الأربعاء، 30 صَفر 1446| 2024/09/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

عوامی بیان: شمالی وزیرستان آپریشن

 

رمضان وہ مہینہ ہےجو چودہ سو سال تک دشمن کفار کے خلاف کامیابی کا مہینہ رہا ہے اور اس مہینے میں مسلمان فتح کی خوشیاں مناتے رہے ہیں۔
اسی ماہِ رمضان میں ایک طرف تو یہودی ریاست مسلمانوں کا پاک خون بے دریغ بہاتی رہی ۔۔۔
اور دوسری طرف راحیل-نواز حکومت شمالی وزیرستان میں امریکی احکامات کے عین مطابق اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف فوجی آپریشن کرتی رہی۔
اس صورتحال کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ کفار کے ایجنٹوں نے کئی مہینوں کی پراپگنڈا campaign چلا کر عوام میں اس امریکی آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کر نے کی پوری کوشش کی ہے۔
لوگ آج ہمیں کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔۔ ان کے خلاف آپریشن درست ہے۔۔۔
ان ایجنٹوں نے میڈیا اورفوج اور حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف کا ڈرامہ رچا کر فوج میں لوگوں کویہ باور کروایا کہ لوگ فوج کے خلاف ہیں اور ہمیں اپنی قیادت کے پیچھے متحد ہو جانا چاہیے
چاہے قیاد ت سیاہ کرے یا سفید۔۔۔ حرام کرے یا حلال۔۔۔ امریکی احکامات مانے یا اپنے ذاتی مفاد پورے کرے۔۔۔ ہمیں اپنی قیادت کا ہر حکم آنکھیں بند کر کے ماننا ہے۔۔۔۔
دوسری طرف، عوام میں ایک خوف کی ایسی فضاء قائم کی گئی کہ جو کوئی ان اقدامات کے خلاف آواز بلند کرے گا اسے missing person بنا دیا جائے گا۔۔۔
اسی حوالے سے ایک اور کھوکھلا اور کالا قانون جس کا نام تحفظِ پاکستان ایکٹ رکھا گیا بنایا گیا۔۔۔۔
جس کا مقصد صرف اور صرف اس خوف کی فضاء کو قائم رکھنا ہے۔۔۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
"یہ شیطان ہی تو ہے جو تمہیں اپنے دوستوں (لشکر کفار) سے ڈراتا ہے۔ لہذا اگر تم مومن ہو تو اس سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھی سے ڈرو"
اور ہمیں عوام کو یاد کرانا ہوگا کہ ڈرنے کا حق صرف اللہ ہی سے ہے۔۔۔ اللہ کے علاوہ کسی کا خوف ہمیں حق بات کہنے سے نہ روکے۔۔۔۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أَلَا لَايَمْنَعَنَّ أَحَدَ كُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَ جَلٍ وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ)) "جب تم میں سے کوئی حق بات کو دیکھ لے تو لوگوں کا خوف اُسے حق کوبیان کرنے سے نہ روکے کہ حق بات کہنا نہ تو موت کو قریب کرتا ہے اور نہ ہی رزق میں کمی کرتا ہے " (احمد)۔
اس سب صورتحال میں ہمیشہ کی طرح حزب التحریر کے مخلص اور بہادر سیاست دان امت کے سامنے اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے موجود ہیں ۔۔۔
شمالی وزیرستان کے اس آپریشن کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اس بات کو دیکھنا ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں آنے کا مقصد کیا تھا۔
• چا ئنا اور روس کے قریب اپنی military bases بنانا
• وسط ایشاء کی تیل کی دولت پر قبضہ
• مسلمانوں کی واحد نیوکلیئر طاقت، پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکنا۔۔۔۔
ان اہداف سے کوئی بھی شخص سمجھ سکتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔۔۔کیونکہ یہ مقاصد مستقل نوعیت کے ہیں نہ کہ عارضی نوعیت کے۔۔۔۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کا اندازہ یہ تھا کہ کچھ ہی سالوں میں وہ افغانستان میں اپنے مستقل قیام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ۔
لیکن اس کے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔۔۔
إِنَّهُ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ ۔۔۔ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۔۔۔ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۔۔۔ ثُمَّ نَظَرَ۔۔۔ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ۔۔۔ ثُمَّ أَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ ۔۔۔
"اس نے فکر کیا اور تجویز کی۔۔ یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔۔۔ پھر یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی
پھر تامل کیا۔۔۔پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا۔۔۔پھر پشت پھیر کر چلا اورغرور کیا" (سورۃ المدثر- 18-23)
پس امریکہ تکبر اور غرورمیں یہ بھول گیا کہ یہ مجاہدین ایک سپر پاور کو پہلے نیست ہ نابود کر چکے ہیں۔۔۔
تو اس جنگ کے 4 سے 5 سالوں بعد امریکہ کو ہوش آنا شروع ہوئی۔۔۔
اور تب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جنگ کو اب پاکستان کی فوج اور قبائلیوں کے درمیان ہونا چاہئے۔۔۔۔
مشرف کے دور میں وانا آپریشن شروع کیا گیا۔۔۔۔
پاکستان کی افواج میں ایمان رکھنے والے افسران نے اپنے seniors کے غلط احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔۔۔
اور آپ کو یاد ہوگا کہ پاک فوج کی ایک پوری یونٹ نے مجاہدین سے لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ اور کئی دونوں تک ان کے پاس مہمان کے طور پر رہ کر واپس آگئے تھے۔۔۔
اسی طرح پاکستان کے ایک فوجی نے ایک میٹنگ کے بعد امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر دی تھی۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف امریکہ کے پلان کے عین مطابق غدارِ اعظم مشرف نے لال مسجد کا آپریشن کیا ۔۔۔۔ دوسری طرف بلیک واٹر اور FBI ،CIA کے اہلکاروں نے پاکستان کے افواج اور عام عوام پر حملوں کا سلسلہ شروع کروا دیا۔۔۔
اس وقت کے بعد جب بھی کسی بھی علاقے میں کوئی آپریشن کرنا ہوتا۔۔ ۔ عین اسی علاقے سے کوئی لوگ اٹھتے اور کبھی مہران ائر بیس پر۔۔۔ تو کبھی مون مارکیٹ لاہور میں۔۔۔ کبھی اسلامی یونیورسٹی میں توکبھی پریڈلین میں دھماکے کر نا شروع ہوجاتے۔۔۔۔
اسی طریقے سے امریکی ایجنٹوں نے سوات آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کی۔۔۔ اور مسلمانوں کے نقصان کا سامان کیا۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس قسم کے حملوں اور بم دھماکوں کو "مثبت "سمجھتا ہے۔
12 اکتوبر 2012 کو امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا
"یقیناً جس قدر پاکستانی عوام کی رائے عامہ ان (عسکری جنگجوؤں)کے خلاف ہوتی ہے، حکومت کو اُن کے خلاف جانے میں اسی قدرمدد ملتی ہے۔ یہ شاید اس خوفناک سانحہ کا 'مثبت' پہلو ہے"۔
اس سب کچھ کے باوجود امریکہ کی افغانستان میں صورتحال میں کچھ خاص تبدیلی نہ آئی۔۔۔
2008-2009 کے وقت میں افغانستان میں امریکی جنرل Stanley McCrystal نے کھلے الفاظ میں یہ بیان دیا کہ اگر بڑی تعداد میں مزید امریکی فوجی نہ بھیجے گئے تو امریکہ بہت برے طریقے سے افغانستان کی جنگ ہار جائے گا۔۔۔
یہ تھا امریکی فوج کا حال اس جنگ کے شروع ہونے کے 8 سال بعد۔۔۔۔
یہاں سے امریکی اہلکاروں نے پاکستان میں موجود غدار حکمرانوں سے حقانی نیٹورک کے خلاف آپریشن کرنے کی ڈیمانڈ دینا شروع کردی۔۔۔ اور ڈرون حملوں کی ایک بوچھاڑ شروع ہوگئی۔۔۔۔
ہر آنے والا امریکی جرنیل۔۔۔ ہر آنے والا امریکی سیاست دان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹورک کے خلاف آپریشن کرنے کی ڈیمانڈ کرنے لگا۔۔۔۔
لیکن اس وقت کے غدار حکمرانوں کے بس میں یہ نہ تھا کیونکہ عوام میں اور فوج میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت تھی اور فوج میں اعلیٰ سطح تک حقانی نیٹورک کو اپناحلیف اور strategic asset مانا جاتا تھا۔۔۔
افواجِ پاکستان کے افسران کے نزدیک شمالی وزیرستان آپریشن کرنا پاگل پن سے کچھ کم نہ تھا۔۔۔
عوام کے خوف اور فوج کے اندر سے ایمان دار مخلص افسران کی مخالفت کے خوف سے امریکی ایجنٹوں کو یہ آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔۔۔
اور پھرامریکی فوجوں کا پاکستان کی سرحدوں میں گس کر ، فوج کی اہم ترین کنٹونمنٹ ، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی اور کچھ ہی مہینوں بعد سلالہ پر پاک فوج کی پوسٹ پر امریکی حملے نے امریکہ کے خلاف جذبات کو کئی گناہ بڑھا دیا۔۔۔۔
انہی حالات کے بارے میں میجر جنرل اطہر عباس نے پول کھولا۔۔۔ کہ فوج کو 2011 میں اس آپریشن کے لئے تیار کیا جا چکا تھا۔۔۔
تو آخر کیوں یہ آپریشن نہیں کیا گیا۔۔۔ صرف اسی وجہ سے کہ یہ آپریشن امریکہ کی خاطر کرنا تھا۔۔۔ اور عوام اور فوج اس وقت امریکہ سے نفرت کے شدید جذبات رکھتے تھے۔۔۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں سے محبت کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کی وجہ سے جنگ کی اور تمہیں تمھارے وطن سے نکالا اورتمہیں نکالنے میں دوسروں کی مدد کی، توجو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہی لوگ ظالم ہیں" (الممتحنہ: 9)۔
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنْ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
"اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمھارے آس پاس ہیں اور ان کو تمھارے اندر سختی پانا چاہیے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے" (التوبہ: 123)
اور اب جب امریکہ افغانستان کی حکومت سے اپنی Military Basesکو ایک مستقل حیثیت دینے کے لئے معاہدہ کر رہا ہے۔۔۔ تاکہ وہ اس خطے میں ایک چھوٹی تعداد میں اپنی افواج کو مستقل مقیم رکھ سکے تو اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج وہ مجاہدین ہیں جو اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیا ر نہیں ہیں۔۔۔
ظاہر ہے امریکی فوجوں کی تعداد اگر کم ہو گی تو مجاہدین کے لئے امریکہ کو فیصلہ کن شکست دینا بالکل ممکن ہوگا۔۔۔ تو امریکہ کے لئے شمالی وزیرستان کے مجاہدین کے خلاف آپریشن بالکال ناگزیر ہو چکا ہے۔۔۔
ایسے وقت میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت میں موجود غداروں نے اس امریکی پلان کے عین مطابق فوج کو تیار کرنا شروع کیا۔۔۔
عارضی مذاکرات کا ایک ڈرامہ رچایا گیا۔۔۔۔
اسلام آباد کچہری اور کراچی ایئر پورٹ پر انتہائی مشکوک انداز میں حملے کروائے گئے۔۔
ان 'مثبت' حملوں سے عوام اور فوج کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ دراصل شمالی وزیرستان میں آپریشن پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے۔۔۔
ان دہشت گردوں سے لڑنے کی وجہ امریکی جنگ نہیں بلکہ یہ جنگ تو پاکستان کی جنگ ہے۔۔۔
اور پھر میڈیا پر ملی نغمے بجنے لگے۔۔۔ سوشل میڈیا پر خارجیوں کے فتوے لگنے لگے۔۔۔۔ اور یہ تائثر دیا جانے لگا کے یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ۔۔۔ اور خاص طور پر یہ آپریشن صرف اور صرف امریکہ کے لئے ہے۔۔۔
اس آپریشن کا مقصد افغانستان میں ناجائز امریکی قبضے کو استقامت دینا ہے۔۔۔
اس کا فائدہ صرف امریکہ کو ہے۔۔۔
اس کے پیچھے صرف امریکہ ہے۔۔۔۔
اور اس بات کی چار دلیلیں میں ابھی آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔۔۔
پہلی دلیل : اس آپریشن کے شروع ہونے سے چند ہفتوں قبل امریکہ کے نائب سیکریٹری خارجہ ویلیم برنز نے 9 مئی 2014 کو پاکستان کا دورہ کیا
اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اپنے ایجنٹوں سے ملاقاتیں کیں
اور انہیں شمالی وزیرستان میں اُن جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف محاذ آرا ہیں۔
دوسری دلیل : پھراس آپریشن سے کچھ دن پہلے امریکی کانگریس نے پاکستان کی امداد کو شمالی وزیرستان میں آپریشن سے مشروط کردیا
تیسری دلیل : آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ(CSF)سے پاکستان کو رقم بھی فراہم کردی ۔
اور چوتھی دلیل: یہ کہ جب یہ آپریشن شروع ہوا۔ پاکستان افواج کےchairman joint chiefs of staff committee جنرل راشد محمود امریکی فوج کے ہیڈکوارٹر pentagon میں پورے ایک ہفتے کے ٹوئر پر موجود تھے۔۔۔
یقیناً شمالی وزیرستان کا آپریشن صرف امریکہ کو افغانستان میں اپنے ناجائز قبضے کو قائم رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔۔۔
شمالی وزیرستان کا یہ آپریشن صرف قبائلی مجاہدین سے غداری نہیں بلکہ پاکستان کے مسلمانوں سے غداری ہے۔۔۔
اور یہ صرف پاکستان کے عام مسلمانوں سے غداری نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر یہ پاکستان کی افواج سے غداری ہے۔۔۔
ایسے میں میری آپ سب حضرات سے یہ گزارش ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ملکر اس سازش کو بےنقاب کرنے میں ایک کردار ادا کریں۔۔۔
ہمیں امت کو یادکرانا ہوگا کہ یہ جنگ حقیقت میں امریکی جنگ ہے اور یہ آپریشن اصل میں امریکی ایماء پر کیا جا رہا ہے۔۔۔
ہمیں امت کو یاد کرانا ہوگا کہ مسلمان امت ایک امت ہے۔۔۔اور مسلمانوں سے لڑنے کی یہ جنگ فتنے کی جنگ ہے۔ ۔۔
اور پاکستان کی افواج کو اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنے کی بجائے غزہ میں یہودی ریاست سے لڑنا چاہئے۔۔۔ آج فلسطین میں ہمارے مسلمان بھائی ہماری افواج کو پکار رہے ہیں ۔۔۔ آخر پاکستان نے یہ ایٹمی ہتھیاراور میزائل کس لیے بنائے تھے۔۔۔ یہ وقت ہے ان ہتھیاروں کو یہودی ریاست کے خلاف استعمال کرنے کا۔۔۔
ہمیں امت کو یاد کرانا ہوگا حکمرانوں کا محاسبہ کرنا ہم سب پر لازم ہے اور اس عمل میں کوتاہی اللہ کے عذاب کا موجب ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ)) "اللہ خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا۔ لیکن اگر ان کے سامنے منکر رونما ہو اور وہ اس کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن نہ روکیں تو پھر اللہ خاص و عام دونوں کو سزا دے گا" (احمد)۔
اور اس سب کچھ کے ساتھ ہمیں امت کو یہ یاد کروانا ہے کہ کفار کی ان شازشوں سے بچنے کا طریقہ صرف اور صرف خلافت کا قیام ہے۔۔۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا،
إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ
"یقیناً خلیفہ ایک ڈھال کی مانندہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے"۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کفار کی شازشوں کو بے نقاب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔ اور جلد ہمیں مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت عطاء فرمائے ۔۔۔ آمین۔ ۔۔

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ سوئم)

تین حصوں پر مشتمل اس مضمون کے آخری حصے میں عابد مصطفٰی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا پچھلی ایک دہائی میں دنیا میں امریکہ کے وقار میں کمی آئی ہے یا نہیں۔ خصوصاً انہوں نے دنیا کے مسائل کے حل کرنے کے حوالے سے امریکہ کی سیاسی صلاحیت پر بحث کی ہے۔

پچھلے مضمون میں قوموں کے زوال کے اسباب کا تعین کیا گیا تھا اور ان اسباب میں سب سے اہم سوچ کی تین اقسام: سیاسی، فکری اور قانونی اور دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں کسی ایک قوم پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، پر بحث کی گئی تھی۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ سب سے اہم سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے اور اس کے دوسری کسی بھی قسم کی سوچ پر سب سے زیادہ گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ لہٰذا، مضمون کو مختصر رکھنے کے لئے ہم صرف سیاسی سوچ کے حوالے سے امریکہ کے زوال کے متعلق بات کریں گے۔ امریکہ کے زوال پر ہر قسم کی سوچ کے حوالے سے بحث کرنا اس مضمون کی حدود سے باہر ہے۔
امریکہ کے سیاسی زوال پر بحث کرتے ہوئے اس کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو سامنے رکھاجانا چاہیے لیکن کیونکہ اس مضمون کو ایک مخصوص حد میں رکھنا ہے اس لئے میں صرف امریکہ کے بیرونی معاملات پر توجہ مرکوز کروں گا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ ایک نظریاتی ریاست میں اندرونی اور بیرونی معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر اندرونی معاملات پر سیاسی سوچ میں زوال رونما ہوگا تو اس قوم کی بیرونی معاملات میں کارکردگی متاثر ہو گی اور بیرونی معاملات میں شدید سیاسی غلطیاں اندرونی معاملات کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کے 2008 میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کو روکنے میں ناکامی نے اس کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے معاملات کو متاثر کیا۔ جبکہ دوسری جانب عراق و افغانستان کی جنگوں کے نتائج نے امریکہ کو بیرونی دنیا کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کردیا اور اس بنا پر امریکہ میں اس پر بہت بات کی گئی کہ بیرونی دنیا میں امریکہ کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
28 مئی 2014 کو امریکی صدر اوبامہ نے امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو بین الاقوامی میدان میں درپیش مسائل پر ایک اہم بیان دیا۔ اس نے کہا کہ "امریکہ کو لازمی ہمیشہ دنیا کے امور پر رہنمائی فراہم کرنی ہے۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ یہ فوج جس میں آپ نے شمولیت اختیار کی ہے، اس عالمی قیادت کی کمر ہے اور رہے گی۔ لیکن ہر معاملے میں صرف فوجی حل یا اس کا اہم کردار ہماری قیادت کا لازمی حصہ نہیں ہوسکتا۔ محض اس وجہ سے کہ ہمارے پاس بہترین ہتھوڑا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے کا حل کیل ہے"۔ یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے پیچیدہ سیاسی مسائل کے حل کے لئے فوجی قوت پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاسی اثرو رسوخ ضروری ہے، محض اس لئے نہیں کہ سیاسی حل پیش کیے جاسکیں بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نافذ بھی کیا جاسکے۔ اوبامہ کا اپنی تقریر میں فوجی قوت کو "اہم حصہ" قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کئی سالوں بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے امریکہ کو اپنے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے بین الاقوامی امور میں سیاسی حل پیش کرنے کے لئے سیاسی اثرو رسوخ کا ہونا کسی ملک کی سیاسی سوچ کے عروج و زوال کو جاننے سے متعلق ایک حقیقی پیمانہ ہے۔
امریکہ کے سیاسی اثرورسوخ سے مراد یہ ہے کہ امریکہ دوسری اقوام کے رویے کو اس طرح سےبدل سکے کہ وہ امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے سیاسی حل کو قبول اور نافذ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس بات کا عملی مظاہرہ یہ ہوگا کہ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر امریکہ کے پاس یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے قابو میں رکھ سکے یعنی اس کے حکمران، حکومت، سیاسی میدان، ریاستی ادارے (جیسا کہ عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ) اور فوج۔ اور اس صلاحیت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگ امریکہ کی جانب سے دیے گئے سیاسی حل کی مخالفت نہ کریں یا نہ کرسکیں۔
کسی ملک پر جس قدر زیادہ سیاسی اثرو رسوخ ہوگا تو اسی قدر کم فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسی طرح اس بات کا الٹ بھی بالکل صحیح ہے یعنی جس قدر سیاسی اثرورسوخ کم ہو گا اسی قدر فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں پر فوجی قوت سے مراد سیاسی حل کو قبول کرنے یا نافذ کرنے کے حوالے سے رکاوٹوں کو عملی طور پر ہٹانا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے کہ کس طرح امریکہ کا بین الاقوامی سطح پر سیاسی اثرورسوخ کم ہوا ہے درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ہم سب کو یاد ہے کہ کس طرح بش جونیئر ابراہم لنکن پر "مشن مکمل ہوا" کے بینر تلے تکبر کے ساتھ کھڑے ہو کر عراق کی فتح کی تقریر کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ "اس جنگ میں ہم نے آزادی اور دنیا کے امن کے لئے لڑائی کی۔ ہماری قوم اور ہمارے اتحادی اس مقصد کے حصول پر فخر کرتے ہیں.....عراق کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی فاتح رہے"۔ اس فتح مندی کی تقریر میں اس گوریلہ جنگ کی حقیقت کو چھپایا گیا تھا جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ امریکہ نے جلد ہی یہ جان لیا تھا کہ وہ عراق کی دلدل میں پھنس گیا ہے اور وہ اس دلدل سے نکلنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کررہا ہے۔ یہ دلدل اس قدر مشکل تھی کہ جنگ کے اغراض و مقاصد: عراق میں جمہوریت کو پروان چڑھانا، تیل کی قیمتوں کو انتہائی کم کرنا اور فوجی اڈوں کا قیام تا کہ ہمسائیہ ممالک میں حکومتیں تبدیل کی جاسکیں، جلد بھلا دیے گئے۔ اس کی جگہ امریکہ ایک گوریلہ جنگ میں پھنس گیا اورعراق کے بنیادی مسائل، تحفظ کی فراہمی اور ایک کام کرنے والی حکومت کے قیام کو حل کرنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔
اور پھر جب معاملات کسی حد تک قابو میں آئے اور امریکہ اس قابل ہوا کہ اپنی مرضی کا آدمی چُن سکے جو عراق کی کمزور حکومت، کمزور اداروں اور کمزور فوج کو چلا سکے تو امریکہ عراق سے نکل گیا اور پیچھے عدم استحکام اور بدامنی کا آفریت چھوڑ گیا۔ باوجود اس کے کہ عراق کے تمام ریاستی ادارے امریکہ کے کنٹرول میں تھے، امریکہ کے پاس عراق کے سب سے بڑے مسئلے یعنی عدم استحکام کے حل کے لئے سیاسی اثرورسوخ انتہائی کم تھا۔ عراق اس بات کی بڑی واضح مثال ہے کہ جہاں امریکہ نے بھرپور فوجی قوت استعمال کی لیکن وہ سیاسی طور پر ناکام رہا۔ آج عراق کے صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے اور ملک کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ عراق کو ٹکڑے کرنے کے لئے خفیہ فوجی ذرائع استعمال کررہا ہے اور اس بات کی امید کررہا ہے کہ اس طرح وہ عراق کے مختلف حصوں میں استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اسی طرح افغانستان میں امریکہ کی کارکردگی عراق سے بھی زیادہ خراب ہے۔ فوجی لحاظ سے امریکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ کی ناکامی، فوجی ناکامی سے بھی بڑھ کر ہے۔ 2001 میں ہونے والی بون کانفرنس کے وقت سے ہی امریکہ افغانستان میں ایک ایسی کامیاب حکومت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی عملداری کابل تک ہی محدود نہ ہو۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے عبداللہ اور غنی کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے لئے جو معاہدہ کرایا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ہی ایک مثال ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پہلے بھی امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی اور انخلاء کو کئی بار مؤخر کرنا پڑا۔ اور بالآخر مئی 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں تمام اتحادیوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں شروع کی جانے والی اس مہم جوئی کو اب ختم کیا جائے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا کہ "دس سال کی جنگ کے بعد اور جبکہ عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے، مغرب کی اقوام ایک ایسی جگہ پر اپنی توانائیاں نہ تو پیسے کی صورت میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی جانوں کی صورت میں جہاں صدیوں سے غیر ملکی کوششوں کی مزاحمت کی گئی ہے"۔
امریکہ کی سیاسی ناکامی صرف مشرق وسطٰی اور یوریشیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ افریقہ میں امریکہ کی سیاسی اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی بری طرح سے ناکام رہی ہے۔ جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان نے امریکی نگرانی میں ہونے والے استصواب رائے میں بڑی تعداد میں سوڈان سے علیحدگی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ نیا ملک امریکہ نے سوڈان میں سے نکال کر بنایا تاکہ جنوب میں موجود تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرسکے اور چین کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے۔ دو سال بعد اس نئے ملک میں مکمل خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جنوبی سوڈان کے اس انجام نے اس نئے ملک سے متعلق امریکہ کی جانب سے دِکھائی جانی والی امید پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نیویار ک ٹائمز نے اس حوالے سے لکھا کہ "جنوبی سوڈان کئی حوالوں سے امریکہ کی تخلیق ہے۔ اس کے کمزور اداروں کو امریکہ نے اربوں ڈالر دے کر کھڑا کیا ہے۔ لیکن ایک زبردست اور خوفناک تنازعہ نے اوبامہ انتظامیہ کو افریقہ میں ہونے والی اس امریکی کامیابی کو بچانے کی کوششیں کرنے پر مجبور کردیا ہے"۔ ناکامی کے اس سلسلے میں جنوبی سوڈان واحد مثال نہیں ہے بلکہ افریقہ میں کئی اور ممالک بھی امریکہ کی سیاسی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہیں جہاں امریکہ حکومت، شہری اداروں اور اور فوج کو کنٹرول تو کرتا ہے لیکن اس کے باوجود تحفظ اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے پائیدار سیاسی حل دینے سے قاصر ہے۔
امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں بہت ہی بُرا موڑ آیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب مشرقی یورپ میں امریکہ طاقت کا سرچشمہ تھا اور اس کا سیاسی اثرورسوخ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ روس عمومی طور پر پیچھے ہوتا تھا خصوصاً کلنٹن کے دور میں جب نیٹو اور یورپی یونین تیزی سے پھیل رہی تھی۔ لیکن پچھلے چھ سالوں میں امریکہ کے لئے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے خطوں کی جارجیا سے علیحدگی اور ان پر روس کے قبضے سے لے کر کریمیا کی روس میں شمولیت تک، روس نے مسلسل امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے اور امریکی اثرورسوخ کو ناصرف قفقاز بلکہ وسط ایشیا کے ممالک جیسے ازبکستان اور کرغستان سے باہر دھکیل دیا ہے۔ امریکہ کے سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ "ہم روس کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے تھے لیکن پوٹن کی قیادت میں اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس نے جو چیلنج کیا ہے وہ کریمیا یا یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ اس کے اقدامات نے سرد جنگ کے بعد کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا ہے اور اس سے بڑھ کر آزاد ریاستوں کو اس بات کا حق ہونا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں تعلقات قائم کریں یا کاروبار کریں "۔ 1990 کی ابتداء سے امریکہ نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا ءکو اپنے سیاسی اثرورسوخ سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پوٹن نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور اب امریکہ کو پہلے سے بھی زیادہ طاقتور روس کا سامنا ہے جو امریکہ کے لئے ایسی مشکلات پیدا کررہا ہے جو پہلے نہیں تھیں۔ لہٰذا یہ امریکی پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔
اس کے علاوہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کے مدمقابل چین ہے۔ یہاں بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت چین کو ایک علاقائی طاقت تک محدود کرنے کی امریکی پالیسی ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ کئی برسوں سے ایشیا پیسفک میں امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ چین کے ہمسائیہ ممالک کی مدد سے ایک زبردست سکیورٹی حصار قائم کرنے کی کوشش کرے جس کا مقصد چین کو اس کی اپنی سرحدوں کے اندر ہی محدود کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے اس سکیورٹی حصار کو کئی بار مختلف زمینی تنازعات اور جارحانہ فوجی نقل و حرکت کے ذریعے توڑا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنی دفاعی قوت کو بڑھانا پڑا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کی یہ نقل و حرکت اتفاقی نہیں لگتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ "تمام ایشیا میں چین امریکی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کو کمزور کیا جائے جو امریکہ سے قریب ہیں اور جن کی وجہ سے اس خطے میں امریکہ کو دوسری جنگ عظیم سے بالادستی حاصل ہے"۔
چین کی اس نئی خود اعتمادی کو روکنے کے لئے اوبامہ انتظامیہ کو "یو۔ایس پیوٹ ٹو ایشیا" کے نام سے ایک پالیسی کا اجرا کرنا پڑا جس کے تحت امریکہ اپنی بحری قوت کے ساٹھ فیصد حصے کو یورپ سے ہٹا کر ایشیا پیسفک منتقل کردے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ ایشیا پیسفک میں موجود ممالک کے ساتھ پرانے دفاعی معاہدوں کی تجدید اور ان کی وسعت کو توسیع دے رہا ہے جیسا کہ جاپان کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اپنے آئین کو تبدیل کرے تاکہ ٹوکیو زیادہ بڑا کردار ادا کرسکے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود امریکی اتحادی مطمئن نہیں ہیں اور واشنگٹن کے طویل مدتی کردار کے حوالے سے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ رائیٹرز لکھتا ہےکہ "ایشیائی اتحادیوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر وہ چین کی جارحیت کا شکار ہوئے تو ان ممالک کے دفاع کے حوالے سے معاہدوں کے باوجود امریکہ نقصانات کو محدود کرنے کی غرض سے چین کے ساتھ اپنے انتہائی اہم تعلقات کو بچانے کی کوشش کرے گا کیونکہ چین دوسری بڑی عالمی معیشت ہے"۔
یہ چند مثالیں ہیں جہاں پچھلی ایک دہائی کے دوران امریکہ کی سیاسی قوت میں نمایاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرے براعظموں میں موجود ممالک سے متعلق امریکی سیاسی قوت میں کمی کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا یہاں چند مثالوں کو پیش کرنا ضروری ہے۔
1۔ بیرونی دنیا میں امریکی سیاسی اثرورسوخ میں کمی سب سے پہلے بش جونیئر کے دور میں واقع ہوئی جب امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ کسی بھی پیمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت ہی برا سیاسی فیصلہ تھا جس نے امریکی خارجہ پالیسی کے لئے کئی مشکلات پیدا کردیں۔ اگر عراق صدر بش کی سٹریٹیجک غلطی تھی تو شام کے مسئلے کے حل میں ناکامی اوبامہ کی سٹریٹیجک غلطی ہے اگرچہ ابھی یہ غلطی عراق کی غلطی کے درجہ کی نہیں لیکن کبھی بھی ہوسکتی ہے۔
2۔ امریکہ کی سیاسی قوت میں کمی اس وقت واقع ہورہی ہے جب امریکہ کی فوجی قوت اپنی بلندیوں پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اپنی فوجی قوت کو سیاسی فائدے میں تبدیل نہیں کرسکا۔ امریکہ ممالک کو تباہ وبرباد کرنے میں تو ماہر ہے لیکن ان قوموں کو کھڑا کرنے میں انتہائی ناکام بھی ہے۔ قوموں کو کھڑا کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی فکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے معاملات کو منظم کرنا ہوتا ہے لیکن ان کو تباہ کرنے کے لئے محض ان کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق جتانا ہوتا ہے۔
3۔ جہاں جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ کم ہورہا ہے وہاں یا تو امریکہ کو کسی اہم قوت کی جانب سے سیاسی چیلنج درپیش ہے جیسا کہ یوکرین، یا پھر مقامی لوگوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہے جن میں سیاسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جن کی قیادت سیاسی تحریکیں کررہی ہیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک اس دوسری قسم کے چیلنج کے زمرے میں آتے ہیں۔
4۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ 1980 اور 1990 کے مقابلے میں 2003 سے اب تک امریکہ نے خارجہ پالیسی کے معاملے میں کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ جو چند ایک سیاسی کامیابیاں حاصل بھی کیں تو وہ جلد ہی ناکامیوں میں تبدیل ہوگئیں اور کچھ تو اس کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہی بن گئیں۔
5۔ یہ مسلم دنیا ہے جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ تیزی سے گر رہا ہے جبکہ کئی ممالک میں اہم ترین اداروں پر وہ اب بھی زبردست اثرورسوخ رکھتا ہے جیسا کہ پاکستان، شام اور مصر وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کی آبادی صرف امریکہ مخالف نہیں ہے بلکہ اس نے مغربی ثقافت اور نظریے سے بھی تعلق توڑ لیا ہے۔ یہ صورتحال بغیر فوجی قوت کے استعمال کے سیاسی معاملات کو حل کرنے کی امریکی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس تین اقساط پر مشتمل مضمون میں پیش کیے جانے والے تصوارت سے قاری مستفید ہوں گے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے کو سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔

سوال اور جواب: داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کے حوالے سے

 

تمام بھائیوں اور بہنوں کی جانب جنہوں نے ایک تنظیم کی جانب سے ریاست خلافت کے قیام سے متعلق سوال پوچھا اور آپ سب کے نام نہ لکھنے پر میں معذرت خواہ ہو ں کیونکہ ایک لمبی فہرست بن رہی ہے۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
ہم پہلے بھی ایک مناسب جواب بھیج چکے ہیں اور میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں:
عزیز بھائیو اور بہنوں!
1- کسی بھی گروہ کے لئے، جس نے کسی جگہ خلافت کے قیام کا اعلان کرنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرے، اوراس منہج کے مطابق اس گروہ کے لئے اس جگہ پر واضح نظر آنے والا اختیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے اور جس جگہ خلافت کا اعلان کیا جا رہا ہواس جگہ میں وہ تمام خصوصیات ہونا ضروری ہیں جو کسی بھی ایک ریاست میں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل صلاحیتیں حاصل کیں: اتھارٹی رسول اللہﷺ کے پاس تھی اور اندرونی و بیرونی سلامتی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور جو کچھ ایک ریاست میں ہونا چاہیے وہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
2- جس گروہ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ تو اس کے پاس اتھارٹی ہے، چاہے عراق ہو یا شام اور نہ ہی ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بیعت دی ہے جو کھل کر عوام کے سامنے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کی صورت حال اب بھی خفیہ ہے جیسا کہ ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل تھی اور یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل سے متناقض ہے۔ رسول اللہﷺ کو ریاست کے قیام سے قبل غار ثور میں چھپنے کی اجازت تھی لیکن ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سنبھال لی، افواج کی قیادت کی، مقدمات میں فیصلے سنائے، اپنے سفیر بھیجے اور دوسروں کے سفیر قبول کیے اور یہ سب کھلے عام، عوام کے سامنے تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی صورتحال ریاست کے قیام سے قبل اور بعد میں بالکل مختلف تھی۔۔۔ اسی لیے اس گروہ کی جانب سے ریاست کے قیام کا اعلان محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی لوگ محض اپنی تسکین کے لئے بغیر کسی جواز اور وزن کےریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔۔ تو کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے خود کو خلیفہ کہلوایا اور کچھ نے خود کو مہدی کہلوایا جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی طاقت و اختیار تھا اور نہ ہی کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔
3- ریاست خلافت کی ایک شان و شوکت ہے، اور شریعت نے اس کے قیام کا ایک منہج بتایا ہے اور وہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح حکمرانی، سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے احکامات اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور خلافت کے قیام کا اعلان محض نام کا اعلان نہیں ہوگا جس کو ویب سائٹ یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کردیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا اور اس کی بنیادیں مضبوط اور زمین میں پیوست ہوں گی، اس کا اختیار اس جگہ پر اندرونی و بیرونی امن و سلامتی کو قائم اور برقرار رکھے گا اور وہ اس سرزمین پر اسلام کو نافذ کرے گی اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
4- یہ جو اعلان کیا گیا ہے محض الفاظ ہیں، جو اس گروہ کی حقیقت کو نہ تو بڑھا سکیں گے اور نہ ہی گھٹا سکیں گے۔ یہ گروہ دراصل اس اعلان سے قبل ایک مسلح تحریک تھا اور ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد بھی ایک مسلح تحریک ہی ہے۔ اس کی حقیقت ان مسلح گروہوں کی سی ہے جوایک دوسرے کے خلاف اور حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ شام یا عراق یا دونوں جگہ اتھارٹی حاصل کرسکیں۔ اگر ان میں کوئی بھی گروہ، جس میں ISISبھی شامل ہے، دراصل کسی مناسب مقام پر اپنے اختیار کو قائم کرسکے، جہاں ریاست کے لیے درکار لوازمات موجود ہوں اور پھر خلافت کا اعلان کرے اور اسلام کو نافذ کرے تو ایسے معاملے کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا کہ آیا خلافت شرعی احکامات کے مطابق حقیقتاً قائم ہو گئی ہے یا نہیں؟ اور پھر اس معاملے کی چھان بین (پیروی) کی جاتی کیونکہ خلافت کو قائم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ صرف حزب التحریر پر، لہٰذا جو کوئی خلافت قائم کرتا تو پھر اس کی چھان بین کی جاتی۔۔۔لیکن اس وقت معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مسلح تحریکیں بشمول ISIS، کسی کے پاس بھی زمین کے کسی ٹکڑے پر نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ اس زمین پر کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان محض ایک نعرہ ہے جس کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کی حقیقت کی چھان بین بھی کی جائے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ بالکل واضح ہے۔
5- لیکن جس چیز کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے وہ اس اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی نتائج ہیں جو عام اور سادے لوگوں میں خلافت کے حوالے سے پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اہمیت ان کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس کی شان و شوکت کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں گھٹ جائے گا کہ جیسے یہ ایک کمزور تصور ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص مایوسی کے عالم میں کسی گاؤں یا بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مایوسی نکالنے کے لیے اعلان کردے کے وہ خلیفہ ہے اور پھر چلتا بنے یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے جو کیا اس میں بڑی بھلائی تھی! ایسا کرنے سے خلافت کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس کی عظمت عام مسلمانوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی اور پھر یہ ایک خوبصورت لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گی کہ جس کو فخر سے بولا تو جائے لیکن اس میں کوئی مادہ موجود ہ نہ ہو۔۔۔یہ وہ معاملہ ہےجس کا مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ خلافت کا قیام کسی بھی گزرے وقت سے زیادہ قریب آچکا ہے اور مسلمان اس کا انتظار بے چینی سے کررہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حزب التحریر رسول اللہﷺ کےاس طریقے پر بڑھتی چلی جارہی ہے جس کے ذریعے رسول اللہﷺ نے مدینے میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تھی۔۔۔ اور امت حزب کے اعمال کا اور مسلمانوں کے حزب کے پیغام کو گلے لگانے کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے ۔ مسلمان حزب کے ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی اخوت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ حزب کے ہاتھوں قائم ہونے والی خلافت کے قیام پر اور لوگوں کے معاملات کی عمدہ دیکھ بھال کرنے پر خوشی کا اظہار کریں گے اور یہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلنے والی خلافت راشدہ ہوگی۔۔۔اور یہ ہے وہ وقت جب یہ اعلان کیا جاتا ہے تاکہ خلافت کے متعلق عام لوگوں میں یہ تصور عام کیا جائے کہ جیسے وہ ایک پولیس سٹیٹ ہوگی۔۔۔
6- یہ تمام باتیں ایک سوال، بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔۔۔اس اعلان کا وقت جبکہ یہ اعلان کرنے والے کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے ذریعے وہ اندرونی اور بیرونی امن اور سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور میڈیا پرمحض اعلان ہی کیا ہے۔۔۔اس وقت کا چناؤ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ مسلح گرو ہ کسی فکری بنیاد اور ڈھانچے پر قائم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کے شیاطین کا ان میں داخل ہوجانا آسان ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مغرب اور مشرق اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اسلام اور خلافت کے خلاف منصوبے بناتے ہیں اور وہ اس کے تصور کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کا نام مٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خلافت محض ایک نام ہی رہ جائے جس کے تصور میں کوئی وزن نہ ہو۔ لہٰذاوہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ واقعہ جو ایک عظیم واقعہ ہوتا اور جس کے نتیجے میں کفار حواس باختہ ہو کر رہ جاتے، اس کا علان ہمارے دشمنوں کے لیے ایک مذاق بن کر رہ جائے۔
7- اس بات کے ساتھ ساتھ جو یہ شیاطین کررہے ہیں، ہم مشرق اور مغرب میں موجود اسلام کے دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں اور ان کے پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت آج بھی معروف ہے جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کیاور ان کی تمام تر چالوں اور سازشوں کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہوگی ۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ "اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا صرف اللہ ہی ہے" (الانفال:30)۔
اللہ نے ہمیں خلافت کے قیام کے لئے ایک مضبوط جماعت سے نوازا ہے جس میں ایسے مرد و خواتین شامل ہیں جنہیں کوئی دنیاوی کام اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، انہوں نے خلافت کے تصور کو اپنے دل و دماغ سے قبول کیا ہے، اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے یہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اسلام سے احکامات اور آئین کو اخذکرتے ہیں جس میں حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ وہ اس کے حصول کے لیے عین رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔اللہ کے حکم سے وہ ایک ایسی ڈھال ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی فکر اور عمل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جس پر کفار اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقت کی بدولت وہ ایسے باعلم سیاست دان ہیں جو اللہ کی مدد و نصرت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ان ہی پر الٹ دیتے ہیں، ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾ "اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے" (فاطر:43)۔
اے میرے عزیز بھائیو!
خلافت کا معاملہ عظیم اور بہت بڑا ہے اور اس کا قیام دھوکہ دینے والے میڈیا میں محض ایک خبر نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا قیام ایک ایسا زلزلہ ہو گا جو بین الاقوامی آرڈر کو ہلا کر رکھ دے گا اور وہ تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل کردے گا۔۔۔اور خلافت رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق ہی قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اور جو اس کو قائم کریں گے وہ ویسے ہی ہوں گے جنہوں نے پہلی خلافت راشدہ قائم کی تھی۔ امت ان سے محبت کرے گی اور وہ امت سے محبت کریں گے، امت ان کے لیے دعا کرے گی اور وہ امت کے لیے دعا کریں گے، امت ان سے مل کر خوش ہو گی اور وہ امت سے مل کر خوش ہوں گے نہ کہ امت اپنے درمیان ان کے وجود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گی۔۔۔ایسے ہوں گے وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آنے والی خلافت کو قائم کریں گے۔ اللہ یہ سعادت انہی کو دے گا جو اس کے حق دار ہوں گے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہوں اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے، ﴿فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ﴾ "تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ" (التوبۃ:111)۔
اللہ سے بالکل بھی ناامید مت ہوں۔ اللہ آپ کی کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور جو دعا آپ اس سے کرتے ہیں اس کو رد نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امید کو رد کرے گا جس کی آپ کو اللہ سے توقع ہے۔ لہٰذا اپنی کوششوں کو بڑھا کر ہماری مدد کریں تاکہ اللہ کے سامنے آپ میں موجود خیر ثابت ہوجائے اور اللہ آپ میں موجود خیر کو مزید بڑھا دے گا اور اس سنجیدہ کام میں محض نعروں اور باتوں کی وجہ سے کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
آپ کا بھائی
3رمضان 1435 ہ
یکم جولائی 2014 م
میں دعا کرتا ہوں کہ یہ جواب کافی ہوگا۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی مدد فرمائے اور اللہ ہم سب کی صحیح منزل کی جانب رہنمائی فرمائے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
4 رمضان 1435 ہ
2 جولائی 2014 م

سوال اور جواب: 'سلطان متغلب'

سوال: بعض (سوشل میڈیا) کے صفحات پر کچھ اس قسم کے تبصر ے دیکھنے کو ملے (حزب التحریر نے خلافت قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ "طلب نصرہ" مقرر کر رکھا ہے جس کی وہ پابند ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور شرعی طریقے کو نہیں مانتی .....حالانکہ ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جو کہ 'سلطان متغلب' (زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے) کا طریقہ ہے، یعنی وہ شخص جو قوت اور قتال سے ریاست قائم کرے.....کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب التحریر نے جماعتی تعصب کی وجہ سے البغدادی کے اعلان پر اعتراض کیا،حزب خلافت کو اس وقت تک شرعی نہیں سمجھتی جب تک وہ خود اس کو قائم نہ کرے.....) کیا اس قسم کے اعتراضات کا کافی شافی جواب دینے کی زحمت کریں گے؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
1۔ خلافت کے قیام کے لیے شرعی طریقہ حزب التحریر نے متعین نہیں کیا ہے بلکہ یہ طریقہ شرع نے خود مقرر کر دیا ہے۔ اسلام کی دعوت کی ابتداء سے لے کر ریاست کے قیام تک رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.....ریاست کے قیام سے پہلے رسول اللہﷺ نے ان اہل قوت وطاقت سے نصرہ طلب کی جو اپنے ارد گرد کے علاقوں کی صورت حال کے مطابق ریاست کے لوا زمات کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ طاقتور قبائل کے پاس جاتے، ان کو اسلام کی دعوت دیتے اور ان سے نصرہ طلب کرتے جیسا کہ ثقیف، بنی عامر، بنی شیبان اور انصار مدینہ سے نصرہ طلب کی جبکہ چھوٹے قبائل کو صرف اسلام کی دعوت دینے پر اکتفا کیا.....تمام تر مشکلات اور مشقتوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اس کام کو جاری رکھا اور مشقت کے باوجود کسی کام کو باربار کرنا شرعاً اس کے فرض ہو نے کی دلیل ہے جیسا کہ اصول میں ہے.....یوں رسول اللہﷺ نے اہل قوت اور طاقت سے نصرہ طلب کرنے کو جاری رکھا۔ کسی قبیلے نے آپﷺ کے قدم مبارک لہو لہان کر دیے، کسی نے آپﷺ کو روکا اور کسی نے شرائط رکھیں۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے وحی کی وجہ سے اس پر ثابت قدم رہے اور اس طریقے کو تبدیل کرکے کوئی اور طریقہ نہیں اپنایا۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت نہیں دی یا ریاست قائم کرنے کی غرض سے کسی قبیلےسے لڑنےکا حکم نہیں دیا حالانکہ آپﷺ کے صحابہ زبردست بہادر اور جنگجو تھے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کو لڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اہل قوت و طاقت سے نصرہ طلب کرنے کے کام کو ہی جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ کو وہ انصار مہیا کردیے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانی میں آپﷺ کو بیعت دی۔ اس سے پہلے مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی اپنی اس مہم میں کامیاب ہوچکے تھے جس کی ذمہ داری رسول اللہﷺ نے ان کو سونپ دی تھی۔ اللہ سحا نہ وتعالیٰ کی جانب سے کچھ اہل قوت اور طاقت کو نصرت کی توفیق دینے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے اذن سے اسلام کو مدینہ کے گھر گھر میں داخل کیا اوراسلام کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔ یوں یہ رائے عامہ اور انصار کی جانب سے بیعت باہم مل گئے، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ایک صاف شفاف بیعت اور اہل مدینہ کی جانب سے رسول اللہﷺ کےپُر جوش استقبال سے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کر دی۔
ریاست قائم کرنے کا یہی وہ شرعی طریقہ ہے جس کی پیروی لازمی ہے کیونکہ افعال میں اصل شرع کی پابندی ہے۔ ایک مسلمان جب یہ چاہے کہ نماز کس طرح پڑھے تو اس کو چاہیے کہ نماز کے دلائل کو پڑھے، اگر جہاد کا ارادہ کرے تو جہاد کے دلائل کو پڑھے اور اگر ریاست قائم کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے قیام کے دلائل رسول اللہﷺ کے افعال میں پڑھے۔ ریاست قائم کرنے کے دلائل صرف رسول اللہﷺ کی سیرت پر مبنی ہیں جس میں ان اہل قوت اور طاقت کو دعوت دینا شامل ہے جو اپنے ارد گر کی صورت حال کے لحاظ ریاست کے لوازمات کے حامل تھے ۔ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے ان کی رضا اور اختیار سے نصرت اور بیعت طلب کی کیونکہ ان کے ہاں اور ان کے علاقے میں عام بیداری سے پیدا ہو نے والی رائے عامہ پیدا کی جا چکی تھی.....
یوں خلافت قائم کرنے کا شرعی طریقہ اسلام میں واضح طور پر متعین ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والوں نے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کی پیروی نہیں کی۔
2۔ رہی بات 'سلطان متغلب' (زبردستی بننے والے حکمران ) کی جس کا ذکر فقہ کی بعض کتابوں میں ہے لیکن اس کا معنی سمجھنا ضروری ہے۔ صرف سلطان متغلب کا رٹہ لگانا کافی نہیں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کب اور کس طرح شرعی طور پر ہوتا ہے اور کب اور کس طرح غیر شرعی ہوتا ہے بلکہ امت پر وبال ہوتا ہے!
بے شک سلطان متغلب مسلمانوں کا خون بہانے اور قہر و جبر اور زبردستی سے ان پر مسلط ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور شرعی طریقے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اس کی خلافت کا انعقاد ہی نہیں ہوتا..... تاہم بعض فقہاء یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان متغلب کی حکومت اس وقت شرعی ہو سکتی ہے جب اس کے اندر کچھ شرائط پائی جائیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
ا ۔ وہ ایسے ملک میں زبردستی حکمران بنے جس ملک کے اندر اپنے گردو پیش کے لحاظ سے ریاست کے لوازمات موجود ہوں، وہاں اس کی مستحکم حکومت قائم ہو اور وہاں خطے کے لحاظ سے داخلی اور خارجی طور پر امن و امان ہو ۔
ب ۔ اس ملک میں اسلام کو عدل اور احسان کے ساتھ نافذ کرے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے راضی ہو جائیں۔
ج ۔ اس ملک کے لوگ اپنی مرضی اور اختیار سے اس کو بیعت دیں، ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہ کیا جائے۔ شرعی بیعت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ بیعت اس ملک کے لوگ دیں سلطان متغلب کا اپنا ٹولہ نہیں کیونکہ اس قسم کی شرعی بیعت ہی رسول اللہﷺ کی اقتدا ہے۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ کے انصار سے ان کی رضامندی اور اختیار سے بیعت لی ، اپنے مہاجر صحابہ سےنہیں لی اور بیعت عقبہ ثانی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یو ں سلطان متغلب گنہگار ہے اور اس کی حکمرانی بھی اس وقت تک شرعی نہیں جب تک اس کے اندر مندجہ بالا تین شرائط نہ پائی جائیں۔ جب یہ تین شرائط پائی جائیں تب ہی سلطان متغلب رضامندی اور اختیار سے بیعت دیے جانے کے لمحے سے شرعی حکمران بنیں گے۔ یہ ہے سلطان متغلب کی حقیقت کہ شاید ذہین لوگ یہ ذہن نشین کر لیں.....اب یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والے لوگوں نے ان تین شرائط کو پورا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے اعلان کو ناحق طریقے سے مسلط کر دیا۔
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ انہوں نے صحیح شرعی طریقہ نہیں اپنایا حتی کہ سلطان متغلب کا طریقہ بھی اختیار نہیں کیا .....بلکہ اس کے برعکس خلافت کا اعلان کر بیٹھے۔ ان کے اندر وہ شرائط ہی موجود نہیں تھیں اس لیے ان کے اعلان کا شرعاً کوئی وزن اور قیمت نہیں بلکہ یہ ایسا لغو(بیہودہ) ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں اور وہ بدستور ایک مسلح تنظیم ہیں۔
3 ۔ رہی یہ بات کہ حزب صرف اس خلافت کو شرعی سمجھتی ہے جس کو وہ خود قائم کرے گی، یہ بات مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے! یہ وہ بات ہے جو شیطان بعض ایسے چھوٹے دل والے اور تنگ نظر لوگوں کے دل میں ڈالتاہے جو بصارت اور بصیرت سے محروم ہیں.....حزب جو چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ خلافت صاف شفاف اور غیر مشکوک طریقے سے قائم ہو۔ ہماری مثال "بچے کی ماں" کی ہے اس لیے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچہ قتل یا بے راہ نہ ہو..... بلکہ بچہ صحت مند، توانا ہو، اس کی اچھی دیکھ بھال ہو اور وہ توجہ کا مرکز بنے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس بچے کی پرورش کون کرے.....ہم چاہتے ہیں کہ خلافت شایان شان طریقے سے کما حقہ قائم ہو۔ اس کی اتھارٹی عظیم الشان ہو۔ وہ داخلی طور پر اسلام کو شاندار طریقے سے نافذ کرے اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے، تب ہی یہ وہ خلافت راشدہ علی منھاج النبوۃ ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ نے بشارت دی ہے اور وہ جابرانہ حکومتوں کو ختم کر دے گی.....جو بھی اس کو قائم کرے گا اس کو قائم کرنے کا حق ادا کرے گا خواہ وہ لوگ ہم ہوں یا کوئی اور جن کی بات سنی جائے گی اور ان کی اطاعت کی جائے گی، تب اللہ کے اذن سے زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان اپنے خیر کو اتارے گا۔ اس دن اہل اسلام عزت مند ہوں گے اور اہل کفر ذلیل ، اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے.....
ہم خلافت کے بارے میں یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح مبارک اور پاک صاف قائم ہو جیسا کہ رسول نے اس کو قائم کیا تھا اور آپﷺ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم نے آپﷺ کی پیروی کی تھی .....ایسی خلافت جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین راضی ہوں ، جس سے مسلمانوں کے دل سرور سے لبریز ہوں اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں .....نہ کہ برائے نام کسی مشکوک خلافت کا اعلان ہو اور وہ بھی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہو۔
یقینا اس بات سے ہمیں تکلیف پہنچی کہ خلافت ایسی ہوتی ہے جس سے دنیا کانپ اٹھتی ہے کفار اور استعماریوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لیکن اس واقعے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس سے خلافت کی شان میں گستاخی ہوئی بلکہ وہ بے وقعت چیز لگنے لگی۔ اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کہتا ہے کہ "یہ کو ئی بڑی بات نہیں" جبکہ خلافت کے اعلان پر تو اس کو خون کے آنسو رونا چا ہیے تھا .....اس بات نے بھی ہمیں دکھ پہنچایا کہ وہ لوگ جن کی نظروں میں خلافت ایک عظیم الشان چیز تھی ایک معمولی چیز لگنے لگی اور اس اعلان کو انہوں نے ایک فضول واویلا سمجھا.....
حزب اسلام کا ایک امانت دار پہرہ دار ہے اور یہ اللہ کے معاملے میں کسی کو اہمیت نہیں دیتی۔ یہ ہر اچھے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے اچھا کیا اور برے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے برا کیا۔ یہ اس کے پیچھے کوئی جماعتی مفاد نہیں ڈھونڈتی نہ ہی فانی دنیا کی کسی متاع کی طلبگار ہے بلکہ ہم تو اس دنیا وما فیھا کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو ترمذی نے روایت کی ہے کہ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» "میرا دنیا سے کیا لینا دینا، میں دنیا میں بس ایسا ہی ہو ں جیسا کہ ایک سوار ایک درخت کے سائے تلے سستاتا ہے پھر وہاں سے چل پڑتا ہے" حزب کے نزدیک دنیا وہی تھوڑا سا لمحہ ہے، جتنی دیر میں وہ اس درخت کے سائے میں بیٹھتی ہے جب وہ اس درخت کے نیچے ٹھراتی ہے، اس لمحے کو وہ خلافت کے کماحقہ قیام کے ذریعے شرعی احکامات کی تنفیذ کے لئے تندہی سے صالح اور صادق عمل میں مگن رہتی ہے جو صرف اللہ القوی العزیز کے اذن سے ہوگا۔
4 ۔ آخر میں حزب التحریر جس نے ساٹھ(60) سال سے زیادہ عرصہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد میں گزارا ہے اور اس کی راہ میں سالہا سال ظالموں کے عقوبت خانوں میں کاٹے ہیں، تعاقب اور ظلم وستم کا سامنا کیا ہے، طاغوت کی طرف سے دیے جانے والا عذاب برداشت کیا ہے جس میں حزب کے بہت سارے شباب نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سارے اذیتوں سے دوچار ہوئے ..... اب بھی حزب شدید ترین تشدد کے باوجود ثابت قدمی سے حق پر قائم اور نبوی طریقے پر گامزن ہے.....کیا کوئی ایسی جماعت جس کا یہ حال ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی جماعت کی جانب سے کما حقہ خلافت قائم کرنے پر اعتراض کرے گی، خواہ اس کو حزب قائم کرے یا کوئی اور .....؟ حزب کبھی اعتراض نہیں کرے گی بلکہ سجدہ شکر بجا لائے گی..... لیکن ساتھ ہی حزب خلافت کے نام کو ناحق استعمال کرنے والوں، اس کو مشکوک بنانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف مورچہ زن بھی ہے۔ اللہ کے اذن سے حزب ہمیشہ خلافت کے خلاف تمام سا زش کرنے والوں،اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھلاانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے سامنے مضبوط چٹان ثابت ہو گی اور ان شاء اللہ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھوں قائم ہو گی جنہیں تجارت اور لین دین اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا ۔ وہ ایسے جوان مرد ہوں گے جو اس کے حقدار اور اہل ہیں،یوں خلافت کی صبح ایک بار پرں طلوع ہوگی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اُس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب اور رحم کرنے والا ہے"

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک