زرداری کی کشمیر سے غداری کو روکو اور خلافت کو قائم کرو جو برصغیر میں امن کے قیام کی واحد ضمانت ہے
- Published in پاکستان
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
5 فروری کا دن کشمیر کے مسلمانوں کی بھارت کے ظلم و جبر سے نجات اور اسلامی دنیا کے ساتھ مسلمانانِ کشمیر کے الحاق کے عزم کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ لیکن آج 5فروری کے موقع پر اس خطے کے مسلمان یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا حکمران زرداری کشمیر کے متعلق امریکی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ بھارت کے ظلم و ستم سے نجات کے کسی بھی امکان کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ امریکی ایجنٹ مشرف نے کشمیر کے متعلق جس روڈ میپ پر بھارت کے ساتھ اتفاق کیا تھا اور اوباما حکومت نے 2009کے پالیسی ریویو میں جس کی توثیق کی ہے، یہ روڈ میپ مسلمانوں کے لیے نئے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے، کیونکہ اس میں چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کی بات کی گئی ہے ، جو معمولی وسائل وذرائع کی حامل ہوں گی اور بھارتی اثر و رسوخ اور شر کی خلاف ان کی کوئی حفاظت نہ ہو گی۔
زرداری اِسی امریکی منصوبے کے مطابق مسلسل قدم اٹھا رہا ہے، اور اُسے اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کہ یہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے کس قدر ضرر کا باعث ہے۔ پس مارچ2008میں زرداری نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کی جدوجہدٔ آزادی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ، اگرچہ اس جائز جدوجہد کے دوران 90ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ زرداری کی اس غداری پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمران کا پتلا نذرِ آتش کیا۔ پھر زرداری نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور امریکہ کی خدمت گزاری کے طور پر جنوری2010ئ میں زرداری کے وزیر اعظم گیلانی نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ امریکہ کو کشمیر پر ثالثی میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔ تاکہ امریکہ کشمیر کے متعلق اپنے روڈ میپ کے لیے راہ ہموار کر سکے ! حتی کہ انڈین پریمئیر لیگ کے فیصلے پر زرداری حکومت کا حالیہ غم و غصہ بھی امریکی ثالثی کے لیے جواز گھڑنے کے لیے ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کے امریکہ منصوبے کی طرف پہلی ٹھوس پیش رفت کے طور پر زرداری حکومت نے گلگت - بلتستان کے علاقے کو پہلے ہی کسی حد تک خود مختاری دے دی ہے۔ اور مشرف کی مانند زرداری نے امریکہ کے حکم پر مزید پاکستانی فوج پاکستان کی مشرقی سرحد سے قبائلی علاقوں کی طرف منتقل کر دی ہے تاکہ افواجِ پاکستان قبائلی علاقوں میں جاری امریکی جنگ میں مصروف رہیںاور یوں مقبوضہ کشمیر بلکہ ملکِ پاکستان پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے۔ فی الحقیقت یہ اقدامات نواز شریف کی غداری سے کسی طور کم نہیں ،جب اس نے امریکی حکم پر کارگل سے پاکستان کی افواج کو عین اُس وقت واپس بلا لیا تھا،جب وہ بھارتی افواج پر حاوی ہو چکی تھی اور کارگل پر قبضے کے ذریعے بھارت پر سٹریٹیجک برتری حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔
اے مسلمانانِ پاکستان!
اگر زرداری امریکی منصوبے کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو گیا ، تو کشمیرکے مسلمانوں پر بھارتی ظلم و ستم کا شکنجہ مزید سخت ہوجائے گا۔ امریکہ مسلمانوں کی وحدت اور اسلامی علاقوں کے ایک دوسرے سے ضم ہونے کو روکنا چاہتا ہے ، کیونکہ یہ وحدت مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف قوت بخشے گی۔ بے شک ان چھوٹی منقسم کشمیری ریاستوں کے مسلمان کس طرح امن و تحفظ کی زندگی بسر کر پائیں گے ،جب افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی نسبتاً بڑی ریاستوں کے مسلمان بھی ہندو ریاست کے شر ، انتشار اور خونریزی کا مسلسل سامنا کر رہے ہیں؟
علاوہ ازیں کشمیر سمیت برصغیر میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا،جب تک ہندوئوں کو اس خطے میں کسی بھی درجے کی اتھارٹی حاصل ہے۔ ہندو واضح طور پر اُس علاقے کے حق دار نہیں ہیں جو برطانیہ نے تقسیمِ ہند کے وقت ان کی جھولی میں ڈال دیا تھااور نہ ہی اس علاقے کے حق دار ہیں جو برطانیہ کے بعد اب امریکہ انہیںعطا کرنا چاہتا ہے۔ ہندوئوں کی حقیقت یہ ہے کہ اگر انہیں دیگر اقوام پر کسی بھی قسم کی بالادستی حاصل ہو جائے تو وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے، خواہ یہ مسلمان ہوں یا بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ظلم کا شکار اقلیتیں ہوں، جیسا کہ تامل ، سکھ وغیرہ۔ ہندومذہب، مذہبی اشرافیہ اور اچھوتوں ، ہندوئوں اور غیر ہندوئوںکے درمیان زندگی کے معاملات میں فرق کرتا ہے اور امتیازی سلوک برتتا ہے ۔ اورجمہوریت کی فطری خامیوں نے اس صورتِ حال کو مزید سنگین کر دیا ہے کیونکہ جمہوریت ہر معاملے میںاکثریت کو اقلیت پر ترجیح دیتی ہے اور اقلیت کے حقوق کو اکثریت کی خاطر قربان کردیتی ہے۔ پس دنیا کی'' سب سے بڑی جمہوریت -بھارت‘‘میں بسنے والے مسلمان تمام اقلیتوں سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہیں، خواہ یہ ریاستِ گجرات کے مسلمان ہوں یا آسام کے۔ اور جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے ،تو اب تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے یا کسی مقدمہ کے بغیر قید کیا جا چکا ہے ، ہزاروں مسلمان عورتوں کی آبروریزی کی جا چکی ہے،سینکڑوںمسلمانوں کو زندہ جلایا گیاہے یا اپاہج کیا جا چکا ہے ، سینکڑوں مساجد اور ہسپتالوں کو ملیا میٹ کیا جا چکا ہے۔ جمہوریت، آمریت، سرمایہ داریت ، کیمونزم غرض یہ کہ کفر خواہ کسی بھی قسم کا ہو ،اس کی حکمرانی کبھی بھی ظلم کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی بھی قانون کے ذریعے حکمرانی ظلم کا باعث بنتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾
'' اورجو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘﴿المائدہ: 45﴾
اور جب تک ہندو ریاست موجود ہے اور ہندوئوں کو اتھارٹی حاصل ہے کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں ،امن وخوشحالی محض ایک خواب رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿مَّا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٰ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾'
'کافر خواہ اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو، جبکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا، اور اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے‘‘﴿البقرۃ:105﴾
اے مسلمانانِ پاکستان!
صرف اور صرف یہ آپ کا دینِ اسلام ہی ہے کہ جس کے ذریعے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر میں امن و تحفظ قائم ہو گا۔ محمد بن قاسم(رح) کے وقت سے ایک ہزار سال بعدتک اسلام کی حکمرانی برصغیر میں امن و سلامتی کی ضامن رہی ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کو معاشی خوشحالی کے اُس زینے تک پہنچا دیا کہ وہ پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن گیا، اور برطانیہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ وہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اس خطے پر حملہ آور ہو جائے اور پھر اس نے فخر سے اعلان کیا کہ برصغیر اس کے﴿ گرتے ہوئے﴾تاج کا نگینہ ہے۔ اور یہ اسلام ہی تھا جس نے کئی صدیوں تک اس خطے میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو بے مثال ہم آہنگی عطا کیے رکھی۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ برصغیر پر اسلام کی ہزار سالہ حکمرانی کے باوجود یہاں ہندو بدستور اکثریت میں ہیں،جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا دورِ حکمرانی اُس دور میں موجود کفریہ حکومتوں سے یکسر مختلف تھا، جن میں حکمرانوں کے مذہب سے مختلف مذہب رکھنے والے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا ، سپین پر عیسائی حکمرانی اور ایشیائ پر ہلاکو خان کی جابرانہ حکمرانی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ 1857ئ کی جنگِ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف ہندومسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ برطانیہ کی سامراجی سرمایہ دارانہ حکمرانی کی بانسبت وہ اسلامی حکمرانی کے تحت زیادہ بہتر ہیں۔
اے مسلمانانِ پاکستان !
آپ ہی پورے برصغیر کی حکمرانی کے حق دار ہیں، اور آپ اس تبدیلی کا آغاز کرنے پر قادر ہیں جو اِس غیر مستحکم، دِگرگوں اور منتشر صورتِ حال کو بدلنے کے لیے درکار ہے۔ آپ کی فوج مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے،حتی کہ یہ حجم میں امریکہ کی فوج سے بھی بڑی ہے اور بلاشبہ آپ کی فوج امریکی فوج سے زیادہ بہادر اور نڈر ہے اوراس کے جوان جذبۂ شہادت سے سرشار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل، زرعی میدانوں، دریائوں، توانائی کے ذخائر اور معدنیات سے نوازا ہے، جو کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں سے زیادہ ہیں۔ اور پاکستان کے باشندے زندہ ومتحرک ہیں، جو ہر مصیبت اور چیلنج کے وقت مددونصرت کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
آپ خلافت کے قیام پر پوری طرح قادر ہیں اور آپ کے دشمن آپ کی اس صلاحیت سے آگاہ ہیں اور آپ سے خوف زدہ ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے منسلک سینئر صحافی 'سیمور ہرش ‘نے نومبر2009میں ''غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ‘‘کے نام سے ایک وسیع الاثر آرٹیکل لکھا،جو امریکہ کے مقتدر حلقوں میں بڑے پیمانے پر گردش میں رہا ؛اس آرٹیکل میں سیمور ہرش نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را‘ کے سینئر آفیسر کی یہ بات نقل کی ہے: ''ہم پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق فکر مند ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ مُلا اقتدار پر قابض ہو جائیں گے ، بلکہ ہماری فکرمندی پاکستان کی افواج میں موجود اُن سینئر افسران کے بارے میں ہے ، جو خلافت پسند ہیں...کچھ لوگ جن پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں ،وہ اسلامی فوجی قیادت کا تصور رکھتے ہیں ‘‘۔
پس اپنی ذمہ داری کو ادا کرو اور زرداری کواُکھاڑ کر خلافت کے قیام کے ذریعے زرداری کوکشمیر کا سودا کرنے سے روک دو،وہ خلافت جو اُمت کے وسائل کو یکجا کرے گی اور تمام تر برصغیر کو اسلام کے عدل کے سائے تلے لائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿﴿عصابتان من امتی احرز ھما اﷲ من النار: عصابۃ تغزو الھند، وعصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہما السلام﴾﴾
''میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ آگ سے بچائے گا؛ ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا‘‘﴿النسائی و احمد﴾
اورابوہریرہ(رض) نے بیان کیا:
﴿﴿وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ﴾﴾
''رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، اگر میں اس وقت موجود ہوا تو میں اپنا مال اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا،اگر میں قتل کیا جائو ںتو میں افضل شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میںزندہ واپس لوٹا تو ﴿گناہوں سے﴾پاک ہوں گا‘‘﴿النسائی، الحاکم،احمد﴾۔