الثلاثاء، 29 صَفر 1446| 2024/09/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

مسجد اقصیٰ سے امت مسلمہ اور مسلمانوں کی افواج کو پرزور پکار

﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
" پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصٰی لے گیا جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ان کو اپنی نشانیاں دیکھا دیں، بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے" (بنی اسرائیل: 81)
اے مسلمانو!..... اے مومنو!..... اے مسلم افواج!
خلافت کے انہدام کی یاد میں مسجد اقصٰی کے آنگن سے ہم تم سے التجا کرتے ہیں۔ قبلہ اول سے ہم تمہیں پکار رہے ہیں۔ جہاد کی سرزمین سے تمہاری ہمتوں اور عزائم کو بیدار کر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی اسراء کے مقام سے، زمین کے اس پاکیزہ ٹکڑے سے جہاں سے ہمارےنبیﷺ آسمانوں کی بلندیوں پر تشریف لے گئے تھے ہم تم سے مخاطب ہیں۔
یہاں سے، اس مبارک سر زمین سے، دنیا کے ہر خطے میں موجود امت مسلمہ سے مخاطب ہیں..... سمندر سے سمندر تک اور ہر اس سرزمین کی طرف ہم متوجہ ہیں جہا ں تکبیر "اللہ اکبر....." کی صدا پہنچ چکی ہے۔
مسلمانوں کی تمام افواج کو بالعموم، کنانہ(مصر)، پاکستان، ترکی کی افواج اور بلاد الشام کے اہل قوت کو بالخصوص پکار تے ہیں.....کیا تمہارے اندر الاقصٰی سے والہانہ محبت نہیں۔ کیا تمہارے دل الاقصٰی میں سجدے کے شوق سے لبریز نہیں؟ کیا تمہارے دلوں میں الاقصٰی سے ملاقات کی تڑپ نہیں رہی ہے ؟
کیا تم رسول اللہﷺ کے اسراء کے مقام کے دیوانے نہیں ہو؟ کیا تم اس مبارک سرزمین پر شہادت کے آرزومند نہیں ہو جہاں تمہارا خون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مبارک لہو سے یکجا ہو ؟
الاقصٰی تم سے یہ سوال کر رہی ہے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں..... صلاح الدین کہاں ہے..... مسلمانوں کا خلیفہ کہاں ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کا مقام اسراء تمہارے نزدیک ایسا بے وقعت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہود اپنی نجاست سے اس کو روندتے رہیں ؟
یہود، جو اہل ایمان کے سخت ترین دشمن ہیں، نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے الاقصٰی اور صلاح الدین کے منبر کو جلا ڈالا ہے.....کیا اپنی عزت کی نشانی کو جلتا ہوا دیکھ کر تمہارے دل غم و غصے سے جل نہیں گئے؟
یہود الاقصٰی پر اس لیے ہلہ بول دیتے ہیں کہ وہاں اپنے تہوار منائیں..... تا کہ اس کی زمین کو اپنی نجاست سے روندیں۔ الاقصٰی روندی جارہی ہے۔ اس میں غیر اللہ کی تعظیم ہو رہی ہے اورتم کھڑے یہ تما شا دیکھ رہے ہو !! اے بہترین مؤمنو تم کہاں ہو ؟؟
اپنا خودساختہ ہیکل بنانے کے لیے الاقصٰی کے خلاف یہودیوں کے حملے شدت اختیار کر چکے ہیں.....تم کیا کر رہے ہو ؟؟
کیا تم نے الاقصٰی کے نیچے ان کی سرنگوں کے بارے میں نہیں سنا ہے..... کیا ان کی کھودائی کے بارے میں نہیں سنا ہے..... کیا اس کی بنیادیں گرائے جانے پر بھی تم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہو گے ؟!!
یہ خلافت کے انہدام کی یاد میں تمہاری طرف الاقصٰی کی منادی ہے۔ خلافت کو قائم کرو اور مجھے آزاد کرو۔ خلافت کو قائم کرو اور مجھے بچاؤ.....
اے اہل شام.....اے بہترین مؤمنو..... تمہیں اپنی جان، مال اور اہل وعیال کے بارے میں آزمائش کا سامنا ہے، ہر قریب اور دور والے نے تمہارے خلاف سازش کی، اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی مدد گار نہیں.....اسلام کے علاوہ تمہارا کوئی نجات دہندہ نہیں.....ایمان کے علاوہ تمہیں ثابت قدم رکھنے والا کوئی نہیں.....
اے حمص کے صابر لوگو! اہل شام میں سے سب سے پہلے اسلام لانے وال، اے وہ لوگو جن کو اللہ نے یہ شرف بخشا کہ ان کی زمین کو اللہ کی تلوار خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی.....
اے روشن حلب کے نیکوکارو! جس کو اللہ نے نور الدین زنگی رحمہ اللہ کےذریعے منور کیا.....یہیں سے مجاہدین کے وہ قافلے چل پڑے تھے جنہوں نے صلیبیوں کے قلعوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
اے شام کے بہترین شہر.....مؤمنوں کے مسکن..... دمشق میں پہرا دینے والو!
اے الغوطہ میں مسلمانوں کے خیمے کے بہادرو! اے بریگیڈ اور بٹالین کے بہترین لوگو!
الاقصٰی سے ہم تم سب سے مخاطب ہیں۔ ایک ہو جاؤ اپنی صفوں کو یکجا کرو، ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾ "یقینا اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں" (الصف:4)۔ ایجنٹوں اور مجرموں کے قدم اکھاڑ دو۔ اللہ کا نام لے کر اس کی توفیق سے شام کے بہترین شہر دمشق کی طرف قدم بڑھاؤ۔ ناگ کا سر کچل دو۔ جو تمہیں دمشق جانے سے روک رہے ہیں ان کی طرف التفات مت کرو۔ یاد رکھو کہ کامیابی صرف اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تمہارا مولٰی ہے جبکہ ان کا کوئی مولٰی نہیں ﴿ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ﴾ "یہ اس لیے کہ اللہ ایمان والوں کا مولٰی ہے اور جنہوں نے کفر کیا ان کا کوئی مولٰی نہیں" (محمد:11)۔
تکبیروں اور تہلیلوں کی گونج میں الاقصٰی کی طرف روانہ ہو جاؤ..... خلیفۃ المسلمین کے ساتھ دار الخلافہ بیت المقدس کی جانب چل پڑو.....
اے اہل کنانہ (اللہ کے تیر کش)..... اے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والو!
اے مصر کی فوج! اللہ کی زمین پر اس کے تیر کش! تم اسلام کے مدد گا ر اور مسلمانوں کی قوت ہو۔ تم حطین اور عین جالوت کے ہیرو ہو۔ تم رمضان کے ہیرو ہو۔ اگر سازشیوں کی سازشیں نہ ہوتی تو کئی سال پہلے ہی تم اسی دن بیت المقدس کو آزاد کرانے کا شرف حاصل کر چکے ہو تے جس دن تم نے فلک شگاف تکبیروں کی گونج میں نہر سویز عبور کیا تھا۔
اے مصر کے افسران! دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں تمہاری عظیم فوج کو تتر بتر اور برباد کرنے کی تباہ کن سازش ہو رہی ہے۔ ہوشیار ہوشیار اپنے چہرے بیت المقدس کی طرف کرو اور مسلمانوں کو اپنے پیچھے جمع کرو جان لو اللہ کے اذن سے تم کامیاب ہو جاؤ گے ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ "اور مؤمنین کی مدد تو ہماری ذمہ داری ہے" (الروم:47)۔
اے علمائے ازہر! کیا تم میں اور تمہارے درمیان کوئی عز بن عبد السلام نہیں ؟..... علماء تو انبیاء کے وارث ہو تے ہیں۔ اپنے دین کی خاطر اٹھو اور مصر کو اسلام کی مدد اور خلافت کے قیام کے لیے ایک لشکر کا روپ دو.....
اے افسرو اور کمانڈرو! صلاح الدین ایوبی کی سیرت کو دہراؤ اور العقاب (رسول اللہ کے جھنڈا) کے دونوں بازو مصر اور شام کو یکجا کرو تاکہ امت مسلمہ سے کندھے سے کندھا ملاکر یہودی وجود کو نیست ونابود کردو اور ارض مقدس کو ان کی نجاست سے پاک کر سکو۔
اے اہل پاکستان..... اے تقویٰ اور اسلام کے علمبردارو!
رسول اللہﷺ کا مقام معراج تم سے فریاد کر رہا ہے.....اس کے جواب میں تم کیا کرو گے؟ مسجد اقصٰی تم سے التجا کر رہی ہےتو کیا تم لبیک کہنے والے ہو ؟.....
اے افواج پاکستان..... امریکہ تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر لگارہا ہے..... امریکہ تمہیں تباہ کرنے کے درپے ہے..... امریکہ ہی تمہارا دشمن ہے، اس کی غلامی سے اپنے آپ کو نکالو.....اپنے درمیان موجود ایجنٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو.....مسلمانوں کو یکجا کرو۔ اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ دو، تم افغانستان، ہند کے مسلمان، وادی فرغانہ اور قفقاز ایک ہی امت ہو اور تم اسلام کی مدد اور اقامت دین پر قادر ہو۔
یہ حزب التحریر کی تمہارے لیے پکار ہے کہ خلافت کو قائم کرو اور پنی بہادر افواج کو بیت المقدس کی طرف گامزن کردو اور تم یہ شرف حاصل کرنے کے اہل ہو۔
اے ترکی کے عزتمندو اور ترک فوج ! تم محمد الفاتح اور سلطان سلیمان کے فرزند ہو، تم ان عظیم قائدین کی اولاد ہو جنہوں نے اسلام کو پھیلایا، دین کو قائم کیا اور مقدسات کی حفاظت کی، تم اس سلطان عبد الحمید کے پوتے ہو جنہوں نے کہا تھا " میرے لیے اپنے جسم کا ایک ٹکرا کاٹ دینا فلسطین کی ایک بالشت یہودیوں کو دینے سے آسان ہے"الاقصی کی پکار پر لبیک کہو اور خلافہ علی منہاج النبوۃ کو قائم کرو، مسجد اقصٰی کے بارے میں خلفاء کے عہد کو دہراو کیونکہ خلافت کا خون ابھی تک تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔
اے اہل یمن..... اے ایمان اور حکمت والو! مسجد اقصٰی کی فریاد کا جواب دو.....یکجان ہو کر خلافت کو قائم کرو اور جزیرہ عرب کو اسلام کے اقتدار کے زیر سایہ لاؤ..... تاکہ الاقصٰی کے منارے اور بیت العتیق (بیت اللہ) کے منارے تکبیر اور تہلیل کرتے ہوئے ہم آغوش ہوں.....پھر مؤمنوں کی آوازیں یہ تلاوت کرتے ہو ئے بلند ہوں ﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ "کہدو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے" (بنی اسرائیل:81)۔
اے اسلامی مراکش کے بہترین لوگو! اے بہادروں اور مجاہدین کی سرزمین لیبیا میں اللہ کی کتاب کو یاد کرنے والو! اے علماء اور قائدین کی سرزمین تیونس کے سپوتو! اے شہداء کی سرزمین الجزائر اور مغرب کے مسلمانو! اللہ کے منادی کا جواب دو، الاقصٰی کی پکار سنو، سکیولرازم اور گمراہی کو اتار پھینکو، سر حدوں کو مٹاکر لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے جھنڈے تلے ایک ہو جاؤ، خلافت ہی تمہاری وحدت اور تمہاری نجات ہے۔
اے ہر اس جگہ کے مسلمانو جہاں تکبیر " اللہ اکبر " پہنچ چکی ہے
اے امت مسلمہ کی افواج!
بیت المقدس تم سے فریاد کرتا ہے اور الاقصٰی تم سے التجا کرتی ہے.....تمہارے درمیان یہ منادی کرتی ہے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر..... حی الصلاۃ حی علی الفلاح..... تمہارے درمیان یہ منادی بھی کرتی ہے حی علی الجہاد..... کیا تم لبیک کہنے والے ہو؟ کیا تم اس کو یہودیوں کی نجاست سے آزاد کرنے والے ہو؟ کیا تم مخلص ہو ؟
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
"اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو بوجھل ہو کر زمین سے چمٹتے ہو۔ کیا آخرت کی بجائے دنیا کی زند گی پر ہی خوش ہو گئے ہو آخرت کے مقابلے دنیا کی زندی تو بہت ہی تھوڑی ہے اگر تم نہیں نکلے تو اللہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ لائے گا اور تم اللہ کو ذرا برابر نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے اللہ ہر چیز پر قادر ہے " (التوبہ:38-39)
مسجد اقصٰی مدد اور آزادی کے عہد کا انتظار کررہی ہے، خلیفۃ المسلمین کے ساتھ کا ، خلافت کی فوج کے ساتھ کا.....یہ ہے اقصٰی کی جانب سے تمہیں پکار.....خلافت تمہارے رب کی رضا، تمہاری عزت کا باعث ہے اس لیے اے مسلمانوں اس کو قائم کرو اے افسران اور جوانوں اس کو قائم کرو
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾ "اے ایمان والو اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے" (الانفال:24)۔
اے اللہ ہماری اس پکار کو مسلمانوں تک پہنچا..... اے اللہ اس کو مسلم افواج تک پہنچا
اے اللہ اپنے بہترین اولیاء اور بہترین فوج کے ذریعے ہماری مدد فرما.....اور مسجد اقصٰی کو یہود کی نجاست سے پاک فرما
اے اللہ مسلمانوں کی صفوں کو ایک کردے.....اور اقامت دین کے لیے ان کو ایک کردے
اے اللہ مسلمانوں کے عزائم کو مضبوط کر دے.....اور خائین اور ایجنٹ حکمرانوں کو برطرف کرنے میں ان کی مدد فرما
اے اللہ ہم خلافت علی منہاج النبوۃ..... امیر المؤمنین کی بیعت..... اور اے ارحم الراحمین آپ کی نصرت کے طلبگار ہیں
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں

2014_05_23_Palestine_Pic

نواز شریف کا دورہ بھارت گجرات کے شہداء کے خون سے غداری ہے حزب التحریر نے ملک بھر میں نواز شریف کے دورہ بھارت کے خلاف مظاہرے کیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں نواز شریف کے دورہ بھارت کے خلاف مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا : "نوازشریف کا بھارتی دورہ، اکھنڈ بھارت کا پودہ"، "نواز -مودی یاری، گجرات کے مسلمانوں کے خون سے غداری"۔
مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ راحیل-نواز حکومت کا مودی کی جیت پر اس قدر خوشی کا اظہار اور اسے فوری گلے لگانے کی شدیدخواہش دراصل ان کے آقا امریکہ کی خواہش ہے۔ مظاہرین یہ رائے رکھتے تھے کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، اس کی قیادت اس شخص سے ہاتھ ملانے کو اس قدر بے چین ہے جو گجرات کے قصائی کے نام سے مشہور ہے۔
مظاہرین نے نواز شریف کے دورہ بھارت اور مستقبل میں بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط استوار کرنےکی شدید مذمت کی کیونکہ ایسا کرنا امریکہ کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوگا جس کے تحت وہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے تا کہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ اور اسلام کی ایک طاقتور ریاست کی شکل میں ظہور کو روک سکے۔ مظاہرین نے افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ ان غداروں کو اپنی حمائت سے محروم کردیں جنہیں مسلمانوں کے مقدس خون کا کوئی پاس نہیں اور جنہیں مسلمانوں کے دشمنوں سے گلے ملنے اور انہیں خوش آمدید کہنے میں کوئی شرم نہیں آتی۔ مظاہرین نے مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔

2014_05_27_Pakistan_MO

2014_05_27_Pakistan_MO

شامی قومی اتحاد کے وفد کا دورہ واشنگٹن اور اسے شامی عوام کا نمائندہ ظاہر کرنا جھوٹ اور فریب ہے اس دورے کا مقصد سابق مجرم ایجنٹ کی جگہ لینے کے لیے "الجربا" کو بطور متبادل ایجنٹ تیار کرنا ہے

5 مئی 2014 الجربا نے شامی قومی اتحاد کے وفد کے طویل دورہ واشنگٹن کی سربراہی کی جو کہ کل 14 مئی کو اختتام پزیر ہوا۔ اس دورے کے دوران امریکی انتظامیہ، محکمہ دفاع، وزارت خارجہ، نیشنل سیکورٹی کونسل کے اہم اہلکاروں، کانگرس کے ارکان اور موجودہ و سابقہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کی گئی۔ اس دورےکا اختتام آخری وقت میں امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ایک "ہنگامی ملاقات" پر ہوا جو کہ اس دورے میں شامل نہیں تھی۔ واشنگٹن نے بيک وقت بشار کی حکومت کا سفارت خانہ اور بہت سے قونصل خانوں کو بند کرتے ہوے واشنگٹن میں موجود اتحاد کے آفس کو "فارن مشن" کا درجہ دے دیا۔ شام کے لیے امریکی سفیر ڈینیل روبنسٹن، جس نے فورڈ کی جگہ لی ہے، نے کہا کہ الجربا کے وفد کا دورہ جس میں فری سیرین آرمی کے عبداللہ البشیر اور کئی اہم سیاسی رہنما شامل تھے، بہت اہم ہے۔ مزيد کہا کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہواہے جب امریکی انتظامیہ شام کے بارے میں اپنی پالیسی پر "نظر ثانی" مکمل کرنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہے یہ دورہ امریکی انتظامیہ کے اشارے پر کیا گیا جس کا مقصد اتحاد کو فیصلہ کن انداز میں جانچنا تھا کہ کیا یہ امریکی مفاد کو پورا کرنے میں بشار کی طرح موزوں ہے یا نہیں؟یہ مفاد امریکہ اور "نئے شام" کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو پیدا کرنا، انتہا پسند گروہوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی کوششوں، امداد کی وصولی اور شام میں امن اور سلامتی کے لیے روڈ میپ پر ایک ڈرافٹ پیش کرنا ہے۔ اس میں سکیورٹی تعاون، فری سيرين آرمی کی صلاحیتوں اور امریکی امداد کو "ذمہ داری" سے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔
امریکہ جانتا ہے کہ اس کا ایجنٹ بشار مکمل طور پر چلا ہوا کارتوس ہے اسی لیے اوباما اوراتحاد کے وفد کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کئی بار یہ ذکر کیا گیاکہ "بشار الاسد شام پر حکومت کرنے کے تمام قانونی جواز کھو چکا ہے اور ملک کے مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہیں"۔ یہ امریکہ ہی ہے جو بشار کی حکومت کو سہارا دے رہا ہے اور اس کے جنگی جرائم اور شیطانیت پر پردہ ڈال رہا ہے لیکن ایسا وہ اس وقت تک کرے گا جب تک وہ اس کا ایک متبادل تیار نہ کرلے اور عبورى مرحلے کی قیادت میں اپنا اثرو رسوخ مضبوط نہ کرلے۔یہ بیان بڑے واضح اشاروں پر مشتمل ہے..... جیسا کہ "صدر اوباما نے اتحاد کے رہنماؤں اور بات چیت کرنے کے لیے تعمیری نقطہ نظر کو خوش آمدید کہا" اور "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینے میں اتحاد كے كردار کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ بہت واضح ہے کہ یہ الفاظ اتحاد کو ایک مخصوص کام کے لیے بطور ایجنٹ سند عطا کرتے ہیں جو کہ "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے۔ اسی طرح بیان میں تمام شامی عوام کی نمائندہ حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ وہی مطالبہ ہے جو کہ "جنيوا کانفرنس" میں بھی کيا گیا تھا۔ جیسا کہ امریکہ جنيوا کانفرنس کے مطابق اور خاص کر ابراہیمی کے استعفیٰ کے بعد عبوری مرحلے کی قیادت پر اکيلا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس رجحان کی تصديق بیان میں ذکر کردہ اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ "ہر فريق میں موجود دہشتگرد گروہوں کے مقابلے کی ضرورت ہے" یعنی مسلمانوں کے گروہ جو نظام کے خلاف اسلامی نظام کے منصوبے کو لے کر کھڑے ہوئے، جن کو یہ دہشتگرد اور تکفیری گروہ کے طور پر بیان کرتا ہے اور حکومتی گروہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جبکہ حکومت مخالف تمام ہی گروہوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ اسی وجہ سے الجربا کویہ کہنا پڑا کہ وہ" تیسری درمیانی راہ" کی نمائندگی کرتا ہے، جو امریکی حل کی معاونت کرتی ہے۔ جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے، امریکہ کے اپنے اندازے ہیں اوریہ کام سی آئی اے براہ راست کرتی ہے اور اس نے کئی ایسے گروہ بنا لیے ہیں جن کی وفاداری یقینی ہے اور یہ ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت اس وقت تک نہیں دے گا جب تک یہ یقین نہ کر لے کہ اتحاد اس کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور دہشتگردوں کا مسئلہ ختم کردیا ہے۔جس طرح امریکہ حافظ اور بشار کو حکومت میں لایا تو ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد اس کو نکال باہر کرے گا اور پھر عبوری حکومت قائم کرے گا جس طرح جنيوا کانفرنس کی شرائط میں طے کیا گیا تھا۔
یہ دورہ درج ذيل امور کی تصديق کرتا ہے:
اول امریکہ شام کی موجودہ حالت میں اکیلا فیصلہ ساز بننے کے لیے کام کر رہا ہے۔اس نے دوسروں سے ہٹ کر عبوری مرحلے کی طرف اکيلے پیش قدمی کرنا شروع کر دی ہے۔ جنيوا کانفرنس اپنی تمام سفارشات کے ساتھ ابھی بھی زندہ ہے۔ "اتحاد" امریکہ کو اپنى وفاداری ثابت کرنے کے لیے شدید جدوجہد کررہا ہے حتٰى کہ یہ امریکی منصوبے پر عمل کرتے ہوے اسے "نيا شام" دینے پر تیار ہے۔الجربا کے بیانات اوراتحاد کا موقف مکمل امریکی ہے۔ واشنگٹن میں الجربا نے کثرت رائے سے بننے والی "سول جمہوری حکومت" کے قیام کا مطالبہ کیا اور امریکی لب و لہجہ استعمال کرتے ہوے "تکفیری دہشتگردوں" سے لڑنے کی ضرورت کو بیان کیااور اس "تیسری درمیانی راہ" کی حمایت کی جو امریکی انتظامیہ کو قبول ہے، حتٰى کہ اس نے فری سيرين آرمی کو "خواہ کم مقدار ہی میں ہو" معیاری ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تا کہ توازن قائم کر کے بشار کو بات چیت کے لیے راضی کیا جا سکے۔اس طرح وہ امریکی حل نکل سکے جو امریکہ تیار کر چکا ہے اور نافذ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے..... اگر یہ اس طرح کرنے کے قابل ہوا۔
اے شام کے مسلمانوں! تم نے امریکہ کی شام میں حکمرانی میں رہنے کے تمام منصوبے ناکام بناتے ہوئے اسے تھکا دیا ہے، اب اس کے نوکر "الجربا اوراتحاد میں موجود اس کے ساتھیوں" کو اجازت مت دو کہ یہ شام میں قدم جما سکیں۔ تم نے قابل تعريف قربانیاں اس لیے نہیں ديں کہ ہماری سرزمین پر طاغوت کی حکمرانی قائم رہے۔ جان رکھو کہ تم امریکہ اور اس کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے قابل نہ ہو گے سوائے خلافت کی صورت میں اسلامی نظام قائم کر کےجو کہ اس خطے سے امریکہ کی جڑیں کاٹ دے گی اور اسے ذلیل کرتے ہوے نکال باہر کرے گی۔اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، ﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ "اور جو الله كى مدد کریں الله ضرور ان كى مدد كرتا ہے، يقينا الله بہت زبردست طاقت والا ہے" (الحج: 40)۔
ہم حزب التحریر صرف ریاست خلافت کا قیام چاہتے ہیں جو کہ ہمارے تمام معاملات کو درست کرے گی۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو الله نے ہم پر فرض کیا اور اس پر عمل کرنا الله کو راضی کرتا ہے اور وہی ہمیں فتح نصيب فرمائے گا۔ رسول اللهﷺ نے فرمایا: «وما تقرَّبَ إليَّ عبدي بشيءٍ أحبَّ إليَّ مما افترضتُه عليه» " جس چیز کے ذریعے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اس میں سے کوئی چیز مجھے ان فرائض سے زیادہ محبوب نہیں جو کہ میں نے اس پر عائد کیے ہیں" (البخاری)
الله سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکے ہیں کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ نہ شکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں" (النور: 55)۔

سوال کا جواب: چین کامقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکی اثرات

سوال: 7 اپریل 2014 کو انڈیا میں عام انتخابات کا آغاز ہوا، جو 12 مئی 2014 تک جاری رہیں گےاوراس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ ان انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، ایک بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جن کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں اور یہ اس کی اتحادی ہے جبکہ دوسری کانگریس ہے جو انگریز نواز ہے اورجس نے 2004 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسر اقتدار آنے کے بعدسے امریکہ کے ساتھ روابط میں سرد مہری کامظاہرہ شروع کیاتھا، کیونکہ اس کے تعلقات برطانیہ کے ساتھ تھے، نیز چین کا سامنا کرنے میں بھی خوف کا مظاہرہ کیا.....سوال یہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکہ کس حد تک اثر انداز ہوگا؟ اور ایشیا پیسفک کیلئے امریکی حکمت عملی اور اس تصادم میں جاپان اور آسٹریلیا کو بھی داخل ہونے پر آمادہ کرنے کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ کیا بھارت میں برسر اقتدار آنے والی پارٹی کی نوعیت اس امریکی پالیسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہو گی؟ مثلاً کانگرس یا بی جے پی میں سے کسی ایک پارٹی کو کامیابی حاصل ہوجائےتو اس پالیسی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا بھارت چین سے ٹکر لینے کے قابل ہے؟ اور چین وبھارت کے درمیان طاقت کے توازن کی صورتحال کیاہے؟
جواب: ان سوالات کا جواب مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھنے سے واضح ہوگا:
1۔ امریکہ نے ایشیا پیسفک بالخصوص مشرقی وجنوبی بحر چین میں اورگردوپیش کے ممالک کے ذریعے چین کامحاصرہ کرنے پر کام کیا۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے اس نے معاہدے، شراکت داریاں اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقا ت مستحکم کیے۔ ایک دہائی کے عرصے پر مشتمل اس حکمت عملی میں مزید سنجیدگی اُس وقت آئی جب امریکہ نے دیکھا کہ چین کا دائرہ تنگ کرنے کی پالیسی اب انتہاء کو پہنچ چکی ہے یعنی اس کیلئے اب مزید چین کا گھیرا تنگ کرنا ممکن نہیں رہا تو امریکہ اس کے قریب آنے لگا۔ امریکہ نے چین کو عالمی تجارتی تنظیم (WTO)میں شامل کیااور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائے اوراب چین کے ساتھ امریکہ کا اسٹرٹیجک مذاکرات ماضی کی طرح حساس نہیں رہا.....لیکن اس کے باوجود چین امریکی مدار میں آیا اورنہ ہی امریکی حکمت عملی کے مطابق اس کااتحادی بنا اور نہ ہی امریکہ اس قابل ہوسکا کہ مشرقی وجنوبی بحر چین کے خطے پرچین کے تسلط حاصل کرنے کی خواہشات کو محدود کرسکے۔ یہ علاقہ چین کا اہم اور ناگزیر علاقہ سمجھا جاتا ہے اور اپنی بقاء،یکجہتی اور آزادی کی حفاظت کرنے والی علاقائی بڑی ریاست کی حیثیت سے چین اب بھی اپنی عسکری و اقتصادی طاقت کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے، اس لئے وہ اپنی اقتصادی قوت کو نہ صرف منافع حاصل کرنے بلکہ بعض خطوں میں سیاسی اثرات کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کرنے لگا ہے اور اپنے خطے میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے پر وہ اس انداز سے کام کررہاہےجو امریکی حکمت عملی سے متصادم ہے یا جس کی وجہ سے امریکی نفوذ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بلاشبہ چین کی کچھ علاقائی خواہشات ہیں اور وہ یہ کہ اس خطے پر جسے وہ ناگزیر سمجھتا ہے، کنٹرول حاصل کرے اورچین صرف خشکی والے علاقے پر قناعت نہیں کرتا، ورنہ اس صورت میں وہ ایک بڑی اقتصادی ریاست ہوتے ہوئےبھی ان ہی زمینوں میں محصور ہوکر رہ جائے گا۔ امریکہ بھی چین کے سمندری علاقے کو اپنے لئے ناگزیر علاقے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لہذا امریکی غرور اس پر بس نہیں کرے گا کہ اس کی حدود میں کوئی دوسری بڑی علاقائی ریاست موجود ہو بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا ہی خطہ سمجھتا ہے، اس لئے وہ عالمی امریکی بالا دستی کی توسیع کیلئے چینی علاقے میں اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے .....لیکن تجارتی تعلقات اور اسٹرٹیجک مذاکرات میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے چین کے گردگھیرا تنگ کرنے کی پالیسی نہ تو چین کو امریکی مدار میں لا نے میں کامیاب رہی اور نہ ہی معروف معنوں میں چین اس کا اتحادی بنا بلکہ چین کی علاقائی پالیسی امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہے۔ اس لئے اب صرف گھیراؤ کی پالیسی کار گر نہیں رہی۔ پس امریکہ نے ایشیا پیسفک کے متعلق نئی پالیسی وضع کرلی جس کے نفاذ کیلئےاسےاپنے 60فیصد بحری اثاثوں کو اس خطے میں تعینات کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو علاقائی مسائل میں اُلجھا نے کے ذریعے اس کا گھیراؤ کرنے کی پالیسی کو بھی امریکہ نے اپنایا ہوا ہے۔ امریکہ نے گھیراؤ کی اس پالیسی پر خطے کے ممالک کو اکسانے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ وہ ممالک جو اس پالیسی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ان میں تین ممالک سرفہرست ہیں: بھارت، جاپان اور آسٹریلیا۔
2۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو اس کی چین کے ساتھ 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ان دونوں ممالک کےدرمیان سرحد سے متعلق کچھ حل طلب مسائل موجود ہیں۔ ربع صدی سے ان مسائل پر بات چیت کے ادوار منعقد کئے جاتے رہےہیں جس میں سب سے حالیہ 14واں دور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی شناخت کے لئے منعقد کیا گیا۔ پھر با ت چیت میں تعطل واقع ہوا اوراس کا 15واں دوراب تک منعقد نہیں ہو سکا کیونکہ 15 اپریل 2013 کو چینی فوجی بھارت کی سرحدپار کر کے لداخ کے علاقے میں گھس آئے۔ انھوں نے وہاں کیمپ لگائےپھر تین ہفتے بعد وہاں سے واپس چلے گئے۔ یہ ایک ایسا عملی مظاہرہ تھا جس کا مطلب بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ چین سرحد پار کرنے اور جنگ میں کودنے کی قابلیت رکھتا ہے، جیسا کہ اکتوبر 1962 میں ہوا تھا جب چینی فوج نے اروناچل پردیش پر یلغار کرکے بھارتی فوجیوں کو بھگا دیاتھا۔ پھر اس آپریشن کے ایک مہینہ بعدچینی فوج نے دوسری باربھارتی زمینوں پر حملہ کرکے لگ بھگ 2000 بھارتیوں کو قتل کرڈالا۔سرحدوں کی واضح نشاندہی کا معاملہ اب تک حل طلب ہے اور اس وقت جو سرحد ہے اسے "حقیقی لائن آف کنٹرول" کہا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہی وہ گرم نقطہ ہے جو مسلسل کشیدگی کا باعث ہے۔ تبت کے مسئلے سے پیدا شدہ کشیدگی اس کے علاوہ ہے جس پر چین نے 1950 میں قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقہ بھارتی سرحد سےمتصل ہے۔ لہٰذا بھارت نےاس مسئلے کو بھڑکانے کیلئے امریکہ کو شریک کیا اور یہ دونوں اس خطے کے بدھ مذہب کے پیروکاروں اور ان کے رہنما دلائی لاما کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت نے ایک جلاوطن حکومت کی حیثیت سے تبت کی مرکزی انتظامیہ کی بنیاد رکھ کر دلائی لامہ کے سپرد کردیا۔ یہ تمام وہ عوامل ہیں جو بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کو برابر قائم رکھے ہوئے ہیں۔
3۔ امریکہ چین وبھارت کے درمیان موجوداس کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنا یا ان دونوں کے درمیان مسائل کھڑے کرکے چین کو اس مسئلے کے اندر اُلجھانا چاہتا ہے مگر بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ بھارت کے نواح میں چین کی طرف سے جاری کئے جانے والے جارحانہ پیغامات اس بات کے شواہد ہیں۔ اس بنا پر امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ بھارت کو ورغلائے اور چین کو بے چین رکھنے اور اس کو سرحد کے مسائل میں مسلسل مصروف رکھنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ چنانچہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیااور سا تھ ہی دونوں ممالک نے ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھی کیا..... اس طرح امریکہ نے بھارت کے ساتھ کئی اقتصادی اور سیکورٹی معاہدات پر دستخط کئے، جن میں سے 2005 میں ہونے والے دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور2008 میں سول ایٹمی تعاون کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ ان تمام امور نےدونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کو وسیع کردیا ہے۔ نتیجتاً آج یہ دونوں ممالک ایسی متعدد مشترکہ فوجی مشقیں کررہے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف بھارت کے ساتھ امریکی اسلحے کے بڑے بڑے سودے بڑھتے جارہے ہیں..... جب بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے دسمبر 2009 کے اواخر میں یہ کہتے ہوئےبیان دیا کہ : "انڈین آرمی کو دو محاذوں پر جنگ کیلئے تیار رہنا چا ہئے" (اکانومسٹ 15 فروری 2010) تو امریکہ نے پاکستان پر مشرقی سرحد پر سے اپنی افواج میں تخفیف کرکے مغربی سرحد پرتعینات کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا تاکہ وہ ان قبائلی مجاہدین سے لڑیں جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑرہے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ بھارت چین کے ساتھ اپنے شمالی محاذ پر یکسو ئی کے ساتھ توجہ مرکوز کر سکے..... اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کو بڑھانے پر کام کیا، چنانچہ بھارت کی امریکی منڈیوں کو برآمدات کے حجم میں ان پانچ سالوں میں کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی انڈسٹریل یونین کے اندازوں کے مطابق سروسز کے حوالے سے دو طرفہ تجارت کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے چھ سالوں میں ساٹھ بلین ڈالر سے بڑھ کر 150 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی.....اس کے باوجود بھارت چین کے ساتھ زمینی جنگ سے ڈرتا ہے اور یہ بھی ہے کہ کانگریس پارٹی کے بھارتی حکام امریکہ کے اتنے وفادار نہیں جتنا کہ برطانیہ کے ہیں،ایسے میں وہ امریکی مفاد کیلئے چین کے ساتھ ناکام قسم کا تصادم مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
4۔ تب امریکہ نے دیکھا کہ بھارت کی نظریں بحر الکاہل کے مشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف پھیر دے اور اس کو اس خطے میں موجود تیل اور گیس کے وسائل کیلئے چین کا مقابلہ کرنے پر اُ کسائے اور اسے ایشیا پیسفک حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے پر تیار کرے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ بھارت نے چین کے ساتھ متنازعہ جزائر سپراٹلی کے ساحل کے سامنے تیل وگیس کی جستجو کیلئے ویتنام کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی ویمین نے یہ بیان دیا کہ "ہم یہ امید نہیں کرتے کہ ہم متنازعہ جنوبی بحر چین میں غیر ملکی قوتوں کو ملوث ہوتے ہوئے دیکھیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں ایسے کام کریں جن سے چین کی بالادستی، اس کے حقوق اور مفادات پر زد پڑے" (شرق اوسط 28 نومبر 2011)۔ اس سے قبل کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار "پیپلز ڈیلی" نے بھارت اور ویتنام پرچین کے مقابلے میں غیر ذمہ دارانہ کوششیں کرنے کا الزام لگایا۔ امریکہ بھی مسلسل بھارت کو اس خطے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ چنانچہ22 جولائی 2013کو نائب امریکی صدر جوزف بائیڈن نے بھارت کا دورہ کیا اور اس دورے سے قبل واشنگٹن میں پیشگی بیانات دئے اور بھارت کو مشرقی بحرالکاہل کی طرف متوجہ ہونے پر اُکساتے ہوئے کہاکہ "بے شک بھارت کی نظریں ایک سکیورٹی اور بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے مشرق پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے لئے یہ ایک خوش کن خبر ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "ہم خطے میں بھارت کی مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خطے میں زمینی اور سمندری نقل وحمل کے نئے روابط کی تشکیل کی کوششوں کو سراہتے ہیں" (آئی آئی پی ڈیجیٹل23 جولائی 2013)۔ اس سے ایک مہینہ قبل 24 جون 2013 کو امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے اپنے بھارتی ہم منصب سلمان خورشید کے ساتھ نئی دہلی میں ملاقات کی اورامریکہ و بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات کے چوتھے دور کی دونوں نے سربراہی کی۔ ان دونوں نے ایشیا اور بحر ہند وبحر الکاہل میں استحکام اور سلامتی کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی روابط کو مضبوط کرنے کیلئے مسلسل تعاون اور سمندری امن کی اہمیت پر زور دیا (آئی آئی پی ڈیجیٹل 24 جون 2013)۔ یہ تمام چیزیں اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ امریکہ بحرالکاہل کےمشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین پر توجہ دینے پربھارت کو ابھارنے کیلئے تگ ودو کررہا ہے۔ ا س کے باوجود ایشیا اور بحرالکاہل کیلئے امریکہ کی اس جدید حکمت عملی کو وضع کرنے کے دوسال گزرنے کے بعد بھی بھارت امریکہ کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ اس کے کچھ ایسے اسباب ہیں جن کا تعلق برطانیہ کی وفادار کانگریس پارٹی کی پالیسی کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف بھارت چین کا مقابلہ کرنے سے ڈرتا بھی ہے۔
5۔ جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے، تو امریکہ نے آسٹریلیا کے کردار کو جو امریکی مدار میں گھومتا ہے، فعال بنانے اور اقتصادی وسکیورٹی میدان میں اس کے ساتھ تعاون کو تیز تر کرنے پر کام کیا تاکہ وہ ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جائے۔ اس مقصد کیلئے اعلیٰ سطحی امریکی ذمہ دارا ن بالخصوص سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن، سابق امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا اورسابق چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے آسٹریلیا کے شہر پرتھ کا سفر کیا تاکہ اپنے آسٹریلوی ہم منصب شخصیات سے ملاقاتیں کریں۔ اس دن کلنٹن نے پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں امریکن ایشین سینٹر کے افتتاح کے دوران کہاکہ "آسٹریلیا متحرک تجارت کیلئے ایک دروازہ ہےاورتوانائی کےوسائل کی گزرگاہوں کیلئے ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ راستے بحر ہند کو بحرالکاہل کے ساتھ ملاتے ہیں اورانہی راستوں کے ذریعے پوری دنیا تک توانائی کے وسائل پہنچائے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں آسٹریلیا بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان ایک اسٹرٹیجک(تزویراتی) کراس پوائنٹ تشکیل دیتا ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ آسٹریلیا میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے، جس میں امریکہ کی سرمایہ کاری 100 بلین ڈالر سے زائد ہے کیونکہ عالمی اقتصاد کے دل میں ان پانیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ خطے میں امریکی توسیع کے حوالے سے مرکزی نقطہ ارتکاز تشکیل دیتے ہیں۔ ہم ان پانیوں کو بسا اوقات 'ہمارا ایشیائی محور' کا نام دیتے ہیں"۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ نے ایشیائی اور پیسفک خطے کو بالکل نہیں چھوڑا اور امریکہ بحرالکاہل میں ایک قوت کے طور پرہمیشہ رہے گا "۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ کی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے اور ان کے درمیان واقع خطوں کے حوالے سے نقطہ نظر، آسٹریلیا اور امریکہ کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن ہوگا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012 )۔ اس سینٹر میں کلنٹن نے بھارت سے متعلق امریکی نقطہ نظر کا ذکر کیا اور یہ کہ امریکہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ"امریکہ کی اسٹرٹیجک ترجیحات میں سے ہے کہ بھارت کی مشرق کی جانب دیکھنے کی پالیسی کی حمایت کرے اور ایشیائی اداروں اور امور میں بڑا کردارادا کرنے پرنئی دہلی کی حوصلہ افزائی کرے"۔ اس نے مزید کہا کہ "امریکہ مستقبل میں بھارت اور آسٹریلیا کی مشترکہ بحری مشقوں کا خیر مقدم کرتا ہےاور امریکہ بحر ہند کے بالمقابل ممالک کی یونین برائے علاقائی تعاون کے ساتھ کام کرنے کیلئے پُرعزم ہے، اس یونین کی قیادت 2013 میں آسٹریلیا سنبھالنے والا ہےجس میں امریکہ بات چیت کے شریک کار کی حیثیت سے حصہ لے گا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012)۔ یہ نظریہ اس خطے سے متعلق امریکی طرزِ فکر کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ امریکہ آسٹریلیا کو ایک سرگرم عنصر کے طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں چینی نقل وحرکت کا سامنا کرے۔ یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کرپایا ہے جس کی زمینی حدود چین کے ساتھ لگتی ہیں، اس لئے وہ آسٹریلیا کو جنوبی بحر چین کے پانیوں میں بھارت کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے۔ تو آسٹریلیابھارت کی بہ نسبت امریکی حکمت عملی کے نفاذ کے زیاد ہ قریب ہے۔ آسٹریلیا سرمایہ داریت کو اختیار کرنے والی ایک مغربی ریاست سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی دیگر مغربی استعماری ممالک کی طرح استعماریت کا دلدادہ ہے۔ اس لئے آسٹریلیا تمام استعماری لڑائیوں میں امریکہ کے ساتھ کام کرتااور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جیساکہ ماضی میں برطانیہ کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ چونکہ آسٹریلیا ان دونوں ریاستوں کے مدار میں چکرکاٹتا رہتا ہے، لہذا مسلسل ان کے ساتھ شریک رہے گا۔
6۔ جہاں تک جاپان کا تعلق ہے تو امریکہ جاپان میں اپنی قو ت کو مستحکم اور چین سے خطے کے دفاع میں جاپان کوبڑا کردار دینا چاہتا ہے۔ امریکہ نے 6 اپریل 2014 کو میزائل ڈیفنس کے مزید بحری جہاز جاپا ن کی طرف بھیجنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ "امریکہ2017 کے آغاز میں جاپان کی طر ف دو اضافی تباہ کن بحری جہاز (AEGIS ballistic missile defence ships) روانہ کرے گا۔ یہ اقدامات شمالی کوریا کی طرف سے اشتعال انگیزکاروائیوں کے جواب میں کئے جارہے ہیں جس نے ہمیں نئے جدید ایٹمی تجربات کی دھمکیا ں دی ہیں"۔ اس نے چین کو بھی اپنی عظیم طاقت کے غلط استعمال پر یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ " بڑی ریاستوں کے لئے ضروری ہے کہ جبر اور دہشت سے کام نہ لیں کیونکہ اس سے کشمکش جنم لیتی ہیں"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ "امریکہ چین کے ساتھ اس کی عسکری طاقت کے استعمال اور شفافیت کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتا ہے" (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ اس نے کریمیا میں روسی اقدامات کی طرف اشارہ کیا تاکہ چین کو جاپان کے ساتھ متنازعہ جزیروں کے حوالے سے اس قسم کی کاروائیوں سے متنبہ کردے۔ اس نے کہا کہ"آپ کے لئے طاقت، جبر اور دہشت کے ذریعے سرحدوں کے نقشے ترتیب دینا، زمینی امن اور ریاستوں کی بالادستی کوپامال کرنا ممکن نہیں رہا خواہ بحرالکاہل کے چھوٹے جزیرے ہوں یا یورپ کے بڑے ممالک"۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے گزشتہ ہفتے جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک کے وزرا ئے دفاع کے ساتھ ایک ملاقات کی اور جنوبی بحر چین میں بڑھتی ہوئی امریکی پریشانی پر انہیں متنبہ کیا (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ جاپانی کیوڈو ایجنسی نے 5 اپریل 2014 کو بتایا کہ"اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ امریکی سیکریٹری دفاع اور جاپانی وزیر دفاع اٹسونوری اونوڈورا (Itsunori Onodera) جاپانی دستور میں ترمیم کرکے جاپان کو اس بات کی اجازت دینے کے موضوع پر بات چیت کریں گے کہ وہ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سیکریٹری دفاع کے ساتھ اپنی میٹنگ میں اونوڈورا اسلحہ اور دفاعی سازوسامان کی منتقلی بارے میں گفتگو کریں گے اور ممکن ہے کہ طرفین دفاعی ساز وسامان کے میدان میں تعاون بڑھانے پر کسی معاہدے پر یکجا ہوجائیں"۔ یعنی امریکہ چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں خطے کا دفاع کرنے کیلئے جاپان کو کردار دیدے اوریوں اپنے کندھے ہلکے کردے اور جاپانیوں کے قومی جذبات کو ابھارے جن کی خواہش ہے کہ امریکی اثر ورسوخ سے آزاد ان کے اپنے نام سے کوئی ذاتی طاقت ہو جس کے ذریعے اپنی حفاظت کرسکیں۔
7۔ جہاں تک کانگرس یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کی صورت میں ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی پالیسی کے متاثر ہونے یا نہ ہونے کی بات ہےتو یقینا یہ متاثر ہوگی کیونکہ کانگرس کی انگریز نوازی پشت درپشت چلی آرہی ہے اوروہ ایک حدتک سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک بھی ہے جو اس نے اپنی بوڑھی مادام برطانیہ سے ہی لی ہوئی ہے۔ اس لئے کانگرس امریکہ کیلئے پریشان کن ہے جبکہ بیک وقت وہ برطانیہ کی طرح اس کے ساتھ کشتی بھی لڑتا ہے۔ چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کانگرس نے امریکہ کے ساتھ بعض عسکری معاہدات اور تجارتی تعلقات تو قائم کئے مگر سیاسی تعلقات اور اسٹرٹیجک مسائل میں اس کے لئے تشویش پیدا کرتا رہاہے۔ مثال کے طور پر کانگرس نے 2004 کی اپنی انتخابی مہم، جس میں اسے کامیابی ملی، کے دوران ایک بیان تیار کیا ۔ اس بیان میں اس نے امریکہ سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیا اور اس سے پہلے برسر اقتداررہنے والی جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ "یہ بات افسوسناک ہے کہ بھارت جیسا بڑا ملک یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی ماتحت ریاست کی سطح پر آگئی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھتی ہیں کہ بھارت اس کی ماتحت ریاست ہے۔ اس صورتحال نے بی جے پی کی حکومت کو یونائیٹڈ اسٹیٹس کی ترجیحات اور پالیسیوں کے رنگ میں رنگنے پر تیار کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کو بھارت کی اپنی خارجہ اور ناگزیر پالیسیوں اور اپنی قومی سلامتی کے مفاد سے دلچسپی نہیں "۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کانگرس امریکہ کیلئے کس حد تک پریشان کن ہے مگر اس کے باوجود امریکہ نے اسٹرٹیجک مذاکرات بند نہیں کیے بلکہ جون 2010 میں اس کو دوبارہ شروع کیا جو 2004 میں صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کلنٹن ، جو سمینار برائے مذاکرات میں امریکی وفد کی قیاد ت کر رہی تھی، نے بھارت کے بارے میں کہا کہ "یہ ہمار ا وہ ساتھی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ وہ ساتھی ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں"۔ اس لئے امریکہ کی وفادار بی جے پی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سے کانگرس کو اقتدار ملا ہے تب سے بھارت کا امریکی پالیسی کے نفاذ کی سمت میں چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہاں یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب امریکہ اس کو بہت زیادہ اکسائے جیسا کہ ہم نے اس سے قبل ذکر کیا۔ اس کے باوجود بھارت دیرینہ وجوہات کی بنیاد پر کترارہا ہے۔ یہ وجوہات بی جے پی کی حکومت کے دوران بھی موجود تھیں، اس کے باوجود یہ پارٹی امریکی پالیسیوں کو نافذ کرتے وقت ان وجوہات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ نے کانگرس پارٹی کو ایسا وفادار بنایا ہوا ہے جو مکمل طور پر اس کی تقلید کررہی ہے اور برطانیہ نے بھارت چھوڑ جانے کے بعد سے اسی کو حکومت سپرد کی تھی، یہ ہمیشہ حکومت میں رہی، ما سوائے 1998 تا 2004 کے عرصے میں، اُس وقت امریکی وفادار بی جے پی کو کا میابی ملی تھی، پھر 2004-2009 کے انتخابات میں اسے دوبارہ کامیابی ملی تھی۔
جہاں تک حالیہ انتخابات کی بات ہے جو7اپریل2014 کو شروع ہوئے، تو اس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ بعض سروے اداروں نے کہا ہے کہ ان کے نتائج اس طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی متوقع ہے۔ تو اگر رائے عامہ اور بھارت کے انتخابا ت کے نگران اداروں کی توقعات سچ ثابت ہوتی ہیں اور بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے خواہ اکثریت حاصل کرکے اپنی مستقل حکومت بنائے جو کہ ایک حد تک بعید نظر آتاہے یا پھر نتائج اس قسم کے ہوں کہ وہ تشکیل پانے والی کسی بھی حکومت سے اپنی شرائط منواسکتی ہو دونوں صورتوں میں امریکی پالیسی یعنی بھارت کے ذریعے چین کو تنگ کرنے کی پالیسی، کانگرس کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ قابل عمل ہوگی، بلکہ زیادہ آسان ہوگی جیساکہ اس سے پہلے جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں تھا۔ اس وقت کانگرس کے کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعدلوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور جب 2004 میں کانگرس کو دوبارہ حکومت ملی تو امریکاکی بھارتی حکمت عملی کے خلاف الجھن اور گڑبڑپیدا کرنے کی پالیسی دوبارہ شروع ہوئی مگر اس سے قبل کہ کانگرس امریکی حکمت عملی میں معاونت کیلئےامریکہ کی طرف قدم بڑھائے، امریکہ سے کشتی لڑ کر اس سے اپنے مفاد کے معاہدات کروانا چاہتی ہے۔
8۔ جہاں تک چین اور بھارت کے درمیان تقابل کی بات ہے، تو کئی وجوہات سے چین کا پلڑا واضح طور پر بھار ی نظر آتا ہے:
پس چین اگر چہ اپنی آئیڈیالوجی کا حامل نہیں اور خارجہ پالیسی اور معاشی واقتصادی پالیسی میں اس سے دستبردار ہوچکا ہے، اسی طرح زندگی کے متعدد میدانوں میں اس کو خیرباد کہہ دیا ہے، مگر کیمونسٹ پارٹی کے نام سے حکومت کی حد تک اس کی حفاظت اس لئے کرتا ہےتاکہ پارٹی اور اس کے پیروکاروں کے مفادات اور ریاست کی آزادی واستحکام کاتحفظ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی سےنقل وحرکت کرسکتا ہے اوراسی وجہ سے ایک ماتحت یا مدار میں چکر کاٹنے والی ریاست بننے سے بچا ہوا ہے بلکہ وہ عالمی سطح کی بڑی ریاست بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ قومی دفاعی یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے چینی کرنل لیو مینگو، جو نوجوان افسروں کو تربیت دیتا ہے، نے اپنی کتاب "چینی خواب " میں اس کو بیان کیا ہے اور چینی قوم کو دعوت دی ہےکہ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج تیار کرے اور یہ کہ عالمی ہیرو امریکہ پر چڑھائی کرنے کیلئے جلد متحرک ہوجائے۔ اس نے اپنے ملک کو نمبر ون بننے کیلئے عالمی اہداف ومقاصد کے حصول سے متعلق نرمی وعاجزی کو دور پھینکنے بلکہ ان اہداف کی طرف چھلانگ لگانے کی دعوت دی ہے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ اگرچین اکیسویں صدی میں عالمی نمبر ون ریاست اور سپر طاقت نہیں بن پاتا تو چین کو حتمی طور پر کنارے لگایا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ چین کو اپنی قوت اور چیلنج کی صلاحیت کا بھر پور احساس ہے اور اگر صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ امریکہ کےساتھ مقابلہ صرف چین کے خلاف امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کی حد تک کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اور اگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر قو ت کے ساتھ اثر انداز ہوتا۔ بہر حال چین کو اپنی قوت کا احساس ہے اور بھلے صرف اپنے علاقے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی خود مختاری کی بقاء کی جد وجہد کرتا رہتاہے۔
اور جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کا نہ توکوئی مبداء (آئیڈیا لوجی ) ہے اورنہ ہی کسی آئیڈیا لوجی سے نکلنے والے افکار اس کے پاس موجودہیں۔ البتہ وہاں سرمایہ داریت کو اس لئے نافذ کیا جاتاہے تاکہ وہ مغرب بالخصوص برطانیہ کی ماتحتی کی ضمانت فراہم کرسکے اوراس چیزکا اس کی ترقی یا اس کو ایک آزاد ریاست بنانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی خطے کی باقی ماتحت ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے کیونکہ اس پر سرمایہ دارانہ نظام استعماری قوت کے ذریعے مسلط کیا گیا اور جسے اب تک مسلط رکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ نہ توایک خود مختار ریاست ہے اور نہ ہی اس کے پاس قوت وسرعت کے ساتھ کام کرنے، شعور اور ذاتی منصوبہ بندی کی کوئی اُمنگ موجود ہے۔ یہ اب بھی ایک ماتحت ریاست ہے اوراس کی پالیسیاں آزاد نہیں ہوا کرتیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ سیاسی میدان میں سست رفتاری کے ساتھ حرکت کناں ہے اور ہمیشہ سے بیرونی اثرات قبول کرتا ہے، بجائے اس کے کہ خود کسی پر اثر انداز ہو، نہ ہی کسی کا روائی میں پہل کرتا ہے۔ تو یہ ہمیشہ سے اثر پذیر ی کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، خواہ برطانیہ کی طرف سے ہو جو اس کا پرانا آقا ہے یا امریکہ کی طرف سے جو اس کے ارد گرد ہاتھ مارتا رہتا ہے جہاں اس نےاپنے پیروکاروں کی ایک مضبوط سیاسی قوت تشکیل دی ہے۔ اس لئے اس پہلوسے یہ چین سے مختلف ہے۔ فکری طور پر بھارت ایک پسماندہ مملکت ہے۔ اس کے کوئی متعین فکری اصول نہیں ہیں۔ اس کے سیاسی بساط پر کام کرنے والے بھی کسی اصول و ضوابط کے پابند نہیں۔ اس لئے اس میں مالیاتی وسیاسی کرپشن عام ہے اس حد تک کہ تقریباً تمام کے تمام سیاست دانوں کی یہی حالت ہے۔ اس لئے اس کا علاقائی یا عالمی سطح پر ایک بڑی ریاست بننا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ممکن ہےوہ یہ کہ بھارت مستقبل میں مدار والی ریاست بن جائے اور کسی دوسری بڑی ریاست کے مدار میں چکر کاٹنے لگے، خواہ یہ مدار امریکہ کا ہو یا برطانیہ کایا دونوں کا۔
یہ تو تھا سیاسی پہلو سے، جہاں تک اقتصادی پہلو کا تعلق ہے تو چینی معیشت بھارت کی معیشت سے چار گنا تک بڑی ہے۔ اس کے ساتھ چین غربت کی سطح کو کم کرنے کے قابل ہوا ہے جبکہ دنیاکے 66فیصد غریب لوگ بھارت میں رہتے ہیں اور بھارت چین کے ساتھ معاشی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے ایک بڑا وسیع صنعتی شعبہ قائم کر لیا ہے جس کے باعث اس کے پاس کرنسی کے ریزرو اثاثوں کی ایک بڑی مقدار موجود ہوئی ہے، جو اس کو عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے کے قابل بناتا ہے۔ جہاں تک بھارت میں صنعت سازی کا تعلق ہے تو پیداوار اور صنعتی فروغ کے حوالے سے بھارت چین کی سطح سے ابھی کوسوں دور ہے، بالخصوص بھاری مشینری اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ بھارت کے اندرسرے سے اس طرح کے کام ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ چین کی بہ نسبت اس کو پسماندہ کہا جاسکتا ہے۔
جہاں تک عسکری پہلو کا تعلق ہے تو چین کا سرکاری فوجی بجٹ 119 بلین ڈالر ہے، یہ 38 بلین ڈالر کے بھارتی دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چین نے اپنی مسلح افواج کی جدید تربیت کے حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے۔ چین اب اپنے پلیٹ فارم بنارہاہے (یہ پلیٹ فارم بحری جہاز، ٹینک اور لڑاکا طیاروں جیسے بھاری فوجی سامان کی تیاری کیلئے ہے)۔ چین اپنے بیڑے کی توسیع کررہا ہے اور اپنے خطے پر تسلط حاصل کرنے کیلئے سرگرم اقدامات کررہا ہے۔ لیکن بھارت جس نے حال ہی میں اپنے فوجی پروگرام کی تشکیل جدید کے لئے سرمایہ کی فراہمی کے لئے اپنے وسائل کو ترقی یافتہ بنانا شروع کیا ہے، اب تک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ دوسری طرف بھارت فوجی سامان درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ باوجودیکہ اس کے اپنے داخلی عسکری وسائل کی تجدید ی کوششوں پر دودہائیاں گزرچکی ہیں مگر یہ اب تک قابل ذکر پلیٹ فارم کو جدید شکل دینے میں ناکام ہوا ہے۔ پیٹر ڈی ویز مین، جو سٹاک ہولم میں انسٹیٹوٹ فار انٹرنیشنل پیس ریسرچ کا ایک سینئر تحقیق کار ہے، کہتا ہےکہ "میں نہیں سمجھتا کہ بھارت کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا ملک جس نے اسلحہ بنانے میں سنجیدہ ہوکرکام کیا ہو اور وہ کلی طور پر ناکام ہوا ہو"۔ (اسلحہ درآمد کرنے والادنیا کا بڑا ملک، انڈیا علاقائی سطح پر اسلحہ فروخت کرنا چاہتا ہے، نیویورک ٹائمز، مارچ 2014)۔
اس طرح چین اوربھارت کے درمیان تقابل کریں تو چین کا پلڑا بھارت کے مقابلے میں کئی گنا بھاری ہے۔
9۔ اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے وفادار پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کے ساتھ بھارت کی مغربی سرحد کو محفوظ بناکر چین کے ساتھ کشمکش کیلئےبھارت کو شمالی محاذ کی طرف لگایا۔ اس کی خاطرامریکی پٹھو پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ نواز بی جے پی کے دور حکومت میں بھارت کو بڑی بڑی مراعات دیں۔ اور جب کانگرس کو اقتدار ملا تو کانگرس نے حقیقی لائن آف کنٹرول کہلائے جانے والے اس محاذ پر کاروائی کے حوالے سے پسپائی اختیار کی کیونکہ بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پارٹی انگریزوں کی وفادار ہے جو امریکی منصوبوں کے مطابق چال چلن پر بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ تب امریکہ نے بھارت کو مشرق پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایات دیں یعنی بحر الکاہل کے خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف اور اس کو اس بات پر اکسایا کہ بھارت وہاں پر موجود تیل و گیس کے ذخائر سے اپنا حصہ وصول کرنے کاحق رکھتا ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اس نے ویتنام کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا جو ان ذخائر پر اپنے حق کا دعویدار ہے اور چین کےساتھ جزائرسپراٹلی پر اس کے تنازعات چل رہے ہیں.....اس طرح امریکہ نے آسٹریلیا کوبھی اس جانب متوجہ کیا تاکہ چین کے مقابلے کیلئے کئی ممالک پر مشتمل بلاک کی تشکیل کی کوششوں میں اس کوشریک کرسکے.....امریکہ اب جاپان کو زیادہ فعال کردار دینے پر کام کررہا ہے تاکہ دفاع کی ذمہ داریوں میں کمی کرسکے۔ اور اگر بی جے پی حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو اس امر کا امکان ہے کہ مشرقی خطے یعنی جنوبی بحر چین میں امریکہ کی ہمرکابی میں بھارت کی سرگرمی بڑھ جائے۔ جہاں تک چین اور بھارت کی طاقت کا تعلق ہے تو ان کے درمیان بڑا فرق ہے اور اگرچین صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ صرف چین کے حوالے سے امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کے طورپر امریکہ کا مقابلہ کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اوراگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر مضبوط انداز سے اثر انداز ہوسکتاتھا۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک