الثلاثاء، 29 صَفر 1446| 2024/09/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

شمالی وزیرستان آپریشن:پاک فوج امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنے گی حزب التحریر نے ملک بھر میں شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف مظاہرے کیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا : "شمالی وزیرستان آپریشن، پاک فوج امریکی جنگ کا ایندھن"، "صرف امریکی فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف آپریشن سے ملک میں امن قائم ہو گا"۔
مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ راحیل-نواز حکومت امریکی احکامات کی پیروی میں شمالی وزیرستان میں موجود ان مجاہدین کے خلاف آپریشن کررہی ہے جو افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت بجائے اس کے کہ اِن مجاہدین کے ساتھ مل کر خطے سے امریکہ کو نکالتی جو کہ دہشت گردی اور عدم استحکام کی اصل وجہ ہے، اس نے امریکہ کا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا اور شمالی وزیرستان میں اندھادھند بمباری شروع کردی جس کے نتیجے میں عورتیں اور بچے ہلاک جبکہ گھر اور بازار تباہ و برباد ہورہے ہیں۔
مظاہرین نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے اور افواج پاکستان کو اس امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنانے کی شدید مذمت کی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ آپریشن امریکی انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کے خلاف شروع کیا جانا چاہیے جو شہری و فوجی علاقوں میں بم دھماکوں اور قتل کے وارداتوں کی منصوبہ بندی اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی نگرانی کرتے ہیں۔ مظاہرین نے افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ راحیل-نواز حکومت کو اپنی حمائت سے محروم کردیں جس کو نہ تو اپنے شہریوں اور اور نہ ہی افواج کی کوئی پروا ہے اور ان کے مقدس خون کو دنیا کے واحد مسلم ایٹمی ریاست کی دہلیز پر امریکی موجودگی کے مستقل قیام کو یقینی بنانے کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ مظاہرین نے مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں، جو مجاہدین اور افواج کی قوت کو یکجا کر کے خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرے گی اور خطے کو اس کا کھویا ہوا اَمن اور استحکام دوبارہ لوٹائے گی۔

2014_06_04_Pakistan_MO_1_pic

بجٹ15-2014 پاکستان کو استعماری قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیل دے گا

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 15-2014میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان آئی۔ایم۔ایف کے قرضوں کے جال سے کسی صورت نکل نہ پائے۔ یہ بجٹ تقریر 10 مئی 2014 کو آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ہی ایک طویل شکل تھی۔ خود اپنے ہی منہ سے اپنی تعریفیں کر کرکےعوام کو بیزار اور ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ راحیل-نواز حکومت آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی فوٹو کاپیاں جاری کردیا کرے۔ اس بجٹ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ آئی۔ایم۔ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو نجکاری کے نام پر بیچ دیا جائے کہ جن کو استعمال کر کے پاکستان خود اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ معیشت ، جو پہلے ہی بجلی اور گیس کے بحران کے باعث زوال کا شکار ہے، پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کراس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عام آدمی ،جو پہلے ہی بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ سے قریب المرگ ہے ، پر مزید 231 ارب روپے کے نئے ٹیکس ڈال کر اسے زمین سے لگا دیا گیا ہےجبکہ دوسری جانب اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں سہولت فراہم کی جائے تا کہ انتہائی قیمتی قومی اثاثوں کونجکاری کے نام پر با آسانی خرید کر اپنے منافعوں میں کئی گنا اضافہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ موجودہ بجٹ کا ایک تہائی حصہ، 1325ارب روپے، قرضوں کی اصل رقم کی واپسی اور ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیے جائیں گے جو کہ نہ صرف بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اسے جواز بنا کر پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئندہ بھی حکومت مزید قرضے لے گی ۔
ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی کچھ اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ اور کچھ پر کمی کرکے ایک روایتی استعماری بجٹ ہی پیش کیا گیا ہے۔ راحیل-نواز حکومت نےمعیشت کو درپیش بنیادی مسائل پر کوئی ایسا انقلابی تصور پیش نہیں کیا کہ جس پر چل کر پاکستان کی معیشت حقیقی معنوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور امریکہ اور اس کے استعماری اداروں آئی۔ایم۔ایف اور عالمی بینک کی شکنجوں سے آزادی حاصل کرسکے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ آمریت ہو یا جمہوریت ان پر سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ کیا جاتا ہے اور جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا نہ تو پاکستا ن اور نہ ہی اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔صرف ہماری خلافت ہی عوامی اثاثوں یعنی تیل، گیس اور معدنی وسائل اور ریاستی اثاثوں یعنی بھاری صنعتوں، اسلحہ سازی کی صنعت، مواصلات، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے ذریعے اور زراعت پر خراج سے اس قدر وسائل پیدا کرے گی کہ بیرونی سودی قرضوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کی جدوجہد کا حصہ بن جائیں۔

بھارت میں دو نو عمر لڑکیوں کے سفاکانہ قتل اور اجتماعی زیادتی کا واقعہ، عورتوں کے تحفظ میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ہے

30 مئی 2014، بروز جمعہ کئی خبر رساں اداروں، بشمول رائٹرز، گارڈین اور سی این این نے بھارت میں عصمت دری کے دو خوفناک واقعات پر بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے کے بارے میں خبر شائع کی۔ جبکہ نئی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وہ جنسی حملوں کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی کرائسز سیل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔جمعرات کے روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ شمالی صوبے اتر پردیش کے ایک گاؤں میں نچلی ذات کی دو نو عمر لڑکیوں کی لاشیں اجتماعی زیادتی کے بعد ایک درخت سے لٹکی پائی گئیں تھیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان دونوں کزنوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ظاہر کرتی ہے کہ متعدد آئینی تحفظات اورخصوصی قوانین کے باوجود نچلی ذات کی خواتین کو کئی طرح کے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق نئے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے اتر پردیش حکومت کو اس حملے کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خواتین کی عزت و حرمت اور زندگیوں کا تحفظ آج بھارت کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت کو عصمت دری کے گڑھ کا لقب بھی دیا جاچکا ہے۔ 14 جنوری 2014 کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق 1971 سے لے کر اب تک زیادتی کے واقعات میں دس گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس نے قتل اور اغوا جیسے دیگر سنگین جرائم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کے مطابق 1971 میں زیادتی کے2487 واقعات ہوئے جبکہ 2012 میں ایسے واقعات کی تعداد 24923 تھی، جس سے دس گنا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
اگرچہ خواتین اور نچلی ذات کے ساتھ امتیازی سلوک کی تاریخ ہزاروں سال پرانے ہندو مذہب اور ثقافت سے وابستہ ہے، جو جان بوجھ کر خواتین کو عمومی طور پر اور نچلی ذات کی خواتین کو خصوصی طور پر نا پسندیدہ، غیر ضروری، کم حیثیت اور سستی اشیاء کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب مغرب سے درآمد شدہ سرمایہ دارانہ اور لبرل نظریات نے اس مسئلے کو دوگنا کردیا ہے، جہاں خواتین کو ایک بار پھر اشیائے صرف کی فروخت کے لیے محض ایک چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور ان کی نسوانیت کو بیچ کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔بھارت میں ایک ہزار سال تک اسلامی دورِحکومت میں تو اسلامی قوانین کے نفاذ اور اسلام کے انصاف پر مبنی عدالتی نظام کے باعث اس مسئلے پر تقریباً قابو پالیا گیا تھا۔لیکن اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی عزت و حرمت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔جس کی ایک مثال ہمسایہ ملک پاکستان ہے جہاں گزشتہ مہینے ہی شمالی علاقے مانسہرہ میں ایک لڑکی کو چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گاڑی سے باہر پھینک دیا گیا، جس کی جان خوش قسمتی سے بچ گئی۔
بھارتی اور پاکستانی حکومتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خواہ وہ کتنے ہی قوانین منظور کر لیں، کتنے ہی بحرانی مراکز (crisis centres) قائم کر لیں اور چاہے کتنے ہی اہلکاروں کو معطل کر لیں؛ خواتین کی زندگی اور عزت کے تحفظ کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہو سکتا جب تک یہ بوسیدہ اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی اس نظریے پر ہے کہ سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اور ذریعہ استعمال کیا جائے، جس میں اشتہارات، فلموں اور ڈراموں کی شکل میں خواتین کی نسوانیت کی فروخت بھی شامل ہے۔ یہ کھربوں ڈالر پر مبنی بالی وڈ صنعت خواتین کو ایسی نیم برہنہ، سستی اور سطحی اشیاء کے طور پر پیش کرتی ہے جو مرد کے ہاتھوں استحصال کے لیے آسانی سے دستیاب ہوں۔ نیز یہ حکومتیں اس عمل کو آزادئ اظہار اور شخصی آزادی کا جزو سمجھتی ہیں، جسے اس ناقص سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تحفظ حاصل ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے حتمی انسانی آزادی کا یہ تصور ہی مردوں اور خواتین دونوں کے مصائب کا سبب ہے۔ آزادی کا یہ تصور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی غیر اخلاقی خواہشات کو بلا حدود و قیود اور اور روک ٹوک پورا کریں اور تباہ حال عدالتی اور پولیس نظام کے باعث انہیں کسی سزا کا بھی خوف نہ ہو۔ چنانچہ ایک طرف تو عوام کو خواتین کی غلط اور غیر حقیقی تصویر دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف جلد شادیوں کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہیں جس سے غیر قانونی اور ناجائز تعلقات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ بھی نہ صرف خواتین اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو فروغ دیتے ہیں بلکہ خواتین کی غلط تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کبھی بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے، خواہ یہ حکومتیں کتنے ہی ایسے قوانین بنا لیں اور انہیں نافذ کرنے کی کوشش کر لیں۔
صرف درست قوانین اور صحیح قانونی نظام، جو تیزی سے کام کرے، وہی مجرموں کو قرار واقعی سزا دے سکتا ہے؛ایسی سزا جو اس گھناؤنے جرم کا خیال تک ذہن میں لانے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ لہٰذا خواتین کے ساتھ اس غیر انسانی سلوک کی اصل وجہ قوانینِ الہٰی کے نظام کی غیر موجودگی ہے جو خالق نے خود ہمیں عطا کیا ہے۔ اور جو عوام کا منتخب کردہ خلیفہ اسلامی ریاست خلافت کے تحت نافذ کرتا ہے کیونکہ عوام اسے اس شرط پر بیعت دیتے ہیں کہ وہ ان پر اسلام نافذ کرے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا خالق اپنی تخلیق کو جانتا ہے۔ اور انسانی ذہن محدود ہونے کے باعث ایک خاص حد سے آگے نہیں دیکھ پاتا۔ جب تک یہ دیمک زدہ اور کھوکھلا سرمایہ دارانہ نظام اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک منصفانہ اور مبنی بر عدل اسلامی حکومتی نظام، خلافت کو نہیں لایا جاتا، خواتین کی زندگیوں اور انکے وقار کا تحفظ ممکن نہیں۔ کیونکہ ریاست خلافت میں معاشرتی، عدالتی اور حکومتی نظام خواتین کی حفاظت کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؛ اور ان کے ہمراہ تعلیمی اور میڈیا پالیسیاں معاشرے میں ایک درست اخلاقی ڈھانچے کے ضامن ہوتے ہیں، جیسا کہ خلافت کے 1300 سالہ دورِ حکومت میں دیکھا گیا۔پس عورت محفوظ و مامون اورمحترم ہوتی ہے، اس کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہ مردوں کے ہمراہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے، جبکہ اسے اس کام کے دوران نہ تو تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اورنہ ہی اسے ہراساں کیے جانے یا حملے کا خوف ہوتا ہے۔ اسے ایک جنسی علامت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بحیثیت انسان قابلِ قدر ہوتی ہے، تاکہ وہ ماں، بیوی اور بیٹی کے طور پر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی کے بعدکسی بھی شعبے میں اپنی خدمات انجام دے سکے۔نیز ایک منصفانہ عدالتی نظام اور کرپشن سے پاک پولیس، جو اپنے ہر عمل کے لیے خلیفہ کو براہِ راست جوابدہ ہوتی ہے، بھی خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ خلافت فوراًقائم کی جائے۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْوَلِيدَ يَضْرِبُهَا وَقَالَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حَدِيثِهِ تَشْكُوهُ قَالَ قُولِي لَهُ قَدْ أَجَارَنِي قَالَ عَلِيٌّ فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَأَخَذَ هُدْبَةً مِنْ ثَوْبِهِ فَدَفَعَهَا إِلَيْهَا وَقَالَ قُولِي لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَارَنِي فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْوَلِيدَ أَثِمَ بِي مَرَّتَيْن (1257 مسند أحمد بن حنبل مسند العشرة المبشرين بالجنة مسند الخلفاء الراشدين)
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الولید بن عقبہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور شکایت کی: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بے شک ولید نے مجھے مارا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اسے کہو، انہوں(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری حفاظت کی"۔ وہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد دوبارہ آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا!" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص کا ایک حصہ پھاڑا اور فرمایا: "اسے کہو؛ بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تحفظ دیا"۔ وہ پھر تھوڑے عرصے کے بعد واپس آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں دیا!" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: "اے اللہ! ولید سے آپ نمٹیں! کیونکہ اس نے دو بار میری نافرمانی کی ہے"۔


حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ام مصعب
ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

سوال کا جواب: کفریہ نظام میں شرکت

سوال: ہم اس پر بحث کررہے تھے کہ ایک مسلمان کا موجودہ غیر اسلامی حکومتی نظاموں کے اندر شمولیت حرام ہے توبحث کے دوران کسی نے کہاکہ اس نے ایک شیخ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شمولیت جائز ہے اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر پیش کیاکہ اُنہوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے ..... اور یہ کہ نجاشی کئی سالوں تک کفر کے ساتھ حکومت کرتا رہا جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان تھا اور رسول اللہﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ پھر یہ کہ مصلحت جو کہ ایک دلیل شرعی ہے، اس کاتقاضا کرتی ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر حکومت میں شامل ہوگا تو وہ ایک سیکولر شخص سے زیادہ اچھے طریقے سے مسلمانوں کے مفادات کا انتظام کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ استدلال کہاں تک صحیح ہے؟ اور کیا یقینا ً کچھ شیوخ ایسے ہیں جواس طرح کی بات کرتے ہیں؟ امید ہے جواب دے کرمستفید فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دیدے۔
جواب: جی ہاں! کچھ سرکاری شیوخ سے اس قسم کے اقوال سننے کوملتے ہیں لیکن ان کے اقوال ہمارے لئےحجت نہیں کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کرنے کے دلائل صریح، صاف و شفاف اور بالکل واضح ہیں اور ان کا ثبوت بھی قطعی اور دلالت بھی قطعی ہے اور اس میں آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ بلاشبہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنْ الْحَقِّ﴾"پس آپ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات ) کے مطابق فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے، اس کے مقابلے میں ان کے خواہشات کی پیروی نہ کریں" (المائدہ: 48)۔ اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَأَنْ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ﴾ اوران کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات ) کے بارے میں آپﷺ کو بھٹکا نہ دیں" (المائدہ:49)۔
یہی مضمون بہت سی دیگر نصوص میں آیا ہے۔ جہاں تک بات ہے اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت نہ کرنے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا سہار ا لینے کی تو اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر حکومت کرنے والا اس پر ایمان بھی رکھتا ہے تو یہ کفر ہے، ایمان نہ رکھے تو پھر یہ ظلم اور فسق ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے۔ ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)۔اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)۔اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ﴾"اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ:47)۔
جہاں تک ان مشائخ سلطانی کے استدلال کی بات ہے تو جیسا کہ ہم نے کہا یہ حجت نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں:
1۔ یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر ان لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ بعض مسائل میں بادشاہ ِمصر کی شریعت کے تحت فیصلے کیاکرتےتھے، یعنی جس کو اللہ تعالی ٰ نے نازل نہیں کیا تھا، تو اس استدلا ل کا یہ محل نہیں، کیونکہ ہمیں اسلام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جس کو محمد رسول اللہﷺ لےکر آئے اور یہ اللہ کی طرف سے وحی تھی۔ ہمیں یوسف علیہ السلام یا دوسرے انبیاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سے پہلے کی شریعت ہمارے لئے شریعت کا درجہ نہیں رکھتی کیونکہ اسلام نے آکر پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ "اور (اے رسولﷺ) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے اور جو حق تمہارے پاس آگیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔تم میں سے ہر ایک (امت ) کے لئے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے" (المائدہ:48)۔ اس آیت میں "مہیمناً" کا معنی ناسخاً (منسوخ کردینے والا)کے ہیں تو اسلام نے سابقہ تمام کتابوں کومنسوخ کردیا، اس لئے پچھلی قوموں کی شریعتیں ہمارے لئے شریعت کا حکم نہیں رکھتیں۔
کچھ دیگر آئمہ اصول نے ایک اور انداز میں اس قاعدہ کو لیا ہے یعنی (شَرْعُ مَنْ قبلَنا شرع لنا ما لم يُنْسَخ) "پچھلی اقوام کی شریعت کو جب تک منسوخ نہ کر دیا جائے وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہوتی ہے"۔ یہ اصولی قاعدہ بھی گزشتہ شریعتوں کے صرف ان احکام سے استدلال کو جائز قرار دیتا ہے جو غیر منسوخ ہو۔ ان احکام کو جن کو ہماری شریعت نے آکر منسوخ کردیا، لینا درست نہیں بلکہ ہم سے مطالبہ ان احکام کا ہے جو ہماری شریعت میں وارد ہوئے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کا حکم اسلام کا ایک صریح اور واضح حکم ہے۔ اس سے زمانہ گزشتہ کی وہ تمام شریعتیں منسوخ ہوجاتی ہیں جو اس حکم میں اسلام کی مخالف ہوں۔ اس بناء پر معتبر علماء اصول الفقہ خواہ وہ پہلے قاعدے "شرع من قبلنا ليس شرعاً لنا" کو ماننے والے ہیں یا دوسرے قاعدے "شرع من قبلنا شرع لنا ما لم ينسخ" کو ماننے والے ہیں سب نے کہا ہے کہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک واضح اور منصوص حکم ہے۔ یہ قطعی الثبوت والدلالۃ ہے اور پچھلی مخالف شرائع کو منسوخ کرتا ہے۔
یہ اس بناء پر ہے کہ جب ہم فرض کرلیں کہ یوسف علیہ السلام نے بعض مسائل میں مصر کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے، اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلا م نبی تھے اور معصوم تھے، انہوں نے جتنے فیصلے کئے صرف اور صرف ما انزل اللہ کے مطابق کئے، جب اپنے جیل کے دو ساتھیوں کے ساتھ ان کی گفتگو ہوئی تو انہیں یہی کہا کہ فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ہے، ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اے میرے قیدے خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جس کا اقتدار سب پر چھایا ہواہے؟ اُس کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اُ ن کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے آباؤاجداد نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے اُن کے حق میں کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اُسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لو گ نہیں جانتے " (یوسف:39-40)۔ اس آیت میں تو یوسف علیہ السلام یہی کہہ رہے ہیں کہ(ان الحکم الاللہ) کہ اللہ کے علاوہ کسی کو حاکمیت حاصل نہیں۔ لہذا حاکمیت صرف رب العالمین کی ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اورصرف اسی سے قوانین شریعت لیں گے۔ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں مانتے۔
اور یوسف علیہ السلام کے قول و عمل میں ایسا کوئی تضاد نہیں تھا کہ ایک طرف وہ اللہ کی حاکمیت کی دعوت دیں اور دوسری طرف کفر کے ساتھ حکومت کریں۔ اس کا مطلب ایک نبی کی عصمت پر طعنہ زنی کرنا ہے اوریہ ایک بہتان ہے جو یقیناً کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں.....اس لئے یوسف علیہ السلام کفر کے ساتھ حکومت نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے ایک سچے اور مخلص بندے کی طرح اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی کی۔ تو جیساکہ ہم نے کہا کہ اگر بالفرض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے حضرت یوسف علیہ السلام کوان کی شریعت میں یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض معاملات میں شاہ مصر کے قوانین پر فیصلے کریں تو بجا ہے، مگر اسلام آنے کے بعد گزشتہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور ہمارے اوپر رسول اللہﷺ کی نبوت کے بعد صرف اور صرف اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنا فرض کیا گیا ہے۔
2۔ جہاں تک نجاشی کے حوالے سے بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے کیونکہ اس مسئلے کے اندر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نجاشی قبول اسلام سے پہلے بھی بادشاہ تھااور خفیہ اسلام لایا اور اسلام لانے کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہا اور پھر اس کا انتقال ہو گیا اور چونکہ باقی ساری قوم کافر تھی تو اس کی اتنی قد رت نہیں تھی کہ اسلام کا نفاذ کرتا، اس لئے اپنے اسلام کا اعلان بھی نہ کرسکا..... اب اس کو ایک ایسے مسلمان پر منطبق نہیں کیا جاسکتا جسے لوگ بحیثیت ایک مسلمان کے جانتے ہوں اور اس کا اسلام مشہور ومعروف ہو ہم اس کو مزید تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
ا۔ نجاشی کا لفظ ملک حبشہ کے کسی مخصوص حکمران کا نام نہیں بلکہ یہ ہرحبشی حکمران کا لقب ہوا کرتا تھا جیساکہ فارس (ایران) کا حکمران کسریٰ اور روم کا حکمران قیصر کہلاتا تھا.....جس نجاشی کے مسلمان ہونے کی ہم بات کررہے ہیں جس پر رسول اللہﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی، توایسا نہیں تھا کہ اس کے اسلام لانے کے کئی سال گزرے تھے، جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے، بلکہ اس کے اسلام کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا جو چند دن یا ہفتے یا ایک دو مہینے سے زیادہ نہیں تھا۔ یہ وہ نجاشی نہیں تھا جس کے پاس مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے گئے۔ یہ وہ نجاشی بھی نہیں تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو صلح حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا یعنی جب آپﷺ نے حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے بلکہ یہ ایک دوسرا نجاشی تھا جس نے اس نجاشی کے بعد حکومت سنبھالی تھی جس کے پاس رسول اللہ ﷺ نے پیغام بھیجا تھا۔ بخاری و مسلم میں اس حوالے سے روایات موجود ہیں، لہذا جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ وہی نجاشی ہے جو حبشہ کا بادشاہ تھا جس نے اسلام قبول کرلیا تھا اورجس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، یا یہ وہ نجاشی تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا تو یہ ایک واہمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ باقی رہی بخاری و مسلم کی روایات سے متضاد دیگر روایات، تو وہ مردود ہیں۔ ہماری ذکرکردہ باتوں پر ہمارے پاس کئی دلائل ہیں:
مسلم ؒ نے قتادہ سے، اس نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے («أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ تَعَالَى»، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ) " کہ نبیﷺ نے کسری ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی"۔
ترمذی ؒ قتادہ سے وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں («أَنَّ رسو ل اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ قبل موتہ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ» وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم) "کہ نبیﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نمازجنازہ پڑھی تھی"۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ب۔ چونکہ رسولﷺ نے حدیبیہ سے واپسی پر حکمرانوں کو خطوط بھیجے، یعنی ذی قعدہ 6 ہجری کو اور جس نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا یہ وہ نجاشی نہیں جس کو دیگر حکمرانوں کی طرح رسول اللہﷺ نے خط بھیجا بلکہ یہ اس کے بعد آنے والا دوسرا نجاشی تھا تو گویا اس بعد میں آنے والے نے سنہ 7 ہجری میں حکومت سنبھا ل لی تھی۔
ج۔ اور چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو ان احادیث کے راوی ہیں، مسلمان ہونے والے نجاشی کی نمازجنازہ پڑھتے وقت آپﷺ کے ساتھ تھے جیسا کہ نجاشی کی نماز جنازہ والی احادیث میں ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے قبیلہ دوس کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ آئے، اس وفد میں ستر یا اسّی لوگ تھے اور اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ وفد والے وہاں جاکر آپﷺ سے ملے۔ آپﷺ نے ان کو خیبر کی غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور خیبر کا واقعہ سنہ 7 ہجری میں ہوا۔ ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ نجاشی جو مسلمان ہوا تھا، اس نے حبشہ کی حکومت ساتویں ہجری میں سنبھال لی تھی، اسی سال اس کی وفات بھی ہوئی، یعنی چند دن یا ایک مہینہ یا چند مہینے زندہ رہا۔
د۔ ان دنوں حبشہ کے لوگ کفر کی حالت میں اور عیسائی دین پر تھے۔ ان کا حکمران نجاشی تھا جس نے خفیہ طور پر اسلام قبول کرلیاتھا۔ لوگوں کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، حتٰی کہ رسول اللہﷺ کو بھی نجاشی کی وفات کی خبر وحی سے معلوم ہوئی جیسا کہ اس نجاشی پر نماز پڑھنے کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
أخرج البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ («أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى المُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا») "بخاری ؒ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے اسی دن نجاشی کی وفات کی اطلاع دی جس دن اس کی وفات ہوئی۔ آپﷺ عید گاہ کی طرف نکلے، صفیں بنائی گئیں اور آپﷺ نے چار تکبیریں کہیں"۔ دوسری روایت میں ہے کہ "آپﷺ نے نجاشی حبشہ والے کی وفات کے دن ہی اس کی موت کی اطلاع دی اور کہا کہ اپنے بھائی کیلئے اللہ سے دعائے مغفرت کرو"۔ بخاری ؒ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا "آج حبش کے ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، آؤ اس کی نماز جنازہ پڑھیں"۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے صفیں بنائیں اور آپﷺ نے اس کی نماز جناز ہ پڑھی۔ ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں دوسری صف میں کھڑا تھا۔ ایک روایت میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نجاشی کی وفات کے وقت آپﷺ نے فرمایا "آج ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، اٹھو اپنے بھائی اَصحَمَہ کی نماز جنازہ ادا کرو"۔
یہ جتنے الفاظ ان احادیث میں آئے ہیں مثلاً «نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، «نَعَى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الحَبَشَةِ، يَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ»"، «مات اليوم رجل صالح...» ان سب سے مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نجاشی کی وفات کے دن ہی آپﷺ نے اس کی اطلاع دی، جبکہ نجاشی حبشہ میں اور رسول اللہﷺ مدینے میں تھے۔ اور یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ علم آپﷺ کو وحی کی ذریعے دیا گیا۔ تو جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اپنے بھائی کیلئے دعائے مغفرت کرو" اور "آج ایک نیک بندے کا انتقال ہوا ہے" ان تمام کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کو اس کی موت کے بارے کوئی علم نہیں تھا۔
ھ۔ اس لئے اقتدار میں شرکت کے معاملے میں نجاشی والےحالات موجود نہیں۔ اُس نے تو خفیہ اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی قوم کافر تھی۔ پھر تھوڑے عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور رسولﷺ کے علاوہ کوئی بھی اس کے اسلام کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ان تما م حقائق کو دیکھتے ہوئے ایک مشہور و معروف مسلمان اگر اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ دیگر نظاموں کے ذریعے حکمرانی کرے تواس کے اور نجاشی کی (اس غیر معروف ) زندگی کے درمیان کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے درمیان یکسانیت موجود ہے توان کے پاس اس بات پر کوئی دلیل یا شبہ دلیل موجود نہیں۔
3۔ جہاں تک مصلحت کو دلیل بنانے کی بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے۔ ہم نے اس کا جائزہ لیا:
اصول فقہ کے علماء میں سے بعض مصلحت کو دلیل کے طور پر لیتے ہیں مگر انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ مصلحت کو دلیل تب ہی بنانا جائز ہوگا جبکہ شرع میں اس کے بارے کوئی امر یا نہی نہ آئی ہو، بصورت دیگر مصلحت پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ شرع میں وارد حکم کو لیا جائے گا۔ معتمد علماء ِ اصول فقہ میں سے کسی نے بھی مصلحت کے تقاضے کے پیش نظر وحی کی نصوص کو معطل کرنے کی بات نہیں کی ہے۔
مثلاً ربا حرام ہے۔ وحی کی ثابت شدہ نصوص اس کو حرام قرار دیتی ہیں۔ اب اگر مصالح کی تکمیل ربا کا تقاضا کرے تو شرع اس کو مسترد کرتی ہے اور یہ فعل حرام ہوگا اور اگر کچھ نام نہاد علماء اس پر فتویٰ دیں تو ان کافتویٰ ناقابل قبول ہو گاکیونکہ یہ شرعی نصوص کے مخالف ہے۔
ماانزل اللہ کے علاوہ حکمرانی قطعی طور پر حرام ہے۔اس کے بارے میں بھی آسمانی وحی کی نصوص آئیں ہیں، جیسے ربا ایک قطعی حرام ہے۔ تو مصلحت کو فیصلہ کن بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ شرعی احکامات کی تنفیذ ہی مصلحت ہے۔ اس کے برعکس یہ کہنا کہ جو مصلحت ہے وہی شریعت کا حکم ہے، ایسا ہر گز نہیں۔
چلوہم ان علماء کے ساتھ کچھ دیر کیلئے موافقت کرلیتے ہیں، جو اس معاملے میں سہولت پسند ہیں اور مصالح مرسلہ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے مذہب میں مصلحت کو دلیل بنانے کا یہ موقع نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مصالح مرسلہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہاں ان لوگوں کے ہاں ضرورموجود ہے جو کہتے ہیں کہ شرع نے کچھ امور ایسے چھوڑے ہیں جن کے بارے میں کوئی امر یا نہی نہیں کی۔ وہ ایسے مواقع میں مصلحت کو استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شرع نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کے بارے میں حکم نہ دیا ہو۔ شرع نے سب کچھ بیان کیا ہے، مثلاً ﴿تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ "جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے" (النحل:89)، ﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ﴾ "ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی" (الانعام:38)، ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ "آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پراپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "(المائدہ:3).
4۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفریہ نظاموں میں حصہ لینا اور اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ سے حکمرانی کرنا کفر ہے جبکہ حکمران اس حکمرانی کا عقید ہ بھی رکھتا ہو اور بغیر عقیدے کے کفریہ نظاموں کےساتھ حکمرانی کرنا ظلم اور فسق ہے جیساکہ ان آیا ت کریمہ میں وارد ہے ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾، ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے علاوہ حکمرانی میں مسلمان کی شرکت جائز ہے تو ان کے پاس کوئی دلیل یا شبہ دلیل نہیں کیونکہ یہ عمل قطعی الثبوت والدلالۃ نصوص کی رو سے ممنوع ہے۔
امید ہے جواب سے تسلی ہوجائے گی، انشا ء اللہ۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک