الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 19 جنوری 2018 

 

- پاکستان کے حکمرانوں کی بھارت کے لیے "تحمل" کی پالیسی اسے خطے کی طاقت بننے میں مدد فراہم کررہی ہے جس کا وہ حق دار نہیں ہے

- ہندو جنرل کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو ایک  جھوٹ  اور دھوکہ قرار دے

- امریکہ طالبان سے بات چیت کے لیے شدید بے قرار ہے تا کہ اس کے قبضے کو قانونی طور سیاسی حیثیت مل جائےاور پاکستان کے حکمران اس کی مدد کررہے ہیں

 

تفصیلات: 

 

پاکستان کے حکمرانوں کی بھارت کے لیے "تحمل" کی پالیسی اسے خطے کی طاقت بننے میں مدد فراہم کررہی ہے جس کا وہ حق دار نہیں ہے

  

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق 15 جنوری 2018  کو آزاد جموں و کشمیر میں  لائن آف کنٹرول  پر جندروٹ سیکٹر پر بھارتی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے پاکستان آرمی کے چار جوان شہید ہوگئے۔ لائن آف کنٹرول پر یہ تازہ واقع بھارتی آرمی چیف، جنرل راوت، کے دھمکی آمیز بیان کے فوراً بعد پیش آیا جس میں اس نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو "دھوکہ" کہا تھا اور پاکستان کے حکمرانوں نے اس کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیاتھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق 2018 میں اب تک بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر 70 سے زائد جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کیں ہیں۔

لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت اب ایک معمول بن چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ  پاکستان کی افواج  کونہیں  بلکہ نیپال یا بھوٹان کی افواج کو نشانہ بنا رہا ہے۔  بھارت  بغیر کسی رد عمل کے خوف کے جارحیت کی راہ پر چلتا چلا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں نے ہماری افواج کے ہاتھ امریکی دفتر خارجہ کی ہدایت پر بننے والی "تحمل" کی پالیسی کے تحت باند ھ رکھیں ہیں۔ یہ پالیسی اس لیے اختیار کی گئی ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ  چین کے اثرو رسوخ کو محدود کرنے کے لیےبھارت کو ایک علاقائی طاقت بنانا چاہتی ہے۔ اس "تحمل" کے پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر تسلسل سے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ بھارتی اخبار، دی ہندو، کے مطابق بھارتی اور پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر، اجیت دوول اور جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ، سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ملاقاتوں سے زیادہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور تسلسل سے فون پر بات  کررہے  ہیں۔ دہلی اور اسلام آباد کے ذرائع کے مطابق   ان کے درمیان  کم ازکم تین ملاقاتیں بنکاک اور ایک روس میں ہوچکی ہے۔

تو کیا جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن یہ ہے جس کے متعلق  ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل غفور نے 11 جنوری 2018 کو  بیان جاری کیا تھا کہ، "باجوہ کی ڈاکٹرائن ملک میں دیر پا امن لائے گی"؟ کیا یہ وہ امن ہے جس کے لیے جنرل باجوہ کام کررہے ہیں جہاں بھارت  کسی رد عمل کے  خوف کے بغیر ہماری شہریوں اور جوانوں کو شہید کررہا ہے؟ یہ بات حیران کن  نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقاتیں   بھارت کو جارحیت جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہیں۔ جب بھارت جیسا دشمن یہ دیکھے کہ اس کی جارحیت کا منہ توڑ فوجی جواب نہیں دیا جارہا بلکہ  امن کی درخواستیں کیں جارہی ہیں تو پھر کشمیر اور پاکستان کے مسلمانوں پر حملے جاری رکھنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

 مذاکرات اور "تحمل" کے ذریعے بھارتی جارحیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور نہ مسلمانوں کو اس سے امن نصیب ہوسکتا ہے۔ بھارت کو ایک منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے جس سے وہ ذلیل  و رسوا اور بے عزت ہو جائے تا کہ اس کا بڑھتا غرور چکنا چور ہو جائے۔ پاکستان کی افواج بھارت کو یہ سبق سیکھانے کی بھر پور صلاحیت اور جذبہ  بھی رکھتی ہے۔ لیکن ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہوگی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

 

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

"اُن سے  لڑو جب تک فتنہ  نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے  "(البقرہ:193)

 

ہندو جنرل کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو ایک جھوٹ اور دھوکہ قرار دے

 

بھارتی آرمی چیف کا حالیہ جارحانہ بیان پاکستان کی "تحمل" کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ بھارت، جو امریکہ کا اتحادی اور چین کی بڑھتی طاقت کو محدود کرنےا ور افغانستان کی تعمیر میں امریکی فرنٹ مین کا کردار ادا کررہا ہے، نے پاکستان کی افواج اور عوام کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے کردار کو خطے میں  بڑے بھائی کے کردار سے تشبیہ دی۔ 12 جنوری 2018 کو جنرل روات نے کہا ، "ہم اسے (ایٹمی صلاحیت کو)پاکستان کادھوکہ کہتے ہیں۔اگر ہمیں واقعی مقابلہ کرنا پڑا  اور ہمیں اس کا ہدف دیا گیا تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم سرحد پار نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ہمیں ان کے ایٹمی دھوکے کوللکارنا ہے"۔

پاکستان کی قیادت کے کمزور کردار اور موقف نے بزدل ہندووں کی بہت ہمت افزائی کی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ باجوہ نے نہ تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کاجواب دیا اور نہ ہی  لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا جواب دیا اور نہ ہی کلبھوشن یادیو کے جاسوسی کے نیٹ ورک یا 'را' کی تخریب کاریوں کا کوئی جواب دیا۔ باجوہ کی کمزور قیادت کی وجہ سے امریکہ اور بھارت یہ سمجھتے ہیں  کہ "شیر اب شکار کا پیچھا نہیں کرتا، اسے دھمکا نہیں سکتا،اس کو تلاش نہیں کرسکتا  اور نہ ہی اس پر حملہ کرسکتا ۔  بلکہ اس کی دہاڑ بھی ایک طرح کی چیخ بن گئی ہے اور  اس کے پیچھے کسی عمل کی کوئی دھمکی  بھی نہیں ہوتی"۔ اس کے علاوہ باجوہ بھارت کے ساتھ بات چیت کا  حامی ہے تا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کرنے اور توانائی حاصل کرنے میں  اس کی معاونت کی جاسکے اور اس پر مزید یہ کہ اس کی جانب سے بھارت کے ساتھ  تعلقات کو معمول (نارملائیزشن) لانے کی بات تو سونے پر سہاگہ ہے ۔ باجوہ  اب بھی امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رہا ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کی قدم مضبوط کرے ، اور طرح پاکستان مشرق اور مغرب  دونوں جانب سے گھیرے میں آگیا ہے۔

لہٰذا یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ بھارت توہین آمیز بیانات دینے کی ہمت دیکھائے جب ایک کمزور جنرل سرحد کی دوسری جانب بیٹھا ہو۔ لیکن ہماری افواج اس امت  کے شیر ہیں جنہیں زنجیروں میں باندھ کر محصور کردیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں موجود لاکھوں ہندو چند ہزار انتہائی ہلکے ہتھیاروں سے مسلح مسلم جنگجوؤں کو کئی دہائیوں کے بعد بھی  شکست نہیں دے سکے، تو وہ پاکستان آرمی کا سامنا کیسے کریں گے؟ آج کی سپر پاور امریکہ خطے میں رہنے کے لیے ہماری فوج پر انحصار کرتا ہے، اور وہ  یہاں سے نکالنے جانے کی خوف میں مبتلاہے۔ یہود اس بات سے انتہائی خوفزدہ ہیں کہ کہیں پاکستان کی افواج مسجد الاقصی کی آزادی کی پکار کا جواب دینے کے لیے نکل نہ پڑیں اور اس بات نے ان کی راتوں کی نیند حرام کی ہوئی ہے۔

ہماری افواج وہ شیر ہیں  جنہیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کو بھی نہیں للکارسکتے۔ لیکن ان کے بازو کی صرف ایک حرکت باقی تمام اقوام پر پوری امت مسلمہ کی طاقت کو واضح کردے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

 

يا أيها الذين ءامنوا قاتِلوا الذين يَلونكم من الكفار وَلْيجِدوا فيكمْ غِلْظَةً واعْلَموا أنَّ اللّـهَ مع المتقين

"اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں، اور اُن کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے، اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے"(التوبہ: 123)۔

 

افواج پر لازم ہے کہ وہ اس شکست خوردہ اور غدار حکومت کو مسترد کردیں اور اسلامی خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔ صرف اسلام کے نفاذ کے ذریعے ہی ہم رسول اللہﷺ کی بشارت کو پورا ہوتا دیکھیں گے، ابوہریرہ سے روایت ہے ،

 

 

وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ص) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ

"رسول اللہﷺ نے ہم سے ہند کی فتح کا وعدہ فرمایا۔ اگر میری زندگی میں ایسا ہوا تو میں اپنی جان اور مال دونوں لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا  تو میں بہترین شہداء کے درمیان ہونگا، اور اگر واپس آیا تو میں ابوہریرہ (گناہوں سے)  آزادہو گا "

(احمد، النسائی، الحاکم)۔

 

 

اور ثوبان نے روایت کی:

 

 

عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام

"میری امت کے دو گرو ہوں کو اللہ نے جہنم سے محفوظ کردیا ہے: ایک وہ گروہ جو ہند فتح کرے گا اور ایک وہ گروہ جو عیسی ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا"(احمد، النسائی)۔

     

امریکہ طالبان سے بات چیت کے لیے شدید بے قرار ہے تا کہ اس کے قبضے کو قانونی طور سیاسی حیثیت مل جائے

اور پاکستان کے حکمران اس کی مدد کررہے ہیں

 

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے دورہ افغانستان  سے واپسی پر 17 جنوری 2018 کو امریکی سفیر نکی ہیلی نے اس بات پر زور دیا کہ کابل حکومت دنیا کی طاقتوں سے یہ چاہتی ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ بڑھائیں۔ ہیلی اس ہفتے کے اختتام پر  سیکیورٹی کونسل کے دیگر 14 اراکین کے نمائندگان کے ساتھ افغانستان کی اعلیٰ ترین قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل میں تھیں ۔ کابل حکومت طالبان کے ساتھ امن بات چیت کرنا چاہتی ہے تا کہ دہائیوں سے جاری مزاحمت کو ختم کیاجاسکے۔  ہیلی نے اقوام متحدہ کے ہیڈکواٹر میں رپوٹروں کو بتایا، "وہ(کابل حکومت)  پُراعتماد  ہے کہ  طالبان  میز پر آئیں گے"۔  اگرچہ  امن مذاکرات  کی قیادت افغان ہی کریں گے ، لیکن کابل حکومت نے سیکیورٹی کونسل سے درخواست کی تھی کہ پاکستان کوبھی شامل کرنے کے لیے وزن ڈالا جائے۔ ہیلی نے کہا، "انہوں (کابل حکومت)نے پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور اور اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے ہم سے مزید دباؤ   ڈالنے کے لیےاتفاق رائے کا  مطالبہ کیا"۔

بجائے اس کے کہ امریکہ کو مرنے اور برطانوی راج اور سوویت روس کی طرح ذلیل و رسوا ہو کر بھاگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، لیکن پاکستان کے حکمران اس کو بچانے کے لیے آگے آگئےہیں  اور طالبان کو تنہا کر کے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔  12جنوری 2018 کو آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز ، PR-19/2018-ISPR، میں جنرل باجوہ کے ساتھ امریکہ کمانڈر جنرل ووٹل کی بات چیت کی تصدیق کی:"انہوں (باجوہ) نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر افغان شہریوں کی حرکات کے حوالے سے امریکہ کی پریشانی سے پاکستان آگاہ ہے اور  آپریشن ردالافساد  کے تحت پہلے سے ہی کئی اقدامات لے رہے ہیں تا کہ ہر قسم کے دہشت گردوں کو کسی قسم کا موقع نہ مل سکے لیکن اس کے لیے افغان مہاجرین کے واپسی بہت ضروری ہے۔ پاکستان یکترفہ طور پر سرحدوں کو مضبوط کررہا ہے لیکن اگر  افغانستان حقیقت میں پاکستان سے متاثر ہورہا ہے تو پھر سرحد کی دو طرفہ حفاظت کابل کی بھی  پہلی ترجیہ ہونی چاہیے۔۔۔۔۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ پاکستان  افغانستان میں امن کے لیے تمام کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا  اس بات کے باوجود  کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے کیونکہ افغانستان میں امن خطے میں استحکام اور   دیرپا امن کے جانب بڑھنے کا واحد راستہ ہے "۔ لہٰذا باجوہ امریکہ کے لیے مسلسل "ڈومور" کررہا ہے تا کہ ہلکے ہتھیاروں سے مسلح چھوٹے  گروہوں  کی جانب سے اس کے قبضے کو درپیش خطرات  سے بچا سکے۔ پاکستان کے حکمران اب بھی نیٹو سپلائی لائن کے لیے زمینی اور فضائی راستے فراہم کررہے ہیں  اور اس سے بھی بڑھ کر امریکہ کو گوادر تک بھی رسائی دے کر اس کی مدد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اب بھی  صلیبیوں کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں اور ان کے ساتھ فوجی روابط بھی قائم ہیں۔

حقیقت میں پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے کبھی "نومور" کہا ہی نہیں گیا۔ وہ ہمیشہ امریکہ کی مفت میں اطاعت کرتے رہیں ہیں اور اس کے بدلے  امریکہ کی جانب سے توہین و ذلت کا سامنا کرتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ جارح امریکہ کے ساتھ اتحاد کو ختم کردیا جائے جو بھارت کو مضبوط کرتا ہے جبکہ پاکستان کی تذلیل کرتا ہے جبکہ امریکہ جانتا ہے کہ صرف پاکستان ہی اسے افغانستان میں بچا سکتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ امریکہ کو  اُسی کی جنگ میں ناکام اور ذلیل و رسوا  ہونے دیا جائے اور افغانستان سے اس کی پسپائی پوری مسلم دنیا سے پسپائی کا نقطہ آغاز بن جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

 الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا

"جن کی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کوچھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں کیا اُن کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ (تو یاد رکھو کہ) عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے"(النساء:139)         

Last modified onپیر, 22 جنوری 2018 23:56

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک