وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيد یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پرایمان لائے تھے (البروج: 8)
- Published in پاکستان
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
نوید بٹ، ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے مشہور و معروف اور انتہائی قابلِ احترام ترجمان ، جنہیں آج سے دو سال قبل 11 مئی 2012ءکو اغوا کیا گیا تھا، آج تک حکومتی غنڈوں کے قبضے میں ہیں۔ نوید بٹ کا مسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کی سازشوں کو مسلسل بے نقاب کرنا اور اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کے نقشے کو واضح طور پر پیش کرنا سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو سخت ناپسند تھا اگرچہ اسلام کی یہ حکمرانی مسلم دنیا کے لئے بالخصوص اور پوری دنیا کے لئے بالعموم خیرو بھلائی کا باعث بنے گی۔ یہ غدار اپنے استعماری آقاؤں کی پالیسیوں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نوید بٹ کو خاموش کرنے کے لئے حرکت میں آئے، وہ استعماری آقا کہ جنہوں نےشام سے لے کر ازبکستان تک خلافت کی دعوت کے خلاف جنگ برپا کر رکھی ہے۔ پس ان ظالموں نے اسلام کے خلاف اپنے متعددجرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا اور نوید بٹ کا پیچھا کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اِن کے غنڈوں نے نوید بٹ کو اُن کے بچوں کے سامنے اغوا کرلیا۔ اور آج کے دن تک ان غداروں نے صرف نوید بٹ کو ہی اپنے قید خانے میں قید نہیں کر رکھا ہے بلکہ انہوں نے حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم و جبر کی مہم برپا کر رکھی ہے۔ یقیناً خلافت کی دعوت ان کی آنکھوں میں اس قدر کھٹکتی ہے کہ وہ اپنے غنڈوں کو ہر اس جگہ بھیجتے ہیں جہاں حزب التحریر کے شباب عوام سے مخاطب ہوں یا عوام کے درمیان پمفلٹ تقسیم کر رہے ہوں خواہ یہ چند منٹوں کے لیے ہی ہو۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہمیں انشاء اللہ نوید بٹ کے لئے کوئی افسوس یا رنج یا مایوسی نہیں ہے کیونکہ وہ خیر کی دعوت کی راہ کے مسافر ہیں، وہ راہ کہ جس پراس سے قبل انبیاء علیہ السلام ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے صالحین نے چل کر دکھایا اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ نوید بٹ کے اپنے بیوی بچوں اور خاندان سے لمبی جدائی بھی کسی افسوس یا رنج کا مقام نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نیکو کاروں کو ان کے خاندان والوں کے ساتھ ملادے گا، اس دنیا کی مختصر زندگی کی طرح نہیں بلکہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، ایک ایسا ملاپ کہ جس کے بعد پھر کبھی کوئی جدائی نہیں ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ﴾ "ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ داداؤں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ نہ ہی یہ ظلم و جبر ان لوگوں کے لیے کسی رنج یا افسوس کا باعث ہے جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انشاء اللہ کامیابی قریب ہے۔ یقیناً آزمائش وہ بھٹی ہے جس سے گزر نے سے اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرب اور رضا نصیب ہوتی ہے اور اس کی مدد اور کامیابی حاصل ہوتی ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِيْنَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ﴾ "کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ:214)۔
ہاں یقیناً رنج و غم اور افسوس ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کر کے اللہ کے حضور اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں، بلکہ افسوس اور حسرت تو ان جابروں کے حصے میں آئے گی جو اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کی جانب سے پہنچائی گئی دعوت کو مسترد کرتے ہیں اور ان پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾ "بے شک جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ستایا پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اوران کے لئے جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10)۔ اور رنج و افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم ڈھانے کے احکامات جاری کرتے ہیں، اوررنج و افسوس ان غنڈوں کے لئے ہے جو ان جابروں کے بازو، آنکھیں اور کان بنے ہوئے ہیں اور ان کے احکامات کو نافذ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اطاعت نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ﴾ "اور(جہنمی) کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 67)۔
اے افواج پاکستان! اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کا اغوا اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا محض ایک جرم ہے۔ لیکن بے شک وہ ہر طرح کے سنگین جرائم سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ملکِ پاکستان کو دشمنوں کی چراگاہ بنا رکھا ہے اور اس کے لوگوں کو غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ جب تک یہ ظلم یعنی کافر دشمنوں کی اطاعت اور کفر کے نفاذ کا سلسلہ جاری رہے گا، ہم ذلت، مایوسی، فتنے اور سزا سے ہی دوچار رہیں گے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ "اور ڈرو ایسے وبال سے کہ جو خاص کر تم میں سے ظالموں پر ہی واقع نہ ہوگا (بلکہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے)، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (الانفال: 25)۔ اوررسول اللہﷺ نے فرمایا: ﴿إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب﴾ "اگر لوگ ایک ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے" (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔
اگر آج یہ ظلم وجبر جاری و ساری ہے تو یہ آپ کی گردن پر ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں آپ ہی اہلِ نُصرۃ یعنی عسکری مدد فراہم کرنے کے اہل ہیں، اورآپ یہ قوت رکھتے ہیں کہ کفریہ حکمرانی کا خاتمہ کرکے اسلام کی حکمرانی کو بحال کردیں۔یقیناً آپ کے اسلاف آپ ہی کی مانند میدانِ جنگ کے شہسوار تھے کہ جن کی مادی مدد سے رسول اللہﷺ نے کفر کی حکمرانی کواُس مادی سہارے سے محروم کردیا تھا کہ جس پر وہ کھڑی تھی۔رسول اللہﷺ ایک مضبوط مادی قوت کی تلاش میں تھے اور قبیلوں سے واضح طور پر پوچھتے تھے ﴿﴿و هل عند قومك منعة؟﴾﴾ "کیا تمھارے لوگوں میں طاقت ہے؟" آپﷺ نے ان لوگوں کی مدد کو مسترد کردیا جو اسلام کو اس کے دشمنوں سے تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ کئی قبائل سے ملے جن میں بنو کلب، بنی عامر بن صعصہ، بنو کندہ اور بنو شیبان وغیرہ شامل تھے۔رسول اللہﷺ اس طریقہ کار پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہﷺ کے ذریعے آپ کو نُصرۃ کے معاملے میں کامیابی عطا کردی۔ انصار کا یہ گروہ جنگی صلاحیت کے حامل گروہوں میں سے ایک چھوٹا لیکن بہادر اور مخلص افراد کا گروہ تھا۔ اوریوں سیرتِ نبوی کے ذریعے اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے نُصرۃ کے شرعی حکم کاتعین ہو گیا اور اس کے نتیجےمیں منتشرا ورتقسیم شدہ یثرب اسلام کے طاقتور قلعے مدینہ منورہ میں تبدیل ہو گیا۔
اے افواج پاکستان! نوید بٹ کی طرح کے افراد نہ تو کوئی حیران کن بات ہے اور نہ ہی کوئی یکتا مثال، کیونکہ یہ سرزمین ایسے بہادر لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ جن کا ایمان انہیں کفر کے سامنے دلیری دکھانے اورڈٹ جانے کی طرف ابھارتا ہے۔ اس خطے کے لوگوں نے خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت سےہم مسلمان ہونے کے ناطے اسلام کے لئے اپنا خون پسینہ بہاتے رہے ہیں۔ ہم مسلمان کفار کی افواج کو شکست سے دوچار کرتے رہے ہیں اور کئی سو سال تک اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ یہ برِصغیر اپنی خوشحالی کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ہم نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کیا اور دو سو سال تک کفر یہ برطانوی راج کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے رہے۔ ہم نے برطانوی افواج کو اس سرزمین کو چھوڑنے پر اس طرح مجبور کیا کہ انہوں نے دوبارہ واپس آنے کی ہمت نہیں کی اور پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آگیا۔ مسلم انڈیا کی تقسیم کے دوران ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور یہ قربانیاں ہمارے لیے ہرگز رنج اور افسوس کا باعث نہیں ہیں ۔
اسلام آج بھی ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ، یہ ہماری زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے اور ہم اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اور آج، اس موقع پر، اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کا طریقہ کار نصرۃ کے حامل افراد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے نُصرۃ فراہم کریں اور آپ میں سے ہر شخص نُصرۃ فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ سو تم راحیل ۔نواز حکومت کی صفوں میں موجود ان لوگوں کی دنیاوی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کو برباد کرنے سے بچو کہ جواُس حلف سے پِھر چکے ہیں جو انہوں نے اٹھایا تھا اور تمھاری قیادت کو آلودہ کررہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے خلافت کے دوبارہ قیام کے لئےحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرو، جوفقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت تلے سرگرمِ عمل ہے۔ وہ لوگ جو اب تک اس مقصد کے لئے آگے نہیں بڑھے، انہیں اب لازماً آگے آنا چاہیے کیونکہ خلافت کے قیام کا کام اپنے ابتدائی مرحلے میں نہیں بلکہ آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھو اور اس بات کو جان لو کہ ہم پر کوئی بھی مشکل اور تکلیف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہیں آتی اور مؤمن اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ "کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ جبکہ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو" (التوبۃ: 13)۔