الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

اے کیانی! کیا سعد جگرانوی کو اغوا کر کے تم ہمیں خلافت سے اور خود کو پھانسی گھاٹ سے دور کر سکتے ہو!

26 نومبر 2012 کو کیانی کے غنڈوں نے رکن حزب التحریر اور مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کو مغرب کی نماز سے کچھ دیر قبل اغوا کر لیا۔ سات بچوں کے باپ سعد نے اپنی بوڑھی ماں کو فون کر کے اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں خفیہ ایجنسیوں کے غنڈوں نے اغوا کیا ہے۔ سعد جگرانوی لاہور کے ایک معزز اور مشہور جگرانوی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ حزب التحریر کیانی اور اس کے آقا امریکیوں کو، جو اپنی نازک پناہ گاہ یعنی امریکی سفارت خانے میں بیٹھے، آنے والی خلافت کی گونج سُن رہے ہیں، یہ یاد دہانی کرا نا چاہتی ہے کہ:

1۔ تمہاری دھمکیاں، اغوا، تشدد یہاں تک کہ شباب کو قتل کر دینے کی مہم کسی بھی ملک میں حزب کی جدوجہد کو ختم کرنا تو دور کی بات اس میں کوئی کمی بھی نہیں لا سکی اور انشاء اللہ نہ ہی تم کبھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو سکو گے۔ اللہ کے نور کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہی ایک ناکام اور بے وقوفانہ کوشش ہے جس کو ماضی میں تمھارے آباؤ اجداد فرعون سے لے کر ابولہب تک، نے کر کے دیکھ لیا اور انہیں دنیا میں ذلت کے سواکچھ حاصل نہ ہوا اور آخرت میں اللہ سبحانہ تعالی ان سے جو سلوک کرے گا، وہ دنیا کی ذلت و رسوائی سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔

(يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ)

"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کوپورا کر کے رہے گاخواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو"۔ (التوبة:32)

2۔ تمھارا حزب کے خلاف طاقت کا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ تمھارے پاس حزب کی دعوت کا کوئی جواب نہیں ہے جس نے پاکستان میں امریکی راج کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور افراتفری کو بے نقاب کیا ہے اورجو مسلم سرزمین پرامت کی ریاست یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے امریکی راج کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پوری امتِ مسلمہ بشمول اس کی افواج اسلام سے محبت کرتی ہیں اور تمھاری کرپٹ آئیڈیالوجی اور تہذیب سے نفرت کرتی ہیں اور اسے امت کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہیں۔

(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ)

"جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہو گا، تواس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا" (آل عمران:85)۔

3۔ باخبر لوگ اس بات کو دیکھ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں کہ جب سے تم پراسلام کو روکنے کے منصوبوں میں اپنی ناکامی واضح ہو گئی ہے اور تم نے اس بات کو جان لیا ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کا جھنڈا سربلند کرنا چاہتے ہیں، ان میں خلافت کی دعوت بہت مضبوط ہے، تو تم نے اپنے ظلم و ستم کو بڑھا دیا ہے۔ تمھارے جبر و استبداد میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمھارے خاتمے کا وقت، اس کافرانہ استعماریت کے خاتمے کا وقت، استعماری قوانین کے خاتمے کا وقت، اس کے نظام اور اس کے حکمرانوں کے خاتمے کا وقت بہت قریب ہے اور اب تم محض وہ بجھتا ہوا شعلہ ہو جو بجھنے سے پہلے آخری بار پوری طاقت سے بڑھکتا ہے لیکن بالآخر بجھ جانا ہی اس کا مقدر بنتا ہے۔ بے شک اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہو گا اور اس وقت پوری دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ تم صرف حزب اور اس امت کا سامنا نہیں کررہے تھے بلکہ اللہ اور اس کے فیصلے کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن جب وہ فیصلہ آجائے گا تو تمھارے تمام منصوبے اور ارادے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

(وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ)

"جنھوں نے ظلم کیا ہے وہ جلد ہی جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرنے والے ہیں" (الشعرأ:227)

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

D-8 کانفرنس: اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانے کی ایک اور کمزور کوشش ہے

22 نومبر سے اسلام آباد میں آٹھ ترقی پزیرمسلم ممالک کی کانفرنس شروع ہونے والی ہے جس میں معاشی معاملات کے ساتھ علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی بات کی جائے گی۔ ان معاملات پر بات چیت کے علاوہ پاکستان اس کانفرنس کے ذریعے دنیا کو یہ دیکھانا چاہتا ہے کہ ملک کی عمومی صورتحال خصوصاً امن و امان کی صورتحال پوری طرح سے اس کے قابو میں ہے۔ حال ہی میں وزارت خارجہ کے ایک نمائندے نے یہ کہا کہ حکومت ایک واضع پیغام دینا چاہتی ہے کہ امن امان کے مسائل کے باوجود پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔ D-8 تنظیم کا قیام 1997 میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم اربکان کے ہاتھوں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس تنطیم کے رکن ممالک میں بنگلادیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملیشیا، نائجیریا، پاکستان اور ترکی شامل ہیں۔ ان ممالک کی مشترکہ قومی پیداوار 3.2 ٹریلین ڈالر، مجموعی افواج کی تعداد تقریباً تیس لاکھ اور آبادی تقریباً دنیا کی آبادی کا 13 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ D8 ممالک زبردست فوجی ساز و سامان بھی رکھتے ہیں جس میں پاکستان کے سو کے قریب ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں۔ ان تمام شاندار اعداد و شمار کے باوجود D8 کا دنیا کی معیشت اور عالمی امور پر انتہائی معمولی اثر و رسوخ ہے۔ D8 کی کمزور کارکردگی کوئی انھونی بات نہیں ہے۔ مسلم دنیا کی ہر معاشی اور سیاسی تنظیم کا یہی حال ہے۔ او۔آئی۔سی، عرب لیگ یا GCC سب کی ایک ہی کہانی ہے اور یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مسلم دنیا کے حکمران ان تنظیموں سے امیدیں وابستہ رکھیں گے اور یورپی یونین کے نمومنے کی نقل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ان تنظیموں سے امیدیں وابستہ رکھنا بے وقوفی ہے۔ یہ تنظیمیں مسلم ممالک کو مزید کمزور کرتی ہیں اور اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عالمی معاشی بحران نے یورپی یونین کی خامیوں کو واضع کر دیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سیاسی اتحاد کے بغیر کسی بھی قسم کے معاشی اتحاد کا ناکام ہونا لازمی امر ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کا حقیقی فائدہ نا تو امت کو ہوتا ہے اور نا ہی اس کے قائدین کو بلکہ صرف اور صرف استعماری طاقتیں ان کے وجود سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ اگر مسلم دنیا کی سڑکوں پر زبردست مظاہرے بھی ہو رہیں ہوں تب بھی امریکہ او۔آئی۔سی اور عرب لیگ کو اپنی پالیسیوں کی ترویج اور نفاذ کے لیے استعمال کرتا ہے اور D8 کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر مسلم دنیا اس صورتحال سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے قومی ممالک کے بھیانک تصور کو لازمی چھوڑنا ہو گا جس کی وجہ سے مسلمان تقسیم ہو گئے ہیں اور پچاس سے زائد ممالک میں قید ہو گئے ہیں۔ مسلمان اپنی قسمت کے خود مالک بن سکتے ہیں اگر وہ مغربی تصور کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ان تنظیموں کی صورت میں اپنے امور کو منظم کرنے سے انکار کر دیں۔

مسلم امہ کو متحد کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خلافت کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ خلافت امریکہ کی طرح مختلف ریاستوں کی فیڈریشن نہیں ہے جہاں ہر ریاست خود اپنا قانون بناتی ہیں لیکن دفاع، معیشت اور خارجہ پالیسی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ناہی خلافت یورپی یونین کی طرح کی کوئی یونین ہے جہاں تنظیم کی ہر ریاست نے اپنے کچھ معاشی معاملات یورپی یونین کے ہیڈکواٹر برسلز کے حوالے کر دیے ہیں جبکہ باقی تمام معاملات ریاستوں کی پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق طے پاتے ہیں۔ خلافت ایک و حدت پر مبنی ریاست ہے جہاں مسلمان اپنا ایک لیڈر چنتے ہیں اور اسے اپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں جبکہ خلیفہ ان پر قرآن، سنت رسول اللہ ﷺ اجماعہ اصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے۔ خلافت پچاس سے زائد مسلم ممالک کو ایک ریاست میں ضم کرے گی اور دنیا کی طاقتور ترین ریاست کو قائم کرے گی جو حقیقت میں مغرب کے معاشی، فوجی اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ریاست ہو گی۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

پریس ریلیز روس نے اللہ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکادی ہے اور حزب التحریرکے شباب کو گرفتار کر لیا ہے

روسی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ''پیر 12نومبر2012کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اراکین برائے وزارت عمومی اختیارات نے وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر مذہبی جماعت حزب التحریر، جس کو سپریم کورٹ نے ایک دہشت گرد جماعت ہونے کی بناء پر روس میں کا لعدم قرار دیا ہے، کے ایک گروپ کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ آپریشن کیا۔تنظیم کے چھ اراکین کی گرفتاری کے بعد ان کے گھروں کی تلاشی کے دوران نو عددگرنیڈز،ہتھیار،اسلحہ اوراس کے علاوہ انتہاپسندی اور نئے لوگوں کو کس طرح تنظیم میں شامل کیا جائے پر مبنی کتابیں بھی برآمد ہوئیں‘‘۔ یہ تمام الزامات کہ اسلحہ اور بم برآمد ہوئے ہیں ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے۔روس کے حکمران یہ جانتے ہیں کہ یہ کہانی ایک جھوٹ ہے سوائے اس صورت کے کہ اگر اسلامی کتب کو ''اسلحہ کی بڑی مقدار‘‘ مان لیا جائے جس کی برآمدگی کا وہ دعوی کرتے ہیں!قاتلھم اللہ انی یوفکون ''اللہ ان سے لڑتا ہے کیونکہ وہ جھوٹ گھڑتے ہیں‘‘۔


روسی حکام نے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ گھڑا ہے بلکہ انھوں نے اپنی شیطانی حرکات کا نشانہ ان لوگوں کو بنا لیا ہے جو اسلام کی دعوت دیتے ہیں خصوصاً حزب التحریر۔لہذا روسی حکام کے ہاتھوں اسلام سے عداوت پر مبنی واقعات کا ایک تسلسل واضع ہونا ایک لازمی امر ہے۔چیچنیا میں ہمارے بھائیوں کے قتل عام کے بعد ان لوگوں کے خلاف جواخلاص سے اسلام کی دعوت دیتے ہیں مظالم کاایک سلسلہ شروع کردیا گیا جس میں گرفتاری،قتل اور زبردستی مال لے لینا شامل ہے۔وہ ایسے ایسے قابل مذمت کام کرتے ہیں جسے کوئی ہوش مند انسان نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم شباب کی بیویوں،بہنوں اور ماؤں کا پیچھا کرتے ہیں تا کہ اسلام کے مخلص داعی اپنے کام سے رک جائیں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا!


سٹالن کے نظام کی شیطانیت بغیر کسی وقفے کے جاری و ساری ہے اور ہمیں مظالم کی وہ صورتیں بھی نظر آتی ہیں جو فرانس،بیلجیم اور دوسرے ممالک نے اختیار کر رکھی ہیں جیسے سکارف پر پابندی یا مساجد پر چھاپے۔روس کے جنوب میں واقع سٹاوروپول (Stavropol)میں اسکولوں میں سکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی اور پھر 17اکتوبر کو کازان میں واقع ایک مسجد الاخلاص پر روسی فورسز نے چھاپہ مارا۔اس کے علاوہ امام مسجد کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ حزب التحریرکے لیڈروں سے تعلق رکھتا ہے۔ان جرائم کی طویل فہرست میں تازہ اضافہ حزب التحریرسے تعلق رکھنے والے بیس افراد کی گرفتاری ہے جن میں سے چھ افراد پر اس الزام کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور ان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے یہاں تک کہ روسی حکومت بھی یہ جانتی ہے کہ حزب التحریرنبوت کے طریقے کے مطابق خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کے دوبارہ احیأ کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تشدد کا رستہ اختیار نہیں کرتی۔روس خلافت کی واپسی کو کسی صورت بھی روک نہیں سکتا۔


یہ ہے روس کے دھوکہ دہی پر مبنی نظام کی حقیقت جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور انتقام سے بھر پور ہے۔روس اسلام کے جھنڈے کو دوبارہ بلند اور مسلمانوں کو متحد ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے خلاف ان کی نفرت ان کے لبوں پر ہے لیکن ان کے دل اس سے بھی کہیں زیادہ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اسی لیے مکر و فریب اور ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے اس امید پر کہ چند لوگوں کو بے وقوف بنا کرانتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نعرے پر اپنا ہم نوا اور ہم خیال بنا لیا جائے۔ اس نعرے کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ جھوٹ کا ایک ایسا نقاب ہے جس کے پیچھے رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں۔


روس کا موجودہ نظام سابقہ سویت یونین سے قطعاً مختلف نہیں۔ اس نے اپنی مملکت میں موجود کمزور اورغیر محفوظ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے وہی پرانا ناانصافی ،مظالم اور جبر کا طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے جو اس کو سویت یونین سے ورثے میں ملا ہے ۔لہذا یہ ایک قدرتی امر ہے کہ سویت یونین جیسا نظام تیزی سے گر جائے کیونکہ لوگ ظلم اور جبر کی وجہ سے موقع ملتے ہی اس نظام کو خیر باد کہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں تا کہ خود کو اس جبر سے آزاد کرواسکیں۔ اور اب ہم مسلم ممالک کو یہ مشورہ دیں گے جنہیں براہ راست یا بلواسطہ اس نظام کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اٹھیں اور خود کو اس دہشت گرد ملک کے اثر سے باہر نکالیں،روسی زار کی باقیات کو اکھاڑ پھینکیں تاکہ اللہ کے حکم سے جلد قائم ہونے والی خلافت کا حصہ بن سکیں ۔


ان مسلمانوں کے لیے جو روس کے ظالمانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں!
روس کے نظام نے تمھارے رب اور تمھارے دین کی دشمنی مول لی ہے اور اس پر اسے کوئی شرم نہیں۔ یہ نظام ظلم ،جبر،گرفتاریوں اور ناانصافی پر مبنی قوانین سے بنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ظلم اور جبر کا سامنا مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کیا جائے۔حق کی راہ پر بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے مخلص اور باہمت حزب التحریرمیں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ چل پڑو جو مسلم ممالک میں خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور تمام بزدل آمروں کو اکھاڑ پھینکنے کے ہدف کو حاصل کر لو ۔ اسلامی ریاست خلافت لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلائی گی اور معصوم لوگوں کی عزت کو بحال کرے گی اور انصاف اورسچائی اور بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز کے حکومت کرے گی ۔


قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُون
بغض ان کے منہ سے ٹپکتا ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے(آل عمران:118)۔

 

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر

 

اہلِ غزہ کی مدد امن کی بھیک مانگنے یا شہداء کے لیے تعزیتی وفود بھیجنے سے نہیں بلکہ صرف ایک لشکرِ جرار کے ذریعے ہو گی جو صبح وشام یہودی وجودکو لرزا دے گا  

چوتھے روز بھی غزہ پر یہودی ریاست کی جانب سے زمینی،فضائی اور سمندر سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے،دسیوں لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں...مسلم ملکوں کے حکمران ،خصوصاًجو علاقے اور رشتے کے لحاظ سے بھی قریب ترین ہیں ،صرف شہداء اور زخمیوں کی گنتی کر رہے ہیں،ناگواری اور مذمت کا اظہار کرنے میں مقابلہ بازی کر رہے ہیں،دبے لفظوں میں احتجاج کر رہے ہیں بلکہ صرف واویلا مچارہے ہیں۔ قطر کا وزیر خارجہ جو اس خطے میں یہودی ریاست کے لیے ہی پیغام رسانی کرتا ہے اپنے پُرتعیش محل میں بیٹھ کر یہ بھڑکیں مار رہا ہے کہ یہودی بدمعاش کو''سزا ضرور ملنی چاہیے''۔ یہ حکمران ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں اور غزہ کے المناک واقعات کے بارے میں صرف باتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں،وہ ایسا ظاہر کر رہے ہیں کہ گویا جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے بارے میں بڑے غمگین ہیں۔ وہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کرنے اور تعزیت کے لیے وفود روانہ کرنے کے وعدے کرتے ہیں...پھر غزہ پر دوبارہ بمباری شروع ہو جاتی ہے اور یہ وفود دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ! یہ حکمران پھر یہ کہہ کر اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں کہ ''فجر سے ذرا پہلے میں نے امریکی صدر اوباما سے فون پر بات کی ہے اور اس حملے کو روکنے اور دوبارہ ایسا نہ ہونے کے لیے کہا ہے''۔ یوں وہ اپنی صبح کی ابتدا حملے کو روکنے کے لیے اُس ریاست سے بات چیت کے ذریعے کرتے ہیں جو بذاتِ خودیہودی ریاست کی محافظ ہے...! چاہیے تو یہ تھا کہ یہ فجر کی نماز پڑھ کر یہودیوں کے ہاتھوں اہلِ غزہ کے بہائے جانے والے خون کا بدلہ لینے کے لیے فوج کو حرکت میں لاتے۔ وہ زبان سے تو کہتے ہیںکہ:'' خون کے بدلے خون تباہی کے بدلے تباہی''لیکن افواج کو حرکت میں لانے کی بجائے اپنی صبح کا آغاز اوبا ما کے ساتھ بات چیت کے ساتھ کرتے ہیں! بلکہ اس سے بھی بدتریہ ہے کہ جب عرب دنیا کے ایک نئے حکمران سے پوچھا گیا کہ تمہارے اور سابقہ حکمرانوں کے درمیان کیا فرق ہے وہ بھی اپنے سفیر کو واپس بلاتے تھے،مذمت کرتے تھے اور اوبا ما کو فون کیا کرتے تھے...؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ فرق ہے!وہ تاخیر کیا کرتے تھے، ہم فوراً کرتے ہیں!


اے مسلمانو! کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا جاتا ہے پھر اس کی آزادی بھی باتوں کے ہجوم کے اندر ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد صحیح حل کو چھوڑ کر ہر قسم کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور حقائق کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ گویا یہودیوں کی کوئی پائیدار ریاست ہے اور ہمارے اور ان کے درمیان سرحدوں کا مسئلہ ہے،جس کے لیے کیمپ ڈیوڈ،وادی عربہ اور دوحہ وغیرہ کے معاہدات کیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ معاہدے اعلانیہ ہو تے ہیں جبکہ بعض خفیہ رکھے جاتے ہیں! پھر بین الاقوامی قوانین کے احترام کا درس دیا جاتا ہے،پھر اس کو ریاستوں کے درمیان سرحدی چپقلش کا رنگ دیا جاتا ہے اوراس کے بعد اس کے لیے مقامی یا علاقائی یاپھر بین الاقوامی ثالثوں کا اہتمام ہو تا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ مار لیا ہے ، ایسے جیسے اللہ نے مسلمانوں کو کفارکے خلاف قتال کرنے سے منع کیا ہو!!!


اے مسلمانو! معاملہ ایسا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہود نے فلسطین کی سرزمین کو غصب کر کے اس میں ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے اور وہاں کے باشندوں کو وہاں سے بے دخل کیا ہے۔ یہ ریاست صرف ایک ایسی مومن فوج کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی اور فلسطین کو وہاں کے باشندوں کو واپس کی جائے گی جو مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنے والوں اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کرنے والوںسے قتال کے بارے میں سات آسمانوں کے مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہے گی

 

(وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ)
''جہاں بھی یہ تمہارے ساتھ قتال کریں تو تم بھی ان سے قتال کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی ان کو وہاں سے نکالو''۔(البقرہ:191)


یہی حل ہے اور اس حل کو صرف وہ شخص نظر انداز کر سکتا ہے جس کے دل اور کانوں پر مہر لگی ہو اور اس کی آنکھوں پر پردہ ہو،کیا فلسطین کو اس کے باشندوں کو لوٹانے اور یہودی ریاست کو نیست ونابود کرنے کے لیے اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے؟


اے مسلمانو! ہماری مصیبت ہمارے حکمران اور ان کے وہ حواری ہیںجو لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ واویلا مچاتے پھرتے ہیں کہ ہم یہو د سے لڑنے کے قابل نہیں ہیں، ہمارے پاس ان کے اسلحے جیسا اسلحہ نہیں ہے اور ان کے مددگاروں جیسا ہمارا کوئی مددگار نہیںہے

 

(كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا)
''بڑی سخت بات ہے جو اُن کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں کہ) جو کچھ یہ کہتے ہیں محض جھوٹ ہے'' ۔ (الکہف:5)


ہم یہودی ریاست کے ارد گرد ایسے ہیں جیسے کلائی کے گرد کنگن ہوتاہے،اور ہمارے پاس اسلحہ بھی وافر مقدار میں موجودہے...لیکن یہ اسلحہ غاصب یہودیوں کے خلاف یا استعماری کافروں کے خلاف استعمال ہوتا ہواکبھی نظر نہیں آتابلکہ یہ اسلحہ تو اپنے ہی ہم وطن مسلمانوں پر استعمال ہو تا ہے... جیسا کہ صحرائے سیناء کے ان مسلح مسلمانوں کے خلاف جو فلسطین کو غصب کرنے والے یہودیوں سے لڑنے کے لیے مسلح ہو رہے تھے،یہ اسلحہ شام میں انسانوں ، درختوں اور پتھروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے،ایسا ایسا اسلحہ جس کے بارے میں پہلے کسی کو علم بھی نہیں تھا! اسی طرح پاکستانی حکومت امریکہ کی مدد کرنے کے لیے قبائلی مسلمانو ں پر جنگی جہازوں سے بمباری کر رہی ہے اورجیسا کہ سوڈان اپنے جنوبی حصے کو کھو تے وقت اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہاتھا...!یہ حکمران اللہ اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے سامنے کسی قسم کی شرم محسوس کرنے کی بجائے اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں...رہی بات یہود کے مدد گاروں کی تو اللہ ہمارا مددگار ہے ان کا نہیں

 

(ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُم)
''یہ اس لیے کہ اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے جو ایمان والے ہیں اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں''(محمد:11)


مزید برآں ،یہودی ریاست کے سب سے بڑے مددگا ر یہ حکمران خود ہیں،یہی ہیں جو اسے تحفظ دیتے ہیں اور لوگوں کو اس کی طاقت کے بارے میں گمراہ کر تے ہیں، حالانکہ اگر یہ حکمران صرف مسلمانوں کی افواج کو صدق اور اخلاص کے ساتھ یہودیوں کے خلاف قتال کرنے کے لیے راستہ دے دیں تو یہود یوںکی طاقت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی جو کہ مکڑی کے جالے سے بھی کم ہے ۔


اے مسلمانو! غزہ میں بہنے والے پاکیزہ خون کا تحفظ کوئی' غیر جانبدار' ثالث نہیں کر سکتا جو جنگ بندی کے لیے سودے بازی کرے اورنہ ہی تعزیت کے لیے جانے والا کوئی وفد کر سکتا ہے،اور نہ ہی کسی باد شاہ،صدر یا شہزادے کی وہ شعلہ بیاں تقریر جس کا اثر ان کے محلات تک ہی محدود ہے،یہ سب کچھ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے! دشمن ان سب کو سنجیدگی سے نہیں لیتا بلکہ وہ اس کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ اوراس امت کے عقلمند لوگ بھی ان کی ان باتوں کوقابل توجہ نہیں سمجھتے سوائے ان لوگوں کے جو آنکھوں سے پہلے دل کے اندھے ہیں،یہی لوگ یہ کہہ کر ان حکمرانوں کے لیے تالیاں بجاتے ہیں کہ فلاں نے مصیبت میں تعزیت کے لیے وفد بھیجاحالانکہ یہودی ریاست اس وفد کی آنکھوں کے سامنے بمباری کرتی جاتی ہے...!
اہل غزہ کے بہتے خون کی مدد ایسی اِدھر اُدھر کی باتوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی مددان تمام ترافواج کو یا ان میں سے کچھ حصے کو، متحرک کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے جو سیناء اور نہر ِ اردن کے اطراف میں ،اللیطانی کے جنوب اور گولان میں ہیں ،جن کا حرکت میں آنا یہودی ریاست کو ہلا کر رکھ دے گا...وہ افواج جس کے اطراف میں ابو بکررضی اللہ عنہ کی قسم ہو گی کہ میںدشمن کو شیطان کے وسوسے بھلادوں گا..

 

اے مسلمانو ! اسی طرح صلاح الدین اور ظاہر بیبرس کی افواج کے ہاتھوں فلسطین کے خون کی مدد کی گئی تھی،اور اسی طرح اِن مسلمان افواج کے ہاتھوں اس خون کی مدد کی جائے گی جو یہود سے قتال کرنے کے شوق سے سرشار ہیں...اہل غزہ کے پاکیزہ خون کی مدد صرف اسی طرح ہی ہو سکتی ہے،اس کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ،کوئی بھی عقل مند شخص اس حل کے علاوہ کسی حل کو قبول نہیں کرے گا سوائے ایسے شخص کے جو بصارت اوربصیرت دونوں کے لحاظ سے دنیا اور آخرت دونوں میں اندھا ہو،

 

(وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا)
''اور جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ ہے''۔(الاسرائ:72)


مسلم افواج میں موجود مخلص سپاہیو! کیا تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہیں جو ان حکمرانوں کو یہودی ریاست کے ساتھ عملی جنگ کے لیے مجبورکر سکے اور اس وجود کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوج کو متحرک کر سکے...؟ کیا تم میں کوئی ایسا مضبوط اور پُر عزم مؤمن نہیں جو ان حکمرانوں کی کمر توڑ دے اور اپنی بٹالین یا بریگیڈ کو اس غاصب یہودی وجود کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک ایسے جہاد کے لئے متحرک کرے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت محبوب ہے؟ اگر ایک بھی بریگیڈ اس کی ابتدا کرے گی تو اس کے بعد بہت سی بریگیڈ زاس کی پیروی کریں گی اور پھر کوئی ظالم اور جابر حکمران ان کو روک نہیں پائے گا،یوں یہ خیر اور نصر میں سبقت لینے والے بن جائیں گے،

 

(إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)
''اگرتم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا''۔(محمد:7)


کیا تم میں کوئی بھی ایسا سمجھدار آدمی نہیں جو اللہ ،اس کے رسول ﷺ کی خاطر خلافت کے لیے کام کرنے والوںکو نصرہ دے دے ،اور یوں تم انصار کی سیرت کو زندہ کروگے اور دنیا اور آخرت کی عزت کا مشاہدہ کرو گے۔ یوں نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام اور یہود کے ساتھ قتا ل اور ان کو شکست دینے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت تمہارے ہاتھوں پورا ہونے کا شرف تمہیں نصیب ہو گا،اور تم دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرو گے اور مؤمنوں کو خوش خبری سنائو گے۔


اے مخلص سپاہیو! حزب التحریرتمہاری مخلص خیر خواہ ہے، اور تمہیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کے کچھ خاص بندے موجو دہوتے ہیں جو تاریخ کے اہم موڑ پر آگے بڑھتے ہیں ہیں،پس آگے بڑھواور ان بندوں میں سے بن جائو... تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، آگے بڑھو اور اسلام کی عزت خلافت کے لیے مدد دو تاکہ وہ خلیفہ آئے جس کے پیچھے تم لڑو اور جس کے ذریعے تمہاری حفاظت ہو سکے...تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ،آگے بڑھو اسلام کی چوٹی جہاد کے لئے ،فتح یا شہادت کے لئے...تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، آگے بڑھو ایسی تجارت کے لیے جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے گی ،آگے بڑھوسب سے خوبصورت اور سب سے سچی بات کی پیروی کرتے ہوئے جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:

 

(انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
''نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ،اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ،اگر تم سمجھ دار ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے''۔(التوبہ:41)

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک