الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

پریس ریلیز حزب التحریر کا با ضابطہ (آفیشل)رسالہ "الرایہ" کی دوبارہ  اشاعت

حزب التحریر کا مر کزی میڈیا   آفس مسرت کے ساتھ    الرایہ رسالے  کی دوبارہ اشاعت  کا اعلان کر تا  ہے ۔  یہ ایک سیاسی رسالہ ہے  جس کو حزب التحریر ہر ہفتے شائع کر تی ہے۔  اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔  اس رسالے کا پہلا شمارہ ذی القعدۃ 1373 ہجری بمطابق جولائی 1954 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ ہفتہ وار بدھ کی صبح  شائع ہو تا رہا  ۔ اس کے چودہ (14) شمارے ہی شائع ہو ئے تھے  جن میں  حق و سچائی کی آواز بلند ،سیاسی موضوعات پر بحث  اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل دیا اور حق بات ہی اس کا ہتھیار تھی مگر پھر بھی  ظالم اس کے وار برداشت نہ کر سکے  اور یہ اُن کے لیے راکٹ اور میزائل ثابت ہوا ۔  اردن کی حکومت  کلمہ حق کا   زخم  برداشت نہ کر سکی،خاص کر جب  حزب اور اس کے میگزین نے  اردنی وزیر داخلہ کی  جانب سے اس وقت کے اردنی آرمی چیف گلوب پاشا کے حکم سے  وعظ و ارشاد کے قانون کے اجرا کو چیلنج کیا ۔ اُس قانون کا ہدف  حزب کے شباب اور مخلص لوگوں کو  مساجد میں   درس دینےسے روکناتھا، اس لیے ظالموں نے چودہ شمارے نکلنے کے بعد ہی اس  رسالے کی اشاعت پر  پابندی لگا دی۔

اب الرایہ ایک نئی صبح کے ساتھ  دوبارہ آگیا ہے ۔ اس کا پندہرواں شمارہ بدھ 13 جمادی الاول 1436 ہجری  بمطابق4 مارچ 2015 عیسوی کو  اللہ کے اذن سے کامیابی کے ساتھ نور بن  کر  روشن کرنے لیے اور نار (آگ) بن  کر فساد کو جلا کر راکھ کر نے کے لیے حاضر ہے۔ اللہ  کی مشیت  سے یہ خلافت کے قیام  کے قریب ہونے اور رایۃ العقاب   کے بلند ہو نے کی خوشخبری بھی   لیے طلوع ہو رہا ہے، جو کہ حق اور عدل کا جھنڈا ہے  اور نبوت کے طرز پر ریاست خلافت راشدہ  مسلمانوں پر سایہ فگن ہو نے والا ہے اور ممکن ہے یہ دن قریب ہے۔

جلیل القدر عالم دین اور حزب التحریر کے امیر  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ  حفظہ اللہ  نے  اس کی دوبارہ اشاعت کی مناسبت سے  : "الر ایہ   کو خوش آمدید ۔۔۔ یاد دہانی اور بشارت" کے عنوان سے  گفتگو کی  جس میں رسالے  کی پہلی اشاعت  کے واقعات کا ذکر کیا اور اس کے گزشتہ بعض  شماروں  کا حوالہ دیا ۔ آپ نے اللہ سبحانہ  و تعالٰی سے دعا کی  کہ  رسالے کی دوبارہ اشاعت  ایک یاد گار اور پر مسرت لمحہ ہو  اور یہ خلافت کے قیام کے قریب ہونے کی وجہ سے مسحور کن  بشارت  ہو  یقیناً  ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت تو عملاً قائم ہو چکی ہے"۔

رسالے نے اپنے اس نئے شمارے میں  حزب کے امیر حفظہ اللہ  کا 3 مارچ کو استنبول  منعقد ہو نے والی  " جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ ماڈل" کے موضوع پر کانفرنس سے افتتاحی خطاب  کو بھی من و عن شائع کیا ہے۔

اسی طرح  "عورت اور شریعت  : حق اور باطل کے درمیان"  کے موضوع  پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس  کے حوالے سے بیان جس کا انعقاد حزب التحریر کے میڈیا آفس کا شعبہ خواتین 28 مارچ کو   کر رہا ہے ،جس سے  پہلے عورت سے متعلق  حق اور باطل کی تمیز  کے بارے  ایک مہم بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی اہم تر ین خبریں  اور سیاسی موضوعات اس شمارے میں شا مل ہیں، مندرجہ ذیل الیکٹرانک  صفحات کے ذریعے آپ الرایہ کو پڑھ سکتے ہیں:

الرایہ میگزین www.alraiah.net

فیس بک https://www.facebook.com/rayahnewspaper

گوگل پلس http://goo.gl/KaiT8r

ٹویٹر https://twitter.com/ht_alrayah

ای میل This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

حزب التحریر کے خلاف جبر کا خاتمہ کرو ‫عدلیہ‬ کو جابروں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام اور ‫‏خلافت‬ کے داعیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے

‫‏راحیل_نواز‬ حکومت خلافت کے مخلص داعیوں ، حزب التحریر کے شباب کے خلاف مسلسل جبر کررہی ہے اورافسوس کا مقام یہ ہے کہ عدلیہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت میں سچائی اور انصاف کی سربلندی کےاپنے فرض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ 5 دسمبر 2014 کو حکومت نے لاہور میں حزب التحریر کے ایک درس پر چھاپہ مارا اور اس میں شریک مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ ملک میں اسلام کے نفاذ اور امریکی راج کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ گرفتارشدگان آج کے دن تک جیل میں قید ہیں جبکہ عدلیہ حکومت کے انتہائی دباؤ پر ان کی ضمانت کو مسترد کررہی ہے یا ایک عدالت سے کسی دوسری عدالت میں ضمانت کے معاملے کو بھجوا دیا جاتا ہے یا ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دینے کے بجائے لمبی لمبی تاریخیں دی جاہی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں حزب التحریر کے کئی شباب کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت کے غنڈے مسلسل انہیں ہراساں کررہے ہیں جنہیں نا تو خواتین کی عزت اور نا ہی گھر کی چار دیواری کے تقدس کا خیال ہے۔ اور ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ، نوید بٹ ، کو 11 مئی 2012 کے دن حکومتی غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور آج بھی وہ اُن کی قید میں ہیں۔


یہ تمام جرائم اس وقت کیے جارہے ہیں جب حکومت نے امریکہ کی انٹیلی جنس اور نجی سیکوریٹی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی جاسوسوں کو مکمل چھوٹ فراہم کررکھی ہے جو افواج پاکستان اور شہریوں کے خلاف خوفناک حملوں کی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ان حملوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں جس میں 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اور پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ حزب التحریر کے لاہور میں ہونے والے درس پر چھاپےکے ٹھیک دس دن بعد ہوتا ہے۔ حکومت نے دشمن کو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے لیکن اسلام اور خلافت کے داعیوں کے خلاف پوری حکومتی مشینری کو متحرک رکھا ہوا ہےجبکہ ریاست پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی دشمن کے شر سے حفاظت کرے۔ یہ وہ فرض ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دشمن امریکہ اور بھارت کی ہماری سرزمین پر حملے کرنے کی استعداد کا خاتمہ کیا جائے اور اس کام کو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند اور ان کے جاسوسوں کو گرفتار کیا جائے۔ لیکن اپنے فرض سے روگردانی کرنے کے باوجود سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار عدلیہ سے بے خوف مزید غداریاں کرنے کے لئے کھلے پھر رہے ہیں۔
ہم عدلیہ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ ارشاد یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا،


الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ
"تین قسم کے قاضی ہیں : ایک وہ جو جنت میں جائے گا اور دوسرا وہ جو جہنم میں جائے گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے جو جنت میں جائے گا یہ وہ شخص ہے جو حقکو جانتا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، اور وہ جو حق کو جانتا ہےلیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کے لیےجہالت پر مبنی فیصلہ جاری کرتا ہے وہ بھی جہنم میں ہوگا"(ابو داؤد)۔


اللہ کے سامنے اس بات کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ حکومت کے دباؤ پر سچ کو جاننے کے باوجود اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے۔ عدلیہ کو لازمی اسلام کی بنیاد پر ہی فیصلہ دینا ہے اور اسلام خلافت کے قیام کو فرض قرار دیتا ہے اور اسلام کے داعیوں پر ظلم و ستم کو حرام قرار دیتا ہے۔
ہم عدلیہ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر خبردار کیا کہ،


إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "
تم سے پہلے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کہ جب ان میں سےکوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن اگر کوئی کمزورآدمی چوری کرتا تو وہ اس پر سزا کو نافذ کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دوں"(بخاری)۔


اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے حکمران ہونے کے ناطے انہیں حکمرانوں کا احتساب کرنے کو کہا اور فرمایا،


کہ فمَنْ كنتُ جلدتُ لهُ ظهراً فهذا ظهري فليَسْتَقِدْ منه، ومَنْ كنتُ شتمتُ لهُ عِرضاً فهذا عِرضي فليَسْتَقِدْ منه، ومن كنتُ أخذتُ لهُ مالاً، فهذا مالي فلْيَسْتَقِدْ منه"
اگر میں نے کسی کی پیٹھ پہ کوڑے مارے ہوں تو یہ ہے میری پیٹھ اپنا بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کو گالی دے کر بے عزتی کی ہو تو آئے اور اپنا بدلہ لے، اگر میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ میرا مال ہے اس میں سے اپنا مال لےلے"۔


عدلیہ طاقتور کی گرفت کر کے اور مظلوم و کمزور کا ہاتھ پکڑ کر معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جابر حکمرانوں کی حمایت کی جاتی ہے اور جو جابروں کے جبر کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہیں انہی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ کیا ہمیں برطانوی راج کے زمانے کی طرح زندگی گزارنی پڑے گی؟ کیا یہ برطانوی راج کے خلاف کی جانے والی 190 سال کی جدوجہد سے غداری نہیں اور کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟ تو کیا عدلیہ آج اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رضا اور ایمان والوں کی دعاوں کے حصول کے لئے امریکی راج کے خلاف سینہ تان کر کھڑی نہیں ہو گی؟


ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

جمہوریت کا خاتمہ کرو خلافت کو قائم کرو جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے

آج ‫‏پاکستان‬ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات نے اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے کہ جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس نظام میں شریک تمام ہی جماعتوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ محض ایک سینٹ کی نشست حاصل کرنے کے لئے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ تبدیلی کے گھوڑے پر سوار سیاسی جماعت کے سربراہ نے تو یہاں تک کہاں کہ "ایک اچھے آدمی نے انہیں پندرہ کروڑ دینے کی پیشکش کی"۔ سینیٹ کے انتخابات نے جمہوری نظام کی گندگی کو اس حد تک بے نقاب کر دیا ہے کہ اس نظام کے حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر ایسے پچاس انتخابات بھی کرادیے جائیں تو اس کے بعد بھی پاکستان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔
پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اب تو مغربی ممالک کے عوام بھی یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ جمہوری نظام عوام کے نام کو استعمال کرکے صرف اور صرف امراء کے طبقے کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتا ہے اور ان کا تحفظ کرتا ہے۔ اسی لیے مغرب میں لوگوں نے "میں 99 فیصد ہوں" اور " وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" کی تحریکیں چلائیں۔ ایک ایک نشست کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ پیسے لگانے والے کو جیتنے اور پھر جمہوری نظام کے ذریعے اس سے کئی گنا زیادہ روپے بنانے کا یقین ِ کامل ہوتا ہے جمہوری سیاست میں پیسے کی طاقت اور اثرورسوخ کا حالیہ مشاہدہ 2014 میں ہونے والے امریکی سینیٹ اور کانگریس کے انتخابات میں کرنے کو ملا جہاں امیدواروں نے ریکارڈ پانچ ارب ڈالر انتخابی مہم پر خرچ کیے۔ یہی حقیقت حال ہی میں برطانیہ میں سامنے آنے والے "کیش فار ایکسز" یعنی رسائی کے بدلے میں پیسے کے نام سے سامنے آنے والے سکینڈل نے بے نقاب کی۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ و داخلہ اور لیبر پارٹی کے رکن جیک سٹرا نے بھیس بدل کر آنے والے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لئے یورپی قوانین میں تبدیلی کےلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور اس کے بدلے انہوں نے ساٹھ ہزار پونڈ لیے۔ اسی سیکنڈل میں ملوث کنزرویٹو پارٹی کے رکن اسمبلی سر میلکم ریفکینڈ نے کہا کہ "میں اپنا روزگار خود پیدا کرتا ہوں لہٰذا کوئی مجھے تنخواہ نہیں دیتا"۔
جمہوریت ایک بدبودار نظام ہے جس پر جتنی بھی خوشبو چھڑک دی جائے پھر بھی اس کی بدبو کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا بائیسویں آئینی ترمیم کردی جائے یا اس جیسی سینکڑوں ترامیم آجائیں یہ نظام ہمیشہ طاقتوروں کے مفادات کی ہی نگہبانی کرے گا۔ اگر مغرب میں تقریباً دوسو سال کی نام نہاد عوامی جمہوریت کے بعد بھی طاقتور ہی اصل حکمران ہیں اور جمہوریت انہیں اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے تو پاکستان اور مسلم دنیا میں جمہوریت کس طرح حقیقی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے؟ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو بھی جمہوریت سے ہر قسم کی امید توڑ کر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ نظام خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے ہے اور یہ قانون سازی کے اُس اختیار کا ہی خاتمہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے طاقتور طبقہ ایسے قوانین بناتا ہے جس سے صرف انہی کے مفادات کی نگہبانی ہوتی ہے۔


إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ
"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے" (یوسف:67)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے

راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر افغانستان میں جاری امریکی صلیبی افواج کے خلاف جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےلندن میں ایک بیان میں امریکی صدر اوبامہ کی واشنگٹن کانفرنس  کی تقریر کو بہادرانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے لئے صدر اوبامہ کے پیغام کے پیچھے اکٹھے ہونا چاہیے" اور اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ "11/9 سے قبل دہشت گردی اور خودکش حملے نہیں ہوتے تھے"۔

درحقیقت 11/9 کے واقع کو بہانہ بنا کرامریکہ نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ برپا کردی  کیونکہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد اسلام ہی وہ واحد نظریہ حیات ہے جو سرمایہ داریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سابق امریکی صدر بش جونئیر کا اس جنگ کو صلیبی جنگ قرار دینا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں اسی لئے اس جنگ کا شکار صرف مسلم ممالک ہی ہورہے ہیں۔ لیکن صلیبی جنگ کی اصطلاح کے خلاف ہونے والے شدید ردعمل نے امریکہ کو دہشت گردی کی اصطلاح کے استعمال پر مجبور کردیا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ اس جنگ کولڑنے کے لئے اس کے پاس کوئی جواز نہیں اسی لئے اُس کے حملوں کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ مسلمانوں کا امریکی صلیبی افواج سے لڑنا اسلام کی رو سے  جہاد ہے ۔  اس حقیقت کو جانتے ہوئے امریکہ نے مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے اور انہیں اسلام اور جہاد سے دستبردار کرانے کے لئے سیاسی محاذ پر عالمی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی ابتداء 19فروری کو واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس سے کیا جس میں ساٹھ ممالک نے شرکت کی۔ اپنے اس مقصد میں کامیابی کے لئے غدار مسلم حکمرانوں کو بھی اس نے ایسی کانفرسوں کو منعقد کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 22 فروری کو مکہ میں"اسلام اور دہشت گردی کو روکنا "کے نام سے منعقد کی جاچکی ہے۔

راحیل-نواز حکومت بھی اپنے آقا امریکہ کے حکم پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔  اسی لئے حکمرانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان ،جو یقیناً امریکی ایکشن پلان ہے ،  کے تحت ملک بھر سے صرف پچھلے دو مہینوں میں تقریباً بیس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ  خود حکومت نے مطلوب دہشت گردوں کی جو فہرست جارہی کی ہے وہ صرف تقریبا چھ سو افراد پر مبنی ہے۔

حزب التحریران غدار حکمرانوں کی یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ امت جہاد کرنے والوں اور  معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے مجرموں میں فرق کو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے  اور جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی اُن کی کوئی بھی کوشش ان کے لئے اس دنیا  اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث بنےگی۔ انشاءاللہ  کفر کی طاقتوں کےخلاف جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور یہ امت اسلام اور اس کی عظمت جہاد سے کبھی دستبراد نہیں ہوگی۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

"اور اُن سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ کا دین غالب نہ آجائے" (البقرۃ:193)

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک