صرف خلافت ہی سندھ کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے
- Published in سینٹرل میڈیا آفس
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر