الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مہنگائی (افراط زر) کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی مسلسل بڑھتی مہنگائی کے عذاب کا خاتمہ کرے گی

دوسری کرنسیوں کی طرح، جیسے ڈالر، پائونڈ اور فرانک، روپیہ کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیأ کی خرید و فروخت کے لیے درکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جس کو سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد قیمتی دھات سے ہٹ کر جاری کرنے والی ریاست کی طاقت ہو گئی جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیااس لیے کرنسی کی قدر و قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ حکمرانوں کے دعوں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام شرح سود کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ نجی بینک ذیادہ شرح سود حاصل کرنے کی خاطر اپنے کھاتیداروں کی رقم کو سٹیٹ بینک کے مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں۔ چونکہ سٹیٹ بینک کے پاس نجی بینکوں کو اس سود کی ادائیگی کے لیے زائد رقم موجود نہیں ہوتی تو وہ مزید نوٹ چھاپتا ہے تا کہ سود کی رقم ادا کر سکے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرنے کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی حکومت پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔

اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار، جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم، جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاست خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کے میدان۔

آنے والی ریاست خلافت حقیقی دولت کے ذریعے یعنی سونے اور چاندی کے ذریعے کرنسی کو مستحکم اور طاقتور کرے گی تا کہ عمومی افراط زر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جس نے گھروں، صنعتوں اور زراعت کو مفلوج کر دیا ہے۔

نوٹ :اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کی پالیسی

ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق فروری 2013

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

کیانی اور زرداری ابولہب اور ابو جہل کی سنت کی پیروی کر رہے ہیں کیانی اور زرداری کے غنڈوں نے امریکہ کی خوشنودی کے لیے خلافت کے داعیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا

کیانی اور زرداری نے حزب التحریر کے سیمینار سے سعد جگرانوی اور دیگر کو گرفتار کر کے امریکہ کے ساتھ اپنے کھلے اتحاد کا اظہار کرنے کے کے بعد، گرفتار شدگان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے اپنے غنڈوں کو بھیجا۔ ان غنڈوں نے نوید بٹ کے معمر اور انتہائی معزز بہنوئی کو رائفل کے بٹ مارے جس سے ان کا سر پھٹ گیا اور اس زخم کو بھرنے کے ٹانکے لگانے پڑے۔ اسلام آباد کی اس ٹارچر ٹیم کے شرکأکو حزب التحریر کے گرفتار شباب کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل بھی کیانی اور زرداری کے غنڈے لاتوں، گھونسوں، لوہے کے پائپ، لکڑی کے بیٹ اور اس وقت تک دیوار سے لٹکائے رکھنے کی ترکیبیں استعمال کر چکے ہیں کہ جب تک کندھے اپنی جگہ نہ چھوڑ دیں۔ ایک طرف حزب التحریر اور اس کے شباب اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کرتے ہوئے قرآن اور احادیث سناتے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں تو دوسری طرف کیانی اور زرداری اس دعوت کا جواب سچائی کی جگہ لاتوں اور گھونسوں سے کرتے ہوئے ابولہب اور ابو جہل کی سنت کو پورا کرتے ہیں۔

دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا مقصد انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس سے انھیں آج تک کوئی اہم معلومات حاصل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ غدار اس کے باوجود تشدد کا حکم دیتے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ مسلمانوں کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔ نہ یہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں یہ پتہ ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ طاقت کبھی بھی حق کی آاوز کو دبا نہیں سکی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حق مزید واضع اور ظالم پر غالب آجاتا ہے۔ ابولہب اور ابوجہل نے اپنی طاقت کے غرور میں مسلمانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن پھر وہ خود خوفزدہ ہو گئے کیونکہ مسلمانوں کی اللہ سبحانہ وتعالی نے مدد فرمائی اور ابولہب اور ابوجہل کو ہٹا کر مسلمانوں کو اس طرح حکمران بنایا جیسا کہ ابولہب اور ابو جہل کبھی حکمران ہی نہ تھے۔ کیانی، زرداری اور ان کے غنڈے جان لیں کہ اس امت کے پاس ایسے بیٹے ہیں جو راتوں رات موجودہ حکمرانوں کی جگہ امت کی سیاسی اور فوجی قیادت سنبھال سکتے ہیں، جیسا کہ سعد جگرانوی، نوید بٹ اور بریگیڈئر علی خان اور امت ایسی بہادر، جانباز، وفاشعار اور ذہین قیادت کی حقدار ہے۔ یہ ظالم جان لیں کہ خلافت کا قیام قریب ہے اور ان کا یہ ظلم اس کے قربت کی ایک نشانی ہے جو ان کے لیے انتہائی پریشانی اور غصے کے باعث ہے کیونکہ ان کے تمام منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ جلد ہی ان کی آنکھیں خوف سے پھٹی پڑی ہونگی جب انھیں ان کے منہ کے بل لٹا کر خلافت کی عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا تاکہ ایک ایک لات اور گھونسے کا حساب لیا جاسکے جو کہ ان کے مظالم میں سے سب سے کم تر ہیں۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُون

"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے وہ ان کے لیے پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں"

(النور:55)

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

ٹیکس اور اخراجات کے ظالمانہ نظام میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی ربیع الثانی 1434،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول(Revenue) اوراخراجات (Expenditure)کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔

ا)مقدمہ:معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
ریاست کے خزانے میں محاصل کی اچھی اور بڑی مقدار لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ریاست کے امور جیسے افواج،صحت اور تعلیم کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن پاکستان کے موجودہ نظام ،جمہوریت اور آمریت دونوں، کافر استعماری طاقتوں اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدارایجنٹوں کے چھوٹے سے ٹولے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک،آئی۔ایم۔ایف(I.M.F)حکومت کے ساتھ مل کر ٹیکس اور نجکاری کی انتہائی تذہیک آمیز پالیسیاں بناتے ہیں۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کو ان عوامی اثاثوں سے محروم کردیا جاتا ہے جن سے بہت بڑی مقدار میں محصول حاصل ہوسکتا ہے جس کے بعد ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے درکار محاصل کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ان کے لیے ٹیکسوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت دولت بچتی ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔خوراک، لباس،رہائش ،روزگار،وراثت،صحت اور تعلیم وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کو سب کے لیے یقینی بنایا جانا چاہیے لیکن ان پر ٹیکس لگنے سے یہ چیزیں عوام کے لیے ایک آسائش بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ جہاں تک ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کافر استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل کے حل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ حکمرانی میں کون آتا ہے ،آیا وہ جمہوری حکمران ہے یا آمر،اس استعماری نظام میں پاکستان کے محاصل اورا خراجات کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکمرانی میں پاکستان کی معاشی خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئیں اور یہ سلسلہ کیانی اور زرداری کے دور حکومت میں بھی جاری ہے اور آنے والے نئے ایجنٹ حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہے گا۔اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت میں اللہ سبحانہ وتعالی کے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا بلکہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے اور نافذ کرتے ہیں۔


ب)سیاسی ا ہمیت:
ب1۔ معاشرے کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے محاصل سے محروم کردینا
سرمایہ داریت،چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔لہذاتیل، گیس اور بجلی کے قیمتی اثاثوں کے ملکی اور غیر ملکی مالکان ان اثاثوں سے زبردست محاصل اور منافع حاصل کرتے ہیں ۔آنے والی خلافت ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دے کر ان توانائی کے وسائل کو اُن ممالک کو برآمد کر ے گی جن کی مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ دشمنی کا تعلق نہ ہواوریوں کثیر محصول حاصل کرے گی۔اس طرح سے خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امت کی اس دولت کو امت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کمائیں اور حکومت اِن وسائل پر بڑے بڑے ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑ دے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ داریت نجی ملکیت کے تصور کو فروغ دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ادارے کہ جن کو بنیادی طور پر ریاست کی ملکیت میں ہونا چاہیے جیسے اسلحہ سازی،بھاری مشینری کی تیاری ،ذرائع مواصلات،بڑی بڑی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ،ان کا قیام بھی نجی شعبہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں عوامی مفادات کے تحفظ پر آنچ آتی ہے۔ آنے والی خلافت انشأ اللہ ایسے اداروں کو بنیادی طور پر سرکاری شعبے میں قائم کرے گی اور نجی کمپنیاں بھی ان شعبوں میں حکومت کی نگرانی میں کام کرسکیں گی تاکہ آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کو عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دینے کی اجازت دے رکھی ہے اس کا تدارک ہوسکے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نطام میں دنیا کی دولت مند ترین کمپنیاں وہ ہیں جو توانائی، اسلحہ،بھاری مشینری،ادویات اور مواصلات کے شعبوں میں کام کررہی ہیں۔لہذا حکومتوں کے پاس صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کر کے ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار کردے۔اس کے علاوہ پاکستان کے معاملے میں ایجنٹ حکمران، استعماری طاقتوں کے ایمأ پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے مشینری اور دوسرے پیداواری وسائل کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی کی کم شرح ، منافع پر ٹیکسوں کی چھوٹ جس کو واپس بھیج کر غیر ملکی معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کی پیداواری صنعت کو غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں تباہ و برباد کروانا جس کا ثبوت خود حکومت کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار ہیں۔ یہ اعدادوشمار مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں بڑھتے رہے اور زرداری اور کیانی کی حکومت میں بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔
ب2۔بڑی اکثریت پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر انھیں بدحال کیا جا رہا ہے جبکہ چند لوگ مالدار بنتے جارہے ہیں
آئی۔ایم۔ایف(I.M.F) کے زیر نگرانی مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت اور کیانی اور زرداری حکومت کے دوران بھی آمدنی اور اشیأکی خریداری اوران کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ 1987-88میں کل محاصل117,021ملین ،2002-03میں 706,100ملین اور 2011-12میں 2,535,752ملین روپے تھے۔ان محاصل میں سے براہ راست ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس اور کورپوریٹ ٹیکس کی مد میں 1987-88میں 12,441ملین روپے حاصل ہوئے اور پھر 2002-03میں بڑھ کر 153,072روپے اور 2011-12میں 745,000ملین روپے حاصل ہوئے۔ ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہے کہ پہلے براہ راست ٹیکس کل محاصل کا 10فیصد تھے جو بڑھ کر20 فیصد اور پھر کیانی زرادی کے دور حکومت میں 2011-12میں یہ کل محاصل کا 29فیصد تک ہوگئے۔
اس کے علاوہ صرف انکم ٹیکس،جو کہ ریاست کے لیے محصول کا ایک اہم زریعہ ہے، 1987-88میں اس کا کل محاصل میں حصہ17فیصد تھا جو 2002-03میں 32فیصد تک پہنچ گیا تھا۔جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیا جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میںّ آجائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔حکومت نے 2011-12میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000ملین روپے اکٹھے کیے جو 2002-03میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔اس کے علاوہ 2012-13کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000ملین روپے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کررہی ہے جو دراصل مغربی استعماری طاقتوں کے مطالبے کے عین مطابق ہے تا کہ جو تھوڑا بہت معیشت میں باقی رہ گیا ہے اس کو بھی نچوڑ لیا جائے۔
اس کے علاوہ بل واستہ ٹیکسوں کو دیکھا جائے ،جن میں ایکسائز، بین الاقوامی تجارت پر ٹیکس ،سیلز ٹیکس ،گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات پر سر چارج اور اس کے علاوہ سٹامپ ڈیوٹی،بیرون ملک سفر پر ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس شامل ہیں ،کی مد میں 1987-88میں 81,015ملین روپے جو 2002-03میں بڑھا کر 397,875ملین حاصل کئے گئے ۔ صرف سیلز ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم 1988-87میں کل محاصل کا 9فیصد تھی جو مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں 43فیصد تک پہنچ گئی۔اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات،خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔اس قسم کی ٹیکس پالیسی معاشرے میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث بنتی ہے اور معاشرے کاوہ طبقہ جو سیڑھی کی سب سے نچلی جگہ پر ہے اس پالیسی سے اس بری طرح سے متاثر ہوتا ہے کہ وہ کیا کمائے اور کیا خرچ کرے۔ اس صورتحال کے تسلسل کے نتیجے میں زراعت اور صنعتی شعبہ مزید تباہ ہوجاتا ہے اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز مزید بڑھتا ہے ۔اور اگر یہی نظام جاری و ساری رہا تو یہ صورتحال مزید خراب تر ہوتی جائے گی۔ حکومت نے 2011-12میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 2012-13کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500ملین روپے ہے۔
تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مدمیں حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کل محاصل کا 60فیصد بن جاتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے لیے درکار محاصل کا بہت بڑا حصہ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں وہ ضروری اشیأ کی خریداری سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔جہاں تک انکم ٹیکس کا تعلق ہے تو یہ نظام اس ٹیکس کے ذریعے لوگوں کی اس محنت کی کمائی پر ٹیکس لگاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کی تکمیل کی امید رکھتے ہیں بجائے اس کے کہُ ان کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس کی صورت میں بھی ان اشیأ پرٹیکس لگایا جاتا ہے جو کے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کی اشیاء ہیں بجائے اس کے کہ صرف لوگوں کی اس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو ان کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود غدار ایجنٹ حکمران اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ نظام ''عوام کے لئے(for the people)‘‘ ہے۔ اس کے برعکس خلافت میں نہ تو انکم ٹیکس ہوتا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس، کیونکہ بنیادی طور پر نجی ملکیت ''ناقابل دسترس‘‘ ہے۔ٹیکس صرف اس فاضل دولت پر لگتا ہے جو بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے اور یہ ٹیکس بھی ریاست انتہائی سخت شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی عائد کرسکتی ہے۔کم ٹیکس کی یہ پالیسی اس لیے ممکن ہوتی ہے کیونکہ ریاست خلافت کے پاس عوامی اور ریاستی اثاثوں سے محاصل کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید محصول کے لیے زرعی اور صنعتی شعبے سے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے منفردقوانین کا ایک نظام بھی موجود ہوتا ہے ۔
ب3۔اخراجات میں استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کو فوقیت دی جاتی ہے
امت کو اس کے محاصل کے ذرائع سے محروم ، کمانے اور خرچ کرنے کی اہلیت کو محدود کرنے کے بعد ، حکومت استعماری ممالک سے سودی قرضے حاصل کرتی ہے ۔یہ قرضے بنیے سے حاصل کردہ قرضوں کی مانند ہوتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھنا ہوتا ہے تا کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے نام پر اس کے اثاثوں کو ہتھیالیا جائے اور اس کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا اور مغربی استعمار کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔پاکستان کا کل قرضہ 1990-2000کے عرصے میں 15,451ارب ڈالر تھا جبکہ اس عرصے کے دوران 36,111ارب ڈالر ادا بھی کیے گئے۔کئی دہائیوں سے پاکستان ہر سال 3.66بلین ڈالر سالانہ ادا کررہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا بیرونی قرضہ دوگنا ہوچکا ہے اورہر گزرتی دہائی کے ساتھ صورتحال بد ترہوتی جارہی ہے۔ وزارت مالیات کے پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مارچ 2012کے اختتام پرپاکستان کے ذمہ صرف ایک استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف (I.M.F)کا قرضہ8.1ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔اب پاکستان اپنے بجٹ کا 35فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے جو 2011-12کے 30ارب ڈالر کے بجٹ میں 11ارب ڈالر بنتی ہے۔یہ وہ رقم ہے جس کو معیشت سے نکال لیا گیا ہے حالانکہ جس کے ذریعے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے اور ان کوکئی سہولیات پہنچائی جاسکتی ہیں۔یہ ہے عالمی انصاف کہ پاکستان کی طرح دنیا کے کئی ممالک اپنے قرضوں سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سود اور استعماری ممالک کی شرائط کی وجہ سے ان کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔


د)قانونی ممانعت: معیشت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنا
د1۔محاصل اور اخراجات ایک نظر میں
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیادبنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگاسکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی اور دوسرے اسلام کے وہ منفرد قوانین جو محاصل کے حصول کو یقینی بناتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا بلکہ اس کی منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے ۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ148میں اعلان کیا ہے کہ''ریاستی بجٹ کے دائمی ابواب (مدات) ہیں جن کو شرع نے متعین کیا ہے۔ جہاں تک بجٹ سیکشنز کا تعلق ہے یا ہر سیکشن میں کتنا مال ہوتا ہے یا ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سیکشن میں موجود مال سے متعلقہ امور کا تعلق خلیفہ کی رائے اور اجتہاد پر منحصر ہے‘‘ ۔اور دستور کی دفعہ 149میں لکھا ہے کہ '' بیت المال کی آمدن کے دائمی ذرائع مندرجہ ذیل ہیں: فئی ،جزیہ ،خراج ، رِکاز کا خمس (پانچواں حصہ) اور زکوٰۃ۔ ان اموال کو ہمیشہ وصول کیا جائے گا خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو‘‘۔اور دفعہ 151میں لکھا ہے کہ ''وہ اموال بھی بیت المال کی آمدن میں شمار ہوتے ہیں جو ریاست کی سرحدوں پر کسٹم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں یا عوامی ملکیت اور ریاستی ملکیت سے حاصل ہوتے ہیں یا ایسی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو یا پھر مرتدوں کے اموال ‘‘۔
د2۔صنعتی شعبہ محاصل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے
خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہو گا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے جس کے نتیجے میں دولت کی گردش کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 143میں اعلان کیا ہے کہ''مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ زکوٰۃ ان اموال پر لی جائے گی جن پر زکوٰۃ لینے کو شریعت نے متعین کر دیا ہے جیسا کہ نقد ی،تجارتی مال ، مویشی اور غلہ۔ جن اموال پرزکوٰۃ لینے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ،ان پر زکوٰ ۃ نہیں لی جائے گی۔ زکوٰۃ ہرصاحب نصاب شخص سے لی جائے گی خواہ و ہ مکلف ہو جیسا کہ ایک عاقل بالغ مسلمان یا وہ غیر مکلف ہو جیسا کہ بچہ اور مجنون۔ زکوٰۃ کو بیت المال کی ایک خاص مد میں رکھا جائے گااور اس کو قرآن کریم میں وارد ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد کے علاوہ کہیں اور خرچ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
د3۔زراعت:خراج محصول کا طریقہ ہو گا لیکن یہ کاشتکاروں پر بوجھ نہیں ہو گا
اسلام کے زیر سایہ ،برصغیر ہندوستان نے،جو کے ایک زرعی معاشرہ تھا، دنیا کی کل پیداوار کی25فیصد پیداوار دی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خراج کا نظام تھا۔خراج کے نظام کے تحت زمین کی ملکیت تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے لیکن اس زمین کو استعمال کرنے کا حق اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت زمین کو کاشت کرنے والے کی ہوتی ہے۔لہذا جو اس زمین کو کاشت کرتا ہے وہی اس زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا مالک بھی ہوتا ہے۔ اس نظام نے پیداوار میں اضافہ کیا اور دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ اس زمین کے استعمال کے عوض اور اس زمین کی استعداد کے مطابق مسلمانوں نے اس زمین سے ریاست کے لیے محصول حاصل کیا ۔ برطانوی راج میں جب سرمایہ دارانہ نظام رائج کیا گیاتو کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے، پھر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ سودی قرض حاصل کریں جس کے نتیجے میں کاشتکارقرضوں تلے دب گئے اور آخر کار انھیں اپنی زمینیں بیچنی پڑیں۔ اس کے علاوہ استعماری طاقت نے اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے زمینوں پر زبردستی قبضہ بھی کیا۔ آج بھی زرعی شعبہ سرمایہ داریت کی وجہ سے نقصان برداشت کررہا ہے اگرچہ اس تمام صورتحال کے باوجودپاکستان کی بچ جانے والی زراعت کئی شعبوں میں اب بھی دنیا میں بے مثال ہے اور اس میں اتنی استعداد ہے کہ وہ تیزی سے پھل پھول سکے۔ کاشتکاروں پر زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے کھاد،بیج،مشینری اور تیل پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ جس کے بعد انھیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار بیرون ملک برآّمد کریں۔ اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان ہوتا ہے اور پاکستان کو وہی اشیاء مہنگے داموں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو وہ خود بہت بڑی تعداد میں پیدا کرسکتا ہے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ145میں اعلان کیا ہے کہ''خراجی زمین پر خراج اس زمین کے مطابق لیا جائے گا جبکہ عشری زمین پر زکوٰۃ اس کی عملی پیداوار پر لی جائے گی‘‘۔
د4۔ریاست کو ٹیکس لگانے کابنیادی اختیار نہیں ہے بلکہ صرف چند کڑی شرائط کے ساتھ اُسے ٹیکس لگانے کا اختیار ہے
اسلام نے افراد کی نجی ملکیت کوتحفط فراہم کیا ہے اور بغیر شرعی جواز کے اس میں سے کچھ بھی لینے سے منع فرمایا ہے لہذا ریاستِ خلافت میں انتہائی مجبوری میں ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور وہ بھی کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد جیسے اگر جو محصول شریعت نے عائد کیے ہیں اگر وہ ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو صرف اُن افراد کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات اور آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے۔ لہذا اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگوں کی محنت کی اُس کمائی پر ٹیکس نہ لگے جو ان کی بنیادی ضروریات اور کسی حد تک آسائشوں کی پورا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے جبکہ سرمایہ داریت میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی صورت میں کم صاحب حیثیت کے لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کا ٹیکس کا نظام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دولت معاشرے میں گردش کرے نہ کہ چند ہاتھوں میں جمع ہوجائے۔ پاکستان میں سب سے امیر تیس افراد کی دولت تقریباً 15ارب ڈالر ہے اور یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ظاہر کیے گئے ہیں۔ ان افراد پر صرف 30فیصد ٹیکس ریاست کے لیے 4.5ارب ڈالر کے محصول کا باعث بنے گا۔ لہذا ہنگامی صورتحال میں دولت مندوں پر عائد کیے گئے اس ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم پاکستان کی زوال پزیر صنعتی شعبے کی بحالی پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست خلافت اپنے عوام سے مختلف منصوبوں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر قرضہ بھی حاصل کرسکتی ہے اور یہ امت اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے آج بھی بغیر کسی ریاستی تعاون کے خود کئی ایسے منصوبوں پر مال خرچ کررہی ہے۔حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ150میں اعلان کیا ہے کہ'' بیت المال کی دائمی آمدنی اگر ریاست کے اخراجات کے لیے ناکافی ہو تب ریاست مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہ ٹیکس کی وصولی ان امور کے لیے ہے:۱) فقراء، مساکین، مسافر اور فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے بیت المال کے اوپر واجب نفقات کو پورا کرنے کے لیے۔ب) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جنہیں پورا کرنا بیت المال پر بطورِ بدل واجب ہے جیسے ملازمت کے اخراجات، فوجیوں کا راشن اور حکام کے معاوضے۔ج۔) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو مفاد عامہ کے لیے بغیر کسی بدل کے بیت المال پر واجب ہیں۔ جیسا کہ نئی سڑکیں بنوانا، زمین سے پانی نکالنا، مساجد ، اسکول اور ہسپتال بنوانا۔د) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو بیت المال پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے واجب ہوں جیسے ہنگامی حالت میں قحط ، طوفان اور زلزے وغیرہ کی صورت میں‘‘۔اور دفعہ 146میں لکھا ہے کہ ''مسلمانوں سے وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کی شرع نے اجازت دی ہے اور جتنا بیت المال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ شرط یہ ہے کہ یہ ٹیکس اس مال پر وصول کیا جائے گا جو صاحبِ مال کے پاس معروف طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد ہواور یہ ٹیکس ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی بھی ہو‘‘۔ اس کے علاوہ دفعہ 147میں لکھا ہے کہ '' ہر وہ عمل (کام) جس کی انجام دہی کو شرع نے امت پر فرض قرار دیا ہے اگر بیت المال میں اتنا مال موجود نہ ہو جو اس فرض کام کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو تب یہ فرض امت کی طرف منتقل ہوگا۔ ایسی صورت میں ریاست کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ امت سے ٹیکس وصول کر کے اس ذمہ داری کو پورا کرے‘‘۔
د5۔اخراجات کے رہنما اصول
خلافت ریاستی اموال، عوامی اثاثوں کے ذریعے،زراعت اور صنعتوں کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبائے بغیر اور دولت مندوں کی فاضل دولت پر ٹیکس لگا کر بہت بڑی تعداد میں محصول اکٹھا کرتی ہے۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے اسلام ریاست کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر خرچ کرے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے۔ یقینی طور پر خلافت استعماری طاقتوں کی مجرم تنظیموں اور اداروں کو مزید کوئی رقم ادا نہیں کرے گی جبکہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم دیگر کئی ممالک کی طرح اصل رقم کئی بار ادا کرچکے ہیں۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ152میں اعلان کیا ہے کہ''بیت المال کے نفقات (اخراجات)کو چھ مصارف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔(۱) وہ آٹھ مصارف جو زکوٰۃ کے اموال کے مستحق ہیں ان پر زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جائے گا۔ (ب) فقراء ، مساکین، مسافر اورجہاد فی سبیل اللہ اور قرضداروں پر خرچ کرنے کے لیے اگر زکوٰۃ کے شعبے میں مال نہ ہو تو بیت المال کی دائمی آمدنی سے ان پر خرچ کیا جائے گا۔ اگر اس میں بھی کوئی مال نہ ہو تو قرضداروں کو توکچھ نہیں دیا جائے گالیکن فقراء ، مساکین، مسافر اور جہاد کے لیے ٹیکس نافذ کیاجائے گا ۔اگرٹیکس عائد کرنے سے فساد کا خطرہ ہو تو قرض لے کر بھی ان حاجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔(ج) وہ اشخاص جو ریاست کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے ملازمین ،افواج اور حکمران ،ان پر بیت المال کی آمدن میں سے خرچ کیا جائیگا۔ اگر بیت المال میں موجود مال اس کام کے لیے کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لگایا جائے گا اور اگر فساد کا خوف ہو تو قرض لے کر یہ ضروریات پوری کی جائیں گی۔ (د) بنیادی ضروریات اور مفادات عامہ جیسے سڑکیں، مساجد، ہسپتال، سکول وغیرہ پر بیت المال میں سے خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں اتنا مال نہ ہو تو ٹیکس وصو ل کرکے ان ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔(و) اعلیٰ معیارِ زندگی مہیا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا اگر بیت المال میں مال کا فی نہ ہو توپھر ان پرکچھ خرچ نہیں کیا جائے گا اور ایسے اخراجات کو مؤخر کیا جائے گا۔(ہ) اتفاقی حادثات یا ہنگامی حالات جیسے زلزلے، طوفان وغیرہ کی صورت میں بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا۔ اگر بیت المال میں مال نہ ہو تو قرض لے کر خرچ کیا جائے گا پھر ٹیکس وصول کر کے وہ قرض ادا کیے جائیں گے‘‘۔


نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیی حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات143سے 152تک سے رجوع کریں۔ متعلقہ آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm


ج)پالیسی :محصول اور اخراجات کا مقصد دنیا کی صف اول کی ریاست کو مزید آگے لے جا نا
ج1۔ تیل،گیس اور بجلی کے عوامی اداروں،اس کے علاوہ ریاستی ملکیت میں چلنے والے بھاری مشینری اور اسلحے کے کارخانوں اور مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں محاصل کا حصول۔
ج2۔صنعت اور زراعت کے شعبوں کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس کا خاتمہ جو ان کی پیداوار کو مفلوج کرتا ہے۔محصول ،صنعتی شعبے سے پیدا ہونے والی اشیأ کی تجارت پر ہونے والے منافع اور زراعت سے ہونے والی پیداوار پر لیا جائے گا۔
ج3۔ مغربی سرمایہ دارانہ اداروں کے قرضوں کی واپسی ختم کردی جائے گی کیونکہ ان قرضوں کو ظالمانہ سود سمیت کئی بار اداکیا جاچکا ہے ۔اخراجات کو مسلمانوں کی ضروریات اور ان کے مفادات کے حصول کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا جس میں طاقت اور خوشحالی کے لیے مضبوط صنعتی شعبے کے قیام کے لیے خرچ کرنا بھی شامل ہے۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی

 

Read more...

مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِى ٱلأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعاً "جو شخص کسی کو ناحق قتل کر دے اور زمین میں فساد برپا کرے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا" (المائدہ:32) حزب التحریر کوئٹہ کے وحشیانہ بم دھماکے ک

حزب التحریرولایہ پاکستان کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے اور اس کے نتیجے میں 89 سے زائد افراد کی ہلاکت، سیکڑوں زخمیوں اور املاک کے نقصان کی شدید ترین مذمت کرتی ہے۔

اس قسم کے بزدلانہ اور غیر انسانی حملے مسلمان کبھی بھی نہیں کر سکتے۔ مسلمان جو اللہ کی کتاب پر ایمان رکھتا ہے اللہ کے اس فرمان پر بھی قطعی یقین رکھتا ہے:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً

"اور جو کوئی کسی مؤمن کو قصداً قتل کر دے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیار رکھا ہے" (النسأ:93)

مختلف مسالک کے مسلمان صدیوں سے اسلامی ریاست کے سائے تلے ایک ساتھ رہتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی بھی شافعی نے اپنے حنفی مسلمان بھائی کو یا حنفی نے کبھی اپنے جعفری مسلمان بھائی کو صرف مسلکی اختلاف کی بنا پر قتل کیا ہو۔ موجودہ صورتحال دراصل مغربی استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ ہے جنھوں نے مسلمان ممالک پر حملہ اور قبضہ کیا اورمسلمانوں کے درمیان قومیت، نسل اور فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرتیں پیدا کیں۔ اسلام قوم پرستی، نسل پرستی اور فرقہ پرستی کی شدید مذمت کرتا ہے اور تمام انسانوں کو آدم علیہ اسلام کی اولاد اور مسلمانوں کو ایک امت قرار دیتا ہے۔ مسلمان صدیوں سے نہ صرف اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہتے آئیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے زیر سایہ رہنے والے ذمی (اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری) جیسے ہندو اور مجوس بھی کبھی بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری یا ظلم کا شکار نہیں ہوئے ہیں جن کا عقیدہ ہی مسلمانوں سے یکسر مختلف ہے۔

حزب التحریر ایک بار پھر اس بات پر زور دیتی ہے کہ ان وحشیانہ حملوں کے پیچھے امریکہ ہے جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں، زرداری اور کیانی کی حمائت اور اپنے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان بھر میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ حزب التحریر تمام اسلامی تحریکوں سے کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ان واقعات کے ذریعے مغربی استعماری طاقتیں مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس ملک میں اپنے استعماری اہداف کو پورا کرسکیں اور پاکستان اور افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کو مزید مضبوط کرسکیں۔ لہذا ہم اسلامی تحریکوں میں موجود اپنے بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں اور ان سے نجات کے لیے حزب التحریر کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ ہم اسلامی تحریکوں میں موجود اپنے بھائیوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم نے ان وحشیانہ درندگی کے واقعات کے اصل ذمہ داروں یعنی امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت مین موجود اس کے ایجنٹوں کی شدید ترین مذمت نہیں کریں گے تو امریکہ اور اور مغرب اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہم سب کی کامیابی، خوشحالی اور تحفظ اسی میں ہے کہ ہم مسلمانوں کے مقدس خون سے کھیلنے والے امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹوں سے نجات حاصل کریں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کی مدد و معاونت کریں۔ انشأ اللہ خلافت مغربی استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں سے مسلمانوں کے خون کا بھر پور بدلہ لے گی۔

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کو راولپنڈی میں گرفتار کر لیا گیا غدارحکمران آنے والی خلافت کو روکنے کے لیے جنگ کر رہے ہیں کیانی زرداری حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ افواج پاکستان کے لیے اصل "اندرونی خطرہ" ہیں

آج 17 فروری 2013 کو کیانی۔زرداری حکومت کے غنڈوں نے راولپنڈی شہر میں حزب التحریر کے ایک سیمینار پر چھاپا مارا اور پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کو گرفتار کر لیا۔ سعد جگرانوی کی ایک بار پھر گرفتاری اس وقت عمل میں آئی ہے جب انھوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں خلافت کے موضو ع پر لوگوں کو ابھارنے کے لیے عوامی مقامات پر کئی کارنر میٹنگز اور اجتماعات سے خطاب کیا۔ اس کے بعد آج ہونے والے سیمینار میں سعد جگرانوی نے کیانی کے فوجی نظریے کی بھر پور مخالفت کی اور اس نظریہ کو امریکہ کے سامنے غلامی، قومی تذلیل اور ہتھیار پھینک دینے کا نظریہ قرار دیا۔ انھوں نے لوگوں کو یاد دہانی کرائی کہ جب امت نے کفار کی براہ راست غلامی کو مسترد کر دیا تو ان کفار نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے "اتحادی" کا تصور اپنایا تاکہ امت یہ سمجھتی رہے کہ ہم امریکہ کے غلام نہیں بلکہ اتحادی ہیں۔

دشمن ممالک کے ساتھ یہ اتحاد برابری کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد مسلمانوں کو بلواسطہ طریقے سے غلام بنانا ہوتا ہے۔ یہ اسی "اتحادی" تصور کا نتیجہ ہے کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان میں گھسا بیٹھا ہے۔ یہی وہ "اتحادی" کا تصور ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت کے دروازے پر امریکہ نے افغانستان میں ایک کٹھ پتلی کرزئی کو حکمران بنا کر بٹھا دیا ہے۔ یہ اسی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلأ کے نام پر افغانستان میں مستقل اڈے بنا رہا ہے۔ اس سیمینار میں اس بات کو واضع کیا گیا کہ افواج پاکستان کو اصل "اندورنی خطرہ" غداروں کے چھوٹے سے ٹولے سے ہے جو پاکستان کو تباہی کے راستے پر لے جارہے ہیں۔

سیمینار پر یہ حملہ کروا کر کیانی اور زرداری نے اس بات کو ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ یہ پاکستان کو تبا ہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں۔ بجائے اس بات کہ یہ غدار ایک طرف ہو جائیں تا کہ پاکستان کی عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران خلافت کے قیام کے ذریعے اس خطے میں اسلام کی حکمرانی کو بحال کریں، یہ حکومت خلافت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف لوگوں پر حملے کر کے خود کو اس خطے میں امریکی راج کو برقرار رکھنے والا رکھوالا کتا ثابت کر رہی ہے۔ ان کو جان لینا چاہیے کہ ان کا ہر ایسا عمل ان کے خلاف غصے کو مزید جلا بخش رہا ہے اور ان کے خاتمے کے وقت کو قریب کر رہا ہے۔ ان کو جان لینا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان کے کسی بھی عمل سے بے خبر نہیں اور جلد ہی ان کو ان کی گردنوں سے پکڑ لیا جائے گا۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

نا انصافوں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھ وہ تو انھیں اس دن تک مہلت دیے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

(ابراھیم:42)

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول (Revenue) اور اخراجات (Expenditure) کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔

معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ سرمایہ داریت، چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو، نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کر دیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔

ئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے زیر نگرانی آمدنی اور اشیأکی خریداری اور ان کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور کل حاصل ہونے والے محاصل (Revenue) میں ان ٹیکسوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت نے 11-2012 میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000 ملین روپے اکٹھے کیے جو 03-2002 میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیاہے جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ اس کے علاوہ 13-2012 کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000 ملین روپے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کل محاصل میں صرف سیلز ٹیکس کاحصہ 9 فیصد بڑھ کر 43 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات، خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔ حکومت نے 12-2011 میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030 ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 13-2012 کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500 ملین روپے ہے۔

جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میں آ جائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔ یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیاد بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگا سکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی۔ خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہوگا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔

نوٹ : اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

ٹیکس اور اخراجات کے ظالمانہ نظام میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی
ربیع الثانی 1434،بمطابق فروری 2013

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت کا اظہارکر کے کیانی مسلسل امریکہ کی اطاعت قبول کررہا ہے امریکی جنگ کو جاری رکھنے سے انکارکرنے کی ضرورت ہے

7فروری 2013کو افغانستان پر قابض امریکی افواج کی قیادت سے سبکدوش ہونے والے امریکی جنرل جون ایلن سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

پاکستان کو مزید کچھ کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟کیا اس امریکی فتنے کی جنگ کا وبال مسلمانوں کے لیے کافی نہیں!قبائلی علاقوں میں ہزاروں افواج پاکستان کی افسران اور جوان مارے جاچکے ہیں صرف اس لیے کیونکہ امریکہ خود اپنی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ کیا ہزاروں مسلمان افسران اور سپاہیوں کی ہلاکت کافی نہیں؟ ہزاروں مسلمان شہری امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے قاتلوں اور جاسوسوں کی کاروائیوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں جن کے قتل کی ذمہ داری قبائلیوں پر ڈال دی جاتی ہے تا کہ مسلمانوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ماحول کو سازگار رکھا جائے۔ کیا ہزاروں مسلمان شہریوں کی اس امریکی جنگ میں ہلاکت کافی نہیں ہے؟ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیا اس قدر معاشی نقصان کافی نہیں؟ جنرل کیانی !اس قدر جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد آخر مزید امریکی جنگ میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟

پاکستان کی مسلم افواج کو اپنی قیادت میں بہادر اور دیدہ ورافسران کی ضرورت ہے۔افواج پاکستان میں ایسے بہادر اور دیدہ ور افسران موجود ہیں لیکن ان کا پیچھا کیا جاتا ہے یا انھیں سزا دی جاتی ہے جیسا کہ بریگیڈئر علی خان کے ساتھ کیا گیا۔ افواج پاکستان میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے بریگیڈئر کو کیانی کے غنڈوں نے اس وقت اٹھایا جب ایبٹ آباد پر انتہائی تزہیک آمیز امریکی حملے کے نتیجے میں کیانی افواج پاکستان کو امریکہ کے سامنے بے عزت کرا چکا تھا ۔وہ واقع جس پراب ہولی ووڈ میں فلم بنا کر پاکستان اور افواج پاکستان کی مزید تذلیل کی جارہی ہے۔پاکستان کی مسلم افواج کو ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرے اور پورے خطے میں اسلام کی بالادستی کو بحال کردے جیسا کہ اس سے پہلے ہزاروں سال تک اس خطے میں اسلام ہی واحد قوت تھی۔ صرف ایسی قیادت ہی پاکستان سے امریکی سفارتی،فوجی اور انٹیلی جنس افراد کی موجودگی کا خاتمہ کرے گی۔ صرف ایسی قیادت ہی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک سے منسلک لوگوں کو پکڑے گی اور ملک سے بے دخل کرے گی۔ صرف ایسی قیادت ہی امریکہ سے انٹیلی جنس ،فوج اور مواصلات کے شعبے میں تعاون کا خاتمہ کرے گی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ افواج پاکستان کے بہادر اور دیدہ ور افسران خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کریں تا کہ امریکی سازشوں کے خاتمے اور اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ
''وہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تا کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کردے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں‘‘۔(الصف:9)


پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

Read more...

کراچی کی خراب صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434ہجری،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے دنیا کے تیسرے بڑے شہرکراچی کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔


ا)مقدمہ:کراچی ایک سیاسی،نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز بننے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن ایک کے بعد دوسرے امریکی ایجنٹ حکمران نے ایک پالیسی کے تحت کراچی کواس کے کردار کی ادائیگی سے روک رکھا ہے۔

کراچی جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے ،آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر،پاکستان کا سب سے بڑا شہر،پاکستان کا سابق دارلحکومت اور ایک ساحلی شہر ہے جس کے پاس دو بندرگاہیں ہیں۔تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔اس شہر میں پشاور اور کابل سے بھی زیادہ پشتون مسلمان بستے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ اور پنجابی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے ،مہاجر،مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے وقت شمالی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پانچ سو سال سے بھی زائد عرصے تک یہ اردو بولنے والے مسلمان برصغیر میں اسلامی حکومت میں اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کے خلاف برپا ہونے والی مزاحمت میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ لہذا کراچی کے مسلمانوں کا نہ صرف پورے پاکستان سے قدرتی رابطہ اور تعلق ہے بلکہ ان کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی تعلق اور روابط ہیں۔ ایک طرح سے کراچی قدرتی طور پر پورے پاکستان کو سیاسی و نظریاتی طاقت فراہم کرتا ہے۔کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہے اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔لیکن اقتدار میںآنے والی ہر حکومت نے کراچی کو اسلام کی قوت سے محروم کرکے اس خطے میں کراچی کو اس کے قدرتی کردار کی ادائیگی سے روکا ہے۔ ایجنٹ حکمرانوں نے اس شہر میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کی اور مسلسل فسادات کے ذریعے اس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔حکمرانوں کے انتہائی منفی کردار کے باوجود کراچی نے ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم تھیں ،چاہے ہندوستان سے جنگ ہو یا اسلامی تحریکوں کی پرورش اور ان کو پروان چڑھانا یا ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران اپنے بھائیوں کی بھر پور مددو معاونت ہویا رفاحی کاموں کے لیے سرمائے کی فراہمی، ہر اہم موقع پر اس شہر اور اس کے رہنے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔


ب)سیاسی قدرو اہمیت:کراچی کو مفلوج کرنے کا مقصد
ب1۔جمہوریت حقیقت میں صرف ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اقتدار میں ہوں کیونکہ وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگوں کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ایک طرف جمہوریت ایک پوری آبادی سے لاتعلق ہو جاتی ہے اور انھیں مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریت اقتدار میں بیٹھے لوگو ں کو دوسروں کے حقوق کو غصب اور ان کے خلاف جرائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصراور گروہوں کوسیاسی جماعتوں کے ذریعے ر یاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔یہ پشت پناہی ریاستی اداروں پر اثرو رسوخ کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہو کر ، اسمبلیوں کے ذریعے قوانین بنوا کر اور انتظامی احکامات کے اجرأ کے ذریعے۔ جمہوریت طاقتور گروہوں ،قانون سازوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تعلق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لہذا اس حقیقت میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر مکمل تحفظ کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ب2۔جمہوری نظام میں لوگوں کا خصوصاً نسل کی بنیاد پر جماعتیں تشکیل دینا جمہوریت کا اہم مظہر ہے کیو نکہ اکثریتی گروہوں کی ضروریات کو اقلیتی گروہوں کی ضروریات پر فوقیت دی جاتی ہے۔پھر یہ لسانی گروہ اپنے حقوق اور ریاست کے مال میں اپنے حصے کے حصول کے لیے دوسرے گروہوں سے لڑتے ہیں۔یہ صورتحال ریاست کے مختلف شہریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے میں اس تقسیم کو قوت فراہم کرتی ہے۔اور کراچی کئی دہائیوں سے لسانی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
ب3۔امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کراچی مسلسل اس دشمنی کی آگ میں جلتا رہے۔وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

د)قانونی ممانعت:دشمنی کا خاتمہ اور کراچی کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد و یگانگت
د1۔جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیااور یثرب کومدینے میں تبدیل کرکے پہلی اسلامی ریاست قائم کی،بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے ،اسلام پر مبنی ہے۔اسلام احکامات اور حرمات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں،جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے ۔لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوءں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ7میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست ان تمام افراد پر جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں مسلم ہوں یا غیر مسلم حسب ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذکرے گی :ا)مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تما م اسلامی احکامات نافذکرے گی۔ب)غیر مسلموں کو ایک عام نظام کے تحت ان کے عقیدے اور عبادت کی آزادی دی جائے گی‘‘۔
د2۔خلافت میں سیاسی جماعتیں کسی لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہیں۔سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی فرد یا حکومتی اہل کار کو غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ21میں اعلان کیا ہے کہ'' حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔کوئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی N.O.C(اجا زت ) کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پارٹی ممنو ع ہو گی جس کی اسا س اسلا م نہ ہو‘‘۔
د3۔معاشرے کی عمومی فضأ اسلام کی بنیاد پر ہو گی جو تمام لسانی اکائیوں کے درمیان مشترک رشتہ ہے۔تعلیمی نظام،میڈیا،حکمرانوں کا طرز عمل اور امت جو ان کا احتساب کرے گی، ان سب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوگی جس کے نتیجے میں لسانیت پر مبنی پست سوچ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اگر چہ علاقائی زبانیں موجود ہوں گی لیکن ریاست کی سرکاری زبان صرف عربی ہو گی جو کہ قرآن کی زبان ہے، اللہ کے رسولﷺ کی زبان ہے اور قانون کی زبان ہے۔اس کے نتیجے میں زبان کی بنیاد پر اس کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے سامنا ہے۔ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 8میں لکھا ہے کہ ''عر بی زبان چو نکہ اسلام کی زبا ن ہے ، اس لیے ریا ستی زبان صرف عر بی ہی ہو گی‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات21,8,7سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :کراچی کو اس کی مکمل استعداد کا حامل بنایا جائے گا
ج1۔اسلام کا مکمل نفاذ ،جو کہ تمام مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک رشتہ ہے،لوگوں کے درمیان ہم آہنگی لائے گا اور کراچی تمام لسانی نفرتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کے زیر سایہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔خلافت اپنے تمام شہریوں کے معاملات کا ،بلا امتیازرنگ،نسل،مذہب،مسلک یا جنس، خیال اور تحفظ کرے گی۔
ج2۔سیاسی جماعتیں اسی وقت تک کام کرسکیں گی جب تک وہ اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گی اور امت کے درمیان لسانی نفرتوں کے بیج نہیں بوئیں گی۔ان کے اراکین غیر ملکی سفارت کاروں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکیں گے اور تمام کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں کو بند کردیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

کراچی ایک سیاسی، نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز ہے۔ کراچی جس کی آبادی دو کڑوڑ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کا سابق دارلحکومت ہے۔ تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔ کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہیں اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔ لیکن امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود ایجنٹوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کراچی مسلسل لسانی نفرتوں کی آگ میں جلتا رہے۔ وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لیں ہیں۔ اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیا اور یثرب کو مدینے میں تبدیل کر کے پہلی اسلامی ریاست قائم کی، بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔ تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے، اسلام پر مبنی ہے۔ اسلام احکامات اور حرومات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔ خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں، جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔ لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے۔ لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس کے علاوہ خلافت میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں ہو سکتی بلکہ سیاسی جماعتیںصرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں، حکومتی اہلکاروں اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو غیر ملکی سفیروں سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے بھی بند کر دیے جائیں گے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی

ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

حزب التحریر کے امیر سے اہل شام اور مخلص انقلابیوں کو پیغام

رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت کے عظیم دن کے حوالے سے حزب التحریر کے امیر جلیل القدر عالم عطا بن خلیل ابو الرشتہ حفظہ اللہ کا اہل شام اور مخلص انقلابیوں کو وڈیو پیغام کامتن ۔اسی مہینے میں آپ ﷺ نے ہجرت بھی کی اوریہی اُس عظیم الشان اسلامی ریاست کے قیام کا مہینہ بھی تھاجس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو عزت ملی،اور یہ ریاست ایک بار پھر بہت جلد قائم ہوگی،انشأ اللہ۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کے مسکن شام میں اپنے لوگوں اورمخلص انقلابیوں کے لیے


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


الحمدالا للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ واصحابی ومن ولاہ وبعد،

(( وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ ))

''انہوں نے تو مکاری کی انتہا کردی لیکن اللہ بھی ان کی مکاری کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ان کی مکاری اس قدرشدید ہے کہ اس سے پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں‘‘۔(ابراھیم:46)


استعماریوں ،ان کے ایجنٹوں اور ان کے دھڑوں کے بدترین لوگ تمہارے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں۔شام میں اسلام کی حکمرانی کو روکنے کے لیے یہ سب یکجان ہو کر مکر اور سازش کر رہے ہیں،تاکہ اسی سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھا جائے اور صرف چہروں کی تبدیلی کے ذریعے لو گوں کو یہ باورکرادیا جائے کہ تبدیلی آ گئی ہے!آج تم دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو کہ امریکہ ،اس کے اتحادی اور اس کے ایجنٹوں نے دونوں اطراف سے تمہارے خلاف بدی کی قوتوں کو اکٹھا کرلیا ہے :ایک طرف سرکش بشار کے جرائم ہیں جن سے انسانوں کے ساتھ درخت اور پتھر تک محفوظ نہیں،جبکہ دوسری طرف سے استنبول،قاہرہ اور پیرس میں پے در پے اجتماعات ہورہے ہیں جس کا مقصد ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے جوسیکولر عوامی جمہوری نظام کی تشکیل کرے گی، جیسا کہ وہ خود کہہ رہے ہیں،تاکہ وہ اللہ کی جگہ حرام اور حلال کا فیصلہ خود کر سکیں،

(وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُون)

''کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں‘‘۔(النحل:161)


انہوں نے اپنے شرانگیز منصوبوں کو تیز کردیا ہے،جس میں قتل وغارت گری ،کلسٹر بموں کی بارش،جلاکر راکھ کردینے والے مائع مواد کے ڈرم،زہریلی گیس کے ساتھ ساتھ وحشت ناک تشددبھی شامل ہے، ایسا تشدد کہ جس سے جنگل کے درندے بھی کانپ اٹھیں۔۔۔ اس سب کچھ کے ذریعے یہ شیاطین اس بات کی امید کرتے ہیں کہ انقلابی اسلام کو زندگی کے معاملات سے الگ کرنے کو قبول کرلیں گے اور اس قاتل ٹولے کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور مسلسل مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں اور یوں مقدس شام میں سیکولر جمہوری نظام کا ڈھانچہ تبدیل نہ ہوگا اور امریکی اثرو رسوخ برقرار رہے گا ۔۔۔لیکن یہ شیاطین یہ بھول گئے کہ شام اسلام کا قلعہ ہے،اسلام کا مسکن ہے۔شام کے لوگ اس باطل کو ہر گز قبول نہیں کریں گے چاہے کچھ عرصے کے لیے وہ اس کے دباؤ میں آہی جائیں اس لیے کہ یہ خباثت انتہائی رسوائی کے ساتھ ذائل ہو نے والی ہے انشأ اللہ۔اس کے علاوہ یہ شیاطین یہ سمجھ نہیں رکھتے کہ حق نے ہر صورت باطل کو شکست فاش دینی ہے۔

(بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذَا ہُوَ زَاہِقٌ وَلَکُمُ الْوَیْْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

''بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ نیست ونابود ہو جاتا ہے اور تم جو کچھ کہتے ہو تمہارے لیے تو بربادی ہے ‘‘۔(انبیأ:18)


اسلام کے مسکن شام کے محترم لوگواوراے مخلص انقلابیو:
یہ جو مکاری اورسا زشیں کر رہے ہیں یہ انتہائی خبیث منصوبہ ہے۔اس منصوبے کا سرغنہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور اس خبیث منصوبے کو ان کے ایجنٹ اور پیروکار نافذ کر رہے ہیں:اندرون ملک قتل وغارت کے بازار کو گرم رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ قومی اتحاد اور عسکری کونسل کو قبول کر لیں۔۔۔یوں اس منصوبے کو نافذ کرنے کے دو زہریلے آلے ہیں ۔ایک طرف سے بشار کی جانب سے قتل وغارت اور تباہی کے جرائم کا زہر اور دوسری طرف سے قومی اتحاد کا زہریلا جال جس کو امریکہ کی راہنمائی میں بنا جارہاہے، تا کہ اپنے ہی بنائے ہوئے موجودہ سرکش کے کردار(بشار) کے خاتمے پر اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ان(قومی اتحاد اور کونسل) کو اس کے تخت پر بیٹھایا جاسکے۔۔۔قومی اتحاد اس اقتدار پر بیٹھنے کی امید رکھ رہا ہے جبکہ سرکش بشار اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے،قومی کونسل کے جال کو اس کی جگہ لینے کے لیے تیار کیا جاچکا ہے ،وہی امریکہ جس نے اس کو بنایاتھا اب اس کی باری ختم ہونے پر اس کے ساتھ بھی وہی کچھ کرے گا جو اس نے اس جیسے دوسرے ایجنٹوں کے ساتھ کیا جب ان کا کردار ختم ہوگیا۔اس کے علاوہ امریکہ یہ امید کر رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ امت آقا اور ایجنٹ دونوں کی نجاست سے ملک کو پاک کرے،وہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاکر شام میں اپنے اثرو رسوخ کو طول دے سکتا ہے۔۔۔اگر اس سرکش بشار کے پاس ذرا بھی عقل ہو تی تو اس عوامی انقلاب کے ابتدائی مہینوں میں ہی موقع کو غنیمت جان کر اپنی جان بچاکراور چہرہ چھپا کر بھاگ جاتا،یہ اس سے بہتر تھا کہ اس کو پکڑا جائے یا ایک ایسے مجرم کے طور پر قتل کردیا جائے جس پر اللہ،اس کے رسول ﷺاور موٗمنوں کی لعنت ہو

((إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى))

''بے شک جو مجرم ہونے کی حالت میں اپنے رب کے پاس آیا تو اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جئے گا‘‘۔(طہ :74)


یہ ایک مکر اور چال ہے جو انہوں نے اس امید پر چلی ہے کہ شام اور اہل شام کو سرنگوں کرنے پر مجبور کیا جائے،تاکہ وہ قومی اتحاد کی حکومت کو قبول کریں،جو اپنی اساس کے لحاظ سے سیکولر اور پر فریب دھوکہ ہو گی !وہ یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ شام اور اہل شام مجرموں کی طرف سے بہائے گئے پاکیزہ خون اور انقلابیوں کی ان عظیم قربانیوں کو بھول جائیں گے۔۔۔لیکن ان کا یہ گمان اللہ کے اذ ن سے باطل ہے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور کانوں سے سنیں گے کہ یہ دھوکے میں پڑے تھے اور ان کی مکاری غارت ہوگئی

(وَمَا کَیْْدُ الْکَافِرِیْنَ إِلَّا فِیْ ضَلَالٍ)

''اور کافروں کی سازشیں گمراہی کے سوا کچھ نہیں‘‘(الغافر:25)۔

 

وہ یہ بھی بھول گئے یا اپنے آپ کو بھولنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ شام میں ایسے مضبوط جوان مرد ہیں جو اپنے رب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں،جن کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی اسوہ حسنہ ہے،جو ان سازشوں پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے ہوئے۔ وہ نہ تو اس ظلم پر خاموش رہیں گے اور نہ ہی کبھی بھی اس مقدس خون اور جدوجہدکو بھولیں گے۔ وہ نہ تو بوڑھوں اور بچوں کی چیخ وپکار کو بھلادیں گے اورنہ ہی پاکباز خواتین،یتیموں اور بیواوں کی آہ وبکا کو نظر انداز کریں گے۔۔۔اس سرکش کے جرائم ان کی قوت میں اور اضافہ کر تے ہیں۔وہ امریکہ اور مغربی استعماری کفّار کے جرائم کبھی بھی نہیں بھولیں گے چاہے یہ قومی کونسل کی اصل حقیقت کو چھپانے کے لیے کتنے ہی جتن کرلیں۔بلکہ یہ تمام جرائم اور شیطانی چالیں ان کی جدو جہد کو تیز تر کررہی ہیں۔

(الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل)

'' ان لوگوں سے جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ لوگ تمہارے خلاف اکھٹے ہو چکے ہیں تم ان سے ڈرو تو یہ ان کے ایمان کو مزید مضبوط کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے لیے کا فی ہے اور بہترین کارساز ہے‘‘(ال عمران :173)


اسلام کے مسکن شام کے محترم لوگو اوراے مخلص انقلابیو:
سرکش بشار اور اس کے کارندے مایوسی کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں جس سے نکلنااب ان کے لیے ممکن نہیں۔جس قدراس کاظلم بڑھ رہا ہے اس کے گردن کے گرد رسی اسی قدر سخت ہو تی جارہی ہے۔اس کے ساتھ لڑنے والے اس کے کارندے ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں،سوائے اس شخص کے جو آنکھوں اور دل کا اندھا ہو۔اب تو روس نے بھی ،جو امریکہ کے فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہاتھا جس نے امریکہ کے ساتھ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ لانے پر اتفاق کرلیاتھا ، دوسروں کی طرح اپنے شہریوں کو شام سے نکالنا شروع کرچکا ہے کیونکہ اس کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اس سرکش کا اقتدار ختم ہو رہا ہے ۔یوں یہ سرکش بشاردنیاوی اور اخروی رسوائی کے داغ لیے سر کے بل کھائی میں گرے گا۔لیکن اے مخلص انقلابیو تم جس حق اور خیر پر ہو اس پر ثابت قدم رہو،عنقریب یا تھوڑی تاخیر کے ساتھ آنے والی اللہ کی مدد سے مطمئن رہو۔اللہ تعالی نے صرف اپنے رسولوں سے ہی مدد کا وعدہ نہیں فرمایا بلکہ مومنوں سے بھی وعدہ کیا ہے

(إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُوا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ)

''ہم ضرور اپنے رسولوں اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی مدد کریں گے‘‘(الغافر:51)۔


لہذااپنی قوت سے حق اور اہل حق کی مدد کرو،اللہ ،اس کے رسول ﷺاور مومنین کو نصرۃ فراہم کرو۔ خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو نصرۃ دو اورخلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکی حمائت کرو۔صرف اسی صورت میں اللہ عز وجل کے سامنے یہ چیزیں تمہاری گواہی دیں گی:وہ پاکیزہ خون جو بہا یا گیا ،وہ پاکدامن عورتیں جن کی عزتیں پامال کی گئیں،وہ خواتین جو بیوہ ہوگئیں،وہ بچے جو یتیم کیے گئے،وہ بوڑھے جن کی تذلیل کی گئی،حتی کہ وہ جانور جن کو ہلاک کیا گیا ۔یہ سب تمہارا ذکر بھلائی سے کریں گے،یہ خون اور جدوجہد رائیگاں اوربے کار نہیں جائیں گے ۔


اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے فرشتے اللہ کے دین ،اس کے حاملین اور نبوت کے طرز پر قائم ہونے والی خلافت کی نصرت کرنے پرتم پر رشک کریں گے۔۔۔ تم دنیا میں بھی عزت مند اور آخرت میں اللہ کی مخلوق میں سب سے بہترین ہستی محمدﷺ ، ان کے خاندان، ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اس کے دین کے سچے اور کامیاب انصارکے ساتھ ہو گے۔۔۔ابن زرارہؓ،ابن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ جیسے رسول اللہ ﷺکے انصار کے ساتھ۔خاص کر یہ عظیم مہینہ ،ربیع الاول کا مہینہ ،جو کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت،بعثت اور مدینہ کی طرف ہجرت کا مہینہ ہے،جس میں اسلام کی عظیم ریاست قائم ہو گئی تھی،اسی مہینے میں آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی سے بھی جاملے تھے،جس کے بعد خلافت راشدہ خلافہ علی منہاج نبوۃ کی ابتداء ہوئی تھی۔۔۔پھر اس کے بعد مورثی خلافت کا دور آیا،اس خلافت کے بعد ''جابرانہ،،حکمتوں کا دور آگیا،جس میں آج ہم ہیں ،اسی کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور ہو گا،رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک صحیح حدیث میں جس کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور الطیالسی نے اپنی مسند میں حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت کی ہے ،بیان کیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یر فعھا اللّہ إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ ، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون، ثم یر فعھا إذا شاء أن یرفعھا ۔ ثم تکون ملکاً عاضاً، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یرفعھاإذا شاء اللّہ أن یرفعھا۔ ثم تکون ملکاً جبریۃ، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یر فعھا إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ، ثم سکت)

''نبوت تمہارے درمیان اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب چاہے گا اس کو اٹھا لے گا،جس کے بعد نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی جو اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،اس کے بعد مورثی خلافت ہوگی وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اس کو بھی اٹھا لے گا جس کے بعد جابرانہ حکومتوں کا دور ہو گا اور وہ بھی اس وقت تک رہیں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر ان کو بھی اٹھا لے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی اور رسول اللہ ﷺ یہ فرماکر خاموش ہوگئے‘‘۔


اس لیے اللہ کے دین کی نصرت کے لیے دوڑو،خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کی نصرت کے لیے جلدی کرو، حزب التحریرکی نصرت کی طرف لپکو،یوں انصار رضوان اللہ علیہم کی سیرت کو دہرایا جائے گا،اسلام اور اہل اسلام عزت مند ہو جائیں گے اور کفر اور اہل کفر ذلیل ہو جائیں گے،

((وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ))

'' اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ کی مدد پر وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے،وہ زبرست اور مہربان ہے‘‘(الروم:5,4)

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک