السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

شام اور مصر میں امریکی جرائم پر مذمتی جلسہ اللہ کے فضل سے اختتام کو پہنچا "ہمارا اسلام نہ کہ ان کی جمہوریت"  

اللہ کے فضل و کرم سے حزب التحریر ولایہ اردن کی جانب سے شام میں امریکی مداخلت اور اپنے ایجنٹ بشار اور مصر میں اپنے ایجنٹوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی مذمت کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والا جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔اس جلسے میں شرکت کے لیے شام کی سرزمین اردن کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حزب کی دعوت پر لبیک کہا اورانتہائی گرم موسم کےباوجود جلسے میں بہت بڑہ تعداد میں شرکت کی۔

جلسے کا افتتاح قرآن حکیم کی تلاوت سے کیا گیا۔پھر حزب التحریر ولایہ اردن کے میڈیا آفس کے انچارج محمود قطیشات نے ابتدائی کلمات کہے،جس میں انہوں نے کفار کی طرف جھکاؤ اور ان پر اعتماد کرنے کے بارے میں محتاط رہنے پر گفتگوں کرتے ہوئے کہاکہ " یہی امریکہ اور کافر ممالک پسے پردہ خود اور اپنے ایجنٹوں اور کارندوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ صلیبی جنگ میں مصروف ہیں۔وہ افغانستان،پاکستان اور یمن میں اپنے اسلحے اور ڈرونز کے ذریعے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور شام کی سرزمین پر اپنے ایجنٹ سرکش بشار کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اوراس کو جینے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ یہی مصر میں اپنے ایجنٹ سرکش السیسی کے ذریعے رابعہ ، النہضہ میں،سڑکوں اور مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہےہیں "۔انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مشرقی یا مغربی کافروں کو کسی بھی بہانے اپنے اندرونی معاملات میں سیاسی یا عسکری مداخلت کی اجازت نہ دیں کیونکہ یہ کام اللہ،اس کے رسول اور مؤمنوں سے خیانت ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس پر آشوب دور سے نکلنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو اتار پھینکنے ، اسلام کے اقتدار کو واپس لانے اوراس ریاست خلافت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر یں جو امریکہ اور ان ممالک کے ہاتھ کاٹ دے گی جو اسلامی سرزمین میں دراندازی کی جسارت کریں گے۔

استاد بلال القصراوی نے بھی خطاب کیا اور شام میں میں سفاک بشار کی پشت پناہی اور شام کے انقلابی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بارے میں امریکہ کے کردار کو بے نقاب کیا۔انہوں نے شام کے مخلص انقلابیوں کو داد دی اور یہ کہا کہ شام کے مخلص انقلابی کبھی بھی اپنے انقلاب کا رخ موڑنے کی امریکی کوششوں کو کامیاب ہو نے نہیں دیں گے اوروہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ کو قبول نہیں کریں گے۔اس کے بعد استاد ابو بکرالفقہاء نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کفار پر انحصار کرنے سے خبردار کیا اورشام اور مصر کے اسلامی تحریکوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کے کسی بھی جزء سے پیچھے ہٹھنے کو قبول نہ کریں اورآپ کا مقصد کسی صدر کو برطرف کر کے کسی اور کو اس کی کرسی پر برجمان کرنا نہیں،بلکہ آپ کا نصب العین ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کو نافذ کرنا ہونا چاہیے۔

جلسے میں زبردست نعرے بھی لگائے گئے جن میں سے کچھ یہ ہیں،"شام کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو تمہاری جمہوریت سے نہیں بدلیں گے"،"کب تک شام اور مصر میں ہمارا خون مغرب کے لیے قربان ہوتا رہے گا"،"انہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ :جمہوریت حل ہے جس کا شاخسانہ رابعہ العدویہ تھا!" اور"تماری مداخلت دشمنی ہےاور تمہارے مددگاروں کو بچانے کے لیے ہے"۔ علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس جلسے کو انتہائی درجے کے سیکیوریٹی کے باوجود کیوریج دی اوربہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے میڈیا آفس کے سربراہ اور دوسرے شرکا کا انٹر ویو بھی کیا۔

 

 

میڈیا آفس حزب التحریر
ولایہ اردن

 

مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا

''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔

عابد مصطفی

مغربی حکومتوں نے ملالہ کی کہانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی جدوجہد کا استحصال کیا اور اپنے استعماری سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا یہ خلافت ہی ہے جو خواتین کے لیے دوبارہ اول درجے کا تعلیمی نظام واپس لائیگی۔

گذشتہ اکتوبر پندرہ سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو گولی مارے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم ، بہت سے لوگوں کو حیران اور وحشت زدہ کر دیا۔ مرکزی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں، مغربی حکومتوں اور سیاستدانوں نے اس واقعے کی تشہیر یوں کی کہ ؛ ''اس بچی پر پاکستانی اسلام پسندوں نے اس لیے قاتلانہ حملہ کیا کیونکہ حقوقِ نسواں اور لڑکیوں کی تعلیم کی ترویج کے لیے اس کی کوششوں کے وہ مخالف تھے''۔ حملے کے فوراََ بعد بہت سے ادارے اور شخصیات اس کے مقصد کے لیے اکھٹا ہو گئیں اور اس کو سراہا گیا کہ اس نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ کو عالمی توجہ دلوائی، ان شخصیات میں سابق برطانوی وزیرِاعظم اور اقوامِ متحدہ کے سفیرِ خاص برائے عالمی تعلیم گورڈن براؤن، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکر یٹر ی بان کی مون، اور سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شامل ہیں۔
12 جولائی کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں ملالہ کو نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا جہاں اس نے اس ضرورت کی حمایت کی کہ ہر بچے کے لیے مفت تعلیم لازمی ہو۔
پاکستان میں اور عالمی سطح پر بچیوں کے تعلیمی حقوق کی بہتری ایک عظیم مقصد ہے۔ مگر مغربی حکومتوں، اداروں، اور سیاستدانوں کی بے شرم کاوشیں عظمت سے کہیں دور ہیں جو اس نو عمر بچی ،اس کی جدو جہد ، اور اس پر ہونیوالے خوفناک حملے کے واقعے کااستحصال کررہی ہیں ، تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصدیعنی مغربی، لا دین اور آزاد خیال اقدار کو تعلیم کے بہانے مسلم دنیا کی خواتین اور بچیوں میں فروغ دیں ، اور ان کی اسلامی شناخت اور اقدار کو کمزور کر دیں۔
ملالہ کے لیے ان کی حمایت کی مضحکہ خیز ی اور مسلم خواتین کے تعلیمی حقوق کے لیے ان کی پریشانی کی حقیقت ان کے اس منافقانہ خاموش رویہ سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے لادین ریاستوں مثلاًفرانس ، بیلجیم ، ترکی اور ازبکستان میں حجاب اور نقاب کی پابندی کے بارے میں روا رکھا، جس نے مسلم خواتین اور بچیوں کو محض اسلامی لباس پہننے پر سکول کی معیاری تعلیم سے محروم کر دیا۔ یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ ان لادین ریاستوں اور سیاستدانوں کی مضبوط مخالفت سے بھرپور آوازیں اس وقت کہاں تھیں جب یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے مسلم خواتین کے ان حقوق کے خلاف فرانس اور ترکی میں فیصلہ دیا، جس میں وہ معیاری تعلیم اور اسلامی عقائدکو ساتھ ساتھ لے کر چل سکیں؟
ملالہ کے واقعہ کو ایندھن بنا کر اس قدیم تہمت کی آگ کو بھڑکایا گیاکہ اسلامی نظام عورتوں کو دباتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیتا ہے، اور یہ کہ مسلم خواتین مغربی طرزِ آزادی کی ضرورت مند ہیں۔ یہ ایک ایسی تہمت ہے جو تاریخ میں کئی دہائیوں تک استعمال ہوئی، اور دورِ جدید میں بھی کی جارہی ہے تاکہ مغربی لادینیت کا تسلط مسلم علاقے پر قائم رہے اور اسلام کو دوبارہ زور پکڑنے سے روکاجاسکے ، تاکہ مسلم دنیا میں اسلامی ریاست کا قیام نہ ہوسکے، جو کہ مغرب کے سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ مغرب کی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے عورتوں اور بچیوں کو پاکستان اور دیگر بہت سے مسلم ممالک میں قیمتی تعلیم سے محروم کر دیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر قبضے نے پاکستان، افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں ایک عدم استحکام اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جس میں بار بار کے ڈرون حملے اور بم دھماکے جنہوں نے گذشتہ سالوں میں ہزاروں لوگوں ، جن میں بے شمار بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچوں کے حقوق پر اقوامِ متحدہ کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا، '' اطلاعات کے مطابق 2008 سے 2012 کے درمیان بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زمینی اور فضائی حملوں میں افغانستان میں موجود امریکی افواج سینکڑوں بچوں کو مار چکی ہیں''۔ ان بچوں کے حقوق کہاں ہیں؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ اموات ان استعماری حکومتوں کو اس مسلم علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ضمنی نقصان کے طور پر قابلِ قبول ہیں ۔ اس غاصبانہ قبضے، حالت ِجنگ اور عدم استحکام نے ایک ایسی لا قانو نیت کی فضا پیدا کر دی ہے جس میں جرائم، اغوا اور عصمت دری کے واقعات بکثرت ہورہے ہیں۔ ان حالات نے بہت سے والدین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور جگہوں پر، جس میں اسکول بھی شامل ہیں، سفر نہ کرنے دیں ۔ علاوہ ازیں ایسی ریاستیں جو عدم استحکام ، تباہی اور عدم تحفظ کا شکار ہوں کس طرح اپنے شہریوں کو ایک اچھی اور میعاری تعلیم مہیا کر سکتی ہیں؟ دس سال سے زیادہ عرصہ کے قبضہ کے باوجود ، افغانستان میں10 میں سے تقریباََ9 خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہٰذا یہ مغربی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے نہ صرف بچیوں سے تعلیم کو چھینا بلکہ ان کی زندگیوں اور وقار پر بھی ڈاکہ ڈالا اور ان کی سکول کی میعاری تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ، مسلم علاقوں کی مغربی حمایت یافتہ ، لا دین حکومتوں نے اپنی ریاستوں کے اندر آزاد خیال مغربی تہذیب ، نہ صرف تفریحی اور اشتہاری صنعتوں کے ذریعے داخل ہونے دی بلکہ لادین تعلیمی نظام کا نفاذ بھی کررکھاہے۔ یہ تہذیب جو جنسی آزادی کو پروان چڑھاتی ہے، عورت کی ہتک کرتے ہوئے اسے جنسی ضرورت کا سامان بنا دیتی ہے، اور مردوں کو اس پر اکساتی ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کریں، جس کے نتیجہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر جیسے ملکوں کے سکولوں اور گلیوں میں جنسی طور پر حراساں کرنے، ڈرانے اور عصمت دری کے واقعات بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال نے بہت سی خواتین میں احتراز پیدا کیا کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر قدم رکھیں۔
مزید برآں کھوٹے مغربی سرمایہ دار انہ نظام نے مسلم دنیا کے ملکوں کی معیشت تباہ کر دی، ان کو بڑے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور ناکام معاشی پالیسیوںمیں جکڑدیا، مثلا ً قرض کی ادائیگی پر خرچ کی جانے والی رقم تعلیم، صحت، انتظامی ڈھانچے اور دیگر عوامی سہولیات پر ہونے والے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ غیر تسلی بخش اور آہستہ آہستہ نا پید ہوتے سکول، محدود اور کم تربیت یافتہ اساتذہ ، ضروری کتابوں اور ساز و سامان کی کمی ہے۔ مزید برآں مسلم علاقوں پر حاوی مغربی ریاستوں اور ان کے آئی ایم ایف جیسے اداروں نے مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعہ مفلس کیا اور ساتھ ہی مفت تعلیم کے فقدان نے بہت سے والدین کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ تعلیم دلوانے میں اپنے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے لگے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ پاکستان میں تقریباََ60 فیصد اور بنگلہ دیش اور مصر میں 50 فیصد خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہذا ہمارے مسلم علاقوں پر مسلط مغربی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دار انہ لا دینی نظام ہی دراصل مسلم دنیا میں خواتین اور بچیوں کو اچھی تعلیم کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق اسلام کی ہدایات بالکل واضح ہیں۔ اوروہ یہ ہیں کہ نہ صرف اسلام کا علم اور مسائل کے حل جواسلام دیتاہے ان کا علم حاصل کرنا عورتوں پر فرض ہے جیسا کہ رسول ﷺکی اس حدیث سے واضح ہے(طلب العلم فريضة على كل مسلم) ''علم کا حصول ہر مسلمان (مرد و عورت)پر فرض ہے'' بلکہ مسلمان عورت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا پربھی غور و فکر کرے۔ یقینا رسول اللہ ﷺکی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک عظیم اسلامی سکالر تھیں بلکہ طب ، شاعری اور عمومی علوم میں بھی ماہر تھیں۔ اسلام مسلم امت پر یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ دنیا میں ایک راہنما قوم ہو، اورمسلم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے کہ وہ معاشرہ کی بھلائی میں حصہ دار ہوں اور زندگی کے مختلف شعبوں مثلاََ تعلیم ، سائنس، طب، ٹیکنالوجی اور صنعت میں سبقت لے جائیں۔ مگرخواتین کے ان تمام تعلیمی فرائض اور حقوق کا تحفظ صرف ایک ایسے نظام کے اندر ہی ممکن ہے جو اسلامی عقائد اور تعلیم نسواں کی اسلام میں اہمیت کی حقیقتاً قدرکرتا ہو۔ وہ نظام ریاستِ خلافت ہے جس کے آئین کی بنیاد صرف اور صرف قرآن اور سنت پر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام کے حکم کے مطابق ریاستِ خلافت کا فرض ہے کہ وہ کثیر رقم شعبہ تعلیم پر خرچ کرے اور بچوں اور بچیوں کو یکساں طور پر مفت ابتدائی اور ثانوی تعلیم مہیا کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعلٰی تعلیم کی فراہمی کو بھی مفت ممکن بنائے ۔ یوں یقینی ہوجاتاہے کہ خواتین کے لیے ایسے خصوصی اور بااختیار اسکول ہوں جو اسلام کے حکم کے مطابق غیر مخلوط ہوں، اورجن کا انتظام چلانے کے لیے ، اچھی اجرت پر لی گئیں، بہترین تربیت یافتہ ، اور اعلی اہلیت کی حامل خواتین اساتذہ موجودہوں ۔ ساتھ ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں خصوصی مہارت حاصل کریں مثلاً عالمہ دین، ماہر طب(ڈاکٹر)، سائنسدان، حساب دان، ماہر تعمیرات، قاضیہ(جج)، مُدَرِّسہ(لکچرار)، مہندسہ(انجنیئر)، اور آئی ٹی کی ماہر بن سکیں۔ اوریہ سب کچھ اسلام کے دیے ہوئے ٹھوس اقتصادی نظام سے مالی طور پر مربوط ہے ، جو ایک مستحکم معیشت اور معاشی خوشحالی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، اور جسے نافذکرنے کی ذمہ داری اسلامی نظامِ حکومت کی ہے ۔ تعلیم اس نظام حکومت کی ترجیہات میں سے ہے اورتعلیم اسکی نظر میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم، شعبہ ابلاغ (میڈیا)، اور عدالتی نظام کے ذریعے ، اپنی بھرپور کوشش سے معاشرہ میں موجود ایسے رسم ورواج کو مٹا دے گا جو خواتین کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی معاشرتی نظام اور دیگر شرعی قوانین اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین کا بلند مرتبہ ہمیشہ قائم رہے، اور ان کی قدر میں کمی نہ ہو ، تاکہ مرد ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ، نہ کہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق، اور یہ کے ان کی حرمت اور عزت کے خلاف کسی بھی رویے کی سخت سزا دی جائے گی، اور ایک ایسے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جس میں بچیاں اپنے سکولوں تک سفر کر سکیں اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ یہ ہے وہ سب کچھ جو خواتین کی ناخواندگی کو مٹائے گا اور عورتوں کی تعلیمی آرزئوں کو پورا کرے گا۔
تاریخ میں اسی خلافت کے نظام تلے ہی ایساممکن ہوا تھا کہ عورتوں کا تعلیمی معیار بلندیوں پرپہنچااور شاندار خواتین سائنسدان اور موجدات تیار ہوئیں، مثلاً ''اصطرلاب'' ایجاد کرنیوالی مریم الاصطرلابی، جنہوں نے دسویں صدی میں سورج اور ستاروں کی حرکات وسکنات کاحساب لگانے کے لیے اس آلہ کی بنیاد رکھی تھی۔ مثلاً بہترین خاتون انجینیر فاطمہ الفہری جنہوں نے مراکش کے شہر قراویین میں پہلی جامعہ بنائی؛ اور ہزارہا خوتین سکالرز جن کی تفصیل عالم محمد اکرم الندوی کی ٤٠ جلدوں پر مشتمل کتاب سے ملتی ہے جو ہمیں ان آٹھ ہزار خواتین سکالرز کی سوانح عمری بتاتی ہے جو اسلامی تہذیب کے دور میں تھیں۔ اس حقیقی اسلامی نظام تلے قاہرہ کی معروف الاظہر یونیورسٹی تک خواتین کی پہنچ بطور طالبعلم بھی تھی اور بطور لیکچرار بھی ، یہ وہ حق ہے جو مغرب کی خواتین کو ان کی جامعات نے سینکڑوں سال بعد دیا۔ درحقیقت بہت سے قدیم اسلامی کلیات وجامعات میں خواتین مدرسات (لیکچرار) کی تعداد آج کی بہت سی مغربی جامعات کی نسبت زیادہ تھی۔ یہ سب اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ترقی کے لیے صرف اور صرف اسلام کو اپنا مرکزی قوتِ تحریک بنایا۔ اس لیے خلافت ایک ایسی ریاست تھی جس نے حقیقی طور پر دنیا میں خواتین کی تعلیم کی بنیاد رکھی اور انشا اللہ دوبارہ اپنے قیام کے ساتھ خواتین اور بچیوں کے لیے اول درجہ کا تعلیمی نظام مہیا کرے گی۔
عزیز بھائیو اور بہنو،
ملالہ کی اس کہانی کی نوشت مغربی استعماری حکومتوں کی لکھی ہوئی ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کی بہتری نہیں بلکہ ان کی استعماری مداخلت کو جاری رکھنا اور مسلم دنیا کو اپنا تابع بنائے رکھنا ہے۔ اس خطہ کے لیے جو تعلیم وہ پیش کررہے ہیں اس میں ہمارے لیے کوئی اخلاص نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد اپنے لا دینی (سیکولر) خیالات اور ان آزاد خیال (لبرل)اقدار کو مزید پھیلانا ہے، جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا، یقیناََ اس کو سختی کے ساتھ رد کر دینا چاہیے۔
صرف اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ہم اپنی اسلامی بنیادوں اور قوانین کی طرف لوٹ سکیں گے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں خواتین کی تعلیمی آرزوئوں کی تکمیل ممکن ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے"( سورة الصف ۔8)

ابواایاس کی کتاب ''منتخب فقہی مسائل ''سے اقتباس

سوال : مسلمان اپنی طویل تاریخ میں ایک ایسے عہدہ سے آشنارہے ہیں جسے الحسبہ کہاجاتاہے،اس عہدے کوسنبھالنے والے کومحتسب یاقاضی حسبہ کہاجاتاہے۔ ہمارے آج کے ممالک میں یہ عہدہ دیکھنے کونہیں ملتا۔کیاآپ اسلامی ریاست کے اندر اس عہدے کے بارے میں کوئی تصوردے سکتے ہیں ؟براہ کرم محتسب کے کاموں کی تفصیل بھی بتادیجئے۔

جواب : جی ہاں ، مسلمانوں کی طویل تاریخ میں یہ منصب جانی پہچانی چیزہواکرتا تھا، جسے الحسبہ کہاجاتاتھا۔ یہ اسلامی ریاست میں عدالت کی ایک قسم ہے ،کیونکہ ریاست خلافت میں تین قسم کی عدالتیں ہوتی ہیں یعنی قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول: قاضی عام جو لوگوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرتاہے۔ دوم: قاضی محتسب، سوئم:قاضی مظالم۔ ان میں سے ہرعدالت رعایاکے مسائل کی کسی ایک شاخ کیلئے مختص کی گئی ہوتی ہے۔ہم قاضی حسبہ کے بارے میں تفصیلی بات کریں گے ۔
حسبہ عدالت ، وہ عدالت ہوتی ہے جوعام زندگی میں واقع ہونے والے عام مسائل کوحل کرتی ہے یعنی ان عام حقوق کے فیصلے کرتی ہے جن کاکوئی دعویدار نہ ہو۔ اس عدالت کا ریاستِ خلافت میں عام زندگی کو منکرات اورگناہوں سے دور،خالص اسلامی سانچے کے مطابق ڈھالنے میں بڑاحصہ ہوتا ہے،اس لئے یہ انتہائی اہم اورحساس عدالت ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس عدالت کیلئے ایسے اشخاص کوچناجاتاتھاجواچھے اخلاق اورشفاف کردارکے حامل ہوتے ۔ حسبہ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں ،ان میں سے کچھ یہ ہیں: محتسب وہ قاضی ہوتاہے جوان عام حقوق سے متعلق، جن کاکوئی دعویدارنہیں ہوتا، تمام فیصلوں کودیکھتاہے ،بشرطیکہ یہ فیصلے حدود اورجنایات کے تحت نہ آتے ہوں ۔ الاحکام السلطانیہ کے مصنف کہتے ہیں: حسبہ عدالت کاکام یہ ہے کہ جب کسی نیکی کولوگ چھوڑرہے ہوںتووہ اس کاحکم دے اورجب لوگ کسی منکرمیں پڑنے لگیں توانہیں منع کرے ۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں : منکرسے مراد وہ منکرہے جو زمانہ حال میں کیاجارہاہواورمحتسب کوبغیرکسی تفتیش کے نظرآئے اورجس کامنکرہونااجتہاد کے بغیرسمجھ میں آئے ۔ یہ اسلامی حکومت کی مشینریوں میں سے ایک مشینری ہوتی ہے جس کاکام خیراورنیکی کوپھیلانااورشراورمنکرکا قلع قمع کرناہوتاہے ۔ اس کی اہمیت اورحساسیت کی وجہ سے اس عہدے کوسنبھالنے والے کیلئے مندرجہ ذیل صفات کاحامل ہوناضروری ہے :
-1 عادل ،نیک اورپرہیزگارہو۔
2- طاقتوراوردین کے بارے میں سخت اورکٹرہو۔
-3 فقیہ ،اوراحکام شریعت کاعالم ہو۔
بعض فقہاء نے محتسب کیلئے کچھ اضافی صفات بھی ذکر کئے ہیں ،وہ محتسب کیلئے ذی حیثیت اورمعزز ہونااور عالی النسب ہوناواجب ٹھہراتے ہیں ۔ جہاں تک تفصیلاً اورپوری گہرائی سے محتسب کے اعمال کابیان ہے تووہ کچھ یوں ہے۔
-1 مارکیٹ کی نگرانی ،ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،دھوکہ دہی اورتجارتی معاملات میں نقصان دہی سے روکنا،اسی طرح ناپ تول اورخرید وفروخت کے پیمانوں پرنظررکھنا،سامان او ر خدمات کی قیمتوں کی نگرانی کرنااور تاجروں کوراستوں میں سامان رکھنے سے منع کرنا،صرافوںmoney exchangersاورسکے بنانے والوں کی کارکردگیوں کودیکھنااوران کوسونے ،چاندی کی کرنسیوں اورزیورات کی ہیر پھیر یاسودی معاملات میں پڑنے سے روکنا،کیفے اورکلبوں کی نگرانی کرنا۔جوئے،اورمنشیات استعمال کرنے اورنشہ آوراشیاء کاکاروبارکرنے سے روکنا۔ ہمارے زمانے میں دیہی کونسلز اور میونسپل بورڈ ز یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔
-2 مساجد کی نگرانی ،یعنی ان کی صفائی ستھرائی اوران میں قرآنی نسخوں کی موجودگی کی تسلی کرنا،اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے آئمہ مساجد اورمؤذنین کی نگرانی کرنا،لوگوں کوباجماعت نماز کی ادائیگی کی ترغیب دلانا،مساجد میں تصاویربنانے ،لٹکانے اورنقش ونگاروغیرہ سے روکناتاکہ نمازیوں کی نظریں اس میں نہ لگیں،اس طرح مسجدوں میں ہلڑبازی اورباہم جھگڑوں اورچیخنے چلانے سے روکنا۔ ان جیسے کام موجودہ دور میں وزارت اوقاف سرانجام دیتی ہے ۔
-3 رعایاکے حالات کی خبرگیری ،مثلاًمسلمان خواتین اورذمی عورتوں کوعام زندگی میں شرعی لباس اورستر کے چھپانے کی پابندی کروانا،عورتوں کوچھیڑنے والے بدکارفاسق لوگوں کوان تک رسائی نہ دینا،ان جگہوں میں جہاں عورتوں اورمردوں کے درمیان علیحدگی ضروری ہوتی ہے ، اختلاط اورمیل جول نہ کرنے دینا،جیسے سوئمنگ پول ، نہروں اوردریاؤں کے کنارے،ہوٹلز ،پارک اورکھیل کے میدان،ہمارے اس دورمیں یہ کام اخلاقیات کا نگران ادارہ سرانجام دیتاہے۔
- 4 سڑکوں اورعام راستوں کی آمدورفت کی نگرانی۔ سڑکوں ،پلوں ،نہروں کی حالت پرنظررکھنا،ٹریفک کومنظم کرنا،بندرگاہوں پربحری جہازوں کی نقل وحرکت اورخلاف ورزیوں کوروکنا،نقل وحمل کے وسائل کوکنٹرول کرنا،تاکہ گاڑیاں چلتی رہیں اورسواریاں سہولت، آسانی اورامن کے ساتھ آجاسکیں ۔ ہمارے زمانے میں اس کانام ٹریفک قوانین اور نقل وحرکت کے نظام ہیں جس کی نگرانی پولیس کرتی ہے ۔
-5 ڈسپنسریوں اورمیڈیکل کلینکس ،لیبارٹریوں ،ہوٹلز اورفوڈز فیکٹریوں کی نگرانی کرنا،اوران کے چلانے والوں کوصفائی کی پابندی کروانااوران کوملاوٹ سے منع کرنا،نیزان کواپنی ڈیوٹیاں تقویٰ کے مطابق اداکرنے کاحکم کرنا،یہ کام آج کل وزارت صحت سرانجام دیتی ہے ۔
مختصراً میں کہوں گا کہ محتسب کاکام یہ ہے کہ جہاں منکرنظرآیااس کوروکنا اورریاست خلافت میں عام زندگی کوخالص اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی زندگی بنانا۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں نہ تو سیاح نیم برہنہ لباس کے ساتھ گھوم سکیں گے، نہ ہی ذمی لوگ شراب اور خنزیر کا گوشت مسلمانوں کوپیش کرسکیں گے ۔ نہ ہی گرجا گھروں کی گھنٹیاں اونچی آواز کے ساتھ بجائی جائیں گی ،بالخصوص مسلمانوں کے نماز کے اوقات میں ،نہ ہی کوڑاکرکٹ کوراستوں اورعام چوراہوں میں پھینکاجائے گاوغیرہ ۔
محتسب کے تصرف میں پولیس کی مناسب نفری رکھنابھی ضروری ہے جس کے ذریعے وہ سزاؤں کوفوراً نافذ کرسکے تاکہ مسئلہ کو فوراً حل کیا جائے۔ محتسب جب بھی کوئی مسئلہ دیکھتاہے کسی تاخیر کے بغیراس کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کوعدالت کے فیصلے کاانتظار نہیں کرناپڑتابلکہ وہ راستوں اورچوکوں میں مسائل کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کے لئے کسی کومعاف کرنابھی جائز ہوتاہے جیساکہ اُس کیلئے کسی کوجھڑکنے اورڈانٹ ڈپٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ وہ کوڑے لگاسکتاہے ، مال کوضبط کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کوتلف کرنابھی جائز ہوتاہے۔وہ تمام سزائیں نافذ کرسکتاہے ،سوائے حدودکے جیسے ہاتھ کاٹنا یازناکرنے والے کوسنگسارکرنایاجنایات جیسے قتل اورزخمی کرنے کی سزائیں۔ محتسب کواپنے کسی بھی فیصلے میںمدعی کی ضرورت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ منکردیکھتے ہی اپنافیصلہ سناتاہے ،خواہ دن ہویارات اورخلاف وزری کرنے والوں اورسرکش لوگوں کومختلف قسم کی تعزیر دیکر سزادے سکتاہے اوراس کا حکم نافذ العمل ہوتا ہے ،اس کافیصلہ حتمی ہوتاہے جسے توڑنایامعطل کرناجائز نہیں ہے۔

 

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک