30 مئی 2014، بروز جمعہ کئی خبر رساں اداروں، بشمول رائٹرز، گارڈین اور سی این این نے بھارت میں عصمت دری کے دو خوفناک واقعات پر بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے کے بارے میں خبر شائع کی۔ جبکہ نئی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وہ جنسی حملوں کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی کرائسز سیل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔جمعرات کے روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ شمالی صوبے اتر پردیش کے ایک گاؤں میں نچلی ذات کی دو نو عمر لڑکیوں کی لاشیں اجتماعی زیادتی کے بعد ایک درخت سے لٹکی پائی گئیں تھیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان دونوں کزنوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ظاہر کرتی ہے کہ متعدد آئینی تحفظات اورخصوصی قوانین کے باوجود نچلی ذات کی خواتین کو کئی طرح کے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق نئے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے اتر پردیش حکومت کو اس حملے کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خواتین کی عزت و حرمت اور زندگیوں کا تحفظ آج بھارت کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت کو عصمت دری کے گڑھ کا لقب بھی دیا جاچکا ہے۔ 14 جنوری 2014 کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق 1971 سے لے کر اب تک زیادتی کے واقعات میں دس گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس نے قتل اور اغوا جیسے دیگر سنگین جرائم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کے مطابق 1971 میں زیادتی کے2487 واقعات ہوئے جبکہ 2012 میں ایسے واقعات کی تعداد 24923 تھی، جس سے دس گنا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
اگرچہ خواتین اور نچلی ذات کے ساتھ امتیازی سلوک کی تاریخ ہزاروں سال پرانے ہندو مذہب اور ثقافت سے وابستہ ہے، جو جان بوجھ کر خواتین کو عمومی طور پر اور نچلی ذات کی خواتین کو خصوصی طور پر نا پسندیدہ، غیر ضروری، کم حیثیت اور سستی اشیاء کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب مغرب سے درآمد شدہ سرمایہ دارانہ اور لبرل نظریات نے اس مسئلے کو دوگنا کردیا ہے، جہاں خواتین کو ایک بار پھر اشیائے صرف کی فروخت کے لیے محض ایک چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور ان کی نسوانیت کو بیچ کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔بھارت میں ایک ہزار سال تک اسلامی دورِحکومت میں تو اسلامی قوانین کے نفاذ اور اسلام کے انصاف پر مبنی عدالتی نظام کے باعث اس مسئلے پر تقریباً قابو پالیا گیا تھا۔لیکن اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی عزت و حرمت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔جس کی ایک مثال ہمسایہ ملک پاکستان ہے جہاں گزشتہ مہینے ہی شمالی علاقے مانسہرہ میں ایک لڑکی کو چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گاڑی سے باہر پھینک دیا گیا، جس کی جان خوش قسمتی سے بچ گئی۔
بھارتی اور پاکستانی حکومتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خواہ وہ کتنے ہی قوانین منظور کر لیں، کتنے ہی بحرانی مراکز (crisis centres) قائم کر لیں اور چاہے کتنے ہی اہلکاروں کو معطل کر لیں؛ خواتین کی زندگی اور عزت کے تحفظ کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہو سکتا جب تک یہ بوسیدہ اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی اس نظریے پر ہے کہ سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اور ذریعہ استعمال کیا جائے، جس میں اشتہارات، فلموں اور ڈراموں کی شکل میں خواتین کی نسوانیت کی فروخت بھی شامل ہے۔ یہ کھربوں ڈالر پر مبنی بالی وڈ صنعت خواتین کو ایسی نیم برہنہ، سستی اور سطحی اشیاء کے طور پر پیش کرتی ہے جو مرد کے ہاتھوں استحصال کے لیے آسانی سے دستیاب ہوں۔ نیز یہ حکومتیں اس عمل کو آزادئ اظہار اور شخصی آزادی کا جزو سمجھتی ہیں، جسے اس ناقص سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تحفظ حاصل ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے حتمی انسانی آزادی کا یہ تصور ہی مردوں اور خواتین دونوں کے مصائب کا سبب ہے۔ آزادی کا یہ تصور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی غیر اخلاقی خواہشات کو بلا حدود و قیود اور اور روک ٹوک پورا کریں اور تباہ حال عدالتی اور پولیس نظام کے باعث انہیں کسی سزا کا بھی خوف نہ ہو۔ چنانچہ ایک طرف تو عوام کو خواتین کی غلط اور غیر حقیقی تصویر دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف جلد شادیوں کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہیں جس سے غیر قانونی اور ناجائز تعلقات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ بھی نہ صرف خواتین اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو فروغ دیتے ہیں بلکہ خواتین کی غلط تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کبھی بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے، خواہ یہ حکومتیں کتنے ہی ایسے قوانین بنا لیں اور انہیں نافذ کرنے کی کوشش کر لیں۔
صرف درست قوانین اور صحیح قانونی نظام، جو تیزی سے کام کرے، وہی مجرموں کو قرار واقعی سزا دے سکتا ہے؛ایسی سزا جو اس گھناؤنے جرم کا خیال تک ذہن میں لانے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ لہٰذا خواتین کے ساتھ اس غیر انسانی سلوک کی اصل وجہ قوانینِ الہٰی کے نظام کی غیر موجودگی ہے جو خالق نے خود ہمیں عطا کیا ہے۔ اور جو عوام کا منتخب کردہ خلیفہ اسلامی ریاست خلافت کے تحت نافذ کرتا ہے کیونکہ عوام اسے اس شرط پر بیعت دیتے ہیں کہ وہ ان پر اسلام نافذ کرے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا خالق اپنی تخلیق کو جانتا ہے۔ اور انسانی ذہن محدود ہونے کے باعث ایک خاص حد سے آگے نہیں دیکھ پاتا۔ جب تک یہ دیمک زدہ اور کھوکھلا سرمایہ دارانہ نظام اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک منصفانہ اور مبنی بر عدل اسلامی حکومتی نظام، خلافت کو نہیں لایا جاتا، خواتین کی زندگیوں اور انکے وقار کا تحفظ ممکن نہیں۔ کیونکہ ریاست خلافت میں معاشرتی، عدالتی اور حکومتی نظام خواتین کی حفاظت کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؛ اور ان کے ہمراہ تعلیمی اور میڈیا پالیسیاں معاشرے میں ایک درست اخلاقی ڈھانچے کے ضامن ہوتے ہیں، جیسا کہ خلافت کے 1300 سالہ دورِ حکومت میں دیکھا گیا۔پس عورت محفوظ و مامون اورمحترم ہوتی ہے، اس کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہ مردوں کے ہمراہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے، جبکہ اسے اس کام کے دوران نہ تو تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اورنہ ہی اسے ہراساں کیے جانے یا حملے کا خوف ہوتا ہے۔ اسے ایک جنسی علامت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بحیثیت انسان قابلِ قدر ہوتی ہے، تاکہ وہ ماں، بیوی اور بیٹی کے طور پر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی کے بعدکسی بھی شعبے میں اپنی خدمات انجام دے سکے۔نیز ایک منصفانہ عدالتی نظام اور کرپشن سے پاک پولیس، جو اپنے ہر عمل کے لیے خلیفہ کو براہِ راست جوابدہ ہوتی ہے، بھی خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ خلافت فوراًقائم کی جائے۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْوَلِيدَ يَضْرِبُهَا وَقَالَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حَدِيثِهِ تَشْكُوهُ قَالَ قُولِي لَهُ قَدْ أَجَارَنِي قَالَ عَلِيٌّ فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَأَخَذَ هُدْبَةً مِنْ ثَوْبِهِ فَدَفَعَهَا إِلَيْهَا وَقَالَ قُولِي لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَارَنِي فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْوَلِيدَ أَثِمَ بِي مَرَّتَيْن (1257 مسند أحمد بن حنبل مسند العشرة المبشرين بالجنة مسند الخلفاء الراشدين)
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الولید بن عقبہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور شکایت کی: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بے شک ولید نے مجھے مارا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اسے کہو، انہوں(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری حفاظت کی"۔ وہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد دوبارہ آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا!" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص کا ایک حصہ پھاڑا اور فرمایا: "اسے کہو؛ بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تحفظ دیا"۔ وہ پھر تھوڑے عرصے کے بعد واپس آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں دیا!" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: "اے اللہ! ولید سے آپ نمٹیں! کیونکہ اس نے دو بار میری نافرمانی کی ہے"۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ام مصعب
ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر