الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

پشاور کے تبلیغی مرکز میں بم دھماکہ راحیل نواز حکومت پر پاکستان میں امریکی وجود کا خاتمہ لازم ہے

حزب التحریر کل پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے بم دھماکے کی پرزور مذمت کرتی ہے اور اس شیطانی کاروائی کا براہ راست ذمہ دار راحیل- نواز حکومت کو قرار دیتی ہے کیونکہ انھوں نے ابھی تک ان عناصرکو کھلی ڈھیل دی ہوئی ہےجنھوں نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک سے منسلک ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری کیے اور انھیں ملک بھر میں فوجی و شہری تنصیبات کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور اپنی نگرانی میں ان پر عمل درآمد کروانے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے۔
کیا کوئی بھی مخلص مسلمان اس قسم کی شیطانی کاروائی کے متعلق سوچ بھی سکتا ہے؟ پچھلے ایک ہفتے کےدوران کراچی سے لے کر پشاور تک پولیس افسران، سیاست دانوں اور اب تبلیغی مرکز پر حملہ کیا گیا اور پھر ان حملوں کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال دی گئی جس کا مقصد اُن مخلص مجاہدین پر دباؤ ڈالنا ہے جو امریکہ کے خلاف برسرپیکار ہیں تا کہ انھیں افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے منصوبے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان حملوں کو جواز بنا کر ان کے خلاف بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ پشاور کے تبلیغی مرکز پر حملے کی ذمہ داری کسی بھی جانب سے قبول نہ کرنے کے باوجود حکومتی چمچوں نے اس حملے کو بھی قبائلی مسلمانوں سے جوڑ دیا اور ان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کی باتیں زور و شور سے کی جانے لگیں، یوں ایک بار پھر امریکی راج کو مستحکم کرنے کے لیے افواج پاکستان کو اس صلیبی جنگ کا ااندھن بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران پر یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جاری اس خونی کھیل کا اصل محرک امریکہ ہے اور جب تک خطے سےامریکہ کو مکمل طور پر نکال باہر نہیں کیا جائے گا مسلمانوں کا خون اسی طرح بہتا رہے گا اور امریکی وفادار ریمنڈ ڈیوس نیٹ کو مدد فراہم کر کے پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن کی دلدل میں دھکیلتے رہیں گے۔ لہٰذا، حزب التحریر مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ چُپ بیٹھ کر اس گھناؤنے خونی و شیطانی کھیل کو دیکھتے نہ رہیں بلکہ اپنی طاقت سے غداروں کو اکھاڑ پھینکیں اور حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کر کے خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں۔ خلیفہ فوراً امریکی اڈوں، سفارت خانوں، قونصل خانوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور تمام سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدر کردے گا اور اس طرح اس خطے میں جاری آگ و خون کے کھیل کو ختم کردیا جائے گا۔ تو آگے بڑھیں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی نےاس امت کی حفاظت اور اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کرنے کی جو ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے اسے ادا کریں اور اللہ کی نعمتوں کو حاصل کرلیں۔
﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾
"تو نعمتوں کے شائقین کو چاہیے کہ اسی سے رغبت کریں" (المطففین: 26)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

سوال کاجواب: قومی ریاست کی خدمت کرنے والے اداروں کی حقیقت


سوال:
ہم اکثر وبیشتر 'طاقت اور اتھارٹی' کے مراکز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں کہ قومی ریاست ہی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس ضمن میں ہم بطورمثال ان امریکی مفادات کو پیش کرتے ہیں جن کو امریکہ دنیا کی نمبرایک اورعالمی سیاست میں بہت زیادہ موثر کرداراداکرنے والی ریاست ہونے کے ناطے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ'طاقت اور اتھارٹی' کی حقیقی بنیاد قومی ریاست کی حدود سے بھی آگے بڑھ کرہے۔ اس سے ان کی مرادمتحدہ قوت کی حامل خفیہ عالمی تنظیمیں ہوتی ہیں جن کے پاس 'طاقت اور اتھارٹی' ہوتی ہے۔ جیسے سہہ فریقی کمیشن (The Trilateral Commission)، بلڈربرگ گروپ (Bilderberg Group) اورخارجہ تعلقات کی کونسل (Council on Foreign Relations) وغیرہ۔ بسا اوقات یہ تمام قوتیں ایک عام نام کے تحت یکجاہوجاتی ہیں ،مثلاً Illuminate، گلوبل بینکرزاوربڑے مالیاتی وتجارتی ادارے۔
جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان طاقت کے مراکز کی کسی بھی قومی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی دوستی نہیں ہوتی،حتی ٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی نہیں، بلکہ ان کے اندریہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ''نیوورلڈ آرڈر تھیوری '' کی بنیاد پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے باہرطاقت کے نئے ڈھانچوں کی طرف منتقل ہو جائیں جس کے نتیجے میں حیرت انگیز تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ڈالر سے جان چھڑائی جائے اور کسی نئی کرنسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے تیل کی تجارت میں ڈالر کے استعمال کو روک دیا جائے جو مختلف قسم کی اشیاء یا کرنسیوں کے یکجا ہوجانے پر انحصار کرتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس میں کہاں تک حقیقت ہے؟ اور اگریہ سچ ہے توحزب کانقطہ نظر 'طاقت اور اتھارٹی' کے ان مراکز کے حوالے سے کیاہے ، جو قومی ریاست کی حدود بے معنی کرتے ہوئے عالمی اتھارٹی کاروپ دھارلیتے ہیں۔

 

جواب:
1۔سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے قومی سوچ کے خاتمے پرکوئی کام نہیں کیا، بلکہ یہ اس کااعترا ف کرتی ہے اوراس نے ریاستوں کے درمیان قائم سرحدوں کوبھی تسلیم کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے عالمی معاہدات میں کھینچے گئے نقشوں کے ضمن میں علیحدہ ہونے والی ریاستوں کی آزادی کوتسلیم کیا۔ انہی معاہدات میں سے ایک معاہدہ 1815میں ہونے والاویانامعاہدہ تھا۔ ان ریاستوں کے درمیان قومیت پرستی کی بنیادپر جنگیں ہوئیں ......سرمایہ دارانہ ریاستوں نے قوم پرستی اوروطن دوستی کی سوچ کواختیارکیااور سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے سہارے اس کوتحفظ فراہم کیا۔ یہ ریاستیں قومی اوروطنی اتھارٹی اوراستعماری مفادات کی خاطرایک دوسرے کے ساتھ جنگوں میں اُلجھی رہیں،باوجود اس کےکہ ان سب کی بنیاد سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی پر استوارہے اوریہ ریاستیں دوسروں کے پاس بھی اسی آیئڈیا لوجی کولے کرجاتی ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کرغلط طریقے سے ریاست کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ : (ریاست) اتھارٹی ،قوم اور محدودعلاقائی حدود کانام ہے۔ پس اس آئیڈیالوجی کے قیام کے آغازہی سے ان ریاستوں کے درمیان خونی لڑائیاں جاری ہیں۔ جہاں تک یورپی یونین کاتعلق ہے تویورپ کئی بحرانوں کے ادوار سے گزرا ہے جس نے یورپ کو تقریباً زوال کا شکار کردیا ہے۔ اس کی بہت ساری ریاستیں ٹوٹنے کے قریب ہیں اور بیلجیم، اسپین ، برطانیہ اور اٹلی سمیت بہت سے ممالک میں علیحدگی کے نعرے گونج رہے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ ممالک نے وفاقی (Federal) نظام حکومت کو اپنایا ہےجو علیحدگی کے جراثیم پروان چڑحاتا ہے بالخصوص ان ریاستوں میں جومختلف قومیتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ علیحدگی اورانقسام کا یہی عنصر امریکی وفاق میں پایا جاتا ہے، وہاں 1860میں یہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی،جب شمالی وجنوبی امریکہ کی ریاستوں کے درمیان پانچ سال تک لڑائی جاری رہی تھی۔ اس تمام کے ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ فکرکے حاملین کے لئے قومی ریاست کاخاتمہ ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی ایک ہی ڈھانچے میں قوموں اورلوگوں کوڈھالنے میں ناکام ہوچکی ہے۔یہ نظریہ ایک ہی ریاست میں بسنے والی مختلف قومیتوں کو ایک قوم میں تبدیل کرنے میں شکست کھاچکا ہے ۔ اس بنا پر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے حاملین کے ہاں قومی ریاست کے خاتمے کی بات حقیقت سے کلی طورپربعید ہے ۔
ہرریاست میں موجود بڑے سرمایہ دار اپنی اپنی قوم کاحصہ ہوتے ہیں، اپنی قومی ریاستوں کے ساتھ تعاون اوراس کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں اور وہ اپنی قوموں کی بلاوسطہ یا بالواسطہ رہنمائی کرتے ہیں ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست میں اعلٰی عہدوں کو سنبھالنے والے کئی لوگ یا تو خود سرمایہ دار ہوتے ہیں یا ان کے سرمایہ داروں کے ساتھ روابط ہوتے ہیں یا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے بڑی کمپنیوں کے اداروں میں کام کیاہوتاہے۔
2۔سوال میں جن قوتوں کاذکرکیاگیاہے اوریہ کہ یہ قومی ریاست کی حدود سے بڑھ کر ایک عالمی اتھارٹی کی طرف بڑھی ہیں تو ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ادارے قومی ریاست بالخصوص امریکی ریاست کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے۔۔۔
ا ۔ جہاں تک بلڈربرگ گروپ کا تعلق ہے تو یہ 29 مئی 1954 کو ہالینڈ کے شہر اوسٹربیک (Oosterbeek) میں ڈی بلڈربرگ ہوٹل میں قائم کیاگیااوراس جگہ کی نسبت سے ہی اسے یہ نام دیاگیا۔ اس کاقیام ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) جیسے بڑے امریکی سرمایہ داروں کی طرف سے عمل میں لایاگیااور اس میں بعض یورپی لوگوں نے بھی شرکت کی جو مغربی یورپ کے ساتھ امریکی تعاون کی پالیسی کے حامی تھے۔ ان میں سے نیدرلینڈ کاپرنس برنہارڈ (Prince Bernhard)بھی تھاجسے اس گروپ کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ ان کے ساتھ گروپ کی ایڈمنسٹریشن میں جان کولمین (John Coleman) بھی تھاجوامریکی چیمبرآف کامرس کاصدرتھا۔ اس نے بتایاکہ اس (گروپ)کے قیام کامقصد یورپ میں امریکہ کے ساتھ دشمنی اورعداوت کے بڑھتے ہوئے ان احساسات کی روک تھام تھا جس کی وجہ درحقیقت وہ امریکی مارشل پلان تھا جس کی بدولت دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ پر واشنگٹن کا تسلط اوربالادستی قائم ہوئی اور یہ مسئلہ امریکہ نے یورپ کی مدد کی پالیسی کے تحت حل کیا جبکہ کیمونسٹ اورڈیگالیوں نے ان احساسات کوبھڑکانے میں اہم کرداراداکیا ۔ اس نے یہ بھی بتایاکہ''اس گروپ کے قیام کے پیچھے کارفرماعوامل میں امریکہ کے ساتھ اس معاندانہ رویہ کوکم کرنا شامل تھا، تاکہ امریکہ اوریورپ کے درمیان تعلقات کومستحکم کیاجائے ، مشرقی کیمونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کومضبوط کیاجائے اور مغربی تہذیب ،نیز سرمایہ دارانہ آزاد معیشت کے ماڈل کوتحفظ فراہم کیاجائے ''۔ اس گروپ کے اجلاسوں میں یورپ کے متعدد لیڈرز شریک ہوتے تھے ،جن میں کچھ شہزادے ،میڈیا نمائندگان ،پالیسی ساز اور دائیں بازوں کے کنزرویٹواورڈیموکریٹک سیاستدان ہوا کرتےتھے۔یہ گروپ سال میں ایک بار اپنا اجلاس منعقد کیا کرتا تھا؛ یہ ادارہ امریکی اہداف ،امریکی ہدایات اور احکامات کے لئے امریکیوں نے ہی قائم کیا ۔ لیکن کچھ لوگ فلمی انداز میں سوچ کراس کوایک خفیہ عالمی حکومت کی شکل میں پیش کرتے ہیں جو دنیا کے امور کو چلاتی ہے۔ ایک روسی مصنف نے خاص اسی موضوع پرایک کتاب لکھی ،جس کے کئی ملین نسخے فروخت ہوئے ، لیکن سیاسی مفکرین اورسیاسی شعور رکھنے والے اس گروپ کی حقیقت وماہیت سے باخبرہیں ، جیسے کہ ایک فرانسیسی نے یہ لکھاکہ:''بلڈربرگ گروپ جوکہ بااثرشخصیات پرمشتمل ہے ، دباؤ ڈالنے کے ایک مؤثر آلے کے سواکچھ نہیں جسے نیٹو اپنے مفادات کی ترویج کیلئے استعمال کرتاہے اور وہ اس کے ذریعے امریکہ کے اثرورسوخ کوتوسیع دینے پرکام کرتاہے "۔ اس گروپ میں امریکہ کی طاقت فرانس کے ورسائلزپیلس (the Palace of Versailles) میں 15 تا 18 مئی 2003 کو اس کے منعقد کئے گئے اجلاس اور اس میں فرانسیسیوں اورامریکیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے سے کھل کرسامنے آئی،جب فرانس کے صدرشیراک (Jacques Chirac) نے اجلاس میں شرکت کی توامریکیوں نے اسے اس بات پرتنقید کانشانہ بنایاکہ اس نے عراق جنگ میں امریکیوں کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اس کانفرنس میں اس کی بے عزتی اورتحقیر کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ، جہاں بش جونیئر کے عہد کے امریکی انتظامیہ کی اہم شخصیات ،امریکن ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمزفیلڈ،اس کانائب پاول وولفویٹز،امریکن ڈیفنس پالیسی کمیٹی کارکن ریچرڈ پرل ،اسی طرح سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر شریک تھے ، جبکہ انہی دنوں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول امریکی پالیسی کے حق میں حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے پہلے دورہ یورپ پرتھا۔ اس کانفرنس میں ان بڑے بڑے سودوں پر گرم بحث ومباحثہ ہوا جوامریکی کمپنیاں عراق میں کرچکی تھیں، جیسے بکٹل (Bechtel) اورہالبرٹن (Halliburton) وغیرہ۔ ایک یورپین ممبرپارلیمنٹ نے طنزیہ انداز میں سوال کرتے ہوئے کہا: یورپ کی کونسی کمپنیاں ان جیسے مہنگے سودے کرنے کی قابل ہیں؟ اسی طرح یورپین فوج کے قیام کے موضوع پربحث کی گئی۔ امریکیوں نے اس پراعتراض کیااوراس قسم کی فوج کی ضرورت کے حوالے سے امریکیوں اوریورپین کے درمیان بہت گرم بحث ہوئی ، بالآخرامریکہ نے اس فوج کی تشکیل کی سوچ کو مٹا کردم لیا۔
تو اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ بلڈربرگ گروپ یورپ پرامریکی تسلط کی پالیسی کے دفاع کاایک ذریعہ ہے ،اوراسی کے ذریعے امریکہ یورپ میں اپنے منصوبوں کی مارکیٹنگ اس طورپرکرتاہے کہ یورپ والوں کواس بات پرمطمئن کرلیاجائے کہ امریکی پالیسی ان کی پالیسی کے ساتھ متصادم نہیں ،بلکہ یہ ان کے اورپورے مغرب کے مفاد میں ہے ، جبکہ سب سے پہلے یہ امریکی مفادات اوراس کے منصوبوں کی تکمیل کاایک ایجنڈاہے۔
ب ۔ جہاں تک سہ فریقی کمیشن کاتعلق ہے ،یہ 1973 میں ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) اور زبگنیو برزنسکی (Zbigniew Brzezinski) کی جانب سے قائم کی گئی، جبکہ ان کے ساتھ امریکی مفکروں، سیاستدانوں اوردانشوروں کاایک گروپ بھی شامل تھا۔ جب کمیشن قائم کیا گیا تو امریکہ ،مغربی یورپ اور جاپان تینوں خطوں کے نمائندے اس کے ممبران ہوا کرتے تھے۔ اس کے اہداف یہ ہیں: ان ممالک کے باقی دنیامیں معاشی سیاسی اورخودمختاری جیسے مفادات کیلئے ان کے درمیان تعاون کااستحکام ، ان ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کاحل نکالنا، ان کے درمیان تجربات اورنقطہ نظرکاتبادلہ اورمشرق ومغرب کے درمیان بدلتے تعلقات کی نگرانی۔ لہٰذا یہ دیکھاجاسکتاہے کہ امریکیوں نے ہی یورپ اورجاپان پرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کیلئے اس کلب کوقائم کیا۔
ج۔ جہاں تک بڑے پرائیویٹ مغربی مالیاتی اورتجارتی اداروں کاتعلق ہے ،جن میں وہ بھی ہیں جو خاندانوں کی ملکیت ہیں ،جیسے راک فیلر (Rockefeller) فیملی ، یاروتھ شیلڈ (Rothschild) فیملی اوربلومبرگ (Bloomberg) فیملی، تویہ سب ان ممالک کی پالیسی کے دائرے میں اوران کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں اور یہ ملکی پالیسی کی تمام تفصیلات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ،جیساکہ ہم نے بلڈربرگ اورسہ فریقی کمیشن کے قیام میں راک فیلر کی سرگرمیوں کودیکھا، جویورپ ، جاپان اور دنیاکے دیگرممالک پرامریکی ریاست کا تسلط قائم کرنے کیلئے بنائی گئی۔ یہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہی ان کوتحفظ فراہم کرتی ہے ،وہی ان کی پشت پناہ ہوتی ہے ،ریاست ہی ان کے مفادات اورمنافع کے حصول کی ضمانت دیتی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاست یہ دیکھتی ہے کہ یہ کمپنیاں ہی ہیں جوبیرونی سرمائے اورمنافع کوریاست کے اندر کھینچ لانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی کمپنیاں اندرونی سطح پر منصوبے شروع کرتی ہیں اورمزدوروں کوروزگارفراہم کرتی ہیں۔ اس طرح کمپنیوں ان کواس نظرسے دیکھاجاتاہے گویایہ حکومتی ادارے ہیں جوحکومت کی بجائے شہریوں کی خدمت کااہم کرداراداکرتےہے اوراپنے ملک کے مفادمیں کام کرتی ہیں۔ نیز بیرونی سطح پراس کے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے ان کو ایک آلہ کارکے طورپر دیکھاجاتا ہے۔
ماضی میں برطانیہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے ذریعے داخل ہوا، پھراس کوفوراً اپنی کالونی میں تبدیل کرناشروع کیا۔ پرائیویٹ امریکی مالیاتی کمپنیاں اورادارے امریکی مفادات کیلئےیورپی یونین کے خلاف فعال کرداراداکرتے رہےہیں ۔ اس نے 2001میں یونان کی اقتصادی حالات کی جعلی تصویرکشی کی ،تاکہ یورپ کوکمزورکرنے یااس کوزوال سے دوچارکرنے کے لئے یونان کویوروخطے (Euro Zone) میں شامل کیاجائے، اور یوں خطے میں معاشی اوراقتصادی مشکلات کھڑی کی جائیں۔
چنانچہ نیویارک ٹائمز نے بتایاکہ ''2001 میں گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) بینک نے 15 ملین ڈالر کا جو سودا کیا،اس نے یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر میں بجٹ نگرانوں کی طرف سے دیےجانے والے یونان کے کئی ارب ڈالرز کے قرضوں کی وصولی کروائی'' (الجزیرہ ڈاکومنٹری: 'وال سٹریٹ یورپ کے مالیاتی بحران میں ملوث ہے' 14/2/2010)۔
کیونکہ وہ ان رقوم کو تجارتی لین دین کاحصہ سمجھتے ہیں نہ کہ قرض ۔ تواس نے ایساظاہرکیاکہ قرضوں کی حد نےقومی آمدنی اورجی ڈی پی کوپارنہیں کیا ہے اوریہ کہ ا فراط زر یورپ کے ہاں قابل قبول حد سے زائد نہیں۔ امریکا کا مقصد یہ تھاکہ یورپی اتحاد کوکمزوراور ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے اوریوروکونشانہ بنایاجائے اس طرح اس کے اندر ڈالرکے ساتھ مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ یورپ اوران کی معیشت بلکہ پوری دنیاپرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کی ضمانت دی جاسکے۔ چنانچہ بڑے پرائیویٹ امریکی مالیاتی ادارے اورکمپنیاں اپنے ملک کے مفاد کیلئے امریکی ریاست کے ساتھ نظم وضبط طے کرکے خاص کرداراداکرتے ہیں۔ جرمنی نے اس کے بارے میں اپنی بے چینی کااظہارکیااورجب 2010میں یونان میں مالیاتی بحران اُمڈ پڑا تو اس کوجھوٹ اورفراڈ کاطعنہ دیا۔ بحران جرمنی اور یورو زون کی ہم آہنگی پر اثراندازہوااوراس کے اثرات اب تک جاری ہیں۔
د۔ اس کے باوجود کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کاقیام عالمی اداروں کی حیثیت سے عمل میں لایاگیا، تاہم یہ ادارے اپنی آزادی کوحاصل نہ کرسکے کہ جو مختلف ریاستوں پرایک عالمی حکومت کی حیثیت سے حکم چلائیں جبکہ ہوا یوں کہ ان اداروںمیں امریکہ کو ہی مؤثراور فیصلہ سازکردار حاصل ہے۔ اس طرح امریکہ دیگرممالک پراپنی پالیسیوں کے نفاذ، بالادستی اوراثرورسوخ کیلئے ان کواستعمال کرتاہے ۔ ان عالمی اداروں نے امریکی پرائیوٹائزیشن اورگلوبلائزیشن کے قوانین اوراس کی مارکیٹ اکانومی پالیسی کودوسرے ممالک پرمسلط کردیا۔ امریکہ نے انہی اداروں کی وساطت سے پوری دنیا پر اپنی کرنسی ڈالرکومسلط کیااوراسی کوتیل ،گیس اورسونے چاندی وغیرہ جیسی دھاتوں اورسامان کی قیمتوں کیلئے ایک پیمانہ قراردیا۔ دنیا پر اپنا تسلط جمانے کیلئے ڈالرکوہی کرنسی کے تبادلے کیلئے عالمی کرنسی قراردیا۔ اس طرح ڈالردنیامیں اصل کرنسی بن گیا،جس کے ساتھ بہت سے ممالک کی کرنسیوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیز ڈالر ہی کئی ممالک کیلئے ریزروسرمایہ بن گیا۔ یہ ان اسالیب میں سے ہے جسے امریکہ دنیا پر اپنے تسلط اوربالادستی کے لئے استعمال کرتاہے۔ اس لئے ایک ایسی عالمی حکومت جودنیاکے امورکوسنبھالتی ہواورقومی ریاست کوختم کرے ،ایک ایسا سراب ہےجس میں کوئی حقیقت نہیں، بلکہ بڑی ریاستیں بالخصوص سپر پاورز ہی دنیا پر تسلط رکھتی ہیں ۔
3۔ سرمایہ دارانہ ممالک پرسرمایہ داروں کاتسلط ہوتاہے ،چنانچہ ہرسرمایہ دار ریاست میں یہ لوگ حکمرانوں کاانتخاب کرتے ہیں لہٰذا وہ کیوں ریاست کاخاتمہ کریں،جبکہ ان کے منتخب حکمران ان کے مفادات کی حفاظت کا فریضا سرانجام دیتے ہیں۔ یہ سرمایہ داراپنے اپنے ملک کی اس لئے حفاظت کرتے ہیں تاکہ ریاست ان کے مفادات کاتحفظ کرے اوراپنے منافع کوبڑھانے کیلئے ان کی ریاستیں دیگرریاستوں پراپنی بالادستی قائم کریں۔ توان کی ریاست جتنی مضبوط ہوگی اتناہی ان کی تجارت وسیع اوران کا منافع زیادہ ہو گا۔ مگرایک کمپنی یا مالیاتی ادارہ ریاست نہیں بن سکتا،کیونکہ اس کی نظرمنافع پرہوتی ہے ،نہ تو لوگ اس کو قبول کرتے ہیں اورنہ ہی ریاستی اداروں کی تشکیل ،اس کوچلانے اورلوگوں کے امورسنبھالنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ تو جب سرمایہ دارانہ ممالک نے پرائیوٹائزیشن کی پالیسی شروع کی توانہوں نے وہ حکومتی ادارے جولوگوں کے مفادات کے لئے خدمات پیش کرتے ہیں،پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیے،جیسے بجلی،ٹیلیفون اورشہروں یاممالک کے درمیان رابطے کے بعض ریلوے ٹریک اور شاہراہیں وغیرہ۔ یہ پرائیویٹ کمپنیاں جنہوں نے ان سہولیات کوخریدا ،ریاستی ایگزیکٹیواداروں کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگرلوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور کمپنی کے اثاثوں پر دھاوا بول دینے کافیصلہ کریں یااحتجاج کریں ،جیساکہ''وال سٹریٹ پرقبضہ کرو'' (Occupy Wall Street) مہم میں رونما ہوا تویہ کمپنیاں اپنے تحفظ کیلئے ریاست کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کو کچھ ایسے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنا کام آگے بڑھا سکیں اوراپنے منصوبے مکمل کرسکیں ۔ جب امریکہ میں مالیاتی بحران رونما ہوا،جس کے باعث یورپ میں بھی بحران پیداہوا تو کمپنیاں اورمالیاتی ادارے اپنے بچاؤ کیلئے ریاست کی محتاج ہوئیں۔ ریاست سے ان کامطالبہ تھاکہ وہ ا ن کے قابل اتلاف حصص خریدے ، جسے عام لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں کےذریعے خریدا گیا ۔ اس عمل کو سرمائے کی ترسیل کانام دیاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مالیاتی ادارے اورکمپنیاں ایگزیکٹو، جوڈیشل یا قانونی اتھارٹی نہیں رکھتی ہیں جہاں یہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کمپنیاں یہ کرتی ہیں کہ اندرونی وبیرونی طورپراپنے اوراپنے منصوبوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے حصول اورمنافع کمانے ،نیز بحرانوں کے وقت اپنے بچاؤ کیلئے ان اتھارٹیز پراثرانداز ہوتی ہیں۔
4۔ تمام ادارے اپنی قومی ریاست کی خدمت کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ ادارے اس حوالے سے کسی بھی عمل سے نہیں جھجکتے، خواہ وہ عمل کتناہی گھٹیا، غیراخلاقی یا انسانیت سوز ہی کیوں نہ ہو اورامریکہ کے جاسوسی سکینڈل سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ امریکہ نے دیگرممالک کی جاسوسی شروع کی جن میں سرفہرست اس کے اتحادی یورپین ممالک تھے۔
امریکہ ان ممالک کے حکمرانوں ،سفارت خانوں ،ا ن کی کمپنیوں اورعام شہریوں کی جاسوسی کرنے لگا، اس کے لئے پرائیویٹ الیکٹرانک آلات کواستعمال کیا، جواس کے جاسوس اہلکاروں کے کنٹرول میں تھے، اس میں Google اور Yahoo جیسی امریکی کمپنیاں بھی ملوث تھیں جوالیکٹرانک میڈیاپر کنٹرول رکھتی ہیں۔ یہ سکینڈل سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان قومی ریاست کی قیادت کے معاملے پرکشمکش پر سے پردہ اٹھاتاہے۔ امریکہ نے اپنے وزیرخارجہ جان کیری کی زبانی لندن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے اعتراف کیاکہ FBI کی جاسوسی کامعاملہ بعض اوقات حدود پھلانگ جاتا ہے۔ (بی بی سی2013/11/1)۔ اورساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیاکہ "جاسوسی کی ان کاروائیوں نے دہشتگردوں کے حملوں کوروکا ہے"۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ یورپ کی قیادت جرمن چانسلر انجیلا مرکل (Angela Merkel) جیسی شخصیات کی جاسوسی کرتے تھے اوراس کے ذاتی موبائل ٹیلفون کی دسیوں سالوں تک نگرانی کرتے رہے ، امریکہ یہ سب کچھ صرف قومی خود مختاری اوردنیامیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کرتاہے ،تاکہ امریکی تسلط سے آزادی کے حصول کیلئے کوشش کرنے والے یورپین ممالک کی ہرحرکت کی نگرانی کرسکے ،اورکسی بھی ایسی طاقت کوابھرنے سے روکاجاسکے جس کے بارے ایک عالمی حیثیت کی حامل ریاست بننے کی توقع کی جاسکتی ہے جواس کے ساتھ مقابلہ کرے یااس کے تسلط کواس سے خطرات پیداہوسکتے ہیں۔ امریکہ کی تمام کمپنیاں قومی ریاست ،اس کی ثقافت اوراقدارکی خدمت کرتی ہیں۔ یہ اس وقت بالکل واضح طورپرسامنے آیاجب تین سال قبل چین اورامریکن کمپنی Google کے درمیان اختلاف واقع ہوا۔ چینی نیوز ایجنسی Xinhua نے 2010/3/23 کو کہاتھا ''افسوس Google چین میں نہ صرف اپنی تجارتی سرگر میوں کی توسیع کی لئے کوشش کرتاہے ،بلکہ وہ امریکی اقداروافکاراورامریکی تہذیب وثقافت کوپھیلانے میں بھی مصروف ہے''۔ بلکہ امریکہ نے یورپ میں بھی اپنے مخصوص افکار ،اقدار اوراپنی اس مخصوص ثقافت کوترویج دی، جواس جیسے سرمایہ دارانہ افکاررکھتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا تاکہ امریکی شہریوں اورریاست کیلئے تحسین و تکریم کمائی جائے اور یورپ پرامریکی دھاک قائم رہے۔
5۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ یہ جوعالمی تسلط کی حامل خفیہ تنظیموں کانام لیاجاتاہے ،جوسرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی اساس پرقائم قومی ریاستوں کے وجود کاخاتمہ کرتی ہیں ،ایسی تنظیموں کاکوئی وجود نہیں۔ اوریہ کہ بلڈربرگ گروپ اورسہ فریقی کمیشن ان گروپوں سے عبارت ہے ،جنہیں امریکیوں نے دنیاپراپنے ملک کے تسلط کوبرقراررکھنے کیلئے قائم کیا۔ اوریہ کہ امریکہ کی بڑی مالیاتی، تجارتی، الیکٹرونک، پراپرٹی کمپنیاں یا فوجی اڈوں پر قائم ہونے والی بڑی کمپنیاں یا دیگر بڑے صنعتی ادارے ،بڑے بڑے تاجر ، ایکس چینج مالکان اور سٹاک ایکس چینج کے سٹے بازسب کے سب اپنے ملک کے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے مالی منافع کے تحفظ، اس میں اضافے اوربیرونی واندرونی سطح پراس کی توسیع کیلئے اپنے ملک کے اتھارٹیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور بیرونی سطح پردوسرے ممالک کے خلاف اپنے وطن کی پالیسی کی خدمت اوران پراپنے ملک کا اثرورسوخ بڑھانے کی ضمانت دینے میں کرداراداکرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ہرملک کے اندر فوجی اڈوں کے قیام اوراسٹریٹجک معاہدات کے ذریعے اپنے تسلط کوبرقراررکھنے کی کوشش کرتاہے ، نیٹو کو اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کیلئے استعمال کرتاہے اوراپنی قیادت میں اس کو مضبوط کرتا ہے۔ امریکہ نے یورپی فوج کے قیام کواس لئے ناکام بنایاتاکہ یورپ اس کی قیادت تلے رہے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے نقل وحمل کی نگرانی کیلئے ان کی جاسوسی کرتاہے ،خواہ وہ اس کے اپنے اتحادی کیوں نہ ہوں۔ امریکہ دنیاپراپنی اقتصادی اورمعاشی بالادستی کوبرقراررکھنے کیلئے ایک توڈالرکی عالمی کرنسی ہونے کی حیثیت کی حفاظت کرتارہتاہے ،دوسراعالمی بینک ،آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے عالمی مالیاتی اورتجارتی اداروں پراپناتسلط قائم کرکے استعمال کرتاہے۔ ریاست پرکنٹرول حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ بالخصوص عالمی امن کونسل پرتسلط اوردیگرممالک کے اندراپنے ایجنٹوں اور ان کے اندرنظام حکومت کواپنے ماتحت کرنے کے اقدامات کرتاہے۔ ان سب کامقصد امریکی ریاست ،اس کی قومی شناخت اوراسکی عالمگیر قیادت کی حیثیت کی حفاظت ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے برطانیہ اورفرانس وغیرہ جیسے اپنے ہی سرمایہ دارانہ برادرممالک کے ساتھ کشمکش شروع کی تاکہ ان کی نو آبادیات اوران کے اثرونفوذ کے علاقوں میں ان کی جگہ لے سکے۔ اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوااوران ممالک کوعالمی صورتحال سے دورکردیاتاکہ تنہااسی کودنیاکاآقامان لیاجائے جودنیاکی قسمت کافیصلہ کرے ،اس کی کہی ہوئی بات حتمی ہو،وہ اکیلاہی مغربی دنیاکاچیمپین اورسرمایہ دارانہ فکروالوں کی قیادت اورنگرانی کرے اوران کے خلاف جنگ کااعلان کرے جواس کی فکر سے متصادم کسی دوسری فکر کے علمبردار ہوں یااس کی بنیادپر کوئی ریاست قائم کرنا چاہیں خواہ وہ ریاست بڑی ہویا چھوٹی۔ اس لئے وہ ریاست خلافت کی واپسی کی طرف دعوت کوکبھی بھی برداشت نہیں کرتا، اس کے ریسرچ سنٹرز اوراسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ ابھی سے، یعنی خلافت کے قیام سے پہلےہی مطالعے اورمنصوبے ترتیب دے رہے ہیں تاکہ اس کیلئے کی جانے والی ہرکوشش بلکہ اس میدان میں کسی قسم کی فکرکاتوڑ کرسکےمگروہ جلد یابہ دیرجان لیں گے کہ خلافت موجودہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی طرح کی ریاست نہیں ہو گی جس پر معمولی سرمائے کانقصان کرکے امریکہ تسلط حاصل کرپائے گا ،بلکہ اللہ القوی العزیز کے اذن سے خود امریکہ کوہی زبردست نقصان اٹھاناپرے گا (واللہ غالب علیٰ امرہ ولٰکن اکثرالناس لایعلمون) "اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔

سوال کا جواب: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کا ایٹمی معاہدہ

 

سوال: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اس کے بارے میں بین الاقوامی اور علاقائی موقف اور سیاسی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان بیانا ت سے اس مسئلے کے حوالے سے نقطہ نظر میں پیچیدگی اور تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ایران اس کو کامیابی قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کو یورینم کو افزودہ کرنے کی اجازت ہے جبکہ امریکہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق دینے کی تردید کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس معاہدے سے یہودی وجود زیادہ محفوظ ہو گیا۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی ایران کو ایٹمی ملک بننے نہیں دے گا۔ یہودی وجود اس معاہدے کو ایک برائی اور تاریخی غلطی قرار دیتا ہے۔۔۔ان سب چیزوں نے مجھے اور ہو سکتا ہے مجھ جیسے کئی لوگوں کو اس معاہدے کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔۔۔سوال یہ ہے کہ :اس معاہدے کی حقیقت کیا ہے اور کس کا موقف درست ہے؟ کیا اس معاہدے کا تعلق خطے میں ایران کے کردار سے ہے ،مثال کے طور پر شام میں رونما ہو نے والے واقعات کے ساتھ؟ اوبامہ کی جانب سے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اس سرتوڑ کوشش کا کیا سبب ہے ،اس حد تک کہ ایک سیاستدان کہہ رہا تھا کہ "اوبامہ اس معاہدے کو امریکہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہا ہے"؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب :پہلے ہم اس معاہدے کے حوالے سےمختلف ذرائع ابلاغ میں نشرہو نے والی خبروں کے ذریعے اس کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں:
1 ۔ ایران نے اس معاہدے میں خود کو پابند کیا ہے:
ا ۔ ایران 5٪ سے زیادہ یورینیم کی افزودگی روکنے کا پابند ہو گا، اس سے زیادہ افزودگی کے لیے درکار ٹیکنالوجی کے ذرائع کو بھی منقطع کر دے گا۔ اپنے 20٪ افزودہ یورینیم کے تمام ذخیروں کو کم کرکے 5٪ سے کم کی سطح پر لائے گا یا اس کو ایسی شکل میں تبدیل کرے گا کہ اس کوکسی افزودگی کے کام میں نہ لایا جا سکے۔۔۔ایران نے اس بات کی بھی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو3.5 ٪سے زیادہ ہونے کے حوالے سے ہر پیش رفت کو روکے گا ،اس وجہ سے مذکورہ چھ مہینوں کے اختتام تک، کہ جن کا ذکر اس معاہدے میں ہے، 3.5 ٪ افزودہ یورینیم کی مقدار وہی رہے گی جو ان چھ مہینوں کی ابتدا کے وقت ہے۔
ب ۔ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی قابلیت کو زیادہ نہیں کرےگا چنانچہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی اور سینٹری فیوج سسٹم نہیں لگائے گا۔ یورینیم کو افزودہ کرنے کی غرض سے کسی نئے ماڈل کے سینٹری فیوجز نہیں بنائے گا اور نہ نہیں ہی استعمال کرے گا۔ وہ ان سینٹری فیوجز میں سے نصف ناکارہ کر دے گا جن کو میں لگایا گیاہے۔ اسی طرح ان سینٹری فیوجز کے تین چوتھائی تعدادکو بھی ناکارہ کرے گا جن کو میں لگا یا گیا ہے تاکہ یورینیم کی افزودگی کے لیے ان کا استعمال ممکن نہ ہو۔ اسی طرح ایران نے اس بات کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچنے کی صورت میں صرف ان کو چلانے کے لیے درکار پرزے ہی بنائے گا تا کہ آئیندہ چھ مہینوں میں ایران مزید کوئی نئے سینٹری فیوجز نہ بنا سکے۔
ج ۔ ایران نے اراک (Arak) میں موجود ری ایکٹرز کو فعال نہ کرنے اور پلوٹونیم کو کو نکالنے میں پیش رفت کو روکنے اور اس کے لیے کسی بھی دوسری قسم کے اضافی مرکبات مہیا نہ کرنے عہد کیا ہے۔ وہ کسی قسم کا ایندھن اور بھاری پانی بھی وہاں منتقل نہیں کرے گا۔معاہدے کی رو سے ایران استعمال شدہ ایندھن میں سے پلوٹونیم کو الگ کرنے کے عمل کو روک دے گا اور اراک میں موجود ری ایکٹرز سے متعلق مطلوبہ حساس ، مستند اور تفصیلی معلومات فراہم کرے گا جو اس سے قبل ایک طویل عرصے تک ان ری ایکٹرز کے حوالے سے دستیاب نہیں تھیں۔
د۔ اراک کے ری ایکٹرز میں داخل ہونے کے لیے تفتیش کاروں کو مزید مواقع فراہم کرنا اور بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ ایران کے سکیورٹی معاہدے کے پروٹوکول کے مطابق مخصوص اور مطلوبہ بنیادی معلومات فراہم کرنا۔ اسی طرح ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ اٹامک انرجی کمیشن کے تفتیش کاروں کو روزانہ کی بنیاد پر Natanz اور Fordow کے ری ایکٹرز کے معائنے کی اجازت دے گا۔ وہ تفتیش کاروں کو مذکورہ دونوں تنصیبات میں کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کی گئی تصاویر کی چھان بین کے ذریعےان دونوں مقامات پر یورینیم کی افزودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دینے کا پابند ہو گا۔۔۔ایران اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کو سینٹری فیوجز کو جمع کرنے کی تنصیبات، اور سینٹری جیوجز کی پیداوار اور انھیں اکٹھا کرنے کی تنصیبات میں داخلے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح یورینیم کی کانوں اور اس کی تیاری کی جگہوں میں بھی داخل ہونے کی اجازت دے گا۔
ھ ۔ ایران '5 +1' ممالک اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی ترتیب دینے کا پابند ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہو نے والے معاہدے پر عمل درآمد پر نظر رکھے گی اور اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خدشات کے حوالے سے گذشتہ اور موجود قراردادوں پر بھی عمل در آمد میں مدد دے گی جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد سے دور رکھنا اور Barshin میں ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
2 ۔ اس معاہدے سے ایران کو کیا حاصل ہو گا:
ا ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ چھ مہینے کے لیے اس کا ملک 20 ٪ تک یورینیم کی افزودگی کو بند کردے گا، افزودگی کے پروگرام سے منسلک دوسری سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ بڑی طاقتوں نے آنے والے چھ مہینوں کے اندر اضافی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کیا ہےجبکہ ایران کی پیڑوکیمیکل انڈسٹری ، گاڑیوں کے پیداواری اداروں، انشورنس اور قیمتی دھاتوں کی تجارت پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی کی جائے گی۔
ب۔ نیوز ایجنسی رائیٹرز کی 24 نومبر2013 کی خبر کے مطابق اس وقتی معاہدے کے حوالے سے وائٹ ہاوس نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس کی رو سے ایران کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کے بعض حصوں سے دستبردار ہونے پر اس پر لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اس دستاویز کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایران1.5 ارب ڈالرز کے ریونیو حاصل کر لے گا جو سونے اور دوسری قیمتی معادنیات کی تجارت کے ضمن میں ہو گا اور ایرانی گاڑیوں کے پیداواری اداروں اور پیٹرو کیمیکل پر پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اسی طرح ایرانی تیل کی مصنوعات کو بھی موجودہ کم ترین سطح کے مطابق فروخت کی اجازت مل جائے گی او ر اگر ایران اس معاہدے پر عمل در آمد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ مذکورہ اشیا ء کی تجارت کی مد میں 4.2 ارب ڈالر منتقل کرنے کی اجازت حاصل کر لے گا۔ وائٹ ہاوس نے اس بات کی وضاحت کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں نرمی سے اس کو تجارتی تبادلے کی شکل میں 7 ارب ڈالر حاصل ہو ں گے۔
ج ۔ جنیوا مذاکرات میں شامل وفود کے کئی ارکان نے کہا کہ ایران کی جانب سے ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کے اس معاہدے سے ایران پر لگی پابندیوں میں محدود طور پر کمی آئے گی جس سے اس کو 7ارب ڈالر تجارتی تبادلے کی شکل میں ملیں گے۔
3 ۔ ایران نے اس کو کامیابی قرار دے دیا اور اس کے مرشد اعلیٰ خامنائی نے اس معاہدے کی یہ کہہ کر مدح سرائی کی کہ "ایٹمی مذاکرات کاروں کی ٹیم کا اس کامیابی پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے اور اس کامیابی کے پیچھے اللہ کی مہربانی، عوامی دعائیں اور حمایت کار فرما ہے" (ایرانی فارس پریس 25 نومبر 2013)۔ روحانی نے بھی کل 26 نومبر 2013 کو ایرانی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افزودگی کا حق جو کہ ایرانی ایٹمی پرگرام کےحقوق کا حصہ ہے جاری رہے گا۔ اس نے مزید کہا کہ "افزودگی آج بھی جاری ہے، کل بھی جاری رہے گی اور کبھی بند نہیں ہو گی اور یہ سرخ لکیر ہے"۔ اسی انٹر ویو میں ایرانی صدر نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مکمل معاہدے پر پہنچنے کی امید بھی ظاہر کردی۔ اس حوالے سے انہوں نےکہا کہ یہ راستہ بہت طویل ہے اس پر عوامی تائید اور حمایت سے ہی چلا جاسکتا ہے۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پرسوں شام 25 نومبر 2013 کو ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس کا ملک یورینیم کی افزودگی کو جاری رکھے گا۔ اس نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وہ امریکیوں سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
4 ۔ کیا یہ واقعی کامیابی ہے؟ اس معاہدے کو باریکی سے دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹ گیا، اور اس نے مغرب کی خواہش پر یورینیم کی افزودگی کو روک دیا۔ پھر افزودہ یورینیم کو 20 ٪ سے کم کر کے 5 ٪ سے بھی کم کرنے یا اس کو ایسی شکل دینے پر راضی ہو گیا جو اپنی اصلی حالت میں نہ ہو۔ 5 ٪ سے زیادہ افزودہ نہ کرنے کی پابندی پر بھی راضی ہو گیا ۔ اپنے ان ری ایکٹرز کو بھی فعال نہ کرنے کی حامی بھر لی جو بھاری پانی پیدا کرتے ہیں۔ پلوٹونیم کی پیداوار سے بھی دستبردارہو گیا جوکہ ایٹمی اسلحے کی بناوٹ کے لیے لازمی ہے۔ نئے سینٹری فیوجز بھی نہ بنانے کی پابندی کو بھی قبول کیا،تفتیش کاروں کے لیے روزانہ تفتیش کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح تمام سرگرمیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی اجازت دے دی تاکہ اس کی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی نگرانی میں رہیں۔۔۔پھر اس کو کس طرح کامیابی کہا جاسکتا ہے؟ ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اس معاہدے کو بڑی کامیابی کہنا دراصل اپنی پسپائی اور امریکہ نوازی کو چھپانا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے وہ کسی ممکنہ عوامی احتجاج کو خاموش کرنے اور امریکہ کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی یہ پسپائی اس کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ خود مختار ہے اور اپنی خودمختاری کا احترام جانتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی نگرانی میں دے اور روزانہ تفتیش کی اجازت دے جیسا کہ امریکی قبضے سے پہلے عراق میں صدام نے کیا جب اس نے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر بین الاقوامی نگرانی میں دیا اور روزانہ تفتیش کی اجازت دی؟ اس سے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی راہ میں خود حائل ہو گیا ہے، خاص کر اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہے کہ یہودی وجود روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اپنی قوت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔۔۔ہر بینا اور دیدہ ور اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ یہ کوئی کامیابی نہیں کہ کوئی ریاست 20 ٪ تک افزودگی تک پہنچنے کے بعد پھر واپس3.5 ٪ تا 5٪ پر آئے اور پہلے 20 ٪ افزودہ کرنے کے آلات کو بند کردے۔ یہ کسی لحاظ سے کامیابی نہیں۔ یہ بس ایسا معاملہ ہے جس کا کرتا دھرتا امریکہ ہے جس نے ایران کے بارے میں اپنی پالیسی کے مطابق اس کے ساتھ اپنے پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے کے لیے ایسا کیا تا کہ ایران خطے میں امریکہ کی جانب سےاس کے لیے متعین کیے گئے کردار کو پابندیوں کی رکاوٹ کے بغیر ادا کرتا رہے۔۔۔بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ایران امریکہ کا خوشہ چین ہے، خاص کرشام کے واقعات کے بعد تو سب کو یقین ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات جمہوریہ ایران کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے تھے لیکن دونوں کے درمیان تعاون انتہائی رازداری سے جاری تھا خاص طور پر عراق اور افغانستان کے حوالے سے جس کا اعتراف ایران کے سابقہ عہدیدار کر چکے ہیں۔ ایران کے موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف 2001 میں امریکہ میں جمہوریہ ایران کے سفارتی نمائندہ تھے جنھوں نےاس وقت اپنی حکومت سے افغانستان پر امریکی یلغار میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا جس پر اس وقت بعض ایرانیوں نے ان کو امریکی ایجنٹ قرار دیا۔ اب ایران اعلانیہ طور پر امریکہ کے ساتھ لین دین اور کھل کر امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اب خطے میں اس کا ایک کردار ہو گا جس کا تعین امریکہ کرے گا۔ شام میں توامریکہ اس کے کردار کا تعین کرچکا ہے جس کی رو سے وہ اس وقت تک بشار الاسد کی حکومت کی پشت پناہی کرے گا جب تک امریکہ کو ایسا ایجنٹ نہیں ملتا جو وہاں امریکہ کے زیر اثر حکومتی نظام کے اجزائے ترکیبی کو محفوظ رکھ سکے۔
5 ۔ مذکورہ معاہدے کا پشت بان امریکہ ہے۔ امریکہ ایرانی اتھارٹی کے ساتھ پچھلے کچھ مہینوں سے 24 نومبر 2013 کو اس معاہدے کے اعلان تک خفیہ ملاقاتوں میں مصروف تھا۔امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ یورپ ایران کے ساتھ اس امریکی معاہدے کو نا کام بنانا چاہتا ہے اس لیے یورپ کو خبر ہونے سے پہلے ہی اس معاہدے کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فرانسیسی اخبار"لےمونڈ" (Le Monde) نے 24 نومبر 2013 کو خبر شائع کی کہ کئی سینئر امریکی عہدیداروں نے ایرانیوں کے ساتھ پچھلے چند مہینوں کے دوران دوطرفہ خفیہ بات چیت کی ہے جس نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے ابتدائی معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس پر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات 24 نومبر 2013 کودستخط کیے گئے۔ 24 نومبر 2013 کو نیوز ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس"نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں، '5+1' گروپ کے دیگر ممبران اوراسرائیل کو ستمبر 2013 کے اواخر میں آٹھ مہینوں بعد،ان خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بتایا جن میں اوبامہ اور روحانی کے درمیان رابطہ ممکن ہوا۔۔۔ فرانسیسی اخبار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں اومان میں ہوتی تھیں۔۔۔امریکی انتظامیہ کے تین عہدیداروں نے "ایسوسی ایٹڈ پریس" نیوز ایجنسی کو بتا یا کہ انہی خفیہ مذاکرات نے ہی اس معاہدے کی راہ ہموار کی جن سے ہفتے کی شام ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوا میں معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
6 ۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ اس معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا رہا حتی ٰ کہ کانگریس کی جانب سے بھی کسی مخالفت کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا اوریہودی وجود کو بھی یقین دہانی کراتا رہا کہ اس معاہدے سے ان کی حفاظت ممکن ہو گی ۔اسی لیے اس معاہدے کے بارے میں بڑی جلدی کرتا رہا جو اس کے بیانات سے بھی واضح طور پر نظر آتا ہے:
امریکی صدر اوبامہ ایران کے ساتھ اعلانیہ قرابت داری کی پالیسی کا جواز پیش کرتا رہا اور کہا کہ: "ہم سفارت کاری کے دروازے کو بند نہیں کر سکتے اور دنیا کے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے سے صرف نظر نہیں کر سکتے "اورمزید کہا کہ " اگر ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا تا ہے اور بین الاقوامی برادری میں شامل ہو نا چاہتا ہے تو ہم ان شکوک وشبہات کو دور کر سکتے ہیں جو کئی سالوں سے ہمارے ملکوں کے درمیان ہیں" (الجزیرہ 26 نومبر 2013 )۔۔۔ امریکی صدر اوبامہ نے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ایران کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا یہ ایک قابل ذکر پیش رفت اور صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے اہم قدم ہے۔۔۔آج کا اعلان مقصد کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے" (ورلڈ نیوز (این بی سی نیوز) آن لائن 23 ستمبر 2013)۔۔۔اوبامہ نے 25 نومبر 2013 کوسان فرانسیسکو میں ایک مہم میں شرکت کے دوران کہا "بڑے چیلنجز اب بھی موجود ہیں مگر ہمیں بات چیت کی راہ کو بند نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ہما رے لیے دنیا کے مسائل پر امن طور پر حل کرنے کے لیے باچیت سے منہ پھیرنا ممکن ہے" ، اوراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ "آنے والے مہینوں میں سفارتی کاوشوں سے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے خطرے کا مسئلہ پائیدار طورپر حل ہو جائے گا"۔۔۔24 نومبر 2013 کو اوبامہ نے کہا کہ یہ معاہدہ اس پروگرام کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس نے کہا کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹم بم بنانے کے راستے کو بند کردے گا۔ اوبامہ نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے آنے والے چھ مہینوں میں معاہدے کی شقوں کی پابندی نہیں تو اس کا ملک پابندیوں میں نرمی کو ختم کردے گا۔ اسی طرح کیری نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی اسلحے کی طرف جانے کو مشکل بنادے گا۔ دس سالوں سے جاری ایٹمی بحران کے کئی ہنگامہ خیزمسائل میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئےاس نے کہا کہ اس معاہدے میں یورینیم کی افزود گی کے حوالے سے ایران کے کسی "حق" کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہودی وجود کو اطمینان دلاتے ہوئے اس نےکہا کہ :"یہ معاہدہ دنیا کو زیادہ پر امن بنادے گا اور اسرائیل اور خطے میں ہمارے شرکاء زیادہ محفوظ ہوجائیں گے " (اے ایف پی 24 نومبر 2013 )۔
رد عمل کے طور پر وائٹ ہاوس نے انتہائی عجلت میں یہودی لابی سے ہمدردی رکھنے والے ارکان کے اثر کو زائل کرنے کے لیے بھاری شخصیت کے حامل افراد جیسے سکوکروفٹ (Scowcroft) اور برزنسکی (Brzezinski) سے مدد طلب کرتے ہوئے ان کے ذریعے کانگریس پر دباؤ ڈال دیا، تا کہ کانگریس کو کسی مخالفانہ اقدامات سے باز رکھا جائے۔ لہٰذا ان دونوں افراد نے سینٹ میں اکثریت کے نمائندے ہیری ریڈ (Harry Reid) کو خط لکھا ، ان سے ایران کے ساتھ ہو نے والی بات چیت کی حمایت کا مطالبہ کیاکیونکہ اس سے امریکہ کا قومی مفاد وابستہ ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ : "۔۔۔یہ بات چیت امریکہ، اسرائیل اور خطے کے دوسرے شرکاء کی قومی سلامتی کا ضامن ہے"۔ اس خط میں ایران پر نئی پابندیاں لگانے سے خبردار کیا گیا ہے، "اس وقت ان مذاکرات کے دوران جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے ایرانی یہ یقین کر لیں گے کہ امریکہ ایران کی موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں"۔اس خط میں ذکر ہے کہ :"ہم تمام امریکیوں اور امریکی کانگریس کو ایران کے ساتھ مشکل مذاکرات میں صدر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو نے کی درخواست کرتے ہیں" (سکوکروفٹ اور برزنسکی اسٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن آن لائن 20 نومبر)۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ اس مسئلے کو اپنی موت وحیات کا مسئلہ سمجھ کر اس سے نمٹا!
7 ۔ یورپ کی جانب سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش اور پھر اس کو قبول کر نا: امریکہ یہ جانتا تھا کہ یورپ امریکہ ایران معاہدے کے خلاف ہے کیونکہ یورپ جانتا ہے کہ ایران امریکہ نواز ہے۔اس پر لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس کو خطے میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے جو وہ امریکہ کے مفادات کے لیے نبھاتا رہے گا جس کے لیے اس کی نقل وحرکت کو آسان بنانے کے لیے اس پر لگی پابندیوں میں نرمی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس نے پہلے مرحلے ، جو 15 اکتوبر 2013 کا ہے، میں کھل کر معاہدے کی مخالفت کردی اور برطانیہ نے بھی حسب عادت پس پردہ ایسا کیا مگر چونکہ امریکہ اس کے انعقاد میں سنجیدہ تھا اس لیے یورپ اس کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔
یوں یورپی ، یہ جاننے کے بعد بھی کہ امریکہ پہلے ہی اس کی بنیاد یں رکھ چکا ہے ، اس معاہدے کو ناکام نہیں بناسکے ۔۔۔اس لیے انہوں اس کی حمایت کی اور لگتا ہے بین الاقوامی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے،خاص کر جب یہ معاہدہ ایران کو 3.5٪ تا 5 ٪ سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے سے روک کر ایٹمی اسلحہ بنانے کے حوالے سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روک رہا ہے ۔ اس نے جو 20 ٪ یورینیم افزودہ کر رکھا تھا اس کو ضائع کیا جائے گا، ایٹمی ری ایکٹر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی اور تفتیش کے لیے دیے جائیں گے۔ اسی لیے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ (William Hague) نے ٹویٹر پر اپنے پیج میں 24 نومبر 2013 کو کہا:"یہ معاہدہ بہت ہی اہم تھا یہ حوصلہ افزا امر ہے اور ایران کے ساتھ پہلا مرحلہ ہے، چھ مہینے کے اندر وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو منجمد کر دے گا اوراس کے بعض حصوں کو پچھلے مرحلے میں واپس لائے گا"۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے کہا "یہ درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ معاہدہ فرانس کی جانب سے یورینیم کے ذخیرے، اس کی افزودگی کادائرہ کار اور نئی تنصیبات کو چالو نہ کرنے اوراسے بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے فرانس کے مطالبے سے ہم آہنگ ہے" (اے ایف پی 24 نومبر 2013)۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا "ایران کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی بحالی کی جانب درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے"۔
8 ۔ باقی رہا یہودی وجود کا موقف۔۔۔:اس معاہدے کے بارے میں یہودی وجود کا یہ موقف کہ یہ اچھا معاہدہ نہیں ہے نا تو نیا ہے اور نہ ہی یا عجیب ہے۔ فلسطین کو غصب کرنے والی اس ریاست نےاپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایک پالیسی اور منصوبہ بندی کر ررکھی ہے کہ صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ خطے میں کسی قوت کا ظہور ہی نہ ہو، بلکہ کوئی روایتی ترقی یافتہ قوت بھی وجود میں نہ آئے، نہ صرف ایران جتنا بڑا ملک بلکہ کوئی چھوٹی سی ریاست بھی ایسی نہ ہو۔ وہ اردن کو اپنا سٹریٹیجک شریک سمجھنے کے باوجود اس کو مسلح کرنے کی راہ میں روکاوٹ بنتا ہے، اس کے مسلح ہونے پر اعتراض کرتا ہے! لبنانی اخبارات نے عربی وکی لیکس (wikileaks) سے13مارچ 2013کی ایک دستاویز کے حوالے سے خبر شائع کی ہے جس میں سفیر ریچرڈ جونز نے یہودی ریاست کی جانب سے فروری 2006 کوامریکہ سے اپنے مطالبے میں کہا کہ خطے کے ممالک کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے حوالے سے اردن کے بارے میں ان کا یہ موقف ہے کہ : "۔۔۔عبرانی ریاست (اسرائیلی ریاست) اردن کو اپنا 'اسٹریٹیجک پارٹنر' سمجھتی ہے ۔۔۔ اس کے باوجود جغرافیائی مماثلت اور ممکنہ اسٹریٹیجک تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اردن کی فوج کا اسلحہ اسرائیلی فوج کے اسلحے کا ہم پلہ ہو۔ اسرائیل اس کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا اور خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اردن کو سام (Sam) میزائل یا کسی ایسے سسٹم سے مسلح کیا جائے جس سے اس کی فضائی حدود مکمل طور پر اس کے نشانے پر آجائے"۔
یہ ہے خطے کے بڑے اور چھوٹے ممالک کے حوالے سے یہودی ریاست کی پالیسی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس کی ممکنہ ریاست کے بارے میں اپنی بات چیت میں یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ نام نہاد ریاست بھی غیر مسلح ہو نی چاہیے۔۔۔اس لیے یہودی ریاست اس بات پر اکتفا نہیں کرتی کہ ایران پر امن ایٹمی ملک ہو اور ایٹمی اسلحے سے لیس ملک بن جائے بلکہ کوئی بھی ہو ہر قسم کی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو پرامن ہو یا نہ ہو خطے کی ہر ریاست کے بارے میں اس کی یہ پالیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدام کے زمانے میں امریکہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر عراق کے ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ اسرائیل ایک سے زائد بار ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا نے کا تہیہ کرچکا تھا لیکن امریکہ نے اس کو بازرکھا۔۔۔ہم نے دیکھا کہ یہودی ریاست اس وقت خوشی سے ناچنے لگی جب شام کے سرکش نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حامی بھر لی۔۔۔
یہودی ریاست یہ جانتی ہے کہ اس کی کوئی ذاتی طاقت نہیں ﴿إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍمِنَ النَّاسِ...﴾" مگر اللہ کی رسی کے بل بوتے پر اور لوگوں کی رسی کے ذریعے" (آل ِعمران: 112)۔
اللہ کی رسی کو تو یہ لوگ صدیوں سے کاٹ چکے ہیں۔۔۔لوگوں کی رسی البتہ اس وقت سے ان کو پکڑائی گئی ہے جب برطانیہ نے اس کی داغ بیل ڈالی ، فرانس نے اس کی آبیاری کی اور پھر امریکہ نے اس کو گود لیا۔ اس لیے یہ اپنی پالیسی میں امریکہ سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس بات کی توقع ہے کہ(اسرائیل) امریکہ میں یہودی لابی کے ذریعے آنے والے چھ مہینوں کے میں ایران کے ساتھ ایسے حتمی حل تک پہنچنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی جس میں اس عارضی حل میں شامل پابندیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جائے۔
امریکہ بہر حال اپنے مفادات کو یہودی ریاست پر مقدم رکھے گا بلکہ امریکہ ہی یہودی وجود کی سکیورٹی کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔ یہو دی وجود اپنی سکیورٹی کو امریکہ پر مسلط نہیں کر سکتا، خاص کر جب اوبامہ اپنی صدارت کے دوسرے مرحلے میں ہے جس میں یہودی لابی کا اثر نسبتاََ کم ہے۔ اس کے باوجود یہودی ریاست اپنی بقا کو امریکہ کے مرہون منت سمجھتی ہے۔امریکہ ہی خطے کے ممالک کو ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے سے روکتا اور یہودی ریاست کو ایٹمی اسلحہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کی بعض شقیں یہودی وجود کے لیے اطمینان بخش ہیں۔اسرائیل کے وزیر اطلاعات Yuval Steinitz نے اسی دن صبح کے وقت عبرانی نشریاتی ادارے-2 (Hebrew broadcasting network 2) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا "بڑے ممالک نے اسرائیل کی خواہش پر اس معاہدے کے اعلان سے کچھ دیر پہلے اس معاہدے کے مسوّدے میں رد وبدل کیا"۔
یہودی ریاست امریکہ کے ساتھ مل کر کوشش کرے گی کہ اس کے آخری حل میں مزید شرائط اور پابندیوں میں اضافہ کرے، چنانچہ اسرائیل کے وزیر مالیات Yair Lapid نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ہفتہ 24 نومبر 2013 کی صبح کو کہا : "اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر چھ ماہ بعد بہترین حتمی حل تک پہنچنے کی تگ ودو کرے "۔ اس نے مزید کہا کہ "اگرچہ یہ معاہدہ ایک بری چیز ہے لیکن ہمیں امریکیوں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تا کہ حتمی معاہدے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی کی ضمانت دی جاسکے"۔
اس سب سے یہ واضح ہو تا ہے کہ یہودی ریاست امریکی آشیر باد سے خطے میں خود تو ایٹمی اسلحہ جمع کرنا چاہتی ہے جبکہ کسی اور ریاست کو کسی بھی قسم کا جدید اسلحہ حاصل کرنے سے روکنا چاہتی ہے، بلکہ ان ریاستوں کو طاقتور ایٹمی پروگرام کی سوچ سے بھی باز رکھنا چاہتی ہے۔۔۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلامی علاقوں میں قائم ممالک کااس غداری کی حد تک گر جانا کہ ایٹمی اسلحہ تو کجا وہ پر امن ایٹمی پروگرام کے لیے علمی تحقیق سے بھی ڈرتے ہیں، جبکہ اسی وقت یہودی ریاست خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر ایٹمی اسلحہ بنا رہی ہے اور خطے میں کسی اور کو بنا نے سے روک رہی ہے۔
اس لیے یہودی وجود کے وزیر اعظم Netanyahu کی جانب سے یہ کہنا کہ "یہ معاہدہ ایک تاریخی غلطی ہے۔یہ ایک ایسا برا معاہدہ ہے جس سے ایران کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا یعنی کچھ پابندیاں ہٹائی جائیں اور ایٹمی پروگرام کا بنیادی حصہ برقرار رہے" (اے ایف پی 24نومبر2013 )۔ اس نے جو کچھ کہا ہےاسے اس کے سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ یہودی ریاست کی یہ خواہش ہے کہ خطے میں اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی قابل ذکر قوت نہ ہو اور وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی چاہتا ہے۔
9۔ رہی یہ بات کہ امریکہ نے آخر اس معاہدے کے انعقادکے لیے اس قدر ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا یا؟ تو یہ سب جانتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام پچھلے کئی سالوں سے موضوع بحث تھا جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی کیفیت چل رہی تھی ۔ پھر کیوں اس وقت اوبامہ ایرانی ایٹمی معاہدے کو کامیاب بنا نے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ قابل ذکر پیش رفت ہے۔ میرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے ہم ہے"
اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران خطے میں حالات سنگین ہو چکے ہیں اور جس چیز نے امریکہ کو چوکنا کردیا ہے وہ شام کے طول وعرض میں رائے عامہ کا خلافت کے لیے سازگار ہونا ہے۔ یہ ایک نیا منظر نامہ ہے جس کا مشاہدہ عرب میں تبدیلی کی لہر میں نہیں کیا جارہا تھا جو اگر چہ لوگوں کی اپنی مرضی سے شروع ہوئی تھی ، لیکن ان کے نعرے یا تو سیکولرازم کے قریب تھے یا اس کا ملغوبہ تھے جس کو امریکی معتدل اسلام کہا جاتا ہے! یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تحریکوں کو ہائی جیک کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔جبکہ شام میں برپاہونے والی تحریک پر صاف شفاف اسلامی احساسات کا غلبہ ہے اس کے اندر صحیح اسلامی افکار اور مفاہیم نمایاں ہیں جیسا کہ ان کا نعرہ ہے کہ "امت دوبارہ خلافت کا قیام چاہتی ہے"۔۔۔شام میں گرم ہو تے ہوئے اسلامی ماحول نے مغرب کو بالعموم اور امریکہ کو با لخصوص سیخ پا کردیا ہے کیونکہ ان کو خلافت کی عظمت اور قوت کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ خلافت کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے
ایک اور محرک بھی ہے جس نے ان کی پریشانیوں کو دوچند کر دیا ہے اور وہ یہ کہ امریکہ بحرانوں میں پھس چکا ہے اور اپنی فعالیت کھو چکا ہے اور شام میں سر چڑھتی ہوئی اس اسلامی لہر کو براہ راست قابو کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے کے خائنوں میں سے اپنے لیےکارندے ڈھونڈ رہا ہے جو ان عظیم الشان اسلامی موجوں کے سامنے اس کے لئے فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔
جہاں تک امریکہ کے داخلی بحران کا تعلق ہے تو اقتصادی بحران، جس سے کہ امریکہ نکل نہیں پا رہا ہے، کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کے درمیان تمام بنیادی مسائل پر اختلاف ہے، یعنی مقامی پارٹی بازی کی سیاست امریکہ کے قومی مفاد کی جگہ لے چکی ہےاور یہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم معاملہ بن چکا ہے۔کئی ایک ماہرین نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرضوں کی سطح کی بلندی کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین اختلافات اور اوبامہ کا صحت کا منصوبہ امریکی سیاسی نظام کے دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔فرینک فوگل(Frank Fogel)، Huffington Post میں لکھتے ہیں کہ :"امریکہ کا سیاسی نظام زمین بوس ہو رہا ہے۔ کانگریس عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ گیلپ سینٹر (Gallop Centre) کے تازہ ترین سروے کےمطابق کانگریس پر اعتماد کر نے والوں کا تناسب اب صرف 10 ٪ رہ گیا ہے اور commercial public opinion کے سروے کے مطابق 85 ٪ بڑے بزنس مین یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان کا سبب انتخابی مہموں کے لیے سرمایہ کاری کا نظام ہے۔ 42 ٪ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے" (Huffington Post 26جولائی 2013 )۔
جہاں تک امریکہ کی خارجہ سیاسی صورت حالکا تعلق ہے تویہ اس کی داخلی صورت حال سے بھی بدتر ہو چکی ہے، اس کے باوجود کہ دنیا کے ہر خطے میں اب بھی امریکہ کی اجارہ داری قائم ہے۔ Immanuel Wallersten دنیا کے طول و عرض سے امریکہ کی پسپائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :"اگر سب نہیں تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ کے اثرورسوخ، اس کے رتبے اورقوت میں کمی اور سکڑنے کو محسوس کر رہے ہیں، امریکہ کے اندر لوگ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس کوقبول کر رہے ہیں"۔ (The Consequence of Regression of the United States: Al-Jazeera Channel, 2/11/2013)۔
برزنسکی (Brzezinski) نے 2010 میں مونٹریال میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ :"دنیا کی پرانی اور نئی عظیم طاقتوں کو گزشتہ کسی بھی دور کے مقابلے میں بھرپُور عسکری طاقت کے باوجود، دنیا پر اپنا غلبہ مسلط کرنے کی صلاحیت تاریخ کی کم ترین سطح پرہونے کے حوالے سے، ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے" چونکہ امریکہ، ان بحرانوں کی وجہ سے جو اسکے گلے میں کانٹا بن چکے ہیں ، اپنی بالادستی کو موثر بنا نے سے قاصر ہے۔۔۔اور اس کی وجہ سے اس کے ایجنٹ خواہ جن کی اس نے باہر پرورش کی ہے یا بشار اور اس کے کارندوں کی صورت اندرونی طور پر پالا ہو ۔۔۔سب مل کر بھی گزشتہ تین سالوں کے دوران شام کے بارے میں کوئی پائیدار فیصلہ نہ کرسکے بلکہ خلافت کے نعروں کی گونج سے ان کےکان پھٹ رہے ہیں ،ان آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور ان کے دل لرز رہے ہیں۔۔۔ان تمام اسباب کی بنا پر امریکہ نے خطے میں شام کے ہمسایہ ممالک کو اپنا فرنٹ لائن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ اس متوقع حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں جو خلافت کو ریاست ، زندگی اور معاشرے کے لیے نظام بنائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے دو ریاستوں کا انتخاب کیا جو اس کے تابع فرمان تھیں تاکہ وہ ذمہ داری ادا کریں: یہ دو ریاستیں ترکی اور ایران ہیں۔ ترکی کی حرکات وسکنا ت پر کوئی پابندی نہیں تھی جبکہ ایران پابندیوں کے مسئلے سے دوچار تھا اس لیے عالمی اور علاقائی طور پر اس کی سرگرمیاں محدود تھی اور وہ تنہائی کا شکار تھا۔ یہ ترکی سے بھی بڑھ کر خلافت کے خلاف سرگرم ہے کیونکہ خلافت ایرانی حکمرانوں کےنظرئیے کے لحاظ سے ایک ناقابل قبول چیز ہے، اسی وجہ سے وہ انتہائی سرگرمی سے اس کے خلاف برسرپیکار ہیں، جبکہ ترکوں کی وراثت میں ہی ایک طویل عرصے تک خلافت کا عہد ہے جس کی وجہ سے ترک حکومت خلافت کے خلاف اپنی جنگ کو چھپاتی ہے اور راستے تبدیل کرتی رہتی ہے۔
یہ ہے وہ نئی چال جس کی رو سے ان دوممالک کو مذکورہ طریقے سے کردار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر ایران پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردیں تا وہ آسانی سے متحرک ہو۔ اسی مقصد کی خاطر اوبامہ نے اس قدر جانفشانی سے ان پابندیوں کو اٹھایا۔ یعنی شام میں خلافت کے لیے برپاہونے والی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے، اس لیے نہیں کہ ایرانی ایٹمی اسلحے کی سرگرمیوں پر لگی پابندیوں کو اٹھا یا جائے بلکہ ان پر امن ایٹمی سرگرمیوں پر بھی بہت ساری مزید پابندیا لگائی گئیں حتی کہ ایران کو 20 ٪ یورینیم کی افزودگی سے3.5٪ تک واپس لانے کا پابند کیا گیا جبکہ تفتیش اور دوسری شرائط اس کے علاوہ ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ نرمی نقل وحرکت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے اور شام میں ہو نے والی خلافت کی جدوجہد کے خلاف سرگرمی میں اس کو تھپکی دینے کے لیے تھی نہ کہ ایٹمی میدان میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے! یوں اوبامہ نے اپنی صدارت کے دوران اپنا سب سے بڑا کام یہ ایٹمی معاہدہ کروایا، جس سے اوبامہ ترکی اور ایران کو شام میں خلافت کی تحریک کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا، چاہے یہ شام کے اندر مجرمانہ مسلح کاراوئیوں کے ذریعے ہو یا جنیوا اور دوسری جگہوں میں خیانت پر مبنی سیاسی کاموں کے ذریعے ہو۔ بہر حال یہ سب سابقہ ایجنٹ کے متبادل کے طور پر نئے ایجنٹ کو لانے اور خلافت کے عمل کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔ اگر اوبامہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کے عہد صدارت کا سب سے بڑا کام ہو گا، تب اگر وہ اپنے بیان میں یہ کہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی: "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ بہت ہی بڑی پیشرفت ہے اورمیرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے اہم کام ہے۔۔۔" یہ تو تب ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکا۔۔۔شاید اوبا مہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے لیے اس نے جو کردار متعین کیا ہے وہ اس پر چلنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان ملاقاتوں اور دوروں میں تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ دونوں ریاستیں اپنے قائد اوبامہ، جس کو اس معاہدے کی بڑی جلدی تھی، کے نقش قدم پر چلیں! اور 24 نومبر 2013 کے اس معاہدے کے بعد تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ترکی اور ایران کے مابین موجود پرانی مخاصمت ختم ہو گئی اور ترک وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا۔ دونوں کے درمیان مذاکرات کا مرکزی موضوع شام کے معاملے میں باہمی تعاون،جنیوا مذاکرات اور جس کو پوشیدہ رکھا گیا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔کاش یہ دونوں نیکی اور تقوی کے کسی کام میں تعاون کرتے تب ہم بھی ان کے حق میں دعا کرتے لیکن ان دونوں نےشام میں خلافت کا راستہ روکنے ، اس قدر پاکیزہ خون بہنے اور بے پناہ قربانیوں کے بعد بھی ظالم جابر لادین حکومت کو ایک بار پھر قائم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کا فیصلہ کیا جس پر انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت میں جہنم کی آگ مول لی۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی گناہ اور ظلم کے کام میں نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیتے ہیں ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾" اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (المائدہ:2)۔ کاش یہ اس بات کو سمجھ لیتے اور نجات پالیتے ۔ عقلمند وہ ہے جو عبرت حاصل کرے اور نجات پالے۔
10 ۔ آخر میں یہ اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کا دل ودماغ صحیح سلامت ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے:
ا ۔ ہم ترک حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کوخبردار کرتے ہیں کہ ان کی امریکہ کی کاسہ لیسی اور شام میں خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کا راستہ روکنا ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا سبب بن جائے گا۔ وہ مغرب اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جو بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوں گے ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَاالنَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾ "یہود اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہیں کر و گے ،کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر تم نے ان کی خواہش کی پیروی کردی اس کے بعد بھی کہ تمہارے پاس علم آچکا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے تمہارا کوئی کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا" (البقرۃ:120)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ابن الجعد نے اپنی مسند میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ :«مَنْ أَرْضَى النَّاسَ بِسَخَطِ اللَّهِ، وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَمَنْ أَسْخَطَ النَّاسَ بِرَضَا اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ النَّاسَ» " جس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جس نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کیا اللہ لوگوں کے مقابلے میں اس کے لیے کافی ہوں گے"۔ تم یقینا ان لوگوں کے انجام سے بھی باخبر ہو جنہوں نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا ۔۔۔عقلمند وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے۔
ب ۔ ہم ترک حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے فرض ہے اور یاد کرو جب ایک طویل عرصے تک ترکی کا طول و عرض خلافت کی وجہ سے مینارہ نور تھا۔ ترکی کے باشندے اس کے سپاہی تھے ،یہ محمد الفاتح ،سلیم،سلیمان القانونی اور عبد الحمید کے لشکری تھے۔۔۔ترکی کے حکمرانوں کو اس روشن دور کو مدنظر رکھتے ہوئے خلافت کو بے یارومددگا نہیں چھوڑنا چاہیے شام یا کسی بھی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،اگر وہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مدد کر نے سے عاجز ہیں تو کم ازکم ان کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں۔۔۔اچھا انجام تو صرف متقین کا ہے۔
ج ۔ ہم ایران کے حکمرانوں کو یاد دہانی کراتے ہیں اگر وہ خلافت کو فرض نہیں بھی سمجھتے اور خلافت کا ذکر آتے ہی ان کی سوچ اس طرف جاتی ہے کہ فلاں خلیفہ نے فلاں جگہ ظلم کیا تھا توان کو ہم یہ یاد دلاتے ہیں کہ جس خلافت کے لیے اس کے علمبردار جدو جہد کر رہے ہیں وہ نبوت کی طرز پر خلافت ہے ،خلافت راشدہ ہے۔ یہ وہی خلافت ہے جس کے خلفاء ابوبکر رضی اللہ عنہ،عمر رضی اللہ عنہ،عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ تھے یہی اس کے قائدین اور سپہ سالار تھے۔۔۔اگر ایرانی حکمران اس کی راہ میں حائل ہونے کی جسارت کر بیٹھے تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو پامال کیا جنہوں نے اپنے سے پہلے تین خلفاء کی بیعت کی تھی اور ان کے دست راست اور مخلص تھے۔ تمہیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے خلافت سے منہ مت موڑو شام یا کہیں بھی ہو اس کے سامنے رکاوٹ مت بنو،اگر تم اس کے علمبرداروں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے سامنے رکاوٹ تو نہ بنو۔۔۔۔نیک انجام تو متقیوں ہی لیے ہے۔
د ۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا ء میں ترک اور ایرانی حکمرانوں کو خبر دار کیااسی طرح اختتام پر بھی ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کا وعدہ ہے ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ...﴾ " اللہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماچکا ہے جنہوں نے ایمان لاکر اعمال صالح کیا کہ ان کو ان سے پہلے لوگوں کی طرح زمین میں خلافت سے نوازے گا۔۔" (النور: 55)۔ خلافت رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے جو اس جابرانہ حکمرانی کے بعد آئے گی جیسا کہ احمد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «...ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "۔۔۔پھر جابرانہ حکومتیں ہوں گی اور اس وقت تک ہوں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا ان کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کی طرز پر خلافت ہو"۔ یہ اللہ کی مشیت سے جلد یا بہ دیر قائم ہونے والی ہے جس نے اس کی مدد کی اور سہارا دیا وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا اور جو اس کے سامنے رکاوٹ بن گیا وہ دنیا میں بھی رسوا ہو گا اور قیامت کے دردناک عذاب کا مستحق ہو گا۔ پھر بھی یہ سب اس کے قیام کو ایک لمحہ کے لیے بھی موخر نہیں کرسکیں گے۔۔۔﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ "اللہ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے والا ہے اسی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقررکر رکھاہے" (الطلاق: 3)۔

مصرکی عبوری حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کودہشت گرد تنظیم قراردینے کااعلان عبوری حکومت کا سامنا كرنے والے ہرشخص کودہشت گردی کاالزام دے کر خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے

پریس ریلیز

بدھ25دسمبر2013 کو البیبلاوی حکومت نے اخوان المسلمون کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے دیا۔ یہ اعلان ملک کے شمالی صوبہ دقہلیہ کے سیکورٹی ڈائرکٹریٹ کی عمارت دھماکےکانشانہ بن جانے کے ایک دن بعد کیا گیا، جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اعلان اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ اخوان کے اس دھماکے میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا اور "انصار بیت المقدس"نامی ایک تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے تھوڑی دیربعدڈاکٹر حازم البیبلاوی نے کابینہ کے ترجمان کے ذریعے اعلان نشر کروایا جو اس کی اس نیت کی غماز ہے کہ اس واقعے کو اخوان کوقانونی طورپردہشت گرد تنظیم قرار دلوانے کیلئے استعمال کیاجائے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل ہانی عبداللطیف نے بدھ 26دسمبر2013 کواپنےاخباری بیان میں کہاکہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کامطلب یہ ہے کہ جوکوئی اخوان کی طرف سے منعقد کی گئی ریلی کی قیادت کرے گااس کوسزائے موت دی جائےگی خواہ وہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ کوئی بھی شخص جواس پارٹی کی زیرِقیادت ہونے والی کسی ریلی میں شرکت کرے گاتواسے پانچ سال جیل کی سزاملے گی ۔
اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ عبوری حکومت نے واقعے کے ذمہ داروں اور شہہ دینے والوں کاپتہ چلانے کیلئے کسی قسم کی سنجیدہ تحقیقات سے پہلے اخوان المسلمون پریہ الزام لگایا، کیونکہ مصری حکومت آغاز سے ہی ، جماعت اوراس کے افراد کے ساتھ ایک دہشت گرد تنظیم جیسا رویہ اپناتی آرہی ہے۔عبوری حکومت نےلمحہ بھر کیلئے تعاقب، قید وبند اور قتل سے ہاتھ نہیں روکے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اسمبلی کوتحلیل کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اورابھی کچھ روزہوئے مرکزی بینک نے 1055نجی تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کردئے ہیں۔ انقلابی اتھارٹی نے کہاکہ ان میں سے بعض کے اخوان المسلمون کے ساتھ روابط ہیں اوربعض اس کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہیں ۔ مرکزی بینک نے 40 بینکوں کو ان تنظیموں کے سرمائے کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ہم یہاں اخوان المسلمون کادفاع نہیں کرناچاہتے اورہم اپنے متعدد سابقہ پمفلٹوں میں موجودہ سیکولرحکومت میں شمولیت کے عدم جوازکوواضح کرچکے ہیں یعنی نہ توجمہوری صدارتی عہدہ جائز ہے اورنہ ہی کوئی وزارتی منصب سنبھالنا۔ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ یہ کسی لحاظ سے سود مند نہیں۔ یہ اس بدحالی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ اوریہ کہ ہمہ گیراوربنیادی تبدیلی کیلئےجدوجہدہی وہ صحیح عمل ہےجس کے ذریعے موجودہ فاسد نظام کومکمل طور پر اکھاڑا جائے اور اسلام کومکمل اوریکبارگی نافذ کیاجائے، جیساکہ رسول اللہﷺ نے کیاتھا ۔ ہم اس وقت اس بے بنیادالزام تراشی کی مذمت کرتے ہیں،جس کامقصد انتقامی جذبات کی تکمیل اورانقلاب کے مفاد میں برپا اس کشمکش کا خاتمہ کرنا ہے، بالخصوص جبکہ تاحال عبوری حکومت نےپارٹی کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کےشواہد پیش نہیں کئےہیں۔
بلاشبہ اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا مقصد ہر اس شخص کودہشت گرد قرار دینے کی ایک کوشش ہے جوانقلاب کی اتھارٹی سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ پوری اسلامی لہرکے خلاف جنگ اوراس کودہشت گردی کی تہمت سے داغ دار کرنے کاایک سوچاسمجھامنصوبہ ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ مستعفی ہوجائے گی یا کم ازکم اس قسم کے بے سروپا الزامات کی ہدایات جاری کرنے سے پہلے وزیر داخلہ کومعزول کردے گی۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی انٹیلی جنس ایجنسیوں یا مغربی ایجنسیوں کومورد الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کرتا جومصرکے اندرآرام سے اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے سرگرم ِعمل ہیں۔ چنانچہ مصر استعماری ریاستوں کے جاسوس اداروں کیلئے ہمیشہ سےایک سرسبزوشاداب چراگاہ رہاہے۔ ان ریاستوں کاایک ہی ہدف ہے اوروہ یہ کہ مصر ان کےزیراثر ایک سیکولر یا نیم سیکولرریاست کے طورپر قائم رہے،جسے یہودکے ساتھ دائمی امن معاہدات اورکافر امریکی ریاست کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی بیڑیوں میں جکڑدیاگیاہو۔
مصر میں امن وامان کی اس ابتر صورتحال اور دونوں طرف سے بڑھتی اوربھڑکتی ہوئی کشمکش اقتدار کے تنازع کے سواکچھ نہیں اورہم سب کویہ کہتے ہیں کہ صرف نبوت کے نقش ِ قدم پرخلافت کے زیرِسایہ ہی امن وامان اور انسانوں کو عزت وآبروحاصل ہوگی جہاں حکمران ایک ڈھال کے مانند ہوتاہے جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اوراسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے، وہی رعایا کے خون، ان کے اموال اورعزت وآبروکی حفاظت کرتا ہے۔ حزب التحریر سب کودعوت دیتی ہے کہ آئیں اورخلافت کےدوبارہ قیام کےذریعے مصرمیں جاری اس خونریزی اورقتل وغارت گری کی روک تھام کیلئے ‍‍ ہمارے ساتھ مل کر جد وجہد کریں، کیونکہ صرف خلافت ہی تمام لوگوں کیلئے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امن اور سکون لوٹاسکے گی۔
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
"اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جواس (کے دین) کی مدد کریں گے ،بے شک اللہ بڑی قوت والا اوراقتداروالا ہے" ( الحج : 40)
شریف زید
سربراہ مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر
ولایہ مصر

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک