الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

صرف خلافت ہی سندھ کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے

پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

خبر اور تبصرہ پاکستان صرف خلافت کے زیر سایہ ہی بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارا پاسکتا ہے

 

خبر: 13 مارچ 2014 کو ، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ، سرتاج عزیز نے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مودی کے وزیر اعظم بن جانے سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں موجود کھچاؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کی کوششوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی۔ جناب واجپائی کا تعلق بی۔جے۔پی سے تھا"۔
تبصرہ: وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی نواز شریف نے بہت واضح اشارے دے دیے تھے کہ وہ ایسے تمام اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اس کی حکومت نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور اسے تجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے عمل کو تیز کردیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی حکومت نے بھارت سے 500 سے 1000 میگاواٹ بجلی کی درآمد کے لئے بھی بات چیت کا آغاز کر دیا جبکہ بھارت بذات خود بجلی کے بحران کا شکار ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ جارحانہ رہا ہے اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ سرد جنگ کے اختتام تک پاکستان نے بھی اس کی جارحیت کا دفاع ، معیشت اور دوسرے میدانوں میں منہ توڑ جواب دیا۔ سرد جنگ کے دوران اس خطے میں سوویت روس کے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی تھاجبکہ بھارت سب سے زیادہ سوویت اسلحہ حاصل کرنے والا ملک تھا اور اس نے نام نہاد غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کررکھی تھی جو کہ اس کی اصل پوزیشن کو چھپانے کے لئے ایک آڑ تھی کیونکہ درحقیقت کانگریس پارٹی کی وجہ سے برطانیہ سے اس کے مضبوط تعلقات تھے اور بھارت بین الاقوامی امور میں برطانوی موقف کے مطابق پوزیشن اختیار کرتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا تا کہ بھارت کو برطانوی اثرو نفوذ سے نکال کر اپنے زیر اثر لے آئے۔ لیکن سرد جنگ اور سوویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی ڈنڈے والی حکمت عملی تبدیلی کی اور اس کی جگہ بھارت کو مختلف مراعات کے ذریعے اپنے زیر زثر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ بل کلنٹن کے دورِ حکومت کے دوران امریکہ نے کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور اسے متنازعہ علاقہ اور بین الاقوامی مسئلے کی جگہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ قرار دے دیا اور اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد کے نفاذ کی جگہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دینے لگا۔
تو جیسے ہی امریکہ نے بھارت کے حوالے سے اپنی خفیہ جارحیت کی حکمت عملی تبدیل کی اور کھل کر اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کام کرنے لگا، تو پاکستان میں موجود اس کے ایجنٹوں نے بھی پاکستان کی بھارت کے خلاف مزاحمت کی پالیسی کو تبدیل کرلیا اور اس کی جگہ وہ بھارت کو امریکی اثرو رسوخ کے زیر اثر لانے لئے ایک چارے کا کردار ادا کرنے لگا۔ 2004 سے قائم کانگریس کی حکومت کی وجہ سے امریکہ اپنی اس حکمت عملی پر زیادہ تیزی سے کام نہیں کرسکا جس قدر کہ وہ چاہتا تھا۔ لیکن اب چونکہ اس سال اپریل میں بھارت میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بی۔جے۔پی، گجرات کے قصائی، مودی کی قیادت میں حکومت بنالے گی، تو امریکہ کو اس بات کی امید ہے کہ وہ بھارت کو اپنے زیر اثر لے آئے گا کیونکہ بی۔جے۔پی امریکی حمائت یافتہ جماعت ہے۔ اور بالآخر امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ ایسے علاقائی بلاک کو بھارت کی قیادت میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس کے ذریعے وہ چین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرسکے گا اور ایشیا پیسیفک میں اس کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے گا۔
لہٰذا سرتاج عزیز کا یہ بیان حیران کن نہیں کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی بلکہ یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار بڑی بے تابی سے بی۔جے۔پی کی جیت کا انتظار کررہے ہیں تا کہ وہ امریکی مفاد کی خاطر بھارت کو امریکہ کی گود میں ڈالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انھوں نے پہلے ہی اس حوالے سے بہت کام کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے لئے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کی پالیسی تبدیل کی جائے۔ اب سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اس بات کو ثابت کرنے پر پوری قوت صَرف کررہے ہیں کہ اس خطے میں معاشی ترقی کے لئے پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے خصوصاً مسئلہ کشمیر کو، اور انھیں مضبوط معاشی تعلقات قائم کرنے چاہیے۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 67 سال سے امریکی مفادات کے مطابق عمل کرنے کے باوجود پاکستان کی معیشت نہ تو مضبوط ہوسکی اور نہ ہی خود انحصاری کی منزل کو پاسکی۔ اس کے برعکس امریکہ نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کی معیشت کا استحصال کیا اور یہ عمل اب پہلے سے بھی زیادہ تیز تر ہوچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی معیشت کو بھارت کے ساتھ جوڑنے سے بھی کوئی خوشحالی کی لہر نہیں آئے گی بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھارت کی خواہشات کے تابع ہوجائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، 180 ملین آبادی کی مارکیٹ جو امریکہ بھارت کو پیش کررہا ہے تا کہ اسے اپنے اثرو رسوخ کے تابع لاسکے۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارادلا سکتی ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ایک آزاد خارجہ پالیسی کے نتیجے میں یہ مسلم علاقے ایک بار پھر خلافت کے زیر سایہ پوری قوت سے اٹھیں گے کیونکہ یہ پالیسی دشمن کے ساتھ دشمن جیسا ہی سلوک کرتی ہے اور اسلام کی بالادستی کو قائم کرتی ہے۔ جہاں تک کشمیر اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کا تعلق ہے تواسلام ہم پر یہ لازم کرتا ہے کہ اسلامی سرزمینوں کو دشمن سے واپس حاصل کیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے یا طویل عرصے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی


حزب التحریر /ولایہ پاکستان فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی کوشائع کررہی ہے،جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خلافت کس طرح اختلاف رائے کے احترام کی فضاء قائم کرے گی اورفرقہ واریت کا خاتمہ کرے گی۔
ا) مقدمہ: جمہوریت معاشروں میں تفریق، گروہ بندی اورتصادم کی سیاست کوپروان چڑھاتی ہے، جمہوری معاشروں میں فرقہ واریت انہی اختلافات کاشاخسانہ ہے۔
جمہوریت ایسانظام حکومت ہے جوریاست کے وسائل اور توجہ کو معاشرے میں موجود گروہوں کی سیاسی قوت کے مطابق تقسیم کرتا ہے۔ وہ گروہ جو زیادہ سیاسی قوت اور وزن رکھتے ہیں وہ ملک میں ہونے والی قانون سازی پر زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں اور نتیجتاً اپنے لیے ریاست سے زیادہ وسائل اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لہذا جمہوری ریاست میں صرف ان شہریوں کے مفادات اور حقوق کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے،جو ریاست پر اس قدر دباو ڈال سکیں کہ ریاست ان کے مطالبات ماننے پرمجبورہوجائے، یوں نمائندہ جمہوریت کاتصور معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں میں عدم تحفظ کااحساس اُجاگرکرتاہے کہ وہ کس طرح ریاست کی توجہ حاصل کر کے اپنے مطالبات منوا سکیں۔
جمہوری معاشرے میں مقامی سطح پرہم سیاسی قائدین کودیکھتے ہیں جواکثراوقات اپنے لیے اس بات کو فائدہ مند بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کریں اورجس گروہ کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں اس کی مخصوص نسلی یاسیاسی شناخت کواجاگرکریں، تاکہ وہ اپنے گروہ کی مخصوص شناخت برقرار رکھ کر اپنے لئے سیاسی وزن پیداکرسکیں اور ریاست کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکیں۔ یوں جمہوری نظام حکومت معاشرے میں تقسیم اور گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرتاہے، جہاں مختلف گروہ ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ہراس ملک کےاندرواضح دکھائی دیتی ہے جہاں جمہوریت نافذ ہے اور جہاں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں جواپنے مفادات اورحقوق کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی جمہوری سیاست کواختیارکیاجاتاہےجو قومیت، نسل اورمسلکی بنیادوں پرمختلف گروپوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کے باعث ایک طرف کراچی میں مہاجر،پٹھان اورسندھی کی تفریق کی بنیاد پر تصادم اور لڑائی کو ہوا مل رہی ہے،تودوسری جانب بلوچستان میں بلوچوں اورپاکستانی حکومت کے درمیان ایک نسلی تنازعہ چل رہا ہے۔ ان تنازعات کی وجہ سے ملک عدم استحکام اورغیریقینی کی صورتحال سے دوچارہے، جسے جب بھی چاہیں،اجنبی قوتیں بھڑکاسکتی ہیں۔
ب) سیاسی اہمیت: سامراجی قوتیں فرقہ واریت کوہوادیتی ہیں۔
ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کی کاروائیوں کی حالیہ لہر کا تعلق پاکستانی حکومت کی غلامانہ خارجہ پالیسی اور اس کی افغانستان پر امریکی قبضے کے لیے سہارا دینے سے ہے۔ افغانستان کے مسلما نوں اور پاکستان کے فاٹا کے علاقے میں موجود ان کے بھائیوں کے ہاتھوں شکست کے خوف نے اور اپنے ملک میں جاری معاشی بحران نے جس نے امریکہ کو کمزور کر دیا ہے، امریکہ کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ خطے میں جار ی امریکہ مخالف مزاحمت کو کمزور کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی انٹلیجنس ایجنسیاں پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دھماکوں اور False Flag حملوں کی مہم چلا رہی ہیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جا سکے اور امریکہ کے خلاف افعانستان میں جار ی مزاحمتی تحریک کو پاکستانی عوام کی نظروں میں بدنام کیا جا سکے۔ یہ امریکہ کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے کہ وہ پاکستان کی فوج اور جنگجوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو بھڑکائے اور اس مقصد کے لیے امریکہ پرتشدد فرقہ وارانہ کاروائیوں کو استعمال کر رہا ہے تا کہ ان گروہوں کو جو امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو فرقہ وارانہ گروہ ، جو شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، کے طور پر پیش کر کے ان کو بدنام کرے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ نے عراق میں استعمال کی جہاں اس نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی اور فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی قبضے کے خلاف جاری تحریک کو تقسیم اور کمزور کیا اور عراق پر اپنی گرفت مضبوط کی۔
امریکی غلامی کی پالیسی پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت اورخائن حکمران بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عو ام پراپنے غیرفطری اقتدار کوبرقرار رکھ سکیں۔ امریکی ایما ءاور حوصلہ افزائی پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی حکومت نے، جوخطے میں اسلام کی واپسی سے خوفزدہ تھی، پاکستان میں فرقہ وارنہ بنیادوں پرتنظیمیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ امت کی اسلام کی طرف لوٹنے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔ آج بھی پاکستانی حکومت مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کوبھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تا کہ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ میں اپنی شمولیت کے لیے جواز فراہم کر سکے۔ مزید براں حکومت ا ور اس کے حواری مسلمانو ں کے درمیان فرقہ واریت کو اس لیے بھی ہوا دیتے ہیں تا کہ ملک میں شریعت کے نفاذ کے بڑھتے ہوئے مطالبے کی مخالفت اور مقابلہ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیےسیکولر سول جمہوری حکومتی ماڈل کی ترویج کی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے لیے مختلف تعلیمی نصاب قائم رکھ کر پاکستانی ریاست مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو برقرار رکھتی ہے۔
ج) قانونی ممانعت: اسلام تمام رعایا کے حقوق کی ضمانت دیتاہے اورمختلف گروہوں کےدرمیان اختلاف رائے کی تعمیری طریقہ سے نگرانی اوردیکھ بھال کرتاہے۔وہ طریقہ یہ ہے۔
ج1۔ شہریوں کے حقوق کی ضمانت احکام شرعیہ کے ذریعے کی جاتی ہے، نہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے سیاسی اتھارٹی تک پہنچنے کی قابلیت کے ذریعے۔
جمہوریت کے برعکس اسلام ایسے قومی نمائندوں پریقین نہیں رکھتاجوعوام پرحکومت کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔جمہوریت میں یہ طریقہ کارفطری طورپران جماعتوں اورگروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوجنم دیتا ہے، جن کے پاس ریاست کی قانون ساز اتھارٹی پراثرانداز ہونے کیلئے مطلوبہ سیاسی اثرورسوخ موجود نہ ہو۔ اس سے معاشرے میں مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھتی ہےاوران کے درمیان خوفناک قسم کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے، یوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہو کر تقسیم ہوجاتاہے۔ اگر چہ خلیفہ کوانتخابات کے ذریعے چنُا جاتا ہے، مگرنہ توخلیفہ اورنہ ہی مجلس امت (مجلس شوریٰ) کے ارکان کے پاس قانون سازی کا اختیارہوتاہے، بلکہ خلیفہ صرف اورصرف شریعت اور اس کے احکا مات کے ذریعے حکمرانی کاپابند ہوتاہے۔ اسلا م گروہ بندی پر مبنی سیاست کومسترد کرتا ہے۔ اسلامی ریاست میں شہریوں کے د رمیان ریاست کے وسائل شرعی ضوابط کے مطابق تقسیم کئے جاتے ہیں نہ کہ معاشرے کے اندرموجود مختلف گروہوں کے سیاسی وزن کے مطابق۔ اورخلیفہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ نسل، قومیت، دین، مسلک وغیرہ کی بنیاد پرریاست کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق کرے،بلکہ اس پریہ واجب ہےکہ وہ صرف احکام شرعیہ کی بنیاد پراسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔
حزب التحریر کے مقدمہ دستور کی شق (6) میں ذکرکیاگیاہے "ریاست کیلئے جائز نہیں کہ وہ حکومت، عدالتی امور، لوگوں کے زندگی کے نظم ونسق اوردیگرمسائل میں شہریوں کے درمیان تفریق وتمیز کرے،بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومیت، دین، رنگ ونسل وغیرہ سے بالاترہوکرتمام افرادکو ایک نظرسے دیکھے۔"
دستور کی شق (7) میں یہ واضح کیاگیاہے کہ"ریاست ان تمام لوگوں پرجواسلامی ریاست کےشہری ہوں، چاہے مسلمان ہوں یاغیرمسلم،حسبِ ذیل طریقے سے اسلامی شریعت کونافذ کرتی ہے: 1۔مسلمانوں پربغیرکسی استثناء کے تمام اسلامی احکامات لاگوہوتے ہیں۔ 2۔ غیرمسلموں کوعمومی نظام کے تحت اپنے عقائد وعبادات کی اجازت ہوتی ہے۔ 3۔ مرتد ہونے والوں پرمرتدوں کے احکام لاگوں کئے جاتے ہیں، ایسے لوگ جوکسی مرتد کی اولادہوں اوروہ پیدائشی غیرمسلم ہوں، ان کے ساتھ غیرمسلموں کاسامعاملہ کیاجاتاہے یعنی ان کی حالت پرہے کہ وہ مشرک ہیں یااہل کتاب۔ 4۔ کھانے پینے اورلباس کے امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ شرعی احکامات کی حدود میں رہتے ہوئےان کے مذاہب کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔ 5۔ غیرمسلموں کے درمیان شادی بیاہ اورطلاق کے امورکوان کے مذاہب کے مطابق نمٹایاجاتاہے، اگرمعاملہ ان کے اورمسلمانوں کے درمیان ہوتوپھراسلامی احکامات کے مطابق طے کیاجاتا ہے۔ 6۔ باقی تمام شرعی احکامات اور شرعی امورمثلاً لین دین، سزائیں، گواہی، نظام حکومت، نظام معیشت وغیرہ کو تمام رعایاپر،خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ریاست برابری کی بنیاد پرنافذ کرتی ہے۔ اسی طرح معاہدین (اہل ذمہ)، مستامنین (اسلامی ریاست کی پناہ میں آنے والے) اورہراس شخص پر جو اسلامی ریاست کے زیرسایہ رہتاہے، ریاست ان احکامات کوناٖفذ کرتی ہے،ماسوائے سفیروں، ایلچیوںاوراسی نوعیت کے دیگرلوگوں کے جنہیں سفارتی امان حاصل ہو۔
ج2۔ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے،اور وہ مسلمانوں کے مابین وحدت کومضبوط کرے گی۔
ریاستِ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے، اس سےقطع نظر کہ شرعی نصوص اوراسلامی تاریخ کے حوالے سے ان کی تشریح کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت کومضبوط رکھنے کے لیے ریاست خلافت، ذرائع ابلاغ اوریکساں نصاب تعلیم کے نفاذکوبروئے کار لائے گی اورمسلمانوں کے درمیان اسلام کی صحیح فہم کے مطابق بھائی چارے کے ربط کا پرچار کرے گی۔ پوری ریاست میں یکساں تعلیمی نظام مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت کے ربط کو مضبوط کرے گا۔
مقدمہ دستور کی شق (103) اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ "میڈیاوہ شعبہ ہے جوریاست کی میڈیاپالیسی بناتاہے،اوراسے نافذکرتا ہےتاکہ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کوپوراکیاجائے۔ داخلی طورپریہ ایک قوی اورمتحداسلامی معاشرے کی تشکیل کرتاہے،جوخباثت کونکال باہر کرے اوراپنی خوشبوؤں کوبکھیرتارہے۔ اورخارجی طورپریہ اسلام کوجنگ اورامن کے دوران اس انداز میں پیش کرتاہے جس سےاسلام کی عظمت، اس کے عدل اوراس کی افواج کی قوت کااظہارہوتاہواورانسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے فساد اورظلم کوبیان کرے اوران کی افواج کی کمزوری کو آشکارا کرے۔
شق (177) یہ واضح کرتی ہے کہ "منہج تعلیم ایک ہی ہوگااورریاست کے منہج تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے منہج کی اجازت نہیں ہوگی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اس وقت تک اجازت ہوگی جب تک کہ وہ ریاست کے تعلیمی منہج، اس کی تعلیمی پالیسی اوراس کے مقصد کی بنیادپرقائم ہوں گے۔ یہ بھی شرط ہوگی کہ ان میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہوگی، مردوزن کااختلاط معلمین اوراساتذہ دونوں کے درمیان ممنوع ہوگا۔مزید برآں یہ بھی شرط ہوگی کہ تعلیم کسی خاص کردہ دین یامذہب یارنگ ونسل کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔"
ج3۔ معاشرے کی بھلائی کی خاطراختلاف رائے کی نگرانی اوراحترام۔
اسلام اختلافِ رائے کی اجازت دیتاہے،اورشرعی طورپرمعتبرنصوص سےاجتہاد کرکے احکام شرعیہ اخذکرلینےمیں اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتاہے۔ بخاری اور مسلم عمر بن العاص کی سند پر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (اذاحکم الحاکم فاجتہد ثم اصاب فلہ اجران واذاحکم فاجتہد ثم اخطافلہ اجر) "جب قاضی فیصلہ دے اور اجتہاد کرے اور وہ درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کرے اور غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے"۔ یہ حدیث بخاری اورمسلم نے روایت کی ہے۔ مختلف مجتہدین کے درمیان شرعی نصوص میں اسی اجتہادی اختلاف کی وجہ سے فقہ اسلامی کاعظیم ذخیرہ وجود میں آیا۔ اسی نے اسلا م میں مختلف قانونی مسالک کو جنم دیا۔ اسلام اجتہادی آراء میں اختلاف کی اجازت دیتاہے۔ جمہوریت کے برعکس جوقانون سازی کیلئے اکثریت پراعتماد کرتی ہے، جس کی وجہ سے ریاست اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھتی ہے، اسلام ریاست کے قانونی انتظام کے لیے اختلاف رائے کو حل کرنے کیلئے ایک منفرد انداز اپناتا ہے۔ اسلام نے ریاست میں قانون کے نفاذ کے لیے خلیفہ کوہی احکام کی تبنی کاحق دیاہےتاکہ انہیں نافذکیاجائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے خلیفہ پر شرعی احکامات کی تبنی کے حوالے سے بعض پابندیاں بھی لگائیں ہیں۔ مقدمہ دستورکی شق نمبر3 میں ذکر کیا گیا ہے کہ "خلیفہ متعین شرعی احکامات کی تبنی کرے گاجودستوراورقوانین کہلائیں گے۔ خلیفہ جب کسی حکم شرعی کی تبنی کرے توصرف یہی حکم وہ حکم شرعی ہوگاجس پرعمل کرناعوام پرفرض ہوگا، یہ اس وقت سے ہی نافذ العمل قانون بن جاتاہے جس پرعمل درآمد عوام میں سے ہرفرد پرظاہراًاورباطناً فرض ہوگا"۔
قانونی آراء کی تبنی میں جو ریاست میں نافذ کی جائیں گی خلیفہ کیلئےعبادات میں سوائے زکوٰۃ اورجہاد کے تبنی کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ عقیدہ سے منسلک افکار میں تبنی کرے گا۔ یہ چیز ریاست میں مختلف مسالک کے درمیان سیاسی وحدت قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ جیساکہ مقدمہ دستور کی شق (4) میں ذکر کیا گیا ہے "خلیفہ عبادات میں سے زکوٰۃاورجہادکے سوا اور جو کچھ بھی امت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو کے علاوہ، کسی متعین حکم شرعی کی تبنی نہیں کرےگا۔ نہ وہ اسلامی عقیدہ سے متعلقہ افکارمیں سے کسی فکرکی تبنی کرے گا۔"
علاوہ ازیں اسلام نے خلیفہ کی احکام شرعیہ کی تبنی کومنظم کیاہے، کہ وہ شرعی نصوص سے احکام شرعیہ کے استنباط کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرے گا، اور اس کو صر ف ان احکام کی تبنی کی اجازت ہو گی جو اس نے اس طریقہ اجتہا د کو استعمال کرتے ہو ئے اخذ کئے ہیں جس کی وہ پہلے تبنی اور اعلان کر چکا ہے۔ اس لئے اگرخلیفہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جوشرعی نصوص سے استنباط کرکے اخذ نہیں کیاگیا یا جس کے اخذ کرنے میں اس طریقہ اجتہاد کو استعمال نہیں کیا گیا جس کو خلیفہ پہلے اپنا چکا ہے اور جس کا وہ اعلان کر چکا ہے تو ایسے ہر حکم کو باطل سمجھاجائے گا۔مقدمہ دستورکی شق (37) وضاحت کرتی ہےکہ"خلیفہ احکام شرعیہ کی تبنی میں احکام شریعت کاپابندہے، چنانچہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرنااس کے لئے حرام ہے جس کااس نے "ادلہّ شرعیہ" سے صحیح طورپر استنباط نہ کیاہو۔ وہ اپنے تبنی کردہ احکامات اورطریقہ استنباط کابھی پابندہے، چنانچہ اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جس کے استنباط کاطریقہ اس کے تبنی کردہ طریقے سے متناقض ہو۔ اورنہ ہی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کوئی ایساحکم دے جواس کے تبنی کردہ احکامات سے متانقض ہو۔"
نوٹ: مذکورہ شقوں (3، 4، 6، 7، 37، 103، 177) کےبارے میں قرآن وسنت سے ان کےمکمل دلائل دیکھنے کے لئے مقدمہ دستور کی طرف رجوع کیاجائے، نیز مقدمہ دستورمیں سے ان سے متعلقہ شقوں کودیکھنے کے لئے اس لنک پرویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
د) پالیسی: خلافت جمہوریت کی گروہ بندی اور تقسیم پر مبنی سیاست کا خاتمہ کرے گی۔
1- جمہوریت کا خاتمہ معاشرے سے گروہ بندی اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر دے گا۔
2- خلافت نسل، قومیت اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے گی اور ان کے معاملات کو اسلام کے احکام کے مطابق منظم کرے گی۔
3- خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔ وہ تعلیمی نصاب اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں میں ہم آہنگی اور وحدت کا پرچار کرے گی۔
4- خلیفہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ درست اجتہاد کے ذریعے جو ان قانونی مصادر پر مبنی ہو جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیے ہیں، قانونی آراء کی تبنی کرے اور اس کی تبنی شدہ احکام کی اتباع تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ خلیفہ کی احکام کی تبنی شرعی احکام کی تابع ہے۔ خلیفہ عقائد اور عبادات میں تبنی نہیں کرے گا۔
5- خلافت تمام حربی ممالک، جن کا سربراہ امریکہ ہے، سے تمام تعلقات منقطع کر لے گی اور پاکستان سے ان ممالک کی سفارتی، فوجی اور انٹلیجنس موجودگی کا خاتمہ کر دے گی۔ یوں امریکہ کی ہمارے علاقوں تک عدم رسائی امریکہ کی مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی قابلیت کو ختم کر دے گا۔

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے حزب التحریر ایک پر امن سیاسی جماعت ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے اور اس کے بیان کی سختی سے مذمت کرتی ہےجو ایک اخبار میں بروز جمعہ 14مارچ 2014 کو شائع ہوا۔ اس بیان میں ازبک سفیر نے حزب التحریر کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی اور یہ بے بنیاد الزام عائد کیا کہ حزب التحریر سے منسلک ازبک باشندے پاکستان کے قبائلی علاقے میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ حزب التحریر سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ حزب التحریر ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد میں رسول اللہﷺکے منہج پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ازبکستان کی مجرم حکومت اور اس کے بے شرم اہلکار اسلام کے خلاف کسی بھی محاذ میں اپنے حصہ ڈالنے کے لیے تیاررہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ پاکستان کی حکومت مذاکرات اور آپریشن کا ڈرامہ کھیل کر افغانستان کے نام نہاد الیکشن کو کامیاب بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہےاور ان لوگوں کونشانہ بنارہی ہے جو جزوی امریکی انخلاکے نام پرافغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو ازبکستان کی حکومت بھی آگے بڑھی ہے تاکہ قبائلی علاقے کے مسلمانوں کا خون بہانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی اس نے حزب کے صاف دامن پر کیچڑ اچھالنے کو بھی ضروری سمجھا ،تاہم یہ ازبکستان کی حکومت کی پہلی ناکام کوشش نہیں ہے۔ ازبکستان کی مجرم حکومت ایک عرصے سے حزب التحریر کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کی نتیجے میں امت کی نظر میں حزب التحریر کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی ہوا۔ کیونکہ امت خلافت کے تصور اور اس کی نگہبانی کرنے والی جماعت حزب التحریر کی پر امن سیاسی و فکری جدوجہد کےطریقہ کار سے آگاہ ہے اور امت اس بات کو بھی جان چکی ہے کہ کس طرح مسلم دنیا کہ غدار حکمران اپنے استعماری آقاؤں کی خاطر اسلام کی واپسی ، خلافت کے دوبارہ قیام کے راستے میں کھڑے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو خلافت کے قیام کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ازبکستان کی جیلیں اس بات کا سب سے بڑاثبوت ہیں جہاں حزب التحریر کے درجنوں شباب کو شہید کیاجا چکا ہے، محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔
حزب التحریر ازبکستان کے سفیر کو خبردار کرتی ہے کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں کہ جب کفار کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی مسلم دنیا میں قائم مصنوعی حکومتیں کیفر کردار تک پہنچیں گیں ، کیونکہ خلافت کا قیام اب بہت قریب ہے۔ عنقریب خلافت کا قیام ان کے چہروں کو خوف سے بے رونق اور سیاہ کر نےوالاہےا وروہ وقت کیسا ہو گا کہ ازبکستان کے مجرم حکمران کو دنیا میں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس وقت یہ استعماری کفار کہ جن کی خاطر ازبکستان کا حکمران مسلمانوں اور ان کے نظامِ خلافت کے خلاف لڑنے کے لیے دن رات ایک کرتا رہااس سے منہ موڑ لیں گے ، جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے ایجنٹوں کے ناکارہ ہوجانے پر ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ๐ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ๐ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ๐ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ ๐ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
"وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں عیش کررہے تھے ، اسی طرح ہوگیا اور ہم ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنادیا۔ ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی" (الدخان:29-25)

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک