الجمعة، 04 ربيع الأول 1446| 2024/09/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

عورت کا عالمی دن 2015 نسوانیت کے نام پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے میں ناکامی کے سو سال

اقوام متحدہ اس سال  8 مارچ کے خواتین کے عالمی دن کو زیادہ اجاگر کرے گا تاکہ بیجنگ اعلامیہ اور  اس کے ایکشن پلان  پر روشنی ڈالی جا سکے جس پر 189 حکومتوں نے 20 سال پہلے خواتین کے حقوق ،ان کی زندگی بہتر بنانے  اور اقوام عالم میں دونوں جنسوں کے درمیان مساوات  کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کی حمایت  میں  دستخط کیے تھے ۔ اس معاہدے میں خواتین سے متعلق 12 باتوں پر زور دیا گیا تھا  جس میں غربت، تشدد،تعلیم کے حقوق، عسکری تنازعے،اختیار اور فیصلہ سازی شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کو تاریخی اعلان قرار دیا تھا  جس میں "خواتین کو  با اختیار بنانے کا   ایک واضح لائحہ عمل موجود ہے"  اور یہ  " سب سے جامع  عالمی پالیسی ڈھانچہ اور اس پر عمل کے لئے واضح  لائحہ عمل۔۔۔۔تا کہ دونوں جنسوں کے مابین مساوات اور خواتین  اور لڑکیوں کےلئے ہر جگہ  انسانی حقوق کو حقیقت بنادیا جائے "۔ لیکن  اس معاہدے کے بعد  دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ،   خواتین کا پہلا عالمی دن منانے کے 104 سال بعد  اور  عورت اور مرد کے درمیان مساوات  کی نسوانی جدوجہد کے سو سال گزرنے جانے باوجود   دنیا کے  طول و عرض میں  کروڑوں عورتوں کی زندگی انتہائی المناک ہے۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق  دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں  مار پیٹ یا زنا بالجبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،1.2ارب غریبوں میں  70فیصد عورتیں اور بچے ہیں، 700 ملین عورتیں  ایسی زندگی گزار رہی ہیں کہ ان کو خوراک ،پینے کے صاف پانی، طبی سہولیات   کی کمی یا تعلیم کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، 85 ملین لڑکیاں ا سکول  جانے سے قاصر ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین بچوں کی  بطور غلام سالانہ خرید وفروخت ہو تی ہےجن میں سے 80 فیصدلڑکیا ں ہیں۔ یہ سب کچھ حقوق نسواں کی بدترین ناکامی کا ظاہر کرتا ہے اور اس کی بنیادی فکر یعنی جنسوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر خواتین سے کیے جانے والے وعدوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ  حقوق اور اختیارات کے بارے میں "مساوات" کے خالی خولی دعوے ،عائلی زندگی  اور معاشرے  میں مرد اور عورت کے کردار  ، دونوں جنسوں کے درمیان مساوات   ہر گز خواتین کے احترام اور ان کی بہتر زندگی کا ضامن نہیں  بلکہ  نسوانیت  کا یہ جھوٹا نعرہ   عورت  کی اس درد ناک صورت حال سے توجہ ہٹا نے کے لیے استعمال کیا گیاجس  کا سبب ہی سکیولر سرمایہ دارانہ نظام ہے   جو گزشتہ صدی سے دنیا کی سیاست اور معیشت پر حاوی ہے۔ یہی نظام ہے جو   دولت مند اور غریب کے مابین زبردست تفاوت  اور معیشت کو تباہ کرنے کا سبب ہے؛ جس سے کروڑوں خواتین غربت کا شکار ہو گئیں اور تعلیم تباہ ہو گئی ،طبی سہولیات کا فقدان پیدا ہوا ، ان کے ملکوں میں دوسری خدمات بھی ناپائدار ہوگئیں۔  اس کے ساتھ ساتھ  سرمایہ دارنہ مادی نقطہ نظر نے  ایسی سوچ کو پروان چڑھا یا کہ   منافع کے لیے عورت  کے جسم کو استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں ، جس نے انسانی تجارت  کے لیے ماحول فراہم کیا ۔ اس کے علاوہ سکیولر سرمایہ داریت جو  ذاتی خواہشات کے حصول کو مقدس گردانتا ہے اور  عورت کو جنسیت کی نظر سے دیکھتا ہے، جس کے نتیجے میں میں عورت کی حالت ابتر ہو گئی  ،جنسی جرائم  کی وبا پھیل گئی، اسی وجہ سے آج وہ پامالی کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ نسوانیت  کا نقطہ نظر جو مساوات کی تنگ نظری پر مبنی ہے  جس کے ذریعے  سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی  تبدیلی کی کوشش کے ذریعے اس کے عیوب کو چھپایا جارہا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  بنیادی تبدیلی کی بات کی جاتی ، یہ نظام ہمیشہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ لہذا بیجنگ اعلامیہ  اور خواتین کے بارے میں بین الاقوامی معاہدات جیسے  Cedaw  اور مساوات  کے  لیے مشرق سے مغرب تک لگائے جانے والے نعرے اور بینر سب ناکام ہو ئے  اور دنیا کی خواتین کو  عزت کی زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں دے سکے۔ یہ اس بات کی واضح دالیل ہے کہ نسوانی تنظیمیں ،حکومتیں اور وہ ادارے  جو ان افکار کی ترویج کرتے ہیں  ان میں سے کسی کے پاس خواتین کے مسائل کا قابل اعتماد حل ،لائحہ عمل یا وژن نہیں ۔

اس کے مقابلے میں اسلام جس پر سکیولر حضرات  اس کے معاشرتی قوانین  کے سبب خواتین پر ظلم کرنے کا الزام لگاتے ہیں  کیونکہ یہ قوانین مغرب کے مساوات کے نظرئیے کے بر عکس ہیں، اس کے پاس  خواتین کے احترام کو بحا ل کرنے  کا ایک جامع ، قابل اعتماد اور مجرب   پروگرام ہے ،جوان کے مسائل کو حل اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔وہ پروگرام جس نے صدیوں تک  خلافت کے نظامِ حکومت کے سائے میں خواتین کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت دی ۔ اسلام کے معاشرتی نظام کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس   کا شعبہ خواتین بڑے پیمانے پر جاری عالمی مہم میں واضح کر رہا ہے  جس کا عنوان ہے : "عورت اور شریعت  :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" ۔ اس مہم کا اختتام  28 مارچ 2015 کو  ایک عالمی خواتین کانفرنس پر ہو گا۔ہم ہر اس شخص کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے   ناکام معاہدات، فضول تجاویز اور جھوٹے وعدوں سے تھک چکا ہے کہ وہ اس اہم مہم اور کانفرنس کی پیروی کے لئے درج ذیل فیس بک صفحےسے رجوع کریں:

https://www.facebook.com/womenandshariahA

 

ڈاکٹر نسرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

16-15 فروری 2015  کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (One India )  میں شائع ہونے والے مضمون  "حزب التحریر الدولۃ الاسلامیۃ  العراق و شام  سے زیادہ خطرناک ثا بت ہو سکتی ہے" کا جواب

15 ،16 فروری 2015 کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حزب التحریر  ایک دہشت گرد جماعت ہے۔  اس مضمون میں کئی سنگین غلطیاں اور گمراہ کن  دعوے کیے گئے۔

حزب التحریر ایک  عالمی اسلامی سیاسی جماعت ہے  جو نبوت کے طرز پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے اسلامی سرزمین میں  پُر امن فکری اور سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔  حزب التحریر ایک مشہور و معروف اسلامی پارٹی ہے  اوراس کی بنیا 1953 میں  بیت المقدس میں رکھی گئی ۔ آج شرق اوسط، افریقا اور ایشیاء  سمیت مشرق سے لے مغرب تک کام کر رہی ہے ۔  حزب کے خلاف تمام تر   سوچے سمجھے اشتعال انگیز  اقدامات،نگرانی،گرفتاریوں،تشدد اور  انصاف کا خون کرنے کے باوجود  یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ  حزب   نے اپنے پرامن سیاسی طریقے سے کبھی بھی بال برابر بھی انحراف نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی ایسے کسی  واقع میں ملوث ثابت کیا جاسکا ہے۔

مذکورہ مضمون میں حزب کو " کالعدم" جماعت کہا گیا ہے ؛جس کا مقصد  قاری کو گمراہ کرنا اور اس کے ذہن میں یہ تشویش پیدا کرنا ہے کہ حزب  شاید کوئی "مسلح"  اقدامات بھی کرتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے   کہ جن ممالک نے  بھی حزب پر پابندی لگائی تو اس کے  سیاسی مقاصد تھے اور اس کا مقصد حزب کو اپنی صاف شفاف فکر کو امت تک پہنچانے کی راہ میں روکاوٹ ڈالنا  ہے تاکہ امت اس فکر کا علمبردار نہ بنے اور حزب کے ساتھ مل کر کار زار حیات میں اس فکر کو  وجود بخشنے کے لیے جدو جہد نہ کرے۔ ان ممالک کی حکومتیں اس غلط فہمی میں رہیں کہ  وہ پابندی لگا کر امت کو حزب کی جدوجہد میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن  یہ ناکام اور نامراد ہوئے۔  یہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے کہ امت مشرق سے لے کر مغرب تک  اللہ کی شریعت کے نفاذ اور نبوت کے نقش قدم پر اسلام کی ریاست،  خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔

رہی  حزب التحریر اور ہندوستان میں  انڈین مجاہدین کے درمیان تعلقات  کی بات  تو حزب کے تمام اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات  نصیحت اور راہنمائی کی حد تک ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«الدين النصيحة»

" دین نصیحت ہے" ،اس کو مسلم نے روایت کیا ہے ۔

ہم اخبار  ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)کے ادارتی  انتظامیہ کو ان کے پیشہ ورانہ  اور آزادانہ  صحافت کے بارے میں یاد دہانی کر نا چاہتے ہیں ۔  صحافت ایک محنت طلب کام ہے اور  یہ تقاضا کر تا ہے کہ تمام رپورٹیں  باریک بینی اور ذمہ داری  سے تیار کی جائیں۔   ہمیں امید ہے کہ یہ اخبارات آئندہ اس امر کا خیال رکھیں گےتا کہ  مستقبل میں ہمیں عدالتی چارہ جوئی  پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس

 

پریس ریلیز حکومت کی جانب سے میڈیا کو حزب التحریر کے خلاف مہم شروع کر نے کے احکامات حکومت کی ناکامی اور دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے

بنگلہ دیشی حکومت نے ہفتہ 22 فروری 2015  کو  حزب التحریر اور اس کے سرگرمیوں کے خلاف  پرو پیگنڈہ مہم   شروع کرنے  سے متعلق ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بیان جاری کیا ۔

ہم حزب التحریر ولایہ بنگلہ دیش  حکومت کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ : حکومت نے 2009 میں حزب التحریر پر پابندی لگانے کا حکم نامہ جاری کیا  اور پھر اس کے بعد ایسے کئی حکم نامے جاری کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف جابرانہ اور ظالمانہ اقدامات اٹھائےلیکن  اس سب کے باوجود  وہ حزب کا راستہ  روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اب  حکومت ہمارا راستہ روکنے کے لئے  میڈیا کی مدد لینے کی کوشش کر رہی ہے جس میں وہ خود ناکام ہو چکی ہے۔  یہ بھی حکومت اور اس کے آقاوں کی ایک بزدلانہ کوشش ہے  کیونکہ وہ حزب التحریر اور اس کی دعوت سے لرزہ بر اندام ہیں۔  حزب نے   آج کل جو مہم شروع کر رکھی ہے  اور جس کو زندگی کے ہر طبقے میں سراہا گیا ہے  ، حکومت اور اس کے مغربی آقاوں  کے لئے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے احمقانہ قدم اٹھا رہی ہے۔ اس مہم کا موضوع ہے: "اے لوگو ! شیخ حسینہ اور موجودہ حکومت کو فوراً برطرف کر نے  اور نبوت کے طرز پر ریاستِ خلافت کو قائم کرنے کے لیے  فوج کے مخلص افسران سے رابطہ کر و  کہ وہ اس کام میں شریک ہوں اور  حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں"۔

ہم  میڈیا  میں موجود مخلص لوگوں  سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ حزب التحریر کی کامیابیوں کو دیکھ کر پاگل پن  میں مبتلا   ہونے والی حکومت  کے جھوٹے  پرو پیگنڈے کا شکار نہ ہوں ۔  اس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے آپ کو بھی مایوسی کے دلدل میں نہ گھسیٹیں جو   عوام مقبولیت کھو چکی ہے۔  اس حکومت کی طرف اپنا ہاتھ مت بڑھائیں   جس کو اب لوگ  زمین بوس ہو تا دیکھنا   چاہتے  ہیں اور ان شاء اللہ عنقریب ایسا ہو نے والا ہے ۔ لہٰذا تاریخ کے اہم موڑ پر غلط کشتی کے سوار مت بنو۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان نبوت کے طرز پر خلا فت کی ریاست کی جدو جہد آپ  پر فرض ہے  نہ کہ اس اسلام دشمن حکومت کی طرفداری کرنا۔ اگر آپ  اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی مسئلے  کی خاطر  جدو جہد کرنے کے لیے حزب التحریر میں شامل ہونے کی ہمت نہیں رکھتے  تو کم از کم  حکومت کے ہاں میں ہاں ملا کر جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔

اور بہادر اور مخلص فوجی افسران سے ہم کہتے ہیں : حکومت یہ بات جانتی ہے کہ تم اسلام  کی فوج ہو اور اسلام ہی  تمہارے خون میں دوڑ تا ہے  اور تمام مسلمانوں کی طرح خلافت تمہارے بھی دل کی آواز ہے  جس کی وجہ سے  حزب التحریر آپ  میں بھی پھیل رہی ہے اور اللہ کے حکم سے جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے گی  یعنی موجودہ حکومت کا خاتمہ اور خلافت کا قیام انشاء اللہ ۔  اس لیے حزب التحریر کو اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرہ فراہم کر نے میں جلدی کرو  ، دنیا کا خیر حاصل کرنے کے لئے جلدی کرو، خلافت کو قائم کرنے والے انصار  کا مننصب  پانے کی جلدی کرو  اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کی جلدی کرو کہ خلافت کو قائم کرنے والے انصار کا اجر جنت ہے،  انشاء اللہ۔۔

 

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کامیڈیا آفس

https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

سوال کا جواب مینسک معاہدہ اور یو کرائن میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال

سوال :

مارکل اور ہولاندی  کی پوٹین کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے اور پھر مینسک کا دورہ اور  اس  دوران یوکرائن کے صدر  کی ملاقات میں موجودگی ، یہ  سب کچھ قابل دید تیزی ہوتا نظر آتا ہے ۔۔۔ملاقات کے بعد  وہ مینسک میں ایک معاہدے پر بھی پہنچ گئے  جس کی رو سے  مشرقی یوکرائن میں15 فروری 2015 سے  فائر بندی کی جائے گی  اور  غیر مسلح زون قائم کیا جائے گا۔۔۔ مینسک معاہدے  میں کہا گیا کہ یوکرائنی قوتوں اور مشرقی علاقوں کے    انقلابیوں کو فائر بندی  کے بعد  دو دن کے اندر اگلے مورچوں   سے بھاری اسلحہ ہٹانا پڑے گا، تاکہ بفر زون قائم کیا جاسکے گا  جس کو  لائن کے دونوں جانب 70 کلو میٹر تک  وسعت دی جائے گی ۔۔۔آخر کس چیز نے یورپ "فرانس اور جرمنی " کو  اس جلد بازی بلکہ بھاگ دوڑ کر  روس سے  سیاسی معاہدہ کرنے کے لیے رابطہ کرنے پر مجبور کیا  جبکہ  اس میں یو کرائن کے علاقے  کریمیا  کا کوئی تذکرہ کیا ہی نہیں گیا، حالانکہ یہی   مملک حتمی معاہدہ کرنے کے لیے ٹال مٹول کر رہے  تھے تا کہ کریمیا کا موضوع بھی اس میں شامل ہو جائے؟پھر برطانوی وزیر اعظم  ان کے ساتھ کیوں نہیں تھے؟امریکہ نے ایسا کیوں ظاہر کیا کہ  وہ اس  کا حامی نہیں ہے؟ اس معاہدےکو نافذ کرنے کے بارے میں کیا توقعات ہیں ؟ سوال کی طوالت پر معذرت چاہتا ہوں اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے ۔

 

جواب :

صحیح جواب تک پہنچنے  کے لیے صورت حال کو واضح کرنے کی خاطر   ہم مندجہ ذیل امور کی وضاحت کریں گے:

 

1 ۔ امریکہ  کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ  یوکرائن اسی طرح سلگتا   اور گرم رہے تاکہ یہ روس کے لیے گلے کی ہڈی بنے  اور امریکہ اس کو روس  پر دباو ڈالنے اور کئی بین الاقوامی مسائل  جیسے شام  اور ایرانی ایٹمی پروگرام  وغیرہ میں روس کو اپنے فرنٹ لائن کے  طور پر استعمال کر سکے۔ یورپ بھی اس عمومی پالیسی کی مخالفت نہیں کر تا تھا  کیونکہ وہ اس کو  یورپ اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے والا یا جنگی صورت  حال تک پہنچانے والا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔یوکرائن کے واقعات اسی نہج پر آگے بڑھتے رہے : علیحدگی  پسندوں اور یوکرائنی فوج  کے مابین  نوک جھونک  اور کریمیا کے باری میں خاموشی جاری رہی ۔۔۔معاملات میں اتار چڑھاؤ  جاری رہا  جس کو یورپ  اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں  جلد یا بدیر   کوئی بڑا سانحہ واقع پزیر نہیں ہوگا ۔۔

 

2 ۔ لیکن حال ہی میں معاملات  نے ہنگامی صورت حال اختیار کی  کیونکہ  یوکرائن میں معمولی جھڑپوں  کے ساتھ  کسی حد تک حالات کا پر سکون ہونا   امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا،خاص کر  جبکہ کچھ عالمی مسائل  میں شدت پیدا ہو گئی ۔  روس پر دباؤ  ڈالنااور اس کو مشتعل کرنا ممکن نہ ہوتا اگر اس کے گلے سے ہڈی اتر جائے،   اس لیے امریکہ نے  یو کرائن میں  معاملہ گرم کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اسی مقصد سے یہ بیان دیا  کہ وہ  یوکرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر ے گا  اور یہ بھی کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے روس کے لیے کچھ اہم علاقوں کے قریب جنگی مشقیں  کیں ۔  اس امر نے روس کے اندر اشتعال پیدا کیا اور اس نے  یوکرائن  کے قریب اپنی جنگی  حرکات میں اضافہ کر دیا  بلکہ غیر اعلانیہ طور پر  علیحدگی پسندوں   میں مداخلت کرنے لگا  اور اس کے ساتھ  ساتھ گرما گرم بیان بھی داغ دیا ۔۔۔

بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کی کہ   امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے  اس وقت کیف کا دورہ کیا جب  پوٹین  مارکل اور ہولاندی  سے سیاسی معاہدے کے موضوع پر  بات چیت کرنے کے لیے  ملاقات کر رہا تھا۔ کیری  اپنے دورے میں  واشنگٹن کی جانب سے کیف کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کر نے پر تبادلہ خیال کیاکیونکہ وہ یہ جانتا تھا مینسک میں  اکھٹے ہو نے والے اس کی مخالفت کریں گے۔ "الحیاۃ " اخبار نے  اپنے ویب سائٹ پر  جمعہ 6 فروری 2015 کو  یہ خبر نقل کی کہ  واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 118 ملین ڈالر کے  امداد بھی فورا کیف کو دے گا ،جو یوکرائنی فورسز کی تربیت کے لیے ہیں اورآلات  وغیرہ بھی فراہم کرے گا جن میں حفاظتی وردیاں،فوجی گاڑیاں،رات کو دیکھنے کے آلات بھی شامل ہیں ۔۔۔"  روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایلکزنڈر یوکا شاویچ نے  اس  پر رد عمل کا  اظہار کیا اور کہا کہ "امریکہ کی جانب سے کیف کو جدید اسلحے کی فراہمی  سے نہ صرف تنازعے کو ہوا ملے گی  بلکہ  یہ روس کی سلامتی کے لیے بھی  خطرنا ک ہے  کیونکہ یوکرائنی فوج پہلے ہی کئی بار اس کے علاقوں پر بمباری کر چکی ہے"۔ اس نے تنبیہ کی کہ "اس قسم کے فیصلوں سے روس امریکہ تعلقات  کو ناقبل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے" ۔۔۔

اس سے بڑھ کر  امریکی عہدیداروں نے بھی  کریمیا کے موضوع پر بیانات دیے کہ روس نے اس کا اپنے ساتھ الحاق  کروا کر جارحیت کی ہے۔۔۔ امریکی صدر باراک اوباما نے  پیر 9 فروری 2015 کو اپنے بیان  میں  یوکرائن کے تنازعے کے بارے میں روس کو تنبیہ کی ۔ اس نے کہا کہ ماسکو کو یہ حق حاصل نہیں  کہ"وہ قوت کے زور پر یورپی سرحدوں کی حد بندی کرے"۔   یہ  مینسک میں ہو نے والے معاہدے میں نظر انداز کیے جانے والے  جزیرہ نما کریمیا کے موضوع کی طرٖ ف واضح اشارہ تھا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے  اس بیان نے روس  کے اندر آگ لگا دی کیونکہ وہ کریمیا  کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔  اگرزیادہ نہیں تو کم ازکم  اس   بیان نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ  یوکرائنی فوج کو مسلح کررہا ہے ۔۔۔

 

3 ۔ یورپ اور خاص کر فرانس اور جرمنی نے  امریکی بیانات کو سنجیدہ لیا  اور دونوں ملکوں نے  یہ بیان دینے میں جلد بازی کی کہ دونوں  یوکرائن کو مسلح کر نے کے حق میں نہیں  کیونکہ  یہ یورپ کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔۔۔

6 فروری 2015سے 9 فروری 2015 تک میو نخ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی امن  کانفرنس  سے خطاب کرتے ہو ئے  انجیلا مارکل نے امریکہ کی جانب سے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے  سے تنازعے کے حل ہونے  کی رائے کو مسترد کیا اور کہا  کہ "یوکرائنی فوج کو  بہترین اسلحہ سے لیس کرنے سے  صدر پوٹین  کو یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ  وہ عسکری طور پر  شکست کھاجائے گا ، جبکہ یورپ چاہتا ہے کہ  روس کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کو  یقینی بنا ئے نہ کہ روس کے مکالفت  مول لے کر "۔  اسی طرح جرمن وزیر خارجہ  اُرسولا  نے   میونخ میں سالانہ بین الاقوامی امن کانفرنس  کے افتتاح کے موقعے پر اپنے بیان میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا   کہ  مغرب کی جانب سے یو کرائن کو اسلحہ کی فراہمی  "یوکرائن کے تنازعے ہوا  دے سکتا ہے  کیونکہ یہ آگ میں تیل چھڑکنے جیسا  ہو گا  اور مطلوبہ حل سے ہمیں دور کردے گا "۔

فرانس نے بھی یہی کیا ، چنانچہ القدس العربی اخبار  نے7 فروری 2015کو   ذکر کیا کہ "فرانس کے صدر فرانسو ہولاند  نے  اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ   یہ قدم اٹھانا ہی آخری موقع ہے "۔  ہولاند نے مزید کہا کہ مصالحت  یا امن  کے قیام کے لیے کسی پائیدار  معاہدے کے بغیر جو صورتحال ہے "اس کا نام تو جنگ ہے "۔  ہولاند نے  کہا کہ یہ بات ان کو اچھی طرح  معلوم تھی کہ  جرمن چانسلر  انجیلا مارکل کے ساتھ کیف اور ماسکو  کا دورہ  مشکل اور مہم جوئی تھی "لیکن یہ ضروری تھا"۔  ہولاند نے  واضح کیا کہ وہ اور مارکل سمجھتے ہیں کہ " جنگ کا بھوت  یورپ  کے دروازے پر دستک دے رہا ہے " ۔اسی طرح فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فابیوس نے    جس  کا ملک  مذاکرات میں کردار ادا کررہا ہے، کہا کہ " کوئی  بھی  بڑی جنگ کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا ہے اور نہ ہی یہ کسی کے مفاد میں ہے اور یہ کہ یہی وقت ہے کہ تمام ممکنات کو اختیار کیا جائے"۔ اس نے  اس بات کی بھی تاکید کی کہ فرانس اور جرمنی یو کرائن میں جو چاہتے ہیں وہ "صرف کاغذی امن نہیں بلکہ حقیقی امن ہے " ۔

 

4 ۔  یورپ ( فرانس اور جرمنی )ڈر گئے  کہ کہیں امریکی موقف میں  اس بڑھتی ہوئی گرمی سے  یوکرائن  کے خلاف روسی جارحیت  میں  اضا فہ نہ ہو جائے  اور اس سے  یورپ  پر بھی  برا اثر پڑے گا ، اور اگر  یورپ یوکرائن  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہوا تو یہ اس کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہو گا اور  اس سے یورپ میں جنگی صورت  پیدا ہوجائے گی  مگر اس جنگ سے امریکہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ یہی  اہم سبب  ہے کہ جس کی وجہ سے یورپ  نے  یوکرائن میں  امریکی پالیسی  کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کی  اوراسی لیے روسی صدر  سے سیاسی حل نکالنے کے لیے  رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا  تا کہ یورپ اور روس کے درمیان کسی تناؤ کو پیدا ہونے سے روک دیا جائےاورپھر یہی ہوا ۔  یورپی" فرانسیسی اور جرمن " راہنماوں نے6 فروری 2015 کو اس بات پر اتفاق کیا۔  اس کے بعد مارکل 8 فروری 2015 کو واشنگٹن گئی  تاکہ اوباما کو  یورپ کی پالیسی کے بارے میں بتا دے  نہ کہ اس سے اجازت لینے ۔۔۔یہ واضح ہے کہ یورپ نے  پہلی بار امریکہ کی طرف سے گرین سگنل  ملنے سے  پہلے کوئی فیصلہ کیا۔  اس کے ساتھ    تینوں قائدین ولادی میر پوٹین، انجیلا مارکل اور فرانس کے صدر  فرانسوا ہولاند کے مابین جمعہ 6 فوری 2015 کو  اس لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا تھا اور کاغذی کاروائی مکمل ہو گئی تھی  اور جو چیز باقی رہ گئی تھی وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ یوکرائنی فریقوں " صدر اور انقلابیوں" کو  اس پر دستخط کی عوت دینے کے  لئے بلایا جائے  اور پھر  اس کے بعد مارکل اوباما کو بتا نے کے لیے  واشنگٹن  گئی !

 

5 ۔ فرانس اور جرمنی کے موقف نے  اوباما اور  اس کے انتظامیہ  پر بڑا اثر ڈالا  اور اس کے نتیجے میں   میونخ کانفرنس میں بھی  کیری اور مارکل کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلہ ہواخاص کر امریکہ کی جانب سے یوکرائن   کو اسلحہ سپلائی کرنے کے بیان پر جس کو یورپ  نے مسترد کردیا۔  الحیاۃ اخبار نے  8 فروری 2015 کو  اپنے ویب سائٹ پر یہ خبر نشر کی کہ "میونخ میں بین الاقوامی  امن کانفرنس میں امریکیوں اور جرمنز کے درمیان   امریکہ کی جانب سے مشرقی یو کرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے کے ارادے پر "سخت کلامی " دیکھنے کو ملی ۔ اس کی عکاسی اس سے ہو تی ہے کہ  اٹلانٹک کے دونوں جانب کے فریقین  میں  پوٹین  کا سامنا کر نے کے حوالے سے  اتفاق رائے نا پاید تھا۔ میونخ کانفرنس  کی ایک اور تقریر میں  امریکی سینیٹر لینزی گراہم نے مارکل کی جانب سے  یو کرائن کے بحران کو اہمیت دینے کی تعریف کی  لیکن اس نے کہا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ  چانسلر  روسی جارحیت کی حقیقت کے بارے میں  آنکھیں کھول لیں"۔اس نے مزید کہا کہ "ہمارے یورپی دوست بڑی خوشی سے ماسکو جائیں  اور دلبرداشتہ ہونے تک جائیں مگر اس میں کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ،جھوٹ اور خطرے  کا مقابلہ کیا جانا چاہیے"۔

 

6 ۔  اس سب کے باوجود یورپ اب بھی امریکہ کا اہم اتحادی ہے لیکن جب اس دوست نے  دیکھا کہ آگ  اس کے قریب آرہی ہے تو  اس کو بجھا نے کے لیے اپنے دوست سے پوچھے بغیر ہی اس کی طرف دوڑا کیونکہ  وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عذر کو قبول کیا جائے گا !ایسا لگتا ہے کہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے  کیونکہ اوباما نے 9 فروری 2015 کو  مارکل کے ساتھ  دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں  کہا کہ "یوکرائن میں روسی جارحیت نے  ہمارے اتحاد کو مضبوط کیا اور ہم ہر گز  غیر جانبدار نہیں رہیں گے"۔  اوباما نے  کہا کہ "اس ہفتے  سفارت کاری کے نا کام ہونے کی صورت میں نے اپنی ٹیم کو دوسرے آپشنز اختیار کرنے کا کہا ہے   جس میں اسلحہ کی فراہمی بھی ہے  "۔ اوباما نے مزید کہا " کوئی عسکری حل نہیں مگر  ہدف روس کے  منصوبوں کی تبدیلی ہے ، یاد رہے کہ ابھی تک میں نے فیصلہ نہیں کیا "۔ مارکل نے  سفارتکاری کو   دوسرے آپشنز سے پہلے "ایک اور کوشش" قرارد یا۔  انہوں نے امریکی یورپی اتحاد کے بارے میں کہا کہ "یہ  مضبوط ہی رہے گا ، یہ برقرار رہے گا خواہ ہمارا اگلا فیصلہ  جو بھی ہو "۔ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کے درمیان رسّی  ابھی کٹی نہیں ہے  مگر مضبوطی سے  باندھی ہوئی بھی نہیں بلکہ بعض امریکی عہدیداروں  کے بیانات میں بے رخی  کا اظہار ہے ! جیسا کہ پہلے امریکی سینیٹر کا ذکر ہو گیا ہے ۔

 

7 ۔ سابقہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  یورپ کی جانب سے روس کے حوالے سے  یوکرائن  کے مسئلےپر پالیسی میں اچانک تبدیلی  مذکورہ بالا   وجوہات کی بنا  سے ہے اگر چہ یورپ نے  خطرے  کو  بڑھا چڑھاکر پیش کیا اور معاہدے کے لیے  دوڑ کر گیا حالانکہ  معاہدے کی شرائط  روس کے حق میں تھیں  کیونکہ اس میں کریمیا کے موضوع کا ذکر بھی نہیں تھا۔ اور یہ بات  مارکل سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھی واضح تھا کیونکہ اس نے  جواب دیا کہ کریمیا کا موضوع اس کے لیے اہم نہیں  بلکہ معاہدے تک پہنچنا اس کے لیے اہم ہے! اُس کا پورا جواب یہ تھا کہ "میں  زمین سے متعلق  مسائل میں الجھنا  نہیں چاہتی۔  ہر ریاست کو  ایسے مذاکرات خود کرنا چاہیے ، میں  فرانس کے صدر کے ساتھ ماسکو  غیر جانبدار ثالث بن کر نہیں گئی تھی، مسئلے کا تعلق فرانس اور جرمنی سے ہے  اور یورپی یونین کا  مفاد ہی ہر چیز پر مقدم ہے " ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ  کریمیا کا ذکر کرے یا نہ کرے  جرمنی اور فرانس اس کا ذکر کریں یا نہ کریں  مگر ان میں سے کسی کو  بھی کریمیا سے کوئی ہمدردی نہیں سوائے اس کے کہ اس   کو  سرمایہ دارانہ تصور کے تحت استعماری مفاد میں استعمال کیا جائے۔۔۔

 

8 ۔  رہی یہ بات کہ برطانوی وزیر اعظم کیوں فرانس اور جرمنی کے  سربراہان کے ساتھ نہیں تھا ، تو  اس کی وجہ برطانیہ کا وہی پرانا طریقہ کار ہے یعنی  ایک قدم یہاں اور دوسرا قدم وہاں ! ایک طرف برطانوی وزیر خارجہ  فیلیپ ہا مونڈ نے  روس کے صدر کو یوکرائن کے بارے میں  "سرکشی کرنے والا" کہا  جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کیف  میدان جنگ میں   روسی فوج کو شکست  نہیں دے سکتی  اس لیے  خون خرابہ سے بچنے کے لیے سیاسی حل ہی واحد آپشن ہے۔  اسی طرح ہامونڈ نے یہ بھی کہا کہ "ان کا ملک کیف کی قوتوں کو مسلح کر نے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔۔۔"اس بیان سے وہ یورپ کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔

بار حال ایک اور بیان میں  اس نے کہا کہ  برطانیہ  اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لے سکتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا  کہ برطانیہ یوکرائنی فوج کو علیحدگی پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح نہیں کر رہا ، اور ایسا اس لئے کہا کیونکہ  امریکہ یہ چاہتا ہے ۔  الحیاۃ اخبار نے 11 فروری 2015 کو برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہامونڈ کا  پارلیمنٹ کے سامنے یہ بیان  نشر کیا کہ "یوکرائنی فوج کو   اس طرح گرنے نہیں دیا جائے گا" مزید کہا کہ " یوکرائن کو جدید اسلحہ دینے  کا فیصلہ نیٹو میں موجود ہر ملک کا اپنا قومی  فیصلہ ہو گا، ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے  لیکن  ہم اپنے موقف سے رجوع کا حق محفوظ رکھتے ہیں"۔  یوں برطانیہ  ہر دروازہ کھلا چھوڑ تا ہے  اور اس طرح وہ  امریکہ سے ٹکر لیے بغیر  اس  کو  خوش رکھتا ہے۔  حالیہ برسوں میں برطانیہ کا یہی موقف رہا ہے  اوراسی موقف کی وجہ سے اس کا وزیر اعظم  مارکل اور ہولاند کا ہم رکاب نہیں بنا۔

 

9 ۔ جہاں تک  توقعات کا تعلق ہے  تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ   امریکہ اس معاہدےپر عمل دارآمد کی راہ میں روکاوٹ بنے گا  کیونکہ اس کے کارندے یو کرائن میں موجود ہیں ، اگر چہ جمہوریہ کا صدر پوریشنکو  یورپ سے  زیادہ قریب ہے مگر امریکہ کا بھی ساجھے دار ہے۔۔۔اس لیے امریکہ  مندرجہ ذیل تین میں سے کسی ایک امر یا سب کے ذریعے  حالات کو بگاڑ سکتا ہے :

۔ یو کرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر کے

۔ یا نیٹو میں شامل کر نےکے لیے اس کے ساتھ مذاکرات کر کے

۔ یا  یو کرائن میں اپنے بعض کارندوں کو متحرک کر کے

یوں یہ معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے ، کیونکہ ان تین امور میں سے کوئی بھی امر   روس کو مشتعل کر کے صورت حال کو بگاڑ سکتا ہے جس سے یہ معاہدہ ناکام ہوسکتا  ہے۔۔۔

روس  بھی  اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ مذاکر ات کی کوشش کر سکتا ہے ، کیونکہ اس کو اس موضوع میں امریکہ کے وزن کا علم ہے۔  اسی لیے پہلے یہ خبریں تھیں کہ روس   یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دیتا ہے ،لیکن روس کے ساتھ رابطہ کرنے میں جلد بازی یورپ نے کی  یہ روس کی طرف سے نہیں تھا۔

 

10 ۔ یہ تو توقعات ہیں ۔۔۔ مگر ہمارے لیے اس موضوع کی اہمیت کریمیا کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ یہ اسلامی علاقہ ہے۔   صدیوں تک یہ ہمارے ساتھ اور ہم اس کے ساتھ تھے۔ اگر کریمیا کا مسئلہ یوکرین کے مسئلے کی بنیاد نہ ہوتا  تو ہم  امریکہ اور روس کے درمیان اس تنازعے کو زیادہ  اہمیت نہ دیتے۔۔۔ کریمیا صدیوں تک خلافت کا حصہ رہا   یہاں تک کہ روس نے اس پر حملہ کر دیا  اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر سازش کر کے  اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس پر قبضہ کر لیا ۔ 1430 عیسوی تک کریمیا اسلامی امارت تھا ،پھر 1521 عیسوی میں خلافت کے عروج کے زمانے میں خلافت عثمانیہ  کا ایک ولایہ(صوبہ) بن گیا ۔  اس کے بعد 1783 میں روس اور مغربی ممالک نے سازشیں کر کے اس کو عثمانی خلافت سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ساتھ ہی یہاں وحشیانہ خون خرابہ کیا ۔  پھر اس کو روس میں ضم کر دیا  جس نے اس کے دار الحکومت "اق مسجد"  یعنی سفید مسجد  کا نام بدل کر موجودہ نام " سیمفرو پول" رکھ دیا ۔   یاد رہے کہ قرم (کریمیا)  کا معنی  تاتاری مسلمانوں کی زبان میں قلعہ ہے،  یوں روس کی جانب سے قبضے سے ساڑھے تین سو سال پہلے سے ہی کریمیا  اسلامی سرزمین ہے   !اس لیے اس میں  حقیقی امن صرف اسی صورت میں ہی آسکتا ہے جب اس کو  اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا جا ئے اور اللہ کے اذن سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت کا صوبہ بنا یا جائےگا ۔

 

چاہے  جس قدر بھی وقت گزر  جائے ہم کریمیا یا استعماری کفار کی جانب سے  قبضہ کیے گئے کسی بھی اسلامی سرزمین کو نہیں بھولیں گے۔

﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾

"یہ ایام تو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں" (آل عمران:140)

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾

"عنقریب تمہیں اس کی خبر ملے"(ص:88)

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک