الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

سانحہ پشاور اور پاکستان میں امریکہ کی خفیہ جنگ

پاکستان کے شہر پشاور میں  واقع آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے وحشیانہ حملے کو ہوئے چند دن گزر چکے ہیں۔ اس حملے میں سرکاری اعلامیہ کے مطابق مرنے والوں  کی تعداد ایک سو اکتالیس ہے جس میں بہت بڑی تعداد اسکول کےمعصوم بچوں کی ہے۔ اس اندوہناک واقع نے پورے پاکستان کو غم و غصے میں مبتلا کردیا اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس وحشیانہ عمل کی شدید مذمت کی جس میں قبائلی علاقوں کی گروہ اورافغانستان کے طالبان کے ملا عمر بھی شامل ہیں۔

 

جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے اور  مقتولین دفنا دیے جاتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا  کردی جاتی ہے تو ہم  ان  وجوہات اور اس سے جوڑے واقعات کے جانب متوجہ ہوتے ہیں جو   اس سانحہ پر منتج ہوئے اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ پھر دوبارہ ویسا ہی سانحہ کبھی واقع نہ ہو۔ ہمسائیہ ملک افغانستان میں امریکہ کی ایک دہائی سے جاری جنگ اور پاکستان کے یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی وفوجی قیادت کا اس امریکی جنگ میں شمولیت کے فیصلے کو جاری و ساری رکھنا اس سانحہ کا پس منظر ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے امریکہ سے تعلقات کا تجزیہ کرنے سے یہ  واضح ہوتا ہے کہ  خطے میں امریکہ کی موجودگی پاکستان کے ہزاروں لوگوں کی  جانیں گنوادینے کی اہم ترین وجہ ہے۔

 

خطے میں امریکہ کی پہلی  سب سے اہم مداخلت افغانستان پر سوویت روس کے حملے کے دوران  آپریشن سائیکلون کے نام سے ہوئی تھی جو کہ مجاہدین کو سی۔آئی۔اے کی جانب سے مسلح کرنے کی مہم کا خفیہ  نام تھا۔ امریکہ نے جہادی گروپوں کے لئے کئی تربیتی پروگرام شروع کیے جن میں کار بم دھماکے، اہم شخصیات کو قتل کرنے اور سرحد کے پار سوویت روس میں داخل ہو کر اس کی تنصیبات پر حملے شامل تھے۔ امریکی سی۔آئی۔اے نے ان مقاصد کے لئے رقم اور دیگر وسائل فراہم کیے اور پاکستان کی آئی۔ایس۔آئی نےان وسائل کو  افغانستان میں سوویت روس کے خلاف گوریلہ جنگ کے لئے استعمال کیا۔ 1989 میں سوویت روس کے چلے جانے کے بعد امریکہ بھی اس خطے سے چلا گیا اور بعد کے معاملات کو سنبھالنے کے لئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ امریکہ نے جہادی نیٹ ورکس کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا لیکن پھر 9/11 کے بعد پاکستان کو حکم دیا کہ اب وہ انہیں ختم کردے۔

 

جنرل مشرف کی قیادت میں پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں جنگ کے لئے فوجی،  فضائی اڈے  اور رسد کی نقل حمل کے لئے زمینی راستے فراہم کیے۔ مشرف نے اپنی سوانح حیات، ان دی لائن آف فائر ، میں لکھا ہے کہ "ہم نے 689 لوگ پکڑے اور 369 کو امریکہ کے حوالے کیا۔ ہم نے اس سے کئی ملین ڈالر کمائے"۔ کابل سے طالبان کو نکال باہر کرنے کے بعد اور عراق میں کھڑی ہونے والی مزاحمت نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی فوجی، سیاسی اور سیکورٹی قوت مشرق وسطیٰ کے جانب مبزول کردے۔ طالبان کو اگرچہ کابل سے نکال دیا گیا تھا لیکن انہیں  شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ پاک افغان سرحد کی جانب چلے گئے تا کہ اپنی شیرازہ بندی کرسکیں۔ امریکہ کی توجہ عراق کی جانب مبزول ہونے کی وجہ سے طالبان کو ایک بار پھر کھڑا ہونےکا موقع ملا اور 2005 تک وہ پوری طاقت کے ساتھ  افغانستان میں واپس آچکے تھے اور بہت سے علاقوں پر دوبارہ اپنی بالادستی کو بحال کررہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان میں اپنے خفیہ آپریشنز کا آغاز کیا۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو شکست دینے ، افغان مزاحمت کو طاقت و مدد فراہم ہونے والی رسد اور راستوں کو ، جو کہ تمام کی تمام پاکستان سے آرہی تھیں، کو کاٹ دینے  اور خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔ افغان مزاحمت کو مدد فراہم کرنے میں وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک، فاٹا میں موجود کئی قبائل اور سوات کا علاقہ شامل تھے۔ اکثر امریکی عہدیداروں نے اپنے بیانات میں پاکستان کے فوجی اہلکاروں، آئی۔ایس۔آئی اور سیاسی حکومت کے  اہلکاروں پر حقانی نیٹ ورک اور دیگر قبائل کے سات تعلقات اور انہیں افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگانے شروع کردیے۔ یہ الزامات 2010 میں ویکی لیکیز کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات میں افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس رپورٹز میں بھی  موجود تھے۔ ان دستاویزات میں افغانستان میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج کے خلاف لڑنے والے عسکری گروہوں کے آئی۔ایس۔آئی سے تعلقات کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ وہی عسکری گروہ تھے جنہیں امریکہ نے  80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت روس کے خلاف استعمال کیا تھا۔

 

شروع میں امریکہ نے پاکستان کی حکومت پر، جس کی قیادت فوجی آمر پرویز مشرف کررہا تھا، دباو ڈالا کہ وہ ان عسکری گروہوں سے، جو پاک افغان سرحد پر موجود ہیں، سے نمٹے اور ان کا خاتمہ کردے۔ لیکن یہ فوجی آپریشن افواج پاکستان اور عوام میں انتہائی غیر مقبول تھے۔ کئی لوگ ان آپریشنوں کو اس نظر سے دیکھتے تھے کہ یہ امریکی جنگ ہے اور کسی صورت پاکستان کی مفاد میں نہیں کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کرے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف ایک جائز جہاد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان آپریشنز کے نتیجے میں بننے والےمہاجرین اور ہلاک ہونے والے مسلمان عورتوں اور بچوں  کی تصاویرنے عوامی رائے عامہ تبدیل کردی اور یہ مطالبہ ہونے لگا  کہ افواج پاکستان ان آپریشنز سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ 2005 کے شروع میں پاکستان نے قبائلی علاقے میں موجود مختلف عسکری گروہوں سے فوجی  آپریشنز کی جگہ مذاکرات کرنے شروع کردیے۔ لیکن یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا کیونکہ وہ بہت تیزی سے افغانستان کے بڑے حصوں سے اپنا کنٹرول  اس وجہ سے کھوتا جارہا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان و افغانستان کے درمیان موجود قبائل سے مدد فراہم ہورہی تھی۔

 

یہ مشرف تھا جس نے 2006 میں امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان میں سی۔آئی۔اے کو خفیہ آپریشن کرنے کی اجازت دی۔ اس معاہدے کے تحت سی۔آئی۔اے کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ طالبان اور القائدہ کی جاسوسی کرنے کے لئے  نجی سیکورٹی ایجنسیوں جیسے بلیک واٹر (زی ورلڈ وائڈ) اور ڈائن کورپ  کی خدمات حاصل کرسکے گی۔ ایک سینئر پاکستانی سیکورٹی عہدیدار نے 2011 میں رائٹر کو بتایا کہ "2009 کے آخر میں جناب حقانی (2011-2008تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر) کو سات ہزار ویزے جاری کرنے کا ایک خصوصی صدارتی حکم نامہ جاری ہوا اور ویسا ہی حکم نامہ وزیر اعظم کے آفس کے تحت بھی جاری ہوا"۔ پاکستانی حکومت نے چار سو امریکیوں کو بغیر آرمی کے سیکورٹی چیک کے ویزے جاری کیے تا کہ سی۔آئی۔اے کو پاکستان میں اپنی موجودگی کو بڑھانے میں مدد فراہم ہوسکے۔

 

یہی وہ دور تھا جس کے دوران جب پاکستان کے بازاروں، سکولوں، مزارات، فوجی اڈوں اور شہری علاقوں میں  یکے بعد دیگرےبم دھماکے یا کار بم دھماکے ہونے لگے۔ یہ دھماکے پاکستان میں عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے شروع ہوئے اور پھر فاٹا اور سوات میں فوجی آپریشن کے مطالبے زور پکڑنے لگے۔ بلکہ در حقیقت ہر بڑے فوجی آپریشن سے قبل کوئی بہت بڑی دہشت گردی کے کاروائی بھی لازمی ہوتی تھی۔

پاکستان میں امریکی ایجنٹوں  کی بڑہتی موجودگی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے وارداتوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ آخر سی۔آئی۔اے پاکستان میں کر کیا رہی ہے؟اور پھر سی۔آئی۔اے کا کردار 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے گرفتاری کے بعد بے نقاب ہوگیا۔

 

ریمنڈ ڈیوس 27 فروری 2011 کو اس وقت گرفتار ہوا جب اس نے لاہور کے ایک بس سٹاپ پر دو موٹر سائیکل سواروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ جلد ہی یہ بات بے نقاب ہو گئی کہ ریمنڈڈیوس پاکستان میں سی۔آئی۔اے کی جاسوسی کرنے والی ٹیموں کا ایک حصہ ہے۔ ڈیوس کو جب گرفتار کیا گیا تو اس سے 158 اشیاء برآمد ہوئیں جن میں جاسوسی کے لئےاستعمال ہونے والے آلات اور پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی تصاویر بھی شامل تھیں۔  پنجاب پولیس کے عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ "تفتیش کے دوران اس کے ٹی۔ٹی۔پی کے ساتھ قریبی تعلقات کا انکشاف ہوا، ڈیوس خونی مزاحمت کھڑی کرنے کے لئے پنجاب سے طالبان کے لئے نوجوان بھرتی کرنے میں اہم کردار ادا کررہا تھا"۔ کرائے کے گوریلوں کی ٹیٹو والی لاشیں برآمد ہونے کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے پاکستان میں بد امنی پیدا کرنے کے لئے امریکہ پاکستان کے کئی عسکری گروپوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرچکا ہے۔ڈیوس سے ہونے والی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 330 افراد پاکستان میں بے چینی و بدامنی پیدا کرنے کے لئے خفیہ طور پر کام کررہے ہیں۔

اس بات کے واضح شواہد سامنے آجانے کے بعد کہ پاکستان میں سی۔آئی۔اے اور اس کے لئے کرائے پر کام کرنے والی بلیک واٹر موجود ہے اور بم دھماکوں میں یہی ملوث ہیں ، ان بم دھماکوں کو سیاسی و فوجی قیادت نے ہمیشہ امریکی مطالبات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ان مطالبات میں شمالی  قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شامل تھا اور یہ مطالبہ پاکستان کی عوام کے خلاف سازش کو واضح کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بل آخر ڈیوس کو چھوڑ دیا ۔ ڈیوس اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا تھا جس کے تحت وہ اس ماحول کو پیدا کرچکا تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی و فوجی قیادت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے جواز کو ثابت کرسکیں۔

 

امریکہ کی جانب سے پاکستان کی افواج پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی ایکشن کرانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ مرکزی حکومت سے بدظن ہوجائیں اور آزادی کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں۔ یہ وہ صورتحال ہو گی جس کےامکانات کے متعلق امریکہ نے بات کی اور ایک امریکی پروفیسر مائیکل چوسوڈوسکی(Michel Chossudovsky) نے پاکستان کی بالکانائیزیشن  کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ مستقل مزاجی سے پاکستان میں سماجی، لسانی اور عملی تقسیم کے لئے کام کررہا ہے جس میں پاکستان کا ٹوٹ جانا بھی شامل ہے۔ امریکہ نے یہی جنگی حکمت عملی افغانستان اور ایران کے بھی اختیار کررکھی ہے"۔

 

پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں کچھ غدار میسر آگئے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں افواج پاکستان میں  کئی مخلص فوجی افسران  اور عوام کی جانب سے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے بازاروں میں بم دھماکے کروائے اور سیکڑوں معصوم جانوں کو قتل کردیا۔ امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کرنے سے ہی پاکستان میں عدم استحکام اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔

 

عدنان خان نے مرکزی میڈیا آفس  حزب التحریر کے لئے یہ مضمون  لکھا

پاکستان سے امریکی وجود کا خاتمہ، دہشت گردی کا خاتمہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے امریکہ سے مدد مانگناشہدائے پشاور کے خون سے غداری ہے

جمعرات کو وزارت داخلہ نے امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا کہ وہ جنوبی ایشیا کے سیکورٹی معاملات کے ماہر ین پاکستان بھیجے تا کہ وہ تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی کو انسداد دہشت گردی کا منصوبہ بنانے میں مدد فراہم کرسکیں۔

ہر پاکستانی مسلمان اس بات سے باخبر ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا براہ راست فائدہ امریکہ اٹھاتا ہے ۔ ملک میں کسی بھی بڑے دہشت گردی کے واقعے کے بعد کبھی بھی سیاسی فوجی قیادت میں موجود غدار عوام کے تحفظ میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے بلکہ ان واقعات کو جواز بنا کر تحفظ پاکستان ایکٹ جیسے کالے قوانین بناتے ہیں تا کہ اسلام کے نام پر اٹھنے والی ہر آواز کو ، چاہے وہ کتنی ہی پرامن کیوں نہ ہو، دبا دیا جائے اور امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو نشانہ بنانے کے لئے نئے آپریشن شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس خطے کے مسلمان کسی صورت امریکہ کی غلامی تسلیم کرنے کے لئے راضی نہیں ہورہے جس کی وجہ سے امریکہ سی۔آئی۔اے اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک جیسے اداروں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرواتا ہےاور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار سی۔آئی۔اے اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو ، حساس فوجی تنصیبات سے لے کر قبائلی علاقوں تک میں گھومنے بھرنے ، ایجنٹ بنانے اور ان ایجنٹوں کے ذریعے سے حملے کروانے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ 21 فروری 2011 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پنجاب پولیس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا کہ "ریمنڈ ڈیوس لاہور اور پنجاب کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔۔۔۔پنجاب سے نوجوانوں کو خونی کاروائیوں کے لئے بھرتی کررہاتھا۔۔۔ اس کے ڈیجیٹل کیمرے سے دفاعی تنصیبات کی تصویریں برآمد ہوئیں"۔

پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دہشت گردی کے سرغنہ،امریکہ سےمدد طلب کرنا پشاور میں قتل ہونے والے 141 معصوم بچوں اور بڑوں کے خون سے غداری اور مذاق ہے۔ پچھلے تیرہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جتنا امریکہ کو پاکستان میں قدم جمانے اور آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی گئی اسی قدر دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوا کمی بالکل بھی نہیں ہوئی۔ اس حقیقت کے باوجود راحیل-نواز حکومت کا ایک بار پھر اس ملک کے معصوم لوگوں کے تحفظ کے لئے خونی امریکی بھیڑیے سے مدد مانگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمران اس ملک سے دہشت گردی اور اس کے معصوم عوام کا خون ناحق کو بہنے سے روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

پاکستان کے عوام کو یہ بات جان لینا چاہیے کہ جب تک امریکی سفارت خانہ ، قونصل خانےبند اور سفارتی ، فوجی اور انٹیلی جنس اہلکار ملک بدر نہیں کئے جاتے ، جو دہشت گردی کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور دہشت گردوں کو مادی وسائل فراہم کرتے ہیں، یہ آگ کسی صورت نہیں بھجے گی چاہے کتنے ہی آپریشن یا مذاکرات کر لئے جائیں۔ لہذا عوام کو راحیل-نواز حکومت کو پاکستان سے امریکی موجودگی کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہیے جو اس دہشت گردی کا ماخذ ہے۔

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

تشدد کی کاروائیوں کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ

امریکن پالیسی ویب سائٹ نے 9 دسمبر 2014 کو امریکی قید میں موجود مسلمانوں کے خلاف تشدد کے جرائم کے ارتکاب کے بارے 525 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپرٹ شائع کی!!قیدیوں کا منہ کھلوانے کے لیے "سی آئی اے" کی تشدد کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ میں کونسی نئی بات ہے؟کیا کسی ایسے راز سے پردہ اٹھایا گیا جو پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا ؟کیا اس کے نتیجے میں اوباما ان سینکڑوں ڈرون حملوں پر معافی مانگے گا جن سے افغانستان سے یمن اور صومالیہ سے عراق تک ہزاروں لوگ قتل کیے گئے؟ کیا اس کے نتیجے میں ان تیرہ عرب ملکوں کے حکمرانوں اور ان کے جلادوں کا احتساب ہو گا جنہوں نے سی آئی اے کی نمائندگی کرتے ہوئے تشدد کیا جیسا کہ کہا گیا ہے؟کیا برطانیہ کی حکومت جس نے "سی آئی اے" کی کاروائیوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کوئی نصیحت حاصل کرے گی؟

ایسا کچھ نہیں ہو گا ،امریکی جلادوں کا احتساب نہیں ہو گا،نہ ان کے سربراہوں کا جنہوں نے ان جرائم کے ارتکاب کے احکامات دئیے جو کہ لبرل جمہوری "تہذیب"، جو انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے، کی پیشانی پررسوائی کا داغ ہے ۔۔۔بلکہ سی آئی اے کے تین سابق سربراہوں "مائیکل ھائیڈن "، "جارج ٹینٹ" اور "پورٹر گروس "نے ایک مشترکہ خط لکھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایجنسی نے جو کچھ بھی کیا وہ دہشت گردی سے امریکہ کو بچانے کے لیے کیا۔ امریکہ کے سابق صدر "جارج بش" اور اس کے نائب "ڈیک چینی" نے اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنا یا۔ ڈیک چینی نے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بکواس ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکہ کے اعلٰی ترین دستوری عدالت کے جج انطولین سکالیا نے یہ کہہ کر اس رپورٹ کو دفن ہی کر دیا کہ "ہر ملک کو اپنے اعلٰی ترین مفادات کو پیش نظر رکھ کر انسانی حقوق کے تعین کی مکمل آزادی حاصلہ ہے" اور "نام نہاد " عالمی انسانی حقوق کی طرف اشارہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

جبکہ برطانیہ کی حکومت نے نئی قانون سازی میں جلدی دکھائی جس کی رو سے اساتذہ،ڈاکٹروں اور نرسوں کو مسلمانوں کے خلاف جاسوس بنا یا گیا۔ جب بھی ان میں سے کسی کو شک ہو جائے کہ اس کے سامنے والا مسلمان "شاید"انتہاء پسندانہ افکار کا علمبردار ہے تو قانون کی رو سے وہ اس کی اطلاع دینے کا پابند ہیں۔ یہ "نیشنل سیکیورٹی" کو محفوظ بنانے کے لیے ہے!

یہ کوئی نئی بات نہیں ، ڈاروینی سرمایہ دارانہ آئیڈیولوجی نے پہلے بھی یہی کیا ہے ۔ 1858 میں چارلیس ڈارون نے کہا تھا کہ مستقبل یہ ثابت کرے گا کہ مذہبی لوگوں سے جان چھڑانا گوروں کا حق ہے (کالونیوں میں گوروں کے علاوہ دوسروں کو ختم کرنا)۔ یہی وہ ڈار وینی پالیسی ہے جس کو مغربی استعمار نے ہر مغلوب قوم کی نسل کشی کے لئےنافذ کیا جیسے ریڈ انڈینز سے لے کر افریقی اقوام تک اور کسی جنگی حکمت عملی کے لیے نہیں کیونکہ عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی بلکہ اسی پالیسی کے تحت تباہ کن ہتھیارکے "تجربے" کے لیے جاپان کی پیلی قوم پر ایٹم بم گرایا۔

یہی "مغرب میں گورے استعماری شخص " کی تہذیب ہے ،جس کے زہر کی اب تک بعض جاہل ،فتنہ پرور اور ذہنی غلام اسلامی ملکوں میں وکالت کرتے ہیں اور اس بد گمانی میں مبتلا ہیں کہ استعماری مغرب ہمارے لوگوں کے مصائب کے بارے میں نرم دل اور حساس ہیں حالانکہ یہ حکمران ان کے جلاد ہیں اور انہی کے اسلحے سے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں۔

تمام انسانیت کی نجات صرف اسی میں ہے کہ گلی سڑی اور ظالم تہذیب کو گڑھے میں دفنا یا جائے اور اس کی حامل ریاستوں منہدم کر کے اسلامی تہذیب کی اساس پر ریاست قائم کی جائے ،وہ تہذیب جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت اور رحمت ہے؛نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

پریس ریلیز ایک ناکام حکومت کے پاس ٹریژری بل ، سرمایہ کاری کے سرٹیفیکٹ جاری کرنے اور  لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں

مصر کے مرکزی بنک نے جمعرات11دسمبر2014 کو وزارت مالیات کی جانب سے 7 ارب مصری پونڈ کی قیمت کے ٹریژری بل پیش کیے تا کہ 789 ارب جنیہ( مصری پونڈ) کے عمومی قو می بجٹ میں سے 240 ارب کے بڑے خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ پروگرام کے مطابق مرکزی بنک 3 ارب کے ٹریژری بل 182 دنوں کے لیے جب مزید 4 ارب 364 دنوں کے لئےکی جاری کرے گا جن کی تاریخ اجراء 11دسمبر2014 ہو گی۔

بات یہاں ہی ختم نہیں ہو گی جو بلاشبہ ایک بڑےمعاشی بحران کا پیش خیمہ ہے بلکہ وزارت مالیات رواں مالیاتی سال کے دوسرے چوتھائی میں214.5 ارب جنیہ کی قیمت کے ٹریژری بل اور بانڈ جاری کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ نئے سال کے دوران ٹریژری بلوں پر سودی منافع 61 ارب جنیہ تک پہنچنے کی توقع کی جارہی ہے جبکہ ٹریژری بانڈز کے منافع61.6 ارب جنیہ تک ہو سکتے ہیں. سوئس کنال سرمایہ کاری سرٹیفکیٹ کو ہم ابھی تک نہیں بھولے جس کے ذریعے 12 فیصد کے منافع کے حساب سے 60 ارب جنیہ جمع کیا گیا جن کے منافع کی پہلے قسط کو بھی جو کہ 1.9 ارب جنیہ ہے آج تک ادا نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سود ہے اور سوئس کنال کے پروجیکٹ سے منافع آنے سے پہلے ریاست اس کو ادا کرنے کی ذمہ دار ہے کیونکہ سوئس کنال کے معاشی اثرات مرتب ہونے میں ابھی دوسال لگیں گے۔

حکومت نے پراپرٹی ٹیکس لگانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم آنے والے جنوری سے شروع ہوں گی،جس سے بجٹ خسارے میں مذید کمی کی توقع کی جارہی ہے۔ اس کے باوجود کہ اس ٹیکس کے قانون کے مطابق جن لوگوں کو ان کی رہائشی مکانات میں ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے یعنی دو ملین سے کم قیمت کے مکانات پر مگر ہوا یہ کہ صوبوں میں ٹیکس وصولی کے ذمہ داروں نے بہت سے ایسے لوگوں کو ٹیکس کے لیے چالان تھما دیئے جن کے مکانات کی قیمت اس سے کم ہے جس پر ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے چاہے اس کے نتیجے میں لوگوں کی غربت میں اضافہ ہو۔ یعنی وہ ان کے انتہائی کم املاک جو چار دیواروں اور ایک چھت سے زیادہ نہیں جہاں وہ سر چھپاتے ہیں پر فیس لگاتی ہے جبکہ اس قانون کی رو سے پولیس اور فوج کے ہوٹل اور کلب ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں ۔

سب سے پہلے: جہاں تک ٹریژری بل کا تعلق ہے تو یہ قطعی حرام ہے کیونکہ دو میں سے کسی بھی ایک صورت سے خالی نہیں:

1-یہ سود پر مبنی قرض ہے ۔ قرض وہ ہے جو خریدار (قرضہ لینے والا )بل کی قیمت کے طور پر ادا کرتا ہے اور سود وہ فرق ہے جو خریدار ایک مقررہ وقت پر بل کی قیمت کے طور پر ادا کرتا ہے۔ یہ صفت درحقیقت قرض کی ان صورتوں میں سے ہی ایک صورت ہے جو بفع کو کھینچتا ہےاوریہ شرعی قاعدے کے صریح خلاف ہے کہ "ہر وہ قرض جو نفع کو (اپنی طرف)کھینچے وہ حرام ہے"۔

2-یہ موجل (قرض)کیش کو موجودہ کیش کے بدلے اس سے کم پر بیچنا ہے ۔موجل کیش یہاں وہ ہے جو بل کے برائے نام قیمت میں سے مقرر تاریخ پر حکومت دے گی ۔ موجودہ کیش وہ ہے جوسودے کے وقت خریدار بل کی قیمت کے طور پر ادا کر تا ہے،یوں یہ ایک کیش(کرنسی) کو دوسرے کیش کے بدلے بیچنا ہے۔ اس لیے یہ فروخت اسی بل کی نہیں کیونکہ اس کی کوئی قیمت نہیں یہ اس کیش کی قیمت ہے جس کی نمائندگی بل کر تا ہے ۔اس صورت کے معنی یہ ہوے کہ بل دونوں ہی قسموں میں سود پر مشتمل ہے :زیادتی کا سود کیونکہ مماثلت نہیں قرض کا سود کیونکہ یہ قرض ہے اور مجلس عقد میں دونوں نے اس پر قبضہ نہیں کیا ۔

دوسرا: ٹیکس کے بارے میں

لوگوں پر اندھا دند ٹیکس لگانا ناقابل قبول ہے ۔ ٹیکس لگانے کے لیے اسلام نے شرائط رکھی ہیں جو شرعی شرائط ہیں۔ نبوت کے طرز پر قائم ہونے والی خلافت راشدہ جس کے قیام کے لیےحزب التحریر جدو جہد کر رہی ہے میں ریاست کے لیے مسلمانوں پر ایسے بے سرو پا ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے،جیسے پراپٹی ٹیکس،انکم ٹیکس ،ویلیو ایڈیڈ ٹیکس ،وراثتی ٹیکس وغیرہ جن کو ریاست فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئے روز لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کے لیے متعارف کراتی ہے۔

یہ جاننے کے باوجود کہ یہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح معاملات میں حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرتی اور اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی بلکہ اس نے تو اپنے ہر کاروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام پر حملے کے لیے بے لگام کر دیا ہے بلکہ اس نے لوگوں کا خون بہایا اور حرمتیں پامال کی اور مخالفت کر نے والوں کو قید و بند اور جیلوں میں ڈالا ۔ اس نے جامع الاظہر کے بعض مشائخ اور علماء سے حرام کو حلال کرنے کے فتوے بھی لیے۔ یہ فتاویٰ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق نہیں تھے۔ یہ سب جاننے کے باوجود ہم اس حکومت کے ہر معاملے کے بارے میں حکم شرعی کو بیان کر نے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس حکومت کے بارے میں خاموش رہنا ممکن نہیں،اللہ تعالی فرماتا ہے :

﴿وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ "جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ تم ایسی قوم کو نصیحت کیوں کرتے ہو جس کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا اس کو شدید عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ کہا کہ تمہارے رب کے پاس ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رکھنے کے لیے یا پھر شاید وہ ڈر بھی جائیں " (الأعراف: 165)۔

اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر اور مکمل اسلامی نظاموں کے ساتھ نفاذ کیے بغیر ملک کا اقتصاد تر قی کرنا ممکن ہی نہیں ہےاور یہ نبوت کے طرز پر قائم ہو نے والی ریاست خلافت راشدہ میں ہی ہو سکتا ہے،یہی اللہ نے فرض قرار دیا ہےاوراسی کے لیے ہمیں کام کرنا چاہیے۔ ہمیں عالم اسلام میں نافذ بدبودار سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ دینا چاہیے جس نے ہمیں ذلت اور مغرب کی غلامی کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ نظام ہی لوگوں کا خون چوستا ہے اور اور ان کو شرعی طور پر حرام ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے ،ریاست کے باشندوں کو ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے محنت پر مجبور کر تا ہے جن میں سے 25 فیصد سے زیادہ حکمرانوں کے اخرجات ہیں۔ مزید یہ نظام ملک کے دروازے مغربی سیاسی اور اقتصادی استعمار کے لیے کھول دیتا ہے۔

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِن الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو اگر واقعی تم مومن ہو اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے"(البقرہ:279)

شریف زید

سربراہ مرکزی میڈیاآفس

حزب التحریر ولایہ مصر

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک