بسم الله الرحمن الرحيم
- امیر حزب التحریر کی جانب سے ان لوگوں کے نام خط
- جو دعوت کے کام کو آگے لے جانے کا جذبہ رکھتے ہیں
الحمد للہ ، دعائیں اور سلامتی ہو رسول اللہﷺ پر اور ان کے خاندان پراور صحابہ کرام ؓ اور اُن پر جو اُن کی پیروی کرتے ہیں
ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے (فیس بک) صفحے کے ذریعے مجھے پیغامات بھیجے اور انٹرنیٹ پر پھیلائی جانے والی جھوٹی تحریروں کو مسترد کیا۔۔۔
ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے مجھے پیغام بھیجے اورناکثین (عہد توڑنے والوں) کی تصانیف کو مسترد کیا اور حزب کو چھوڑ کر جانے والوں اور جن کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا رہی ہے ان لوگوں کی تصانیف کو مسترد کیا۔۔۔۔۔
ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے مجھے پیغام بھیجا اور اُس شخص کی ناقص تصانیف کو مسترد کیا جس کو اُس کے غرور نے قابو میں کر لیا ہے۔۔۔
ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے مجھے پیغام بھیجے اور جو اس بات پر حیران تھے کہ ان لوگوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کا جھوٹا موقف کس حد تک پہنچ گیا تھا۔۔۔۔
ان تمام لوگوں کو میں سلام کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
پیارے بھائیو،
جب تک اس دنیا میں خیر اور شر موجود ہیں اس قسم کے لوگ اور ان کی پیروی کرنے والوں کی موجودگی کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔۔۔۔ ایسی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔۔۔۔۔ لہٰذا ماضی میں قیادت کمیٹی کے اراکین نے حزب چھوڑی تھی اور حزب کے بانی امیر "ابو ابراہیم" ، اللہ ان پر رحم فرماے، کے طریقہ کار کے خلاف احتجاج کیا تھا۔۔۔۔۔ حزب کے دوسرے امیر "ابو یوسف" ، اللہ ان پر رحم فرمائے، کے دور میں بھی کچھ لوگوں نے اپنے عہد کو توڑا تھا جن کا تعلق امیر کے دفتر سے تھا۔۔۔۔۔ اور آج بھی کچھ لوگ صحیح رستے سے بھٹک گئے ہیں۔۔۔۔ حزب نے انہیں نمایاں مقام اور اہمیت دی تھی لیکن وہ اسے چھوڑ گئے۔۔۔۔۔ حزب نے انہیں اونچا مقام دیا لیکن وہ زمین پر گر پڑے،
وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ
"مگر وہ تو پستی کی جانب مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا"(الاعراف:176) ۔
ان کا بھٹک جانا محض بھٹک جانا ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے اعتماد توڑا اور حقوق کی خلاف ورزی بھی کی: یتیموں کے مال میں خیانت کر کے انہوں نے غداری کی اور ان کا سردار کہتا ہے کہ اُس نے گھر کی قیمت واپس لوٹا دی ہے- جیسا کہ وہ سچا ہےـ اور جس سے وہ یہ بات کر رہا ہے وہ گھر کا مالک نہیں ہے بلکہ وہ شخص ہے جسے سزا دی گئی اور حزب میں واپس بھی نہیں لیا گیا!۔۔۔۔۔۔اور بات ایسے کر رہا ہے جیسے وہ جانتا ہی نہیں کہ گھر کا مالک کون ہے اورجیسے مالکِ مکان نے اُسے اِس معاملے پر بار بار رابطہ ہی نہ کیا ہو! کیا یہ انتہائی حیران کن بات نہیں ہے؟
اور ان میں سے ایک نے اُس سے پوچھا کہ کیا اتنا کافی نہیں کہ امیر آپ سے معافی مانگ لیں اور اس نے جواب دیا کہ اتنا کافی نہیں ہے! تو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولنے سے قبل خود اپنے آپ سے جھوٹ بولا ہے جیسے کہ ایسی کوئی پیشکش کی گئی ہو! وہ ایک غلیظ ، گندے اورگمراہ کُن پروپیگنڈہ کی راہ پر چل رہے ہیں۔ وہ مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ شاید انہیں کوئی ایسا عقل کا اندھا مل جائے جو ان پر یقین کر لے۔ ان میں سے ایک نے کہا: امیر نے شباب کو لکھا کہ وہ فیس بک کو اس آدمی کا صفحہ بند کرنے کے لیے لکھیں۔ اور دوسروں نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا کہ ایسا ہی ہوا تھا اور پھر اس کے بعد وہ صفحہ بند ہوگیا۔ وہ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے امیر اس صفحہ کے جھوٹ سے گھبرا گئے یا اُن کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا! اور اس طرح وہ جھوٹی باتیں گھڑ رہے ہیں۔۔۔۔
اور جس بات کی بنا پر وہ خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور جھوٹ گھڑ رہے ہیں وہ "احتساب" ہے اور وہ معاملات کو ایسے پیش کررہے ہیں جیسا کہ احتساب کا وجود ناپید ہے اور اِسے دیکھا سنا نہیں جا سکتا ۔ انتظامی فائل میں احتساب کا طریقہ تفصیل سے لکھا ہوا ہے جس کو تشکیل دینے والوں میں سے ہی چند لوگ اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔۔۔ ۔ اس کے علاوہ احتساب کے عمل کے اوپر شکایات کا محکمہ بھی موجود ہے جس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مخلص اور متقی ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے ان کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے۔۔۔۔۔ احتساب اور شکایت سننے کا عمل اپنی جگہ پر مکمل طور پر نافذ ہے اور اس کا انکار صرف مجرم کرتے ہیں اور ان کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرتا سوائے انسانوں اور جنوں میں موجود شیاطین کے۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہ وہ اپنی غلطی مانتے ہیں اور نہ خود کوذمہ دار سمجھتے ہیں۔۔۔۔پھر وہ شخص دھمکاتا ہے کہ وہ اب امیر کونرم انداز میں دھمکی دے گا لیکن اس کے الفاظ چھریوں کی طرح تیز ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اس بات کا ادراک نہیں کررہا کہ وہ جو اس سے کہیں زیادہ طاقتور،تعداد میں زیادہ اور متحد ہیں وہ حزب یا اس کے کسی بھی آزاد اور نفیس عہدیدار پر اثر انداز تک نہیں ہوسکے۔۔۔۔ تو بس وہ دھمکی ہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔
پیارے بھائیو،
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس قسم کے لوگوں کی موجودگی کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں سچے داعی کے ساتھ ایسے حقیر لوگ موجود نہ ہوں جو جھوٹ بولیں اور جھوٹ گھڑیں اور یہ دعویٰ کریں کہ وہ حق پر کھڑے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو ۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سچے لوگ اپنے سچ پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں تو ان کے دل غصے سے بھر جاتے ہیں۔ جب وہ لوگوں کی جانب سے سچے لوگوں کی حمایت دیکھتے ہیں اور یہ کہ امت سچے لوگوں کو قبول کررہی ہے تو ان کی روح سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بھر جاتی ہے۔ اور جب وہ جابر کی جانب سے سچے لوگوں پر شدید ظلم و ستم دیکھتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اس دوران مظلوموں پر اپنی گھڑی ہوئی باتیں یہ سوچ کر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب وہ ان پر اپنا اثرورسوخ قائم کرلیں گے تو وہ انہیں سچ کے راستے سے ہٹا کر اس راستے پر لانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ خود چل رہے ہوتے ہیں۔
إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
"اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر تم تکلیفوں کی برداشت اور (ان سے) کنارہ کشی کرتے ہو تو ان کا فریب تمہیں بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا ، یہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر احاطہ کیے ہوئے ہے"(آل عمران:120)۔
پیارے بھائیو، ان کے جھوٹے اور اندھیرے صفحے کبھی نہیں رکیں گے جب تک اس دنیا میں خیر اور شر موجود ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا۔ بدی کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی تہمتوں اور گھڑے ہوئے جھوٹ کے ساتھ الجھے رہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ الجھے رہیں گے تو صرف اسی صورت میں یہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اور اگر ہم ان کے صفحات کو بری چیز سمجھتے ہوئے مسترد کردیں اور انہیں نظر انداز کردیں تو ہم ان کو ان کے ارادوں میں ناکام بنا دیں گے اور وہ اپنے ہی غصے کی آگ میں جل کر مر جائیں گے۔ یہاں میں آپ کو ان کے سیاہ صفحات سے تعلق رکھنے سے منع نہیں کرو ں گا بلکہ نہ تو میں آپ کو حکم دوں گا اور نہ ہی منع کرو گا۔ لیکن جس چیز کا میں آپ کو سختی سے حکم دوں گا وہ یہ ہے کہ اب آپ مجھے ان سیاہ صفحات کے متعلق مزید کچھ نہ بھیجیں۔ میں خود کو امت کی منزل کی جانب بڑھتے قدموں کومزید تیزکرنے اور اس تحریک کی حرمت کے تحفظ کے لیے مصروف رکھنا چاہتا ہوں۔ قافلہ روشنی کی لو تک پہنچ گیا ہے جو اسے اس کے مسکن، خلافت راشدہ تک اس وقت پہنچا دے گی جس کا تعین اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کررکھا ہے۔ اور ہر معاملے کا ایک وقت معین ہے۔۔۔۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہ ہو۔
إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
"اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے"(التحریم:3)۔
آخر میں بھائیو میں یہ کہوں گا کہ آپ نے ان تاریک تحریروں اور اندھے تہمات کو دیکھا۔۔۔۔ مجھ پر یہ بات آشکار ہوئی کہ آپ وہ لوگ ہیں جو سختیوں کا سامنا کر کے مزید مضبوط ہوتے ہیں اور جو آزمائشوں اور تکالیف سے متاثر نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ آپ کے ارادے مزید مضبوط اور مستحکم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ آپ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ* فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ
"(جب) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے لیے ( لشکرِ کثیر) جمع کیاہے تو ان سے ڈرو۔ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا۔ اور کہنے لگے ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ (خوش و خرم) واپس آئے ، ان کو کسی طرح ضرر نہ پہنچا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے "(آل عمران:174-173)۔
اور آخر میں اس بات پر زور دوں گا جس کا میں نے پہلے بھی تذکرہ کیا کہ: " مجھے ان سیاہ صفحات کے متعلق مزید کچھ نہ بھیجیں"۔ ان جھوٹوں کے متعلق پریشان نہ ہوں اور نہ ہی ان کی جانب سے متوقع تہمتوں کے طوفان سے پریشان ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ، جو سب سے زیادہ طاقتور ہیں، اپنے ایمان والوں کی حفاظت فرماتے ہیں۔
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ
"اللہ تعالیٰ تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی خیانت کرنے والے اور کفران نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا"(الحج:38)۔
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس دنیا میں ہم پر خلافت کا سایہ عنایت فرمائیں تا کہ ہم اس کو دیکھنے والے اور اس کے سپاہی بن جائیں، اور یہ کہ آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم پر اپنا سایہ فرمائیں وہ دن جب اللہ کے سائے کہ علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا اور یہ کہ ہمیں اپنے پاس سب سے زیادہ عزت والی نشست عطا فرمائے۔ اور پھر ہم دونوں جہانوں میں کامیاب ہو ں گے اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
جمعہ کی رات 18 روبیع الثانی 1430 ہجری
بمطابق 5 جنوری 2018