الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

وضاحتی خط حزب التحریر اور رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کو بدنام کرنے کی کوشش

جیو انتظامیہ کے نام،
اسلام علیکم،
18دسمبر 2013کو آپ کے چینل پر کامران خان کی جانب سے حزب التحریر پر ایک انتہائی خوفناک الزام لگایا گیا کہ حزب التحریر نے اپنے ترجمان کے ذریعے افواج پاکستان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ برائے مہربانی اس بات کو جان لیں کہ اسی دن دوسرے تمام ٹی وی چینلز نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا کہ اس مجرمانہ حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے اور دوسرے دن کے اخبارات نے بھی اسی غیر معروف تنظیم کی اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی خبر کو شائع کیا۔
یہ خوفناک الزام کئی حوالوں سے بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔
1۔ یہ الزام آپ کے چینل کی ساکھ کے لیے بدنامی کا باعث ہےجو مسلمانوں کے لیے حالت حاضرہ سے آگاہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ معاشرہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا مقصد خلافت کے قیام کے ذریعےاسلامی طرز زندگی کا احیاء ہے۔ بلکہ یہ بات اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ایک دوسرے چینل نے بھی اسی قسم کا الزام نشر کیا تھا لیکن چند ہی منٹوں میں اس الزام کو واپس بھی لے لیا کیونکہ اس قسم کے جھوٹےالزام کو دہرانے سے اس کو نشر کرنے والے ہی کی بدنامی ہونی تھی۔ آپ کی جانب سے اس الزام کو نشر ہوئے پورے چار دن گزر چکے ہیں لیکن آپ کے ادارے نے اپنی ساکھ پر لگے اس کالے دھبے کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ یقین رکھیں اس قسم کے جھوٹے الزام حزب التحریر کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، الحمد اللہ ، لیکن آپ کی ساکھ اس سے ضرور خراب ہوئی ہے۔
2۔ یہ گھٹیا الزام آپ کی اس ذمہ داری پر بھی ایک حملہ ہے جس کے تحت آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ عوام کو ملک کو درپیش حقیقی خطرے سے آگاہ کریں جو دراصل ملک میں امریکہ کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ امریکہ نے ہمارے ملک کے خلاف صرف ایک حملہ ہی نہیں کیا بلکہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی ایک پوری مہم شروع کررکھی ہے تا کہ فتنے کی آگ کو بھڑکایا جائے اور اس کو بنیاد بنا کر ہماری افواج کو کم شدت کی تنازعات میں ملوث رکھا جائے جس نے ہمارے ملک کو انسانی خون میں نہلا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے ویسے ہی خونی اور شیطانی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے جیسا کہ وہ دنیا کے دوسرے حصوں ، وسطی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیاء تک میں، کئی دہائیوں سےکررہا ہے ۔ کیا آپ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ اپنی نشریات میں لوگوں کو اس اصل اور انتہائی خوفناک خطرے سے آگاہ کریں بجائے اس کے کہ آپ کے چینل سے حزب التحریر کے خلاف اس قسم کے سفیدجھوٹ نشر کیے جائیں؟
3۔ یہ الزام رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر بھی ایک بہتان ہے جس کو حزب التحریر نے اپنے قیام کے سال 1953 سے ، چالیس سے زائد ممالک میں اختیار کررکھا ہے اور حزب اس طریقہ کار کا کُھل کر اور واضح اظہار کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار میں جابر حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا، اس مقدس دین کے فہم سے آگاہی کے لیے عوام الناس کی تربیت کرنا اور طاقت کے حامل لوگوں (افواج)سے قوت (نصرۃ) طلب کرنا شامل ہے۔ حزب التحریر کا رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار پر چلنا اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکومت کے چمچوں نے ہمیشہ حزب التحریر کی جانب سے افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ حکومتی چمچوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب حزب التحریر ولایہ پاکستان نے جنرل راحیل شریف کے نام ایک کھلا خط جاری کیا جس میں انھیں ان کی اس شرعی ذمہ داری سے آگاہ کیا ہے۔ تو کیا لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے اور کیا راحیل -نواز حکومت کا ایسا کوئی بھی ڈرامہ لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کردے گا کہ حزب التحریر اسی فوج کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جس سے اسلام نے نصرۃ طلب کرنے کو لازمی قرار دیا ہے؟ اور قیامت کے دن رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار کو اس طرح بدنام کر کے ہم اللہ کے سامنے کس منہ سے کھڑے ہو سکیں گے؟
لہٰذا حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کریں تا کہ جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں اور آپ کو آپ کی ساکھ واپس مل جائے۔ ہم یہ چاہیں گے کہ آپ ہمارے بیان کو اپنے ٹی وی چینل پر نشر اور اخبارات میں شائع کریں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی سے عظیم اجر حاصل کریں ۔ یقیناً آپ کا ایسا کرنا مستقبل قریب میں ہماری جانب سے اپنے حق کے دفاع کے لیے کسی بھی فوری قانونی چارہ جوئی کی ضرورت کو ہی ختم کردے گا۔
والسلام
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان مںب حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہداء کے سردار

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺپر ایمان لانے والو!
رسول اللہﷺنے فرمایا
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله»

''شہداء کے سردار حمزہ ہیں، اور وہ شخص جس نے جابر حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے صحیح نصیحت کی اور اُسے قتل کر دیا گیا'' (الحاکم)
آج کے جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والو!
ہمارے آقا، رسول اللہﷺنے جابر حکمران کا محاسبہ کرنے والے کو شہداء کے سردار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیر، محمدﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ سے متشابہہ بیان کیا۔ تو آخر یہ حمزہ کون ہیں جن کی صف میں ہم کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ یہ وہ حمزہ ہیں جنہوں نے قریش میں اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے، مشکل ترین وقت میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اپنے رتبے کی وجہ سے، مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنے۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد اُس پر اس مضبوطی سے جم گئے کہ کفار نے غزوہ احد میں ایک غلام وحشی کو آزادی کے بدلے اس ہدف پر معمور کیاکہ وہ حمزہ کوقتل کرے گا۔ یہ وہی حمزہ ہیں کہ جب اُحد کے دن رسول اللہﷺنے اُن کے جسدِخاکی کو دیکھا تو فرمایا ''میں نے اپنی زندگی میں اتنا شدید نقصان نہیں اُٹھایا جتنا آج اور مجھے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آج ۔۔اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اُن کے 30لوگوں کا مثلہ کروں گا''۔اور رسول اللہﷺکی طرف سے شہداء کے سردار حمزہ کے بارے میں انہی الفاظ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (•) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (•) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (•)
ترجمہ: ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقینا آپﷺ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے۔اوراگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہواور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لیے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں، بغیر توفیق الہٰی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکروفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں '' (النحل: 125 - 127)۔
یقینا یہ اُمت اپنے شہداء پر غمگین نہیں ہوتی، اور نہ ہی اُن کی گنتی کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور اُن کے چہرے اُس دن خوشی سے روشن ہونگے جس دن تمام انسان شدید خوف کی حالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہونگے۔ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں شہداء کا مقام۔ تو پھر سیدالشہداء کی تو کیا ہی شان ہوگی؟
سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والو!
جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا رستہ رسول اللہﷺکا رستہ ہے۔یہ وہ افضل ترین عبادت ہے کہ جس میں نہ جسم تھکتے ہیں اورنہ ذہن اور قلوب اُس اجر عظیم کی تمنارکھتے ہیں جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔حکمران کا محاسبہ کرنا فرض ہے اور یقینا حکمران ہی المعروف کی بنیاد ہے اگر وہ عادل ہو، اور وہی منکر کی جڑ ہے اگر وہ ظالم ہو۔ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا، یہ وہ عمل ہے کہ جس کی شریعت میں بہت تعریف کی گئی ہے اور اس کے ترک کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ''اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرورامرباالمعروف ونہی عن المنکر کرو ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا ،پھر تم اُس سے دعائیں کرو گے اور وہ اُنہیں قبول نہیں کرے گا'' (جامع الترمذی)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا ''نہیں !اللہ کی قسم !تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑو اور اسے حق پر قائم رکھو۔ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو آپس میں ٹکرائے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسے بنی اسرائیل پر کی''
سیدالشہداء کے راستے پر چلنے والو!
جابر حکمرانوں کے محاسبے کے راستے پر چلتے ہوئے، مسلمان کسی قسم کے نقصان پر خوفزدہ نہیں ہوتا، جو ظالموں کی طرف سے تنگ کرنے،قیدوبند کرنے،تشدد کرنے اور کبھی شہید کر دینے کی حد تک بھی ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم پوری مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔مسلمانوں میں نہ تو اپنے پیاروں کا ساتھ چھُٹ جانے کا خوف ہوتا ہے، نہ ہی اُن کا نفقہ ختم ہو جانے کا اور نہ ہی جان چلے جانے کا (جو اہل وعیال کے ساتھ اور اُن کے نفقے کی بنیاد ہے)۔کیونکہ وہ شخص جو سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونا چاہتاہے، وہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھتا ہے :
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
۔ '' پس، اُن سے مت ڈرو،صرف مجھ سے ڈرو '' (البقرہ: 150)
اور وہ قریش کی جارحیت پر رسول اللہﷺکے اس جواب کو بھی یاد رکھتا ہے ''اللہ کی قسم !میں اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھوں گا جس کے لیے اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔تاوقتیکہ یہ دین غالب آجائے یا میری گردن اُڑا دی جائے''
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ بہترین رزق وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت میں مؤمنین کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ اور بہترین صحبت اُن لوگوں کی ہے جو اس جنت کے سب سے اُونچے درجے میں ہیں۔وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ اس دنیا میں محبت رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کے درجے کو اُن لوگوں تک بلند کر دے گا تاکہ اُسے اپنے محبوب لوگوں کا ساتھ نصیب ہو۔ یہ ایمان اُس میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ زیادہ جدوجہد کرے، زیادہ قربانی دے، جنت الفردوس کی تمنا رکھے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بہترین رزق اور بہترین صحبت حاصل کرے اور اُس کا حشر اُن لوگوں کے ساتھ ہوجن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ انشاء اللہ۔
تو پھر آخر کیوں ایک مسلمان کے دل میں اس عارضی دنیا میں مال اور اہل وعیال کے نقصان کا خوف ہو؟ یہ ہے وہ عزم جو ہمارے گھر والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور پریشانی کے وقت اُنہیں مضبوط رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ عزم جو اُس تحریک کی آنکھوں میں نظر آتا ہے اور جوش وولولے میں محسوس کیا جاتا ہے جو کفروباطل کو مٹا ڈالنے کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ ہے وہ عزم کہ جسے دیکھ کر داعی کے گھر والے اُسے کہتے ہیں ''اگر تم ظالموں کے آگے کانپ گئے یا کمزور پڑے،تو تمہیں واپسی پر خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ شہادت تک ثابت قدم رہنا اور ہم مل کر جنت میں خوشیاں منائیں گے''
سیدالشہداء کے راستے پر دوڑنے کی تمنا رکھنے والو!
آئیں اس راستے پر مضبوطی سے قدم رکھیں۔ آئیں کہ ایک قدم بھی ہم کمزور مت پڑیں، نہ ہی ظالموں کے خوف کی وجہ سے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی محبت کی وجہ سے۔ آئیں آگے بڑھیں، اُس اجر پر یقین رکھتے ہوئے جو ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے اکھٹا کریں گے۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُمت کی پُر عزم جدوجہد کے سامنے جابر حکمران کمزور پڑ رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس دعا کے ساتھ کہ بہت جلد ہم کفر کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے آغاز پر خوشیاں منائیں۔ ہماری زندگی سرداروں کی طرح گزرے اور ہماری موت شہداء کی طرح ہو۔ آمین۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (•) فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (•)
''جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے '' (آلِ عمران: 169 - 170)۔

امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے

تحریر: شہزاد شیخ

(پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان)

تاریخ:18نومبر2013

 

خبر: بروز جمعہ یکم نومبر 2013 کو امریکہ نے تحریک پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔ اس واقع پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو خطے کے امن پر ڈرون حملہ قرار دیا اور امریکہ سے پاکستان کے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور اس مسئلے پر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

 

تبصرہ: حکومت پاکستان کا بظاہر اس ڈرون حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرنا اور پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے امریکہ سے اس واقع پر شدید احتجاج کرنا شاید لوگوں کے لیے باعث حیرت اور خوشی کا باعث ہو کہ آخر کار ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال آہی گیا اور اب ہمارے حکمران اس امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں نے امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے کی بات اس وقت کرنا شروع کی جب امریکہ نے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے نام پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس مقصد کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں کا پاکستان کے قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کا فیصلہ قطعی اپنا ہوتا تو امن کے لیے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان امریکہ کے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان سے قبل کیوں نہ کیا گیا؟

درحقیقت امریکہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ 2014 کے بعد افغانستان کو چلانے کے لیے جو نظام دینا چاہتا ہے جب تک ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمان پشتون اس کی حمائت نہ کریں ،کسی صورت چل ہی نہیں سکتا۔لہٰذا امریکہ محدود انخلاء کے پردے میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں افغانستان کے مسلمان پشتونوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے ایجنٹوں کو اس نے پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کو بھی اس امریکی بندوبست پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

لیکن امریکہ اپنے ایجنٹوں کی غداری کو چھپانے اور ان کے جھوٹے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر پاکستان میں مذاکرات کی مخالفت کررہا ہے تا کہ مسلمان یہ دھوکہ کھا جائیں کہ امریکہ تو مذاکرات کا مخالف ہے اور اب ہمارے حکمران بھی اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ان مذاکرات کی حمائت کرنی چاہیے تا کہ امریکی منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ یہ ایک ڈبل گیم ہے جو امریکہ خطے کے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تا کہ خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔

پاکستان اور افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے میں امریکہ کی موجودگی کی تمام اشکال کا خاتمہ نہ کردیا جائے چاہے وہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش ہو یا امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس اداروں ، نجی سکیورٹی اداروں اور سفارت کاروں کو خطے سے نکال دینا ہو۔ اور یہ صرف خلیفہ راشد ہی کرسکتا ہے جو مسلمانوں کو ، ان کی افواج کو اور ان کے تمام وسائل کو ایک خلافت کے سائے میں یکجا کرے گا ۔ لہٰذا خطے کے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے۔

 

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک