الثلاثاء، 22 صَفر 1446| 2024/08/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

امریکہ اپنے خود ساختہ بشار کے متبادل ڈھونڈنے سے پہلے ہی اس کے مسلمانوں کے ہاتھوں بربادی سے خوفزدہ ہے اس لیے وہ یمن والے حل کو دہرانے کی کوشش کررہا ہے اور اس توہم پرستی کے ساتھ فوجی مداخلت کے اشارے دے رہا ہے کہ وہ اسلام کے دوبارہ اقتدار میں آنے کو روکے گ

 

پیر 28/05/2012کے دن امریکی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:،،یقیناًامریکی وزارت دفاع،،پینٹاگون،،شام میں جاری تشدد کو ختم کرنے کے لیے فوجی مداخلت کے آپشن کے لیے تیار ہے،یہ اچانک وضاحت امریکی وزیر دفاع پنیٹا،وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اور خود صدر اوباماکے سلسلہ وار وضاحتوں کے بعد سامنے آیاکہ امریکہ شام میں فوجی مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ اس سے معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے،یہ وضاحت آخری بار،، G 8،،اور اس کے بعد نیٹو کے اجلاس کے موقعے پرکی گئی۔

 

شام کے لیے امریکی پالیسی ان خطوط پر کاربند تھی کہ اپنے ساختہ بشار کے لیے اس وقت تک قتل وغارت اور خون خرابہ کے لیے راستہ صاف رکھا جائے جب تک کہ اس کا ایسا متبادل تیار نہ کیا جائے جو شام میں اس کے اثرو نفوذ کے تسلسل کی حفاظت کر سکے،چنانچہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کی آوازلگاکر،مذاکرات اور پے درپے مہلت کے ذریعے (بشار کے لیے)راستہ ہموار کرنے کی دلالی کر تا رہا تاکہ اپنے موجودہ ایجنٹ کے متبادل آنے والے ایجنٹ کو تیار کرنے سے فارغ ہو سکے.....گزشتہ تمام اقدامات،عرب مبصرین پھر عالمی مبصرین .......اس سلسلے کی آخری کڑی کوفی عنان کے اقدامات ہیں جو اس نے عام امریکی پالیسی کی خدمت کے طور پراٹھایا،خود عنان نے بھی اس کی وضاحت کی جس میں اس نے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے میز پر مل بیٹنے کی دعوت دی،اس نے کہا کہ اس کی ذمہ داری شام کے موجودہ جھگڑے کا حل نکالنا ہے،ممکن ہے اس کی ابتدا سیاسی طریقے سے ہو......


یقیناًعنان کی جانب سے یہ پیش رفت امریکہ کے خصوصی اقدامات ہیں،اس کا یہ دورہ الحولہ کے قتل عام کے فورا بعد اورشام کی حکومت کے ساتھ بڑھتے ہوئے ڈبلومیٹک بائیکاٹ کے ماحول میں ہوا،جس میں شامی عوام کے لیے یہ پیغام تھا کہ صرف امریکی حل سے ہی شام کی حکو مت سے نجات مل سکتی ہے،یوں امریکہ اپنے منصوبے کی مارکیٹنگ کر رہا ہے:ایک مجرم حکومت جو انتہائی دیدہ دلیری سے نہتے شہریوں کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ جس پیش قدمی کی قیادت کوفی عنان کررہا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کے فن کا ماہر ہے،بوسنیا میں اس کا کردار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،ہمارے حافظے میں بسنیاکے اس ہولناک خونریزی کی تصاویر ابھی تک محفوظ ہیں جب مغرب نے وہاں کے مسلمانوں کو ایک لمبے عرصے تک قتل اور ذبح ہو نے کے لیے چھوڑ دیا جس میں سیربرنٹسا میں8000بوسنیائی مسلمان مرد اور بچے قتل کیے گئے،یہی کوفی عنان اس وقت اقوام متحدہ کے شعبہ امن کا ذمہ دار تھا،جب انہوں نے دیکھا کہ پلڑا مسلمانوں کا بھاری ہو رہا ہے تب انہوں نے مداخلت کر کے اپنا ظالمانہ حل مسلط کردیا۔


جس طرح بوسنیا میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری دیکھ کر فوجی مداخلت کے حوالے سے امریکہ کا لہجہ بدل گیا تھااور اس نے مسلمانوں کے زور کو توڑنے اور ان کو اپنے خودساختہ حل کو قبو کر نے پر مجبور کر نے کا ارادہ کیا،اسی طرح اب شام میں سربکف انقلابیوں کے پلڑے کو بھاری اور اپنے پالتو بشار کو ڈھگمگاتادیکھ کر کہ وہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتاتب امریکہ کالہجہ بدل رہا ہے اور بشار کو قتل وغارت اور خونریزی کی مہلت دینے کی بجائے نظام کے اندر سے ہی تبدیلی اور بشار کی چھٹی کر کے اس کے نائب کو ذمہ داری سونپ نا چاہتا ہے،جیسا کہ پہلے ہی قطر نے اس یمنی طرز کی طرف دعوت دی تھی لیکن اس وقت امریکہ اور شامی حکو مت میں موجود اس کے پیروکاروں نے انکار کیا تھا،کیونکہ یہ طریقہ برطانیہ کا بنایا ہوا تھا،پھر وہی خود اس کی طرف آرہا ہے،چنانچہ اوبامانے ،،G8،،کے سربراہان پر بشار کی چھٹی کر نے کی ضرورت پر زور دیا اور یمن کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا اقتدار کی منتقلی کا یہی ماڈل شام میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے.....امریکہ کے سیکیورٹی اڈوائزر توماس جونیلون نے بھی اس کا اقرار کیا کہ صدر اوباما نے روس کے وزیر اعظم مید یفیدف کے ساتھ کیمپ ڈیوڈG8 کے اجتماع کے موقعے پر یمن کے طرز پراقتدار کی پر امن منتقلی کا معاملہ زیر بحث لا چکا ہے،اور اوباما اور پوٹن کی ہونے والی پہلی ملاقات میں بھی یہہ بات چیت کا موضوع ہو گا.....


امریکہ اس بات کو جان چکا ہے کہ شام میں لوگ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے یا ایک قبیح چہرے کو اس سے بھی بدتر یااس سے ذراکم بدصورت چہرے سے بدلنے کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،بشار اس کا نائب یا اس کے نائب کا نائب یا اس کے سارے چمچے .....وحشیانہ جرائم اورخیانت میں برابر کے شریک ہیں،شام کے انقلابی اس کے سوا کسی متبادل پر راضی نہیں ہوں گے کہ اس نظام کو جھڑوں سے نکال کر پھینک دیا جائے اور اسلام کے دارالحکومت شام میں اسلامی حکومت اور خلافت راشدہ کو قائم کیا جائے.....یہی وجہ ہے کہ امریکہ فوجی مداخلت کی دھمکی پر مجبور ہو گیا،چنانچہ امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کی مذکورہ وضاحت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر شام میں اس کے اثرونفوذ کو خطرہ ہو گیا تو عسکری مداخلت کا آپشن کھلا ہے،یہ شام میں نظام کو بدلنے کے لیے مداخلت نہیں جیسا کہ کچھ لوگ غلط فہمی سے ایسا سمجھ رہے ہیں،اس وقت اس قسم کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ شام کی صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس سے امریکی اثرو نفوذ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے،یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بشار کی حکومت بھی اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی قائم نہیں رہ سکتی،یہی وجہ ہے کہ امریکہ انقلابیوں کو ڈرانے کے لیے کہ وہ شام میں اسلامی حکومت قائم نہ کریں فوجی مداخلت کے شوشے چھوڑرہا ہے کیونکہ اس کے بعدامریکہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر تک ہی محدود ہو گا کبھی واپس نہیں آئے گا۔


اے مسلمانوں:شام کی حکومت صرف داخلی طور پر انتشار کا شکار نہیں بلکہ اس کی بنیادیں ہی گرنے والی ہیں اور مختلف سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے اس مبارک انقلاب کا پلڑا بھاری ہو تا جا رہا ہے،ساتھ ہی لوگوں کی طرف سے افسانوی حد تک ایمانی ثابت قدمی اور نظام کو گرانے پر اصراربرقرار ہے،دمشق کے ہڑتال نے بھی واضح اشارہ دیا کہ بشار انتظامیہ اپنے قلعوں ،جائے پناہ اور بیرکوں سے باہر نہ نکل سکی اور الحمیدیہ کا مشہوربازار بند کردیا گیا،اس بعداس کا جڑوان بازار الحریقہ اورالعصرونیہ پھر ساتھ ہی مدحت پاشا کا ثقافتی بازاراور خالد بن ولید روڈ وغیرہ......یوں دمشق کے دل کا اسٹرائیک نظام کے زہر خوری کی وجہ سے تڑپنے والے معدے کے لیے ایک اور مظبوط جھٹکا تھا۔

 

اے اللہ تعالی کے اذن سے نصر اورکامیابی کے شام کے انقلابی مسلمانوں :

علمبردار جھوٹ نہیں بولتے حزب التحریرمغرب اور اس کی حرکات سے تمہیں آگاہ کر تی ہے،خصوصی طورپر اس فیصلہ کن لمحے میں ان کے تمام اقدامات کو مسترد کر نے کا اعلان کرو اس اپوزیشن کو بھی اتار پھینکو جو مغرب کے زہر آلودحل کا مطالبہ کر رہا ہے،جو یوں ہے کہ اسد کے بعد شرع آئے گا جیسا کہ یمنی ماڈل میں ہوا کہ علی عبد اللہ صالح کے بعد عبد ربہ آیا ،اسی حل کو اوباما نے پوٹن کے سامنے پیش کیا ہے،مغرب سے کسی بھی قسم کا رابطہ اور حل کے مطالبے کو ایسی عظیم خیانت سمجھو جس کو معاف نہیں کیا جاسکتا،امریکی فوجی کمانڈر کی طرف سے عسکری مداخلت کی دھمکی تمہیں خوفزدہ نہ کرے ،جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ صادق ہو امریکہ اور اس کا ٹولہ اللہ کے اذن سے دم دبا کر بھا گے گا......تم اپنے مخلص فوج اور اپنی امت کی بھر پو توجہ سے اس نظام کے قلعہ قمع کر نے پر قادر ہو ،جس طرح تم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ،،اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں جھکیں گے ،،اسی طرح یہ اعلان بھی کروکہ،،امریکہ کے سامنے نہیں جھکیں گے اور اس کے حل کو قبول نہیں کریں گے،،.....اعلان کرو کہ سازشوں کا زمانہ گزر گیا.....آج کے بعد تمہارا ہمارے اوپر کوئی غلبہ نہیں ہو گا.......اعلان کرو کہ ہمارے انقلاب کا منزل مقصود مغرب بناوٹی کافر نظام اور اس کے سرکش ایجنٹوں سے مکمل آزادی ہے.......ہم سوائے اسلام کے کسی اور چیز پر دین، حکمرانی اورنظام زندگی ،،خلافت علی منہاج نبوت ،،کے طور پرراضی نہیں ہوں گے.....اعلان کرو کہ شام کی سرزمین اسلام کی دارالحکومت ہے،عظیم معرکے کا میدان ہے،یہ تمام مکرو فریب کر نے والوں اور اس کے اور مسلمانوں کے حق جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا قبرستان ثابت ہو گا،

(سیصیب الّذین اٗجرموا صغار عند اللہ وعذاب شدید بما کانو یمکرون)

ترجمہ:،،عنقریب ان مجرموں کو اللہ کی طرف سے ذلت اورشدید عذاب کا سامنا ہوگا جوچالبازیاں کر تے ہیں،،

پانیٹا! امریکہ کے لیے امت کے صبر کا دامن بہت پہلے ختم ہو چکا ہے!

امریکہ کے سیکریٹری دفاع لیون پانیٹا نے 7 جون 2012 کو امریکہ کی افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری صلیبی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کیااور کہا "ہم اپنے صبر کی انتہا کو پہنچ رہے ہیں"۔ واشنگٹن اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ کیانی یہ جان لیں کہ امت امریکہ کے مظالم کے حوالے سے اپنے صبر کا دامن بہت پہلے چھوڑ چکی ہے اور پاکستان کے مسلمان بھی یہی جذبات رکھتے ہیں۔

پاکستان کی افواج نے، جو کہ امت کی سب سے مضبوط فوج ہے اور امریکی بدمعاشی کا مقابلہ کر سکتی ہے، کیانی کی غداری کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ افغانستان کی آزادی کے لیے قابض امریکی افواج کے خلاف اپنے قبائلی مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے، افواج پاکستان نے قبائلی علاقوں میں فتنے کی جنگ میں ہزاروں جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس کا مقصد بزدل امریکی افواج کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو چند مٹھی بھر مجاہدین کے ساتھ لڑنے میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے۔ یہ نقصان اس کے علاوہ ہے جو امریکی فوج اور اس کی ایجنسیوں نے پاکستان بھر میں افواج پاکستان کو پہنچایا ہے لیکن اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ افواج پاکستان کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ قبائلی علاقوں میں جنگ لڑنے پر تیار ہوں۔

اگر یہ سب کچھ بھی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے امریکہ سے مایوس ہو جانے کے لیے کافی نہیں تھا تو امریکہ نے پاکستانی افواج کو تین محاذوں پر پھیلا دیا ۔پہلے امریکہ نے افواج پاکستان کوقبائلی علاقوں میں جانے پر مجبور کیا۔ دوسرا امریکہ نے افغانستان کی سرزمین کو بھارت کے لیے کھول دیا تا کہ وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی بدامنی پیدا کر سکے۔ تیسرا امریکہ نے کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے چند غدار ساتھیوں کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے نام پر بھارت کے سامنے جھک جانے کا حکم دیا اور بھارت کو یہ قوت بخشی کے وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و ستم میں مزید اضافہ کر دے۔ اور اگر یہ سب کچھ بھی مسلمانوں کے صبر کے دامن کو لبریز نہیں کر سکا تو دہشت گردی کے نام پر پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصان اور امریکی ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں نہتے شہریوں کی ہلاکت بھی کیا ہمارے صبر کا امتحان نہیں ہے؟

یقیناً امت امریکہ کی ناانصافیوں کے حوالے سے اپنے صبر کی انتہا کو پار کر چکی ہے اور اب ایک انقلاب کے ذریعے امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس کی قیادت اس وقت شام کے بہادر مسلمان کر رہے ہیں جو یہ اعلان کر رہے ہیں کہ "لوگ نئی خلافت چاہتے ہیں"۔ اب یہ مسلم افواج کے افسران پر منحصر ہے کہ وہ کب اپنے درمیان موجود چند غداروں کو اس طرح سے جھٹک دیتے ہیں جیسے کندھے پر بیٹھی مکھی کو جھٹک دیا جاتا ہے اور اسلام کو دوبارہ سربلندی سے سرفراز کرتے ہیں۔ یہ ان افسران پر لازم ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة دیں اور پھر پانیٹا اور اس کے دوست وہ دیکھے گے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایک ایسی امت جو اسلام کی بنیاد پر باعزت اورطاقت ور ہو گی اور امریکہ سے اس کے ایک ایک زیادتیوں کا حساب لے گی۔

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

"لیکن عزت، طاقت اور شہرت سب اللہ اور اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں ہی کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔"(منافقون۔8)

ہم پانیٹا اور اس کے استعماری ملک کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس امت کے خلاف اپنی خوفناک پالیسیوں اور منصوبوں سے دست بردار ہو جائے، آزادی کے نام پراپنے بوسیدہ نظریہ حیات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے اور وحی کی بنیاد پر قائم نظریہ حیات یعنی اسلام کو قبول کر لے جو اس کے لیے اس دنیا اور آخرت دونوں میں فائدے مند ہو گی۔اور اگر وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو انھیں غلط نظریہ حیات پر قائم اپنے سابق پیش رو یعنی رومنز، فارس اور فروعون کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

"کیا تم تک ان کی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے انکار کیا اور انھوں نے اپنے انکار کا مزہ چکھا اور ان کے لیے تکلیف دہ عذاب ہے۔"(تغابون۔5)

 

شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

نوید بٹ کو اغوا کے تین ہفتوں بعد بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ حکومتی وکیل نے یہ عذر پیش کیا کہ متعلقہ ایجنسیوں کو ابھی تک نوٹس بھیجے نہیں جاسکے لہذا مزید وقت دیا جائے جس پر عدالت نے 11 جون کی نئی تاریخ دے دی جب تک نوید بٹ کو اغوا ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہوگا۔

مواصلاتی ترقی کے اس دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے نوٹس تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی متعلقہ اداروں کو بھیجے نہیں جا سکے اور عدالت نے بھی کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔ کیا یہ بات حیر ت کا باعث نہیں کہ "آزاد عدلیہ" سیاسی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ فوجی اداروں سے بھی اپنے احکامات کی تعمیل کرانے سے قاصر ہے یا عدالتیں بھی دراصل قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ان حکومتی غنڈوں کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو مکمل کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ کیا آزاد عدلیہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ امریکی جاسوس سفارتی حیثیت کی آڑ لے کر اسلحے سمیت پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور پکڑے جانے کے باوجود ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا بلکہ انھیں باعزت رہا کر دیا جاتا ہے

جبکہ پاکستان سے امریکی راج اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں کو دن دھاڑے اور رات کے اندھیروں میں ان کے بیوی بچوں کے سامنے سے اغوا کر لیا جاتا ہے، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ دھمکیاں دیں جاتی ہیں کہ اگر خلافت کے قیام کی پرامن سیاسی جدوجہد سے باز نہ آئے تو قتل کر دیے جاوں گے۔ ایک طرف "آزاد عدلیہ" اپنے ایک حکم کی تعمیل نہ کرنے پر سیاسی حکومت کے سربراہ گیلانی کو تو عدالت میں طلب کرتی ہے لیکن سینکڑوں لاپتہ افراد کے اغوا میں کیانی کے غنڈوں کے ملوث ہونے کے واضع شواہد کے باوجود کیانی کو کیو ں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا؟

کیا عافیہ صدیقی، سانحہ لال مسجد، اڈیالا جیل سے اغوا کیے جانے والوں اور بعد میں ان کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کیے جانے اور اس جیسے سینکڑوں واقعات یہ ثابت نہیں کرتے ہیں کہ کیانی اور سیاسی فوجی قیادت میں موجود اس کے چند غدار ساتھی ہر اس شخص کو نمونہ عبرت بنانا چاہتے ہیں جو ملک سے امریکی راج کے خاتمے اور اسلام کے مکمل نفاذ کا مطالبہ اور جدوجہد کرتا ہے۔

حزب التحریر کیانی پر یہ واضع کر دینا چاہتی ہے کہ اس کی یہ گھٹیا حرکتیں نہ اس سے قبل حزب کو اس کی جدوجہد سے روک سکی ہیں اور نہ آئیندہ وہ اس میں کامیاب ہوگا۔ کیانی کو قزافی، حسنی مبارک اور بن علی جیسے غداروں کا انجام یاد رکھنا چاہیے کہ وہ نہ تو ان جتنا مضبوط ہے اور نہ ہی ان سے زیادہ امریکہ کا پسندیدہ غلام ہے۔ انشاء اللہ خلافت کا قیام عنقریب ہے اور وہ دن مومنین کے لیے خوشی اور کیانی اور اس کے ساتھیوں کے لیے انتہائی خوف کا دن ہو گا۔

 

شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

نوید بٹ کی رہائی کیلئےانڈونیشیا میں مظاہرے- اور شام کےمسلمانوں کی حمایت ، اسد کو ہٹا کرخلافت کے قیام کا مطالبہ

نوید بٹ کی رہائی کیلئےانڈونیشیا میں مظاہرے-

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

 

 

شام کےمسلمانوں کی حمایت ، اسد کو ہٹا کرخلافت کے قیام کا مطالبہ

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

 

For more photos click here

 

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک