہ بڑا مجرم ہے ۔
۔ باوجویکہ کہ وہ یہودی فوجی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو قیدی بنا یا گیا ہے "پھر کہا گیا کہ اس کو قتل کردیا گیا" یہ فوجی حیفا کے ساحل پر چہل قدمی نہیں کررہا تھا بلکہ غزہ کی سرزمین پر شہریوں کو قتل کر نے کے مشن پر تھا لیکن اوبامہ نے انتہائی بے شر می سے بہادر اہل غزہ کو مزید قتل وغارت کی دھمکی دی اگر انھوں نے غیر مشروط طور پر اپنے قاتل کو رہا نہ کیا!! اس واقعے نے اس کے جھوٹ اور مگرمچھ کے آنسوؤں کی حقیقت کو کھول دیا جس کا وہ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا تھا۔ اس نے غزہ کے لوگوں پر یہودی فوجیوں کواس طرح مکمل کھلی چھٹی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جس طرح عراق،پاکستان،افغانستان ،یمن اور صومالیہ میں اس کے فوجیوں اور موت کے دستوں کو قتل وغارت کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے!!
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ ہو یا نیتن یاہو امت مسلمہ سے ان کی عداوت پر ہمیں کوئی شک شبہ نہیں کیونکہ وہ دن رات مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،لیکن ہم دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کہ : مسلمانوں کے اہل قوت آخر کب اسلام اور اہل اسلام کی نصرت اور مدد کے لیے اور ان کے دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے،خلافت کے قیام کے لیے وہ حزب التحریر کو کب نصرہ دیں گے تاکہ وہ ڈھال واپس آئے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : «إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»؟ "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے"۔ اے اللہ! محمدﷺ کی امت کو وہ خلیفہ عنایت کر دے جو تیری شریعت کے ذریعے حکمرانی کرے اور صرف حملہ آوروں کا ہی نہیں، اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی سر کچل دے۔ تو اس کا اہل اور اس پر قادر ہے۔
عثمان بخاش
حزب التحریر کا مرکزی میڈیاآفس

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ دوئم)

تین اقساط پر مشتمل اس مضمون کے دوسرے حصے میں عابد مصطفٰی مختصراً ان افکار کا جائزہ لیں گے جنہیں مفکرین عظیم طاقتوں، خصوصاً امریکہ کے انحطاط کو ثابت یا پیشگوئی کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔ پھر عابد مصطفٰی آگے چل کر کہانی کے انداز میں نہضہ (نشاۃ ثانیہ)کے فہم اور بڑی طاقتوں کے انحطاط کو بیان کرتے ہیں۔

امریکہ کے انحطاط کے موضوع نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ سپر پاور کا انحطاط کیسا ہوتا ہے؟ کیا امریکی انحطاط صرف معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان تک محدود ہے یا یہ امریکی معاشرے اور تمدن کے ہر جزو کا احاطہ کرتا ہے؟ امریکی انحطاط کی رفتار کیا ہے؟ کیا امریکی انحطاط اتنا شدید ہے کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ اگر امریکہ تباہ ہونے کے قریب ہے تو یہ تباہی وقتی ہوگی یا مستقل؟ اس طرح کے سوالات نے پچھلے اور موجودہ تاریخ دانوں کے اذہان کو گھیرے رکھا ہے۔
سپرپاور کے زوال کے بارے میں کچھ مصنفین نے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ پول کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال" میں لکھتے ہیں: "بڑی طاقتوں کا عروج اور زوال ان کی صنعتوں کے شرح نمو (بڑھنے کی رفتار) اور ریاستی اخراجات کی جی ڈی پی کے مقابل قیمت ہے"۔ کینیڈی کہتا ہے: "اگر ریاست تزویراتی طور پر خود کو حد سے زیادہ بڑھا دے گی تو اسے یہ خطرہ اٹھانا پڑسکتا ہے کہ بیرونی پھیلاؤ پر مجموعی اخراجات، حاصل ہونے والے فائدوں سے تجاوز کر سکتے ہیں"۔ جارڈ ڈائمنڈ جو کہ مزید جدید مصنف ہے اپنی کتاب، Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed (سقوط: معاشرے کس طرح کامیابی یا ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں) میں لکھتا ہے کہ معاشروں نے خود کو اپنے آپ ہی تباہ کیا کیونکہ انہوں نے قدرتی ماحول کی تحقیر کی۔
امریکی انحطاط کے مخصوص موضوع پر جارج پیکر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکی انحطاط امیر اور غریب کے درمیان معاشی فرق کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: "عدم مساوات معاشرے کو طبقاتی نظام میں جکڑ دیتی ہے، لوگوں کو ان کے پیدائشی حالات میں قید کر دیتی ہے جو کہ امریکی خواب کی سوچ کی نفی ہے۔ عدم مساوات شہریوں کے درمیان بھروسے کو زنگ آلود دیتی ہے اور ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے کھیل میں دھاندلی ہوئی ہو۔ عدم مساوات وسیع اجتماعی مسائل کیلئے ٹھوس حل پیدا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے کیونکہ وہ مسائل پھر اجتماعی نہیں لگتے۔ عدم مساوات جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہے"۔ نیال فرگوسن اس بات کا قائل ہے کہ دنیا میں امریکی بالادستی میں کمی آہستہ اور مستقل نہیں ہوگی۔ وہ کہتا ہے کہ "سلطنتیں ایک پیچیدہ اور ڈھل جانے والے نظام کے طور پر برتاؤ کرتی ہیں، وہ کچھ انجانی مدت تک بظاہر توازن میں کام کرتی ہیں اور پھر ایک دم سے ڈھیر ہو جاتی ہیں"۔
گو کہ یہ تصورات انحطاط کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں، یہ عظیم طاقتوں کی تنزلی کا ڈھانچہ کھینچنے میں مددگار نہیں۔ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نہ صرف انحطاط کو واضح کرے بلکہ عظیم طاقتوں کے زوال کو بھی رقم کر سکے۔ اس تناظر میں، اسلام ایک ایسا نمونہ دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا اندازہ لگائے۔
انحطاط کو سمجھنا، نشاۃ ثانیہ (revival) کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس کو واضح کریں کہ نشاۃ ثانیہ سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ اوکسفورڈ آن لائن ڈکشنری کے مطابق نشاۃ ثانیہ کا مطلب "کسی چیز یا شخص کے حالات، قوت یا قسمت میں بہتری ہے"۔ عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کا مطلب "جب پرہیزگاروں کی ایک اکائی خالق کے پیغام کا جواب دے" ہے۔لیکن نشاۃ ثانیہ کو اس زاویے سے دیکھنے کیلئے لسانی اور عیسائی تعریفیں نامکمل اور ناکافی ہیں۔
اسلام کے نقطہ نظر سے نشاۃ ثانیہ کی ایک مخصوص تعریف ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے "روحانی بنیاد پر فکری بلندی"۔ اس تعریف کی دو شرطیں ہیں اس سے پہلے کہ قوم کے نشاۃ ثانیہ کو مکمل اور درست تصور کیا جائے۔ ایک یہ کہ نشاۃ ثانیہ کی اساس آئیڈیالوجی یا مبداء(نظریہ حیات) پر ہو یعنی یہ انسان، حیات اور کائنات کے متعلق جامع فکر رکھتی ہو اور ان کے آپس میں تعلق کے بارے میں یعنی ما قبل اور ما بعد سے متعلق۔ یہ جامع فکر افکار اور نظاموں کے مجموعے کو جنم دیتی ہے جو زندگی کے ہر میدان کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ جامع مبداء افکار اور نظاموں کے ساتھ صرف کتابوں اور الفاظوں میں موجود رہے گا جب تک ان کو زندہ کرنے کے لئے طریقہ موجود نہ ہو یعنی افکار اور نظاموں کو حیات بخشنے کے لئے۔ یہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے جب طریقہ بھی جامع مبداء کی طرح ہو یعنی یہ طریقہ جامع مبداء سےہی پھوٹنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شریعت کو جمہوریت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فکری آئیڈیالوجی یعنی مبداء اور طریقہ سے عاری کوئی بھی چیز نشاۃِ ثانیہ کو ایک مخصوص علاقے میں محدود کردے گی مثلاً سنگاپور کو معروف مواصلات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جنوبی کوریاڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سر فہرست ہے اور جب طویل فاصلے تک بھاگنے والوں کو پیدا کرنے کی بات کی جائے تو کینیا کو بہترین گردانا جاتا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ان تینوں ملکوں کو مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کا نشاۃِ ثانیہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے آئیڈیالوجی یعنی مبداء کو اختیار کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، نشاۃِ ثانیہ کے لئے روحانی عنصر کا ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازماًخالق کے وجود کا ادراک کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ جامع فکر خالق کے ادراک کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ نشاۃِ ثانیہ روحانی لحاظ سے درست ہے۔
اس وقت دنیا میں موجود تین آئیڈیالوجیز (مبادی) یعنی اسلام، مغربی سرمایہ داریت (لبرل جمہوریت) اور کمیونزم میں صرف اسلام ہی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بیان کی گئی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ممالک جہاں مغربی سرمایہ داریت اور کمیونزم نافذ ہے نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر نہیں، بلکہ ان ممالک نے اپنی آئیڈیالوجی کی مدد سے نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا ہے، لیکن دونوں نشاۃِ ثانیہ باطل ہیں کیونکہ دونوں آئیڈیالوجیز روحانی پہلو کی انکاری ہیں۔ مغربی سرمایہ داریت خالق اور روز مرہ معاملات کے ساتھ اس کے تعلق کی انکاری ہے جبکہ کمیونزم خالق کے تصور کا سرے سے انکاری ہے۔
آج دنیا میں واحد درست آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اسلام شرط عائد کرتا ہے کہ انسان، حیات اور کائنات سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے درست دین دے کر مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان پوری دنیا میں اسلامی طرز حیات کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں انہیں اسلامی آئیڈیالوجی کو فکر اور طریقہ دونوں کے طور پر پورے دل سے قبول کرنا ہوگا۔ صرف اس ہی صورت میں امت مسلمہ کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کا سفر کامیاب ہوگا۔
جو بات ہم نے کی، اس کی بنیاد پر نشاۃِ ثانیہ کے تین واضح مرحلے ہیں: فکری ، سیاسی اور قانونی۔ فکری مرحلے میں فکری سوچ جامع تصور کو بناتی ہے جس کو پھر ان تصورات کے لئے بنیاد کے طور پر لیا جاتا ہے جو بنی نوع انسان کے مسائل کا حل ایک خاص نقطہ نظر سے دیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار بھی فراہم کریں۔ اس مرحلے کے درمیان نئے تصورات معاشرے کے پرانے تصورات سے ٹکراتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تصورات کی افادیت اور برتری کو معاشرے میں موجود فاسد افکار سے ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے بعد سوچ کا سیاسی مرحلہ آتا ہے جہاں سیاسی سوچ کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نئے تصورات کو معاشرے پر غالب کیا جائے اور موجودہ سیاسی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کیا جائے تاکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے میں اس کی عدم قابلیت کو آشکار کیا جائے۔ اس مرحلے میں معاشرے کی موجودہ سیاسی قیادت ہٹا دی جاتی ہے اور نئی قیادت ظاہر ہوتی ہے جو نئی فکر کے نفاذ کی سرپرستی کرتی ہے۔ آخر ی یعنی تیسرے مرحلے میں جب نئے تصورات کے پاس سیاسی اتھارٹی اور قوت آجاتی ہے، تب قانونی سوچ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے کیونکہ بیشمار مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور قانونی سوچ انہیں حل کرتی ہے۔
جب قوم نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لیتی ہے تو اسے برقرار رکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اس کا حصول اس طرح ہوتا ہے کہ سیاسی سوچ معاشرے میں موجود دوسری تمام سوچوں پر نگرانی کرے جیسا کہ فکری، قانونی، لسانی، سائنسی وغیرہ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کے لئے نشاۃِ ثانیہ کے تین مراحل ہیں فکری، سیاسی اور قانونی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوچ کے یہ مراحل باہم جدا ہیں اور بیان کردہ مراحل میں ساتھ نہیں چلتے بلکہ سوچ کے سیاسی مرحلے میں سیاسی سوچ کے ساتھ فکری اور قانونی سوچ بھی قدم بہ قدم چلتی ہے لیکن سیاسی سوچ زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ توجہ معاشرے پرایک نئے تصور کو قائم کرنے کے لئے ہے جو اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سیاسی جدوجہد نہ کی جائے جس کی وجہ سے سیاسی سوچ نمایاں رہے گی۔ یہی بات باقی مراحل پر بھی ثابت ہوتی ہے۔
اس ماڈل پر پہنچنے کے بعد اب قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ماڈل کی روشنی میں تین مثالیں توجہ طلب ہیں:
آپﷺ کی زندگی، جو کہ مکی اور مدنی زندگی پر محیط ہے، سوچ کے تین مختلف مراحل میں بانٹی جا سکتی ہے۔ ابتداء میں مکی دعوت جس میں فکری انداز غالب رہا اور آپﷺ کی جدوجہد میں فکری سوچ حاوی رہی۔ اس کے بعد شدید سیاسی جدوجہد کا دور ہے جو قریش کے قائدین کےخلاف تھا اور اس مرحلے پر سیاسی سوچ غالب رہی۔ جیسے ہی آپﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تب قانونی سوچ غالب ہوگئی کیونکہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات نافذ کئے گئے ہوئے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ پاپایئت کے خلاف یورپ کی فکری بیداری سے پیدا ہوا۔ اس کے بعد اصلاح کے دور نے شدید سیاسی عمل کی ابتداء کی یہاں تک کہ چرچ کی طاقت کو ریاست کی طاقت سے جدا کر دیا گیا اور سیکولرازم نے جنم لیا۔ اس کے بعد روشن خیالی کا دور ہے جو کہ فکری اور قانونی سوچوں پر مشتمل ہے اس ہی دوران جدید یورپین قانون کی دو بنیادی روایات نے جنم لیا۔ منظم قانونی نظام جس کا استعمال براعظم یورپ کے عظیم حصے پر ہوا اور انگریزی روایات جو کہ سابقہ مقدموں پر بنا ئے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں کارل مارکس نے کمیونزم کے بنیادی اصول مرتب کیے اور ایک نئی فکر کا ظہور ہوا۔ اس کی شروعات قلیل مدت کی سیاسی حرکت سے ہوئی جوروس میں اکتوبر 1917ء کے بولشویک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بولشویک کو ایک منجمد ریاست ملی جسے بیشمار مسائل درپیش تھے اور ان کے حل کے لئے قانونی سوچ کی ضرورت تھی۔
تینوں صورتوں میں جیسے ہی قوم نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے سیاسی سوچ نہ صرف لوگوں کے معاملات کو چلاتی ہے بلکہ دوسری سوچوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کی فکری اور قانونی فہم کی سطح کو برقرار رکھنا ریاست کے سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔
نشاۃِ ثانیہ اورانحطاط کے پیش کردہ ڈھانچے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گردشی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے دنوں کے بعد انحطاط کے جھٹکے بھی آتے ہیں۔ مثلاً جب صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو سو سالوں تک یہ واضح تھا کہ خلافت انحطاط میں ہے لیکن اس کے بعد نہضہ(نشاۃ ثانیہ) کا ایک مختصر دور آیا جب صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو نکال باہر کیا یہاں تک کہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کردیا۔
خلافت دوبارہ کھڑی ہوگئی جب مملوکوں نے تاتاریوں کے جنگجو جتھوں کو شکست دی اور خلافت کو اس کی حقیقی شان پر لوٹادیا لیکن ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا کہ قوموں کے انحطاط کے ادوار کے بعد مکمل نشاۃِ ثانیہ کا دور آجائے یعنی سوچ کے فکری، سیاسی اور قانونی پہلوؤں میں نشاۃِ ثانیہ (نہضہ)۔ یہی دلیل انحطاط پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچوں پر مکمل انحطاط نہیں آتا جب قومیں ایک عرصے تک نشاۃِ ثانیہ میں وقت گزار لیتی ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کر دینے کے بعد بہرحال یہ ممکن ہے کہ قوم کی مجموعی زندگی اور اس کی تنقیدی ہئیت یعنی ریاست کی بنیاد پر مکمل نشاۃِ ثانیہ یا انحطاط کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اموی خلافت کا عروج عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔ اموی خلافت کے بعد عباسی خلافت آئی جس نے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے فرزند کی حکمرانی میں بلندی حاصل کی۔ عباسی خلافت کے بعد عثمانی خلافت کا دور آیا۔ عثمانی ریاست کی بلندی کا دور سولویں صدی میں سلیمان القانونی کے دور میں آیا اس کے بعد عثمانی ریاست تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھی یہاں تک کہ تباہ ہوگئی۔ ان شدید جھٹکوں کے باوجود امت محفوظ رہی اور آج یہ سوچ کے تمام مرحلوں میں بلندی کی طرف گامزن ہے سوائے اس کے تنفیذی حق یعنی خلافت کی کمی باقی ہے۔
اگر انحطاط اور نشاۃِ ثانیہ کے اندازے کے لئے وسیع دور پر نظر رکھی جائے تو اس قوم کے مقام کی بہتر تصویر ابھرتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے بارے میں ہماری اس مثال سے یہ صاف واضح ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچ خلافت راشدہ کے دور میں بلند ترین سطح پر تھیں اور عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں پست ترین۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں قرونِ وسطیٰ کے دور کی جب برطانیہ جنگجو ٹولوں کا ایک مجموعہ تھا جو ہر وقت بیرونی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہوتاتھا۔ لیکن سولہویں صدی کی ابتداء پر برطانیہ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں ابھرا اورانیسویں صدی کے اواخر میں ملکہ وکٹوریا کے دور میں دنیا کی صف اول کی ریاست بن گیا۔ اس برطانوی سلطنت کا سنہری دور قلیل مدت کے لئے تھا اور برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد عالمی صف اول کی ریاست ہونے کا مرتبہ کھو دیا جب اس کی سلطنت حیران کن انداز میں سکڑ گئی۔ آج برطانیہ تنزلی کی طرف گامزن ایک بڑی طاقت ہے اور باوجود اس کے کہ اس کی قیادت برطانوی سلطنت کو دوبارہ بلند کرنے کے پُرعزم منصوبے رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ سوچ کی تمام جہتوں میں تنزلی کو پلٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکٹورین دور کے وقت برطانیہ کی فکری، سیاسی اور قانونی سوچ اپنے عروج پر تھی اور آج یہ سب کی سب انحطاط کی جانب رواں ہیں۔
اگرچہ خلافت کے مختلف ادوار اور مختلف اقوام کے ادوار جن پر انحطاط کے ڈھانچے کو لاگو کر کے دیکھا جائے اور ان پر سوچ کے مختلف مرحلوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے، اس تحریر کے دائرے سے باہر ہیں، پھر بھی یہ ضروری ہے کہ سیاسی سوچ میں کمزوری اور قوموں پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔
مثلاً: خلافت 1300 سالوں تک موجود رہی، یہاں تک کہ1924ء میں اس کا خاتمہ ہوا لیکن سیاسی سوچ میں کمزوری چاہے تنفیذی سطح پر ہو یا امت کی سطح پر، کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ایک معاملہ جس میں طاقت کے زور پر حاصل کی گئی بیعت کے طریقے کا غلط نفاذ کا تھا یعنی خلیفہ کی تقرری کا قانونی عقد، معاویہ اول کے دور میں بیعت کے طریقے کا غلط استعمال کیا گیا۔ جب معاویہ نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت دینے پر مجبور کیا، جبکہ وہ خود زندہ تھے۔ لہٰذا ان تین سیاسی فیصلوں نے صدیوں تک مسلم امت کو متاثر کیا، یہاں تک کہ1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ حکمرانی سے متعلق کچھ اسلامی مفاہیم شدید کمزور ہو چکے تھے اور درست قانونی فیصلوں کی جگہ غلط فہم نے لے لی تھی۔ دیگر غلط سیاسی فیصلوں میں اس بات کی اجازت دینا کہ اسلام اور بیرونی فلسفوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے، عربی زبان کی اہمیت سے بے رغبتی، اجتہاد کے دروازوں کا بند ہونا اور جہاد کو ترک کرنا۔ اس طرح سے سیاسی فیصلوں نے خلافت کو انحطاط کے راستے پر گامزن کیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کمزور کیا اور قانونی نصوص سے درست استنباط کو آلودہ کر دیا۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں جہاں ایک بڑی طاقت بیرونی پالیسی کے حوالے سے غلط سیاسی فیصلہ لیتی ہے، جو عالمی سطح پر اس کے مقام کو اور اس کی اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی صلاحیت کو شدید مجروح کر دیتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لئے برطانیہ کا زوال ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوااوراس کے بعد مشہور زمانہ سوئیز بحران نے برطانیہ کو دنیا کی صف اول کی ریاست کے مقام سے گرنے کو شدید تر کیا۔ دونوں واقعات نے نہ صرف برطانیہ کی بیرونی معاملات پر محدود صلاحیت کو واضح کیا بلکہ یہ تاثر بھی چھوڑا کہ برطانیہ ایک گرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اگرچہ یہ اور اس جیسے دیگر واقعات جس میں برطانیہ کو عالمی سطح پر استعمار مخالف لہر کی وجہ سے اپنی فتح کردہ زمینوں سے دستبردار ہونا پڑا دراصل برطانیہ کی اس خواہش کی بنا پر تھے کہ امریکہ جنگ عظیم دوئم میں شریک ہوجائے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اوراس کے مشیروں نے امریکی قوت اور اس کی دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کی جستجو کو بے وقعت سمجھا۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو یہ سیاسی فیصلہ بہت مہنگا پڑا اور اس نے اپنی کافی کالونیاں امریکہ کے ہاتھوں کھو دیں۔ برطانوی ثقافت کو دیگر ممالک میں فروغ دینے کی اہلیت امریکی ثقافت نے روک دی اور اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی برطانوی صلاحیت امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر سے شدید طور پر تھم گئی۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، یو این ا وغیرہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو کہ امریکی کنٹرول میں کام کرتے تھے۔
ہم آخری مثال میں اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے کس طرح اپنی آئیڈیالوجی پر سمجھوتہ کیا جب اس کا بیرونی ریاستوں سے سامنا ہوا۔ مثال کے طور پر 1961ء میں سوویت یونین نے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ سے بقائے باہمی کی کوشش کی جو کہ اس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے سراسر خلاف تھا۔خروشیو اور کینیڈی کے درمیان معاہدے نے فکری نقطہ نظر کے مطابق سوویت یونین کے انہدام کو تیز تر کر دیا کیونکہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بھی قسم کی باہمی بقاء کو رد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کی سوچ سے اس کو جگہ دینے کی طرف اس قدم نے بہت سارے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر دیا کہ کمیونزم ریاستوں کے خارجی تعلقات کی تنظیم کے لئے غیر عملی ہے۔
ان تمام سابقہ مثالوں میں نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن قوم بری طرح متاثر ہوئی ہے جب ریاست نے غلط سیاسی فیصلے کیے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اندازہ کرنے کے لئے سیاسی سوچ کے کردار پر نظر رکھی جائے۔
(تیسری تحریر میں عابد مصطفٰی اس بات کی جانچ پڑتال کریں گے کہ کیا دنیا میں امریکہ کا مقام واقعی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ ایک معمولی ناکامی ہے جس کے بعد امریکہ پوری طرح اپنی ساکھ کو بحال کر لے گا؟)

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ اوّل)

آج امریکہ کا عالمی سپرپاور ہونے کے ناطے انحطاط ایک ایسا اچھوتا موضوع نہیں رہا جو چند تجزیہ کاروں تک محدود ہو۔ اس کے برعکس اب یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ امریکہ کے انحطاط کے بارے میں گفت و شنید اور بحث کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی کھانے کی میز پر کرنے والی بات ہو۔ ان موضوعات میں اس انحطاط کی کیفیت پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا امریکہ سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کے بعد اس کی جگہ کون لے گا۔
عمومی طور پر جو لوگ امریکی بالادستی کے کمزور ہونے پر بحث کر رہے ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ امریکی انحطاط عالمی منظر نامے پر ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دوسرے وہ جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ امریکی انحطاط نہ صرف عارضی ہے بلکہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ بعد والا گروہ یقینی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ دوبارہ ویسی ہی سپر پاور بن سکتا ہے جیسا کہ وہ پہلے کبھی ہوتا تھا۔ ان تین مضامین میں عابد مصطفیٰ امریکی انحطاط کا جائزہ لیں گےاور کیا امریکہ کی عالمی سیاست کو متاثر اور تشکیل دینے کی صلاحیت میں کوئی تبدیل واقع ہوئی ہے، پر بحث کریں گے۔

ابتدائیہ:
تہذیبوں کے ابتداء سے، انسانوں نے خود کو خاندان کی شکل میں منظم کیا جو بڑے قبائل کا حصہ ہوتےہیں۔ یہ قبیلے خاص وصف اور خصوصیات کے تحت منظم ہوتے ہیں جس میں عقیدےکو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو قبائل کو باہم یکجا کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔
قبائل کے خاص عقیدے کے گرد جمع ہونے سے اقوام وجود میں آتی ہیں۔ یہ قومیں تنہا نہیں رہتیں بلکہ زندگی کا بہاؤ انہیں ایک دوسرے سے تفاعل اور مقابلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ مقابلہ دولت اور وسائل، زمین اور جغرافیہ، عزت اور مرتبہ، آئیڈیا لوجی یعنی نظریہ حیات کے لئے طاقت اور برتری کے لئے ہوتا ہے۔
مقاصد کے حصول کے لئے صدیوں پر محیط قوموں کے تفاعل نے دو طرفہ اور کثیرالفریقی تعلقات کو جنم دیا۔ انسانی معاشروں کے پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان تعلقات کا دائرہ بھی علاقائی سے عالمی ہو گیا ہے پھر ان تعلقات کی قیادت سب سے طاقتور قوم کے بیان کردہ اصولوں پر ہوتی ہے۔ صفِ اول کی ریاست کی عالمی صورتحال اور واقعات کو چلانے کی سیاسی قابلیت کو بین الاقوامی نظام کہتے ہیں۔
صفِ اول کی ریاست کے مقابل ہمیشہ کچھ ریاستیں ہوتی ہیں جو کبھی اس کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کبھی اس کے خلاف اور اہمیت حاصل کرنے کیلئے اسے چیلنج کرتی ہیں۔ صف ِاول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاستوں سے قریب طاقتور اقوام یا مضبوط طاقتیں ہوتی ہیں جن کے پاس صفِ اول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاست یا ریاستوں کی جگہ لینے کی اہلیت ہوتی ہے۔
بین الاقوامی نظام اس ہی وقت تبدیل ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست کو ختم یا مقابل ریاست سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست میں بین الاقوامی نظام کو قائم رکھنے اور طاقتور اقوام جن میں مقابل ریاست بھی شامل ہے کہ حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی قابلیت ماند پڑ جاتی ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی نظام کبھی بھی یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان موجود رہتا ہے۔ بین الاقوامی نظام میں کس قدر تبدیلی ہو گی یہ بات براہ راست صفِ اول کی ریاست کے زوال سے منسلک ہے۔ یہ زوال جتنا شدید ہوتا ہے بڑی طاقتوں کو واقعات کو اپنے مقاصد کی طرف موڑنے اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دور جدید میں ایک اور طرز کی طاقتور اقوام ابھری ہیں جو بڑی طاقتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ انہیں سپرپاور کہا جاتا ہے۔ سپر پاور کے پاس یہ قابلیت موجود ہوتی ہے کہ وہ عسکری طاقت کی نمائش کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ 1945ء سے پہلے صرف بڑی طاقتیں موجود تھیں، برطانیہ ایک بڑی طاقت اور صفِ اول کی ریاست تھی، جرمنی بھی ایک بڑی طاقت تھی اور برطانیہ کے مقابل تھی۔ 1945ء کے بعد اور سرد جنگ کے دوران صرف دو ریاستیں دنیا پر غالب تھیں۔ امریکہ اور سوویت یونین اور سپر پاور کے نام سے جانی جاتی تھیں، باقی بڑی طاقتیں ان کی مخالفت کرنے کے قابل نہ تھیں۔
امریکہ کا یک قطبی دور:
سرد جنگ کے دوران دو سپر پاورز باقی سب سے آگے تھیں اور دنیا کا بیشتر حصہ مغربی کیمپ اور مشرقی کیمپ سے وفاداری کی بنیاد پر تقسیم تھا لیکن سوویت یونین کے 1991ء میں انہدام کے بعد امریکہ نے خود کو ایک منفرد پوزیشن میں پایا۔ وہ نہ صرف دنیا کی صفِ اول کی ریاست تھی بلکہ سپر پاور بھی بن گئی۔ امریکی دہلیز پر بے مثال عالمی قوت اور مشرق سے مغرب تک تمام سیاسی معاملات کو تشکیل دینے کی امریکی اہلیت نے کچھ امریکی تبصرہ نگاروں کو حرص پر ابھارا۔ مشہور امریکی مفکر چارلس کرام تھامر نے دنیا کی واحد سپرپاور کے لئے آنے والے بڑے مواقعوں کو بیان کیا۔ خارجی سیاست کے مسائل پر ایک مضمون "امریکہ اور دنیا" میں اس نے لکھا:
"سرد جنگ کے بعد کا دور کثیرقطبی نہیں۔ یہ یک قطبی ہے۔ دنیا کی طاقت کا مرکز ایک ایسی ریاست، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس کے ساتھ اس کے مغربی اتحادی بھی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کی سب سے امتیازی خصوصیت اس کا یک قطبی ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کثیرالقطبی دنیا وقت کے ساتھ ابھرے گی۔ شاید کسی اور نسل میں ایسی عظیم طاقتیں ہوں گی جو امریکہ کی ٹکر کی ہوں گی اور دنیا اپنی ساخت میں پہلی عالمی جنگ سے قبل کے دور کی طرح ہوگی۔ لیکن ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے نہ ہی کئی دہائیوں تک پہنچیں گے۔ یہ دور یک قطبی دنیا کا ہے"۔
اس کا ساتھ ایک اور مشہور مفکر فرانسس فوکو یامہ نے دیا جو اس سے قبل 1989ء میں قطعی اعلان کر چکا تھا کہ مغربی لبرل ازم تمام نظاموں کو شکست دے جا چکا ہے۔ 1989ء کی گرمیوں میں قومی مفاد (نیشنل انٹریسٹ) میں اپنے مضمون "تاریخ کا اختتام" (دی اینڈ آف ہسٹری) میں وہ لکھتا ہے:
"مغرب کی مغربی فکر کی بنا پر کامیابی سب سے پہلے اس بات سے واضح ہے کہ مغربی لبرل ازم کے متبادل کوئی بھی دوسرا نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ہم جس چیزکا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف سرد جنگ کا اختتام نہیں ہے یا جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور کا گزرنا نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ کا اختتام ہے، یہ انسانی فکری ارتقاء کا اختتام ہے اور انسانی حکومت کی مغربی لبرل جمہوریت کی شکل میں عالمگیریت مسلمہ ہوگئی ہے۔ یہ بات نہیں کہ اب ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور عالمی تعلقات کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ لبرل ازم کی فتح بنیادی طور پر افکار یا آگاہی کے میدان میں ہے اور حقیقی اور مادی دنیا میں یہ ابھی بھی نا مکمل ہے۔ لیکن یہ یقین کرنے کے لئے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں کہ یہی وہ فکر ہے جو مادی دنیا کو ایک لمبے عرصے تک چلائے گی"۔
1993ء میں جب اس عظیم فتح سے امریکہ شادمان تھا اس نے اس کامیابی پر ایک مکمل کتاب لکھی اور اس کا نام "تاریخ کا اختتام اور آخری شخص" رکھا۔ اگلی دہائی تک یہ نظر آیا کہ شاید امریکہ کا دنیا بھر میں اپنی بالادستی اور سیاسی اثرورسوخ کو پھیلانے کے حوالے سے فوکویاما اور کروتھامرکا اندازہ درست تھا۔ عراق میں 1991ء میں صدام حسین کی شکست نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ فوجی اڈوں، حفاظتی معاہدات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات (میڈریڈ کانفرنس) کے ذریعے اپنے قدم خلیج فارس اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں جمائے اوربڑھائے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یوں امریکہ کو اپنے مفادات کے تحت خطے کو تشکیل کرنے کی وہ طاقت مل گئی جو پہلے کبھی نہ تھی۔
یورپ میں یورپی یونین اور نیٹو کو زور شور کے ساتھ پھیلایا گیا تا کہ سوویت یونین سے نکلنے والے علاقوں جیسے اسٹونیہ، لیٹویا، لیتھونیا وغیرہ کو شامل کیاجائے۔ اس عمل نےیورپ پر امریکہ کی گرفت کو مزید مضبوط جبکہ روس کو مزید کمزور کر دیا۔ یورپ پر امریکی گرفت کی معراج یوگوسلاویا کے توڑنے کے لئے امریکی سیاسی اقدامات ہی تھے جس کے نتیجے بالآخر 1999ء میں کوسوو کی جنگ ہوئی اور کومانوف معاہدہ عمل میں آیا۔ مختصراً یہ کہ امریکہ نے یورپ اور روس دونوں کو کنارے سے لگا دیا۔
افریقہ میں بھی امریکہ نے قدیم یورپ کی اڑان کو روکنے کیلئے زبردست پیش قدمی کی۔ صومالیہ، کانگو، لائےبیریا میں عسکری حملے افریقہ میں برطانیہ اور فرانس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ابتداء ثابت ہوئے۔ جبکہ بر اعظم لاطینی امریکہ میں معمولات ویسے ہی چلتے رہے کہ امریکہ نے براعظم میں وسیع سیاسی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کو فروغ دیا اور اس کی معیشت کو مزید اپنے قابو میں کیا۔
سیاسی اور عسکری غلبے کو اگر چھوڑ بھی دیں تو امریکہ نے کلنٹن انتظامیہ کے دورمیں عالمگیریت اور آزاد تجارت کے ذریعے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے دنیا کے بہت سے خطے کھولے۔ امریکہ کی برتری اتنی زبردست تھی کہ فرانس کے وزیر خارجہ نے دنیا پر امریکی غلبے کی وضاحت کرنے کیلئے "ہائی پر پاور" کا لفظ استعمال کیا۔ اس نئے لقب کا بہترین مطلب یہ ہو سکتا ہے "ایک ملک جو کہ ہر چیز پر غالب اور زور آور ہے"۔
تبدیلی کی ابتداء:
21ویں صدی کی شروعات نے امریکی سورج کو ہی دمکتے دیکھا لیکن اس بار بش کی صدارت میں نیو کنزرویٹوز امریکی طاقت اور یک ترفیت کو دنیا بھر میں امریکی مفادات کے حصول کے لئے بہترین انداز سے استعمال کرنے کے لئے نئے خیالات رکھتے تھے۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کو امریکی سیاستدانوں اور بش انتظامیہ کے حامیوں کی طرف سے بہت خوش آئند طور پر دیکھا گیا۔ لیکن امریکی غرور کے حق میں یہ ولولہ قلیل مدتی تھا اور اپریل 2013ء میں سقوط بغداد کے بعد امریکہ گوریلہ جنگ کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تنازعہ میں پھنس گیا جس نے دنیا کے متعلق اس کی تعصب پسندانہ سوچ کو ظاہر کر دیا۔ 2004ء میں ابو غریب کے واقعات نے یہ بات بے نقاب کردی کہ عملاً امریکی اقدار کیا ہیں۔
عراق میں امریکہ کی عسکری قوت کے باوجود بش انتظامیہ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے شیعہ سنی عوامی بغاوت، امریکی فوج کی طرف سے کی گئی قتل و غارت گری کےخلاف غصہ، امریکی ایجنٹوں کی طرف سے ماورائے عدالت کئے گئے قتل، ابو غریب کا داغ، سیاسی انتشار اور مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے امریکہ مخالف جذبات۔ تین سال کے عرصے میں امریکہ عراق کے دلدل سے نکلنے کیلئے تگ و دو کرنے لگا۔ جس عراق کو بش انتظامیہ کے نیو کنزرویٹوز لبرل جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی وہ جلد ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی حیثیت اور عالمی سطح پر اس کے وقار کو بچانے کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔
بش انتظامیہ کو اس کی نیو کنزرویٹو پالیسیوں کی وجہ سے تنقید نگاروں نے گھیر لیا۔ نمایاں ڈیموکریٹس، ری پبلیکن اورمتعدد مشہور سیاستدان عراق کے بارے میں بہت منفی صورتحال پیش کر رہے تھے اور امریکی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ 2006ء میں عراق اسٹڈی گروپ نے کہا: "عراق کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور بتدریج خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے"۔
رچرڈ ہارس، جو کہ خارجہ تعلقات کی کونسل کا سابق صدر ہے، خطے میں امریکہ کی سیاسی واقعات کو ترتیب دینے کی قابلیت میں کمزوری کو بھانپ چکا تھا وہ کہتا ہے:
"سرد جنگ کے خاتمے اور عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے جس طرح خطے میں اپنی بالادستی ثابت کی ہے اس کی بنا پر پچھلی دو دہائیوں میں خطے میں امریکہ کا مقام تاریخی رہا ہے۔ لیکن اب ہم کوئی بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ابھی ہم انتشار دیکھ رہے ہیں، مزید پیچیدہ اور مزید مسائل سے گھرا ہوا مشرق وسطیٰ، جہاں امریکہ کی معاملات کو ترتیب دینے کی اہلیت ماند پڑ چکی ہے"۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے وائس چیئرمین گراہم فلر نے بیان کیا کہ عراق کی شکست کی وجہ سے امریکی اتحادی اور مخالف اس قابل ہوئے کہ وہ واقعات کو متاثر کرنے کی امریکی صلاحیت کو محدود کر سکیں۔ وہ 2006ء میں 'قومی مفاد ( نیشنل انٹرسٹ)' میں لکھتا ہے: "متعدد ممالک نے بہت سی ترکیبیں اور حربے استعمال کئے تاکہ بش ایجنڈے کو، ہزار وں چھوٹے زخموں کی موت ذریعے کمزور، تبدیل، پیچیدہ، محدود، معطل یا مسدود کر دیا جائے"۔
عین اس وقت جب کہ امریکی سیاسی قیادت عراق کی جنگ کے نتیجے میں امریکی برتری کو پہنچنے والے شدید نقصان پر سوچ و بچار کر رہی تھی، 2008ء کی گرمیوں میں عالمی معاشی بحران نے انہیں گھیر لیا۔ اس معاشی بحران کی شدت نے امریکہ کو مزید نقصان پہنچایا اور اہل رائے اور عام عوام کے اعتماد کو مزید مجروع کیا۔ ایلن گرین سپین، جو کہ اس وقت فیڈرل ریزرو کا چیئرمین تھا، نے کریڈٹ بحران جو کہ معاشی بحران کے بیچ و بیچ تھا، کو ان الفاظ میں بیان کیا: "صدی میں ایک بار ہونے والا کریڈٹ سونامی "۔ گرین سپین واحد آدمی نہیں تھا جو امریکہ کی ابتر صورتحال بیان کر رہا تھا بلکہ معاشی بحران کے فوری نتیجے میں امریکی انحطاط بحث و تمحیص کا ایک گرم موضوع بن گیا۔
عمومی طور پر دو گروہ بن گئے۔ پہلے گروہ کا نقطہ نظر یہ رہا کہ انحطاط بین الاقوامی نظام کا مستقل خاصہ ہے۔ لیکن جس چیز پر اختلاف تھا وہ زوال کی شدت کے پیمانے پر تھا۔ 2008ء میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ کی عالمی طاقت پستی کی طرف رواں ہے۔ مستقبل کے بارے میں شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ، 'گلوبل ٹرینڈز 2025' میں کونسل لکھتی ہے: "عالمی دولت اور معاشی طاقت کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی شروع ہو چکی ہےاور موجودہ دور میں اس نوعیت کا واقع پہلے نہیں ہوا جو کہ امریکی صلاحیت میں انحطاط کا بنیادی سبب ہے۔ اور اس انحطاط میں عسکری سطح بھی شامل ہے"۔
تاہم ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جلد امریکی انحطاط کی بلکہ اس کی مکمل تباہی کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایسی ہی ایک شخصیت روسی پروفیسر آئیگور پیناریو ہے جس نے 2008ء میں کہا "ابھی اس بات کا 45 سے 55 فیصد امکان ہے کہ امریکہ ٹوٹ جائے گا"۔
ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا عروج واپس بھی آسکتا ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں امریکہ کے معتبر مفکرین بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بریزنسکی ابھی تک یہ کہتا ہے کہ امریکہ خود کو اس قابل کر لے گا کہ وہ موجودہ چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکے۔ اپنی حالیہ کتاب 'تزویراتی نگاہ : امریکہ اور عالمی طاقت کا بحران' میں وہ کہتا ہے کہ:
"امریکہ کیلئے اصل چیلنج اور اگلی کئی دہائیوں تک جغرافیائی طور پر ضروری مشن، خود کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور مؤثر اور وسیع مغرب کی تشہیر کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں ایک مشکل توازن قائم کرنا ہے تاکہ چین کی عالمی ساکھ کو تخلیقی انداز میں جگہ دی جائے اور عالمی انتشار سے بچا جائے۔ یوریشیا میں مستحکم سیاسی، جغرافیائی توازن کے بغیر جو ایک نیا امریکہ کرے گا، معاشرتی بہبود نہیں ہوسکے گی اور انسانی بقاء کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا"۔
فرائیڈمین اور مانڈلبام اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے مخصوص کردار کی بنا پر مشکل چیلنجز سے نمٹتا ہے۔ اپنی کتاب That Used To Be US What Went Wrong With America- And How It Can Come Back میں وہ کہتے ہیں:
"امریکہ کے مستقبل کے بارے میں امید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے سفر میں شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہو۔ ہماری بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی دراصل ایک غیر معمولی واقع ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ استثنائی ہے۔ جب کبھی بھی آزمائش ہوئی، چاہے اٹھارویں صدی کا انقلاب ہو یا بیسویں صدی کی سرد جنگ امریکہ اور امریکیوں نے کامیابی کی طرف راستے بنائے، سرزمین کا ماضی اس کے پر امید مستقبل کیلئے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے"۔
دونوں گروہ جس بات کو رد نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ امریکہ انحطاط سے گزر رہا ہے۔ ایک عجیب انداز میں امریکی انحطاط سے ایک اورصورت حال بھی جڑی ہوئی ہے اور وہ مغربی تہذیب اور طاقت کا انحطاط ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے شدید ماحول، معاشرتی، معاشی اور سیاسی صورتحال نے مل کر مغربی تہذیب کو شدید کھچاؤمیں مبتلاء کر دیا ہے اور بیشتر ایسا ہوا کہ یہ (تہذیب) ان مسائل، جو کہ ان شدید حالات سے پیدا ہوتے، کو حل کرنے سے عاری رہتی۔
خیر یہ اس مضمون کا موضوع نہیں گو کہ یہ اس سے لا ینحل طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس مضمون کا مرکز امریکی انحطاط ہے اور دوسرے مضمون میں ہم اس انحطاط کی وجوہات کو سمجھیں گے۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک