الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز اور جھوٹے میڈیا میں موجود اس کے گماشتوں کو عبرت ناک انجام سے خبردار کرتی ہے

پریس ریلیز

حزب التحریر پولیس کی جانب سے اس کے اراکین اور اس کے حمایتی ان متقی مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کی پر زور مذمت کرتی ہے جو اس جلوس میں شرکت کے لیے جارہے تھے جس کا اعلان حزب نے کر رکھا تھا جو کہ جمعہ(27 دسمبر 2013) کا دن تھا، جہاں پولیس نے حسینہ کے حکم پر ان راہ چلتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور تقریباً چالیس لوگوں کو گرفتار کر لیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو گئی اور گرفتار کیے گئے لوگوں پر بھی انتہائی قریب سے گولیاں برسائیں گئیں۔ اس سے بھی رسواکن اقدام یہ تھا کہ پولیس نے قریبی ہسپتالوں میں موجود زخمیوں کا پیچھا کیا اور ان میں سے زیر علاج سات افراد کو گرفتار کرلیا۔ میڈیا کے ایک دھوکہ باز حصے نے بھی حسینہ اور پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی جو جھوٹ کو پھیلانے میں حکومت اور پولیس کے ہرکاروں کا کردار ادا کر رہا ہے،جس نے یہ بہتان تراشا کہ حزب کے اراکین اور اس کے حامیوں نے پولیس پر پتھراو کیا اور اینٹیں پھینکیں اور دستی بموں سے حملے کیے۔
حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز میں موجود اس کے غنڈوں کوخبردار کرتی ہے کہ عنقریب تم اپنے ان گھناؤنے جرائم کا عبرتناک ترین صلہ پاؤں گے۔ ریاست خلافت جو کہ مخلص افسران کی نصرۃ سے جلد ہی قائم ہونے والی ہے تمھارا احتساب کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔
اور شیخ حسینہ اور اس کے فیصلوں میں شامل اس کے ساتھی آخرت میں بھی بدترین عذاب کا سامنا کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ " جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر توبہ بھی نہیں کرتے تو ان کے لیے جہنم اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) ۔
اور سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب التحریر کے کارکنوں اور اراکین پر اس یلغار کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ دین حق کے پیروکار ہیں اور اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ اس پر اس وجہ سے تمہارا محاسبہ نہیں کرے گا کہ تم تو "حکومتی احکامات کے پابند ہو "! تو اچھی طرح سن لو اللہ سبحانہ وتعالٰی فرماتے ہیں: يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَ ط وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ "جس دن آگ میں ان چہروں کو الٹ پلٹ کیا جائے گا تو یہ کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہو تی ۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے تو اپنے راہنماؤں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی اور انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 66-67)۔
میڈیا والوں سے بھی ہم کہتے ہیں کہ اس قدر شرمناک جھوٹ کی نشر واشاعت کرتے ہوئے تمہیں شرم بھی نہیں آتی؟! جو تصاویر تم نے دکھائیں ہیں یا جو ویڈیو تم نے نشر کی ہے اس میں تو کہیں بھی کسی نے اینٹ یا پتھر نہیں اٹھا یا یا مارا ہے اور نہ ہی کہیں کسی دستی بم کے نشانات ہیں، پھر یہ سب تم کیسے کہتے ہو ؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ : مِن أفرى الفرى أن يُريَ الرجل عينيه ما لم تريا "بدترین جھوٹ یہ ہے کہ ایک آدمی اس چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہیں دیکھی ہے؟"
ہم نے کہا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ :حسینہ حکومت گولہ بارود کی گن گرج کے زریعے اور تشدد کے دوسرے طریقوں کے ذریعے حزب التحریر اور دوسرے متقی لوگوں کو خاموش کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی۔ یہ سارے ہتھکنڈے ان کے حوصلےپست نہیں کریں گے بلکہ اللہ کی مدد سے ان کے عزائم کو جلا بخشیں گے۔ حکو مت اپنی اس روش کے ذریعے اپنی ہی تباہی میں جلدی کر رہی ہے۔
﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾
"وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کہ لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹا ہو چکے ہیں اس لیے ڈرو تو اس بات نے ان کے ایمان کو اور مضبوط کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کا فی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے"


https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری

نصیر الاسلام محمود

جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔

امریکی راج خاتم کرو، خلافت قائم کرو راحیل-نواز حکومت امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے

حزب التحریر افغانستان سے محدود انخلاء کے امریکی منصوبے کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت کی جانب سے خطے میں امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی کوششوں کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ یکم جنوری 2014 کو امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر ، جلیل عباس جیلانی نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ " امریکی انخلاء کی محض بات چیت ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔اگر افواج کی بڑی تعداد واپس چلی جاتی ہیں تو زیادہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آجائے گی"۔
یہ بیان ایک جھوٹ ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے محدود انخلاء کے نتیجے میں خطے کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی سے مسلسل وسیع ہوتی امریکی موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خطے سے امریکہ کی موجودگی مکمل طور پر ختم ہوجائے جس میں سفارت خانوں، قونصل خانوں ، سفارتی عملے، انٹیلی جنس اور نجی امریکی افواج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اب تک موجود ہے جو ہمارے ملک میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کا اصل ذمہ دار ہے اور پھر اس صورتحال کو بہانا بنا کر ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے اور پھر بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کاروائیاں کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ اور یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے تباہی و بربادی کے سلسلے کو افغانستان کے مسلمانوں پر مسلط کردیا ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت یہ بیان دینااس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مشرف و عزیز یا کیانی و زرداری کے دور سے جاری پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ مکمل طور پر نہیں جارہا۔ 3 دسمبر 2013 کو نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، نیشا ڈیسائی بسوال نے اعلان کیا کہ "پاک افغان خطے میں ہماری موجودگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم نہیں جارہے۔ ہم کہیں بھی نہیں جارہے"۔ اور یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 7 دسمبر 2013 کو امریکہ سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے کہا کہ " کابل کے دورے کے دوران اسے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کو برقرار رکھنے کے لیے درکار معاہدہ کو مناسب وقت پر مکمل کرلیا جائے گا"۔ لہٰذا راحیل-نواز حکومت غداری کے اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر اس سے پہلے کیانی زرداری حکومت اور اس سے بھی پہلے مشرف و عزیز حکومت چل رہی تھی۔
وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو خطے میں موجود دشمن کی تنصیبات اور ڈھانچے کےخاتمے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو فوری حرکت میں لائے گی۔ ایسی حکومت صرف خلافت میں ہی ممکن ہے جو دشمن کے احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکامات کے آگے جھکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود )اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمھارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں" (الممتحنہ :1)۔

عوام پکار رہے ہیں، "بہت برداشت کرلیا حسینہ اورخالدہ کو، بہت برداشت کرلیا عوامی اور بی۔این۔پی کی حکومتوں کو" اور مخلص افسران سے خلافت کے قیام کے لیے مادی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

پریس ریلیز

حزب کی جانب سے آج 27دسمبر 2013 کو مکتنگن، ڈھاکہ میں عوامی اجتماع اور مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اعلان کے مطابق حزب التحریر کے ڈھاکہ اور اس کے گردو نواح کے اراکین اور کارکنان عوام کے ساتھ مل کر بڑی تعداد میں اجتماع کی جگہ کے پاس موجود مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے اور اجتماع کے مقام کی جانب پیدل مارچ شروع کیا۔ انھوں نے کلمہ طیبہ سے مزین جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ اپنے پُرزور نعروں کے ذریعے افواج میں موجود مخلص افسران سے عوامی-بی.این.پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے اختیار حزب التحریر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ کچھ جلوس اجتماع کے مقام کے پاس موجود مساجد میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان جلوسوں میں وقفے وقفے سے دوسرے جلوس بھی شامل ہوتے رہے۔ یہ جلوس شینگن، باغیچہ، دینک بنگلہ، بیجوئےنگر، ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال گیٹ اور دوسرے مقامات سے آئے تھے۔


جلوسوں کو روکنے کے لیے حکومت نے اپنی تمام طاقت کو جھونک دیا اور لاٹھی چارج، تیز آواز پیدا کرنے والے گرینیڈ اور ربڑ کی گولیا ں استعمال کیں۔۔۔لیکن مسلمان بہادری سے ڈٹے رہے اور اپنے آباؤ اجداد، حمزہ بن عبدالمطلب، عمر بن خطاب اور حسین بن علی کے نقش قدم کی پیروی کی۔ حکومت نے کئی افراد کو گرفتار کیا لیکن وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جابر حسینہ کی جانب سے گرفتاریاں اور ظلم و تشدد، جو کہ آرمی افسران کی قاتل اوراستعماری طاقتوں کی ایجنٹ ہے، کبھی بھی مسلمانوں کو خلافت کے قیام کے مطالبے اور اس کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ اور جب خلافت قائم ہوجائے گی تو وہ لازمی حسینہ کو اس کے مظالم ، بدعنوانی، غداری اور آرمی افسران ، علماء اور متقی و پرہیزگار مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں عبرت ناک سزا دے گی۔
حزب التحریر افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ لوگوں اور حزب کے اراکین اور شباب کی اس زبردست اور بہادرانہ جدوجہد کی حمائت کریں۔


اے افسران! لوگ دیکھ رہے ہیں کہ تم اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، بان کی مون کی پکار پر جنوبی سوڈان جانے کی تیاریاں کررہے ہو۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تم حسینہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے انتخابات کے دوران "امن"قائم رکھنے کے لیے حرکت میں آگئے ہو جبکہ ان انتخابات کا مقصد محض حسینہ کے ظلم و جبر پر مبنی اقتدار کو مزید طول دینا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کے مشن سے حاصل ہونے والے ڈالر تمھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں؟ کیا تمھاری حسینہ سے وفاداری اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ اہم ہے؟ اگر تمھارا جواب یہ ہے کہ تم صرف آرمی کمانڈکے احکامات کی اطاعت کررہے ہو، تو ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ تمھاری اپنے رب کی اطاعت کہاں گئی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اللہ کی نافرمانی کرکےبندے کی اطاعت نہیں کی جاسکتی "۔


اے افسران! ہم تم میں موجود بہادر مردوں سے ، وہ جو مخلص ہیں، وہ جو اسلام اور اس کی امت کے وفادار ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ:
دنیا کے عارضی فوائد کے لیے اسلام اور اس کی امت کو تنہا مت چھوڑو۔ غیر شرعی احکامات اور ان کی اطاعت کے نام پر اسلام اور مسلمانوں سے منہ مت موڑو۔ حزب التحریر اور عوام تمھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی دعوت کی جانب بلاتے ہیں ۔ تو اس دعوت کے علاوہ ہر دوسری دعوت، مطالبے اور احکامات کو ٹھکرا دو۔ لوگوں کی پکار کا جواب دو اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی اطاعت کرو۔ مسلمان ہونے کے ناطے ظالم حسینہ اور عوامی- بی.این.پی کی حکومت کو ہٹانے اور خلافت کے قیام کی اپنی ذمہ داری کوا دا کرو۔


﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے" (الانفال: 24)

حزب التحریر کامیڈیا آفس
ولایہ بنگلادیش

 

https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

 

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

 

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک