عرفان پاشا
عمومی طور پر پاکستان میں چھپنے والی نصابی اور غیر نصابی کتب میں برصغیر پاک و ہند، تشکیل پاکستان اور 1857ء کی جنگ آزادی کے متعلق جومعلو ما ت امت کے نوجوانوں کو دی جا تی ہیں وہ غلط اور بد دیا نتی پر مبنی ہیں۔ واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا تا ہے۔ تاریخ میں جن شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا جا تا ہے ان میں سے بہت سے براہِ راست انگریز کے ایجنٹ رہے ہیں جیسا کہ آج افغانستان میں امریکی قبضے کے تحت کرزئی اور اس کے حواریوں کی حقیقت ہے یا پھر عراق میں امریکہ کی قائم کردہ حکومت کا معاملہ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے برصغیر کی صورتِ حال اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ انگریز نے اپنی عملداری میں اپنے وفادار لوگوں کی ایک کھیپ تیار کی، جو انگریز سے مر عوب ہو کر ان کے طر ف دار رہے اور اسلام کو توڑ مروڑ کر برطانیہ کے قبضے کو جواز فراہم کرتے رہے۔ اور انگریزوں کی حکومت مضبو ط کر نے کے لیے ان کے دست و بازو بنے رہے۔
انگریز جب بر صغیر میں آیا تو اس نے یہا ں اپنے قدم جما نے کے لیے مختلف ریاستو ں کے نو ابوں، راجو ں اور مہا راجوں کو خرید ناشروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے طاقت کے ایوانوں میں موجود لوگوں کو خریدینے کے لیے 90,000 پاؤنڈ سٹرلنگ سالانہ سیاسی رشوت کے طور پر خرچ کیے۔ برصغیرمیں کل ریاستوں کی تعداد 635 تھی۔ بیشتر راجے مہا راجے انگریز کے ساتھ مل گئے۔ ان کے ذریعے انگریز نے جا گیرداری نظام قائم کیا۔ جن راجوں نے انکا رکیا ان کے درباریو ں کو خرید ااور ان کے ذریعے سازشیں کر کے انھیں کمزور کیا اور فوج کے ذریعے ان کو فتح کیا گیا بقیہ ملک جہا ں مغلوں کی براہ راست عمل داری تھی وہاں بھی یہی طریقہ اپنا یا گیا۔ ریاستوں میں انگریز سرکا ر سے وفاداری اور مسلمانو ں سے غداری کے مر تکب درباریوں کے نام کچھ بھی ہو ں مگر وہ میرجعفراور میر صادق کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ملکی سطح پر جن لوگوں نے کھل کر انگریز سے وفاداری اور مسلمانوں سے غداری کی، ان میں سرسید احمد خان سر فہرست ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ آج ایسی شخصیات کو ہمارے نصابِ تعلیم میں ہیرو اور مسلمانوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ جہا ں انگر یز کو بر صغیر پر غالب رہنے اور مسلمانو ں پرکا میا ب حکومت کر نے کے گُر بتا تے رہے وہا ں مسلمانو ں کو اس با ت پرآمادہ کر تے رہے کے انگریز کے وفادار رہیں۔ انگر یز کو ایسے لوگ در کار تھے جو لو گوں میں عمومی طور پر عزت دار اور مقبول ہوں اور لو گ ان پر عتماد کرتے ہو ں۔
بر طانیہ بخوبی واقف تھا کہ جب تک وہ یہا ں کے عوام کو تقسیم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ تادیر قابض نہیں رہ سکے گا۔ اور یہا ں کی دولت جس کو لو ٹنے کے ارادے سے وہ یہاں آیا تھا اس کے لو ٹنے میں کا میا ب نہیں ہو سکے گا۔ ہندو برصغیر میں اسلام کی حکمرانی کے تحت ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ امن و تحفظ کی زندگی بسر کر تے رہے تھے۔ انگریزوں نے سب سے پہلے ان کو تقسیم کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے ہندؤں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں مسلمانوں سے دور کیا اور ایسی فضاء پیدا کردی کہ ہندو مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرنے لگیں۔ ان اسالیب میں سے ایک ہندوستان میں فورٹ ولیم کالج کا قیام تھا جسے انگریزحکومت نے برطانیہ سے آنے والے نوجوان انگریز افسروں کو ٹریننگ دینے کے لئے قائم کیا تھا۔ ان افسران کو اردو سکھانے کا انتظام بھی اسی کالج میں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے بانی گور نر جنرل ولزلی نے اس کے قیام کی اصل تاریخ جو کہ 10 جولائی 1800ء ہے، کوتبدیل کر کے 4 مئی 1800ء کر دیا۔ یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کہ یہ ریا ست میسور کے نواب حیدر سلطان اور ٹیپو سلطان پر انگریزکی فتح کی سالگر ہ کا دن تھا۔ اس کا لج میں ہند و اور مسلم ادیب بھرتی کیے گئے۔ یورپی اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کی کتابوں کا اردو ترجمہ کر ایا گیا۔ یہ دور مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کے عروج کا دور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں لکھی گئی نثر مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ انگریز نے اس دور کے نثرنگاروں کو نو ازا جو اردو نثر کے ذریعے انگریزوں کے مقاصد پورا کر تے تھے۔ مولوی نذیر احمد نے اردو کا پہلا ناول ''مرأة العروس'' لکھا جس میں ملکہ و کٹوریہ کی خو ب تعریفیں تھیں۔ انگریز نے اس ناول کے لکھنے پر مو لو ی صاحب کو سونے کی ایک گھڑی اور ایک خطیر رقم انعام میں دی۔
فورٹ ولیم کالج ہی وہ جگہ ہے جہا ں سے انگریز نے اردو ہندی تنازع کا آغاز کیا۔ انگر یز ہند ؤں کو باور کرانے میں کامیا ب رہے کہ مسلمان اُنکے کبھی خیر خواہ نہیں رہے اوراب یہ زبان کے ذریعے تمہیں مغلو ب کر رہے ہیں۔ حالا نکہ ہندوستان میں اس سے قبل جو زبا ن بولی جار ہی تھی اُسکا نام ہندی یا ہندوستانی زبان تھا۔ یہ وہی زبا ن ہے جو اس سے پہلے لشکری، ہندوی، ریختہ اور اردوئے معلی کہلائی جاتی تھی۔ نام بدلتے رہے مگر اس زبان کا رسم الخط ہمیشہ عربی رسم الخط ہی رہا۔ ہند ؤں نے انگریزوں کے اکسانے پر اس زبان کو ہندی اور اردو دو مختلف زبا نوں میں بانٹ دیا اور ہندی کو دیونا گری رسم الخط میں لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ فورٹ ولیم کالج نے اس تنازعہ کا نہ صرف آغاز کیا بلکہ اس کو خوب ہوا بھی دی۔ اس جھگڑے پر خود سر سید نے لکھا پڑھی شروع کر دی۔ نواب محسن الملک نے خوب گرم جوش تقریر یں کیں، اس وجہ سے ہندو مسلم تفریق کو تقویت ملی اور یہ تفریق اس وقت انگر یزوں کی سیاسی ضرورت تھی۔ اس تنازع میں ہند ومسلم فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں مر نے والے مسلمانو ں کو بہت سراہا گیا۔ زبان کے نام پر مرنے والوں کو شہید کہا گیا۔ مسلمانوں کی جو توانائیاں انگریز قبضے کے خلاف بھرپور مزاحمت پر صرف ہونی چاہئے تھیں ان کا محور محض اردو زبان کا دفاع بن گیا۔
یہی مسلم رہنما مسلمانوں کوایک طر ف تو سیا ست سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن جب انگریز نے دیکھا کہ عوام میں انگریز کی نفر ت ختم نہیں ہو رہی اور بار بار بغاوتیں اٹھ رہی ہیں تو 1885ء میں ایک انگریز سر اے اوہیوم کے گھر پر کانگریس کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تاکہ عوام اسی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی بھڑاس نکال لیں لیکن اس کے تمام لیڈرز حکو مت کے قبضے میں رہیں۔ پھر اسی جما عت کے ذریعے ہندو مسلم تقسیم کا ایک اور موقع انگریزوں کے ہاتھ آگیا۔ کانگریس کے تمام بڑے عہدے ہندؤں کو دئیے گئے اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ یہ جماعت صرف ہندوؤں کی ہے۔ خود سر سید نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ یوں بالآخر 1906ءمیں مسلمانوں نے اپنی ایک الگ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے بنائی جو مسلمانوں اور ہندؤں کی سیاسی تقسیم کی علامت تھی۔
مذہبی تعلیم اور عام دنیاوی تعلیم علیحدہ علیحدہ کرنے کا آغاز بھی ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل جو مدارس قائم تھے ان میں یہ دونوں نصاب ساتھ ساتھ پڑھا ئے جاتے تھے۔ بلکہ اگر اس دور کا نصاب اٹھا کر دیکھیں تو دنیاوی تعلیم کے کورسز دینی تعلیم سے کہیں زیادہ تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ عربی، فارسی، فلسفہ و منطق، طب، فلکیا ت، حساب و الجبرا وہندسہ، جیو میٹری اور شاعری کے ساتھ ساتھ صرف و نحوکی تعلیم دی جا تی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانو ں کی آمد سے قبل کسی ایسے مدرسے کا وجود نہیں ملتا جس میں یہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہوں۔ انہی مدارس سے پڑھے ہوئے لو گ امور مملکت چلاتے تھے۔ اعلیٰ سر کاری عہدوں پر فائز ہو تے تھے، مؤر خ اور ادیب بنتے تھے، انجینئر اور طبیب بنتے تھے، حکیم اور استاد کا درجہ حاصل کرتے تھے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ خالصتاً دینی تعلیم کا مدرسہ سب سے پہلے انگریزوں نے کلکتہ میں قائم کیا اور دنیاوی تعلیم کے لئے اس کے مقابلے الگ کالج بنایا۔ دنیاوی مدرسے سے پڑھنے والوں کو سرکاری عہدے ملنے شروع ہوئے اور دینی مدرسے والے مسجد کی چار دیواری تک محدود ہو گئے۔
یو ں دین اور دنیا کے نام پر مسلمان تقسیم ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسالک اور مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کر دیا گیا۔ کچھ نا سمجھ علماء نے ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف کتابیں لکھیں جن کو انگریز نے ان چھاپہ خانوں سے چھپوایا جو فورٹ ولیم کالج کے زمانے میں برصغیر میں لگائے گئے تھے۔ علماء نے مسلکی بنیادوں پر مناظرے اور مباحث شروع کئے۔ اسلام میں اختلاف رائے کو کفر کے فتوؤں کی بنیاد بنایا۔ انگریزوں نے ہی مر زا غلام احمد قادیانی جیسے ملعون کا فتنہ کھڑا کیا۔ یوں مسلمان غیر اہم مسائلNon-issuesمیں الجھتے گئے اور اصل بات اور راستے سے دور ہوتے گئے، یعنی انگریز کو برصغیر سے نکال کر اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنا۔
سر سید نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز سے وفاداری کا بہترین ثبوت دیا اور بجنور میں بیس پورپین اور یوریشن لوگوں کو مسلمانوں سے بچایا۔ سرسید باقاعدہ اسلحہ لگا کر پوری پوری رات ان کے گھر کے باہر پہرہ دیتے۔ یاد رہے کہ بجنور میں سر سید دلیری اور جاں بازی کے ساتھ جن لوگوں کی حفاظت کرتے رہے وہ عام انگریز نہیں تھے بلکہ وہاں کے حکمران تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آج کوئی شخص افغانستان میں قابض امریکی فوج کے عہدیداروں کے دفاع اور تحفظ کا کام سر انجام دے۔ اگر سر سید ان مسلمانوں کی جان بچاتے جو انگریزوں کی گولیو ں کا نشانہ بن رہے تھے تو یقیناً وہ مسلمانوں کے ہیرو کہلانے کے حق دار ہوتے۔ بہر حال اس کمال وفاداری کے بدلے میں انگریز نے جنگ کے بعد سر سید کو ایک ہزار روپے کی خلعت عطا کی اور دوسو روپے ماہوار کی پولیٹیکل پینشن دو نسلوں تک مقرر کی!
سر سید نے 1857ء میں علی گڑ ھ میں ایم۔ اے۔او سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ چونکہ وہ تعلیم اور سائنس میں پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے آج اس ذلت اور رسوائی کی حالت کو پہنچے ہیں۔ چنا نچہ ان کو پہلے سائنس کے میدان میں خود کو منوانا ہوگا۔ علی گڑھ میں سائنس اور انگریزی پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ دو سال کے بعد یہ سکول حکومت کی اجازت سے 1877ء میں کالج کا درجہ اختیار کرگیا۔ اور اس کا افتتاح بھی 18جنوری 1877ء میں قابض انگریز حاکم لارڈ لٹن سے کرایا گیا تھا۔ علی گڑھ ادارے کو قائم کرنے کے لئے نہ صرف سرکار کی طرف سے خطیر رقم چندے کے طور پردی گئی بلکہ وہاں پڑھانے کے لئے انگریز اساتذہ کی خدمات بھی لی جاتی رہیں۔ سائنٹیفک سوسائٹی کے تحت یورپ میں چھپنے والے مضا مین کو اردو ترجمہ کراکے چھپوایا جاتا جس میں ایسا مواد ہوتا جو اسلام کے افکار اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر ضرب لگاتا تھا۔ کتابوں کے ترجمے اردو میں کرائے جاتے۔ انگریز یہ چاہتا تھا کہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ اردو کے ذریعے انگریزی افکار اور تصورات تک رسائی حا صل کریں اور انگریز کی ترقی سے مرعوب ہوں۔ انگریز کے نزدیک انگریزی سے زیادہ ضروری انگریزیت اور اپنی مغربی ثقافت اور طرز حیات کا پرچار تھا جو وہ اردو اور انگریزی دونوں کے ذریعے کر رہا تھا۔
انگر یز بخوبی واقف تھا کہ جب تک مسلمان اپنی فکر اور عقیدے اور اسلا می طر زحیات اور قرآن سے کٹ نہیں جاتے اس وقت تک یہ دل سے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چنا نچہ اب اسلا م کی ایسی تشریح کی ضرورت تھی کہ جو انگریز کے مفاد میں ہو۔ سرسید نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور انگریزی راج سے وفاداری کی خا طر اسلام اور قرآن و سنت کو بھی تختہء مشق بنانے سے گریز نہیں کیا۔ انھو ں نے اسلام کو عقل اور سائنس کے اصولوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ سر سید کے بقول قرآن خالق کا قول ہے اور یہ کائنا ت اس کا فعل ہے۔ چنا نچہ خالق کو یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ ان کے نزدیک کائنات اور اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں جن کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے یہ ایک اٹل حقیقت ہیں۔ انہو ں نے اس وقت کے سائنسی اصولوں کو بنیاد مانا (جو کہ خود انسان نے اپنی محدود عقل سے اخذکیے تھے) اورا س کے مطابق قرآن کی تفسیر شروع کر دی۔ قرآن کی جو بات اس وقت کی سائنسی ترقی اور عقلی سطح کی بنیاد پر درست ٹھہرتی اس کو مان لیتے ورنہ وہ ان آیات کی من مانی تفسیر کر کے قرآن کو ان سائنسی آرا کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کی عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ کائنات کے جن اصولوں کو وہ بنیاد مان کر قرآن پرکھ رہے ہیں یا اس کی تفسیر کر رہے ہیں وہ انسانی عقل نے سائنس کی بنیاد پر اخذ کئے ہیں اور سائنس کے نظریات اور قوانین نئی نئی تحقیقات کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:۔
سر سیدکے نزدیک فرشتے کسی خاص مخلوق کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی قوتیں ہیں جو اس کائنات کا نظام چلانے کے لئے ہیں۔ اسی طرح جنات چونکہ کسی سائنسی تجربہ گاہ میں ثابت نہیں ہوتے اس لئے وہ بھی مخلوق نہیں ہیں۔ ان کے نز دیک جنت اور جہنم کا جو تصور مسلمانو ں میں پایا جاتا ہے وہ غلط ہے بلکہ اسی دنیا میں سکون اور نعمتوں سے معمور زندگی جنت جبکہ مصیبتوں اور تکالیف سے بھر پور زندگی جہنم ہے۔ انبیاء اور رسل کے معجزات کا سر سید نے اپنی کتاب ''تفسیر القرآن '' اور ''خطبات احمدیہ'' میں ببانگ دُہل انکار کیا ہے۔ وہ معجزات سے متعلق آیات کی تفسیر نہایت بھونڈے انداز میں کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے بقول حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا مار کر پتھر سے بارہ چشمے جاری کرنے کا معجزہ مفسرین کی قرآن فہمی میں کجی اور غلط تفسیر کرنے کا نتیجہ ہے۔ اپنی کتاب تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں کہ قرآن میں فقلنا اضرب بعصاک الحجر کا مطلب سمجھنے میں علماء اسلام اور علمائے لغت سے سخت غلطی ہوئی ہے۔ اس آیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ''پس ہم نے کہا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو''۔ فرماتے ہیں کہ اضرب کا مطلب ہے ''چلو '' بعصاک کا مطلب ہے ''چھڑی کے ذریعے سے'' اور الحجر کا مطلب ہے ''پہاڑ''۔ یوں ترجمہ یہ بنا کر ''اپنی چھڑی کے ذریعے پہاڑ پر چلو '' گویا کہ اس میں معجزے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا کے سہارے پہاڑ پر چلے اور ایک جگہ پر انھوں نے بارہ چشمے دیکھ لیے۔ اپنے مطلو بہ معنیٰ اخذ کرنے کے لئے سر سید نے عربی قواعد ہی بدل ڈالے۔ عربی میں اگر اضرب ہو تو اس کا مطلب ''چلو '' ہو گا لیکن اگر صلہ ب ہو یعنی فعل کے بعد ب ہو تو اس کا مطلب ''اس سے مارو'' ہو گا۔ چنا نچہ اضرب بعصاک کا ترجمہ ''اپنی چھڑی سے مارو'' ہو گا نہ کہ ''اپنی چھڑی سے چلو''۔ دوسرے سے یہ کہ الحجر کا مطلب ''پتھر '' ہوتا ہے اور سرسید نے اس کا مطلب ''پہاڑ '' کیسے لے لیا اس کی وضاحت وہ خود بھی نہ کر سکے۔ اس طرح انہوں نے واقعہ معراج کا بھی انکار کیا۔ چونکہ سر سید حدیث کو معتبر نہیں مانتے تھے اس لئے اپنے مؤقف کو ثابت کر نے کے لئے صرف اور صرف قرآن کا سہارا لیتے تھے۔ سر سید اجتہاد کو اصلاح مذہب کا متبادل ومترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلا ح نہیں بلکہ الحاد تھا۔ یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے اس کی تاویل کر کے بدل دیا جائے یا اسے دین سے خارج کر دیا جائے۔ چونکہ فرشتوں کے وجو د کے منکر تھے اس لئے قرآن کورسول اللہﷺ کا کلام مانتے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی مسلمانو ں نے جذبہ جہاد اور کافر انگریز سے نفرت کی بناء پر لڑی، جیسا کہ آج افغانستان کے مسلمان قابض امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن سر سید نے اس جنگ کو ''غدر'' اور ''بغاوت'' کا نا م دیا۔ گویا یہ آزادی کی جنگ نہیں بلکہ حکومت سے غداری اور بغاوت تھی۔ اپنے رسالے ''اسباب بغاوت ہند'' کے نام سے ہی انھوں نے ظا ہر کیا کہ یہ ایک بغاوت تھی جس کے اس خطے کے مسلمان مر تکب ہوئے۔ اس رسالے میں انھوں نے انگریزوں کو یہ بتایا کہ مسلمان پوری طرح آپ کے خیر خواہ ہیں مگر اس بغاوت کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ملک کی سیا سی کونسلو ں میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی اس لئے وہ آپ سے بدظن ہو گئے ہیں۔ گویا سر سید نے انگریزوں کو مسلمانوں پر کامیاب حکومت کرنے کا طریقہ بتایا۔ بعد میں انگریز نے سر سید کو سیاسی کونسل ممبر بھی بنا دیا۔
سر سید نے ''لا ئل محمڈ نز آف انڈیا'' کے نام سے ایک کتاب لکھنے کاارادہ کیا۔ اس کے تین شمارے جو1860ء سے 1861ء کے دوران چھپےجو سر سید کی انگریزوں سے وفاداری کا کھلا ثبوت ہیں۔ اس رسالے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''جن مسلمانوں نے سرکار کی نمک حرامی اور بد خواہی کی، میں ان کا طرفدار نہیں ہوں، میں ان سے بہت ناراض ہو ں اور ان کو حد سے زیادہ بُرا جانتا ہو ں کیو نکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانو ں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہئے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھا ئی ہیں، نبیوں پر ایما ن لا ئے ہیں، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کی تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایما ن ہیں۔ پس اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا وہیں مسلمانوں کا بھی خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری کے، جو کسی حال میں رعیت کو جائز نہ تھی اوراپنے مذہب کے بھی بر خلاف کیا۔ اس لئے بلا شبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ ان سے ناراض ہو ا جا ئے''۔
سر سید انگریز حکو مت کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع ہا تھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے معافی نامے کا ایک اشتہار جاری کیا جس میں مسلمانو ں کے قتلِ عام پر معذرت کی گئی تھی۔ سر سید نے مراد آباد کے مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی اور کہا کہ ملکہ معظمہ کی اس عنایت و مہربانی کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ چنانچہ ایک مشہور درگاہ شاہ بلاقی اس کے کام کے لئے تجویز کی گئی۔ 28جو لا ئی1859ء کو 15 ہزار لوگوں کو جمع کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہو جائیں اس مقصد کے لئے وہاں کھانے کا اہتما م کیا گیا۔ نماز عصر کے بعد سر سید نے اجتماعی دعا کی جس کے متن کا کچھ حصہ ذیل میں ہے۔ فر ماتے ہیں ''الہٰی تیرا ایک بہت بڑا احسان اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اپنے بندوں کو منصف اور عادل حاکموں کے سپر د کرے۔ سو برس تک تو نے اپنے ان بندوں کو جن کو تو نے خطہ ہندوستان میں جگہ دی ہے اس طرح عادل اور منصف حاکموں کے ہاتھ میں ڈالا۔ پچھلے کم بخت برسوں میں جب بسبب نہ ہونے ان حاکموں کے، ہماری شامت اعمال ہمارے پیش آئی، اب تُونے اس کاعوض کیا اور پھر وہی عادل اور منصف حاکم ہم پر مسلط کیے۔ تیر ے اس احسان کا ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں تو اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول کر۔ آمین۔ اہلِ ہند جو اس اتفاقیہ آفت میں گرفتار ہو گئے تھے ان پر رحم کرنا تُو نے ہی ہمارے حکام کے دل میں ڈالا، تیرے ہی القا سے کوئین وکٹوریہ دام ظلھا نے پُر رحم اشتہار معافی جاری کیا۔ ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی جان سے ملکہ کو دعا دیتے ہیں، الہٰی تو ہماری اس دعا کو قبول کر آمین ! الہٰی ہماری ملکہ وکٹوریہ ہو اورجہاں ہو''۔ قارئین اس دعا کے ایک ایک لفظ سے مکاری، غداری، فریب اور دھوکا دہی جو سر سید مسلمانوں سے کر رہے تھے، ٹپک رہی ہے۔ اور ہر ہر لفظ انگریز کی وفاداری کی قسم کھا رہا ہے۔ اور ستم ظریقی یہ ہے کہ ایسی شخصیت کو آج ہمارے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ امر اب مسلمانو ں پر واضح ہو چکا ہے کہ ان کے زوال کا سبب ان کی اسلام کے فہم میں کمزوری اور اسلام کا غلط نفاذ تھا۔ لیکن سر سید نے مسلمانوں کو زوال سے نکلنے کے لیے غلط حل تجویز کیا۔ ان کی دانست میں کامل دینِ اسلام سے پھوٹنے والے نظام ہائے حیات کو اختیار کیے بغیر، سائنس، ایجادات اور زندگی کے متعلق افکار میں محض مغرب کی تقلیدکرکے ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں اور یہ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے تحت بھی ممکن ہے۔ اسلام کو بطور آئیڈیالوجی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم سائنس اور ٹیکنالو جی میں بھی مغر ب سے پیچھے ہیں۔ چنانچہ اگر ہمیں ایک ترقی یافتہ امت بننا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسلا می عقیدہ کو نظام ہائے حیات کے لیے بنیاد کے طور پر اختیار کرنا ہو گا۔ نہ کہ ہم اندھادھند مغرب کی تقلید میں سائنس اور ٹیکنالو جی کے پیچھے بھا گنے لگ جا ئیں۔ اگر سائنس اور ٹیکنا لو جی میں کسی قوم کی نقالی کر لینا ہی کسی قوم کو ترقی یافتہ اور مہذب بناتا ہے اور اگر قرآن اور اسلا م نے تجربیت، سائنسی ترقی کو اقوام کے عروج اور ترقی کی اساس بنا یا ہے، جیسا کہ سر سید گمان کرتے تھے، تو پھر خود رسول اکرمﷺ نے سائنسی تجربیت اور عقلیت کے ذریعے انقلا ب برپاکیوں نہ کیا؟ خلافت راشدہ ان ایجادات اور دریافتوں سے خالی رہ کر بھی اسلام کا زریں دور کیسے کہلایا؟ اگر سائنس روشن فکری اور تہذیب کی اساس ہے تو انبیاء کم از کم سائنس دان تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام جو عقیدہ اور فکر مسلمانو ں کو دیتا ہے، سائنسی ترقی اور ٹیکنا لو جی کا حصول اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جس اسلامی معاشر ے کی بنیاد مدینہ کی ریاست میں رکھی تھی وہ معاشرہ بہت جلد ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن گیا۔ آنے والے زمانے میں اس کے پاس جنگی سازوسامان، بحری بیٹرے، توپ، علوم وفنون کے ذخائر جیسے کہ طب، فلسفہ، سائنس جس میں کیمیا، ریاضی، الجبرا، ہندسہ، ہئیت، حیاتیات، سرجری، میڈیسن اور وہ سب کچھ جو مغرب نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہ تھاموجو د تھا۔ لیکن یہ سب اسلامی عقیدے سے پھوٹنے والی فکرکا نتیجہ تھا جس پر اسلامی معاشرہ قائم تھا نہ کہ از خود یہ سب ترقی کی بنیاد تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کا سبب فکر کی تبدیلی ہے اور ترقی اس کا نتیجہ ہے اور نتائج کبھی اسباب نہیں ہوا کرتے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فر مایا: ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ''بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی اس وقت تک حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اس کو نہ بدلیں جو ان کے نفوس میں ہے'' (الرعد:11)۔
اور جہاں تک مسلمانوں کی حقیقت کا تعلق ہے تو ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مسلمان علوم و فنون سے عاری اور جاہل، ان پڑھ، نکمے اور بد تہذیب تھے، جیسا کہ کچھ لوگوں میں یہ تاثر آج بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں آج تک یہ پڑھایا گیا کہ ہمارے مسلم حکمران سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں کرتے تھے جبکہ انگریز کی آمد سے قبل برصغیر کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ خوش حالی کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص عبدالغفور کے اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ تھے۔ بنگال کی جگت ہت سیٹھ فیملی کے پاس بینک آف انگلینڈ سے زیادہ سر مایہ تھا۔ 1775ء میں جنگ پلا سی کی لوٹ مار سے جو سرمایہ حاصل ہوا وہ پورے یورپ کے جی۔ ڈی۔ پی سے زیادہ تھا۔ کیپٹن الیگزینڈر ہمیلٹن کے مطابق صر ف دلی شہر میں دس ہزار سکول و کا لج مو جو د تھے اور پورے شہر میں ستر ہسپتال تھے۔ بنگال میں اسی ہزار سکول اورکالج تھے جن میں سے کسی میں بھی چار سو سے کم طالبعلم نہ تھے۔ کیپٹن الیگز ینڈر اپنی کتاب 'A Case For India' میں لکھتا ہے کہ مغلو ں کے زمانے میں ایک لا کھ پچیس ہزار اداروں میں طب کا علم پڑھا یا جاتا تھا۔ ابن بطوطہ کا سفر نامہ دیکھیں تووہ لکھتا ہے کہ بمبئی کے قریب ایک جگہ ہواز ہے جہاں دو اسکول مردوں اور تیرہ سکول عورتوں کے تھے اور پورے علاقے میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا خواہ وہ مر د ہو یا عورت جسے قرآن حفظ نہ ہو اور وہ اس کا ترجمہ نہ جا نتا ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری برصغیر میں تھی اور یہ برتری 1880ء تک بر قرار رہی۔ یہی حال جہا ز رانی کے شعبے کا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ جہاز یہاں بنتے تھے۔ بر صغیر کی درآمدات کبھی بھی برآمدات سے زیادہ نہ تھیں۔ ٹھٹھہ کے علا قے میں چار سو اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔ لارڈ میکا لے کی 1835 ء کی تقریر کا وہ فقرہ جو اس نے برطانوی پالیمنٹ میں کی تھی اس با ت کی تصدیق کے لیے کافی تھا کہ یہ خوشحالی صرف چند لوگوں تک محدود نہ تھی بلکہ عوام عمو می طور پر خوشحال تھے۔ لارڈ میکا لے کہتا ہے کہ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا لیکن مجھے کسی طرف کوئی فقیر نظر آیا نہ چور دکھا ئی دیا۔ 1911ء کی مردم شماری جس کی رپورٹ مقبرہ انار کلی میں پڑی ہے جو انگریزوں نے کرائی تھی، اس کے مطابق یہا ں کی شرح خواندگی 90 فیصدسے زیادہ تھی اور 1941ء میں کر وائی جانے والی مر دم شماری میں شرح خواندگی 10 فیصد سے بھی کم ہو چکی تھی۔ آج اگر امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر، وائٹ ہا ؤس، کھلی کھلی سڑکیں، سو سو منزلہ عمارتیں بنائے تو یہ معاشی اور سائنسی ترقی ہے اور اگر ہمارے حکمرانوں نے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ بنائے تو یہ عیش و عشرت قرار پایا۔ جبکہ یہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے والے انجئنیر انہی مدرسوں کے فارغ التحصیل تھے جہا ں دنیا جہان کے علوم و فنو ن پڑ ھا ئے جا تے تھے۔ اور یہ عمارات ریاست کی خوشحالی اور دولت کی فراوانی کی واضح دلیل ہیں۔ لیکن سر سید کہ جس کی آنکھوں پر انگریزوں کی مرعوبیت کی پٹی بندھی ہوئی تھی، کی نظر سے یہ تمام حقائق اوجھل تھے۔ اگرچہ سر سید کا دور آج کی نسبت مسلمانوں کے اس شاندار ماضی کے بہت نزدیک تھا۔
یہ ہیں وہ لوگ جورہنمائی کے نام پر اس امت کے ساتھ رہزنی کر تے رہے۔ جو اخلاص کا دعویٰ مسلمانو ں سے کر تے رہے مگر وفاداری کا دم کفار سے بھرتے رہے۔ آج معاشرے کے ایک طبقے میں کفار سے مرعوبیت اور اپنی روشن تاریخ سے عدم آگاہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے نصابِ تعلیم کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر غلامانہ ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے اور ایسی شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے جو بذاتِ خود غلامانہ ذہنیت کے حامل تھے۔ خلافت کے قیام کے بعد تاریخ میں موجود اس ملاوٹ اور علمی خیانت کو بھی صاف کیا جائیگا۔ خیانت اور دھوکے بازی کی جو گرد ان غداروں نے اڑائی تھی جو ہماری تاریخ کے چہرے پر جم چکی ہے، خلافت کے کھرے نصابِ تعلیم سے یہ سب دھل جائے گی اور مسلمانوں کی درست تاریخ نکھر کر اس امت کے سامنے آجا ئیگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دید ہ بینا عطا فرمائے جس سے ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح دیکھ سکیں۔ آمین۔