بسم الله الرحمن الرحيم
خبر اور تبصرہ -
- ڈالر یا یوآن میں تجارت کرنے سے مقامی کرنسی کبھی طاقتور نہیں ہو سکتی
- جب تک شریعت کے حکم کے مطاب سونے اور چاندی کو کرنسی کے طور پر اختیار نہیں کیا جاسکتا
خبر: 19 دسمبر 2017 کو وزیر منصوبہ بندی و تعمیر و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ حکومت چین اور پاکستان کے درمیان تمام قسم کی تجارت کے لیے ڈالر کی جگہ یوآن میں ادائیگی کی چینی تجویز پر غور کررہی ہے۔ اور پھر یکم جنوری 2018 بروز پیر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ واضح کیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے چینی کرنسی یوآن کو استعمال کرنے کی تمام تیاریاں پہلے سے ہی کی جا چکی ہیں۔
تبصرہ: اس وقت بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے زیادہ تر ادائیگیاں امریکی ڈالر میں کی جاتی ہیں اور ڈالر کو چھاپنے اورجاری کرنے کا حق صرف امریکہ کو ہی حاصل ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً تمام ممالک کو اپنی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اشیاء یا سروسز کو درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ عالمی مالیاتی اور معاشی نظام کے تحت درآمدات کی ادائیگی کے لیے انہیں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ اپنی مختلف اشیاء اور سروسز کو بیرون ملک برآمد کر کے حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر برآمدات کے ذریعے اتنے ڈالرز حاصل نہ کیے جاسکیں جو ملکی درآمدات کی ضروریات کو پورا کرسکیں تو پھر نجی قرضہ دینے والے اداروں ، بین الاقوامی اداروں جیسا کہ عالمی بینک یا آئی ایم ایف یا پھر براہ راست استعماری ممالک جیسا کہ امریکہ ، فرانس یا برطانیہ سے سود پر ڈالر حاصل کیے جاتے ہیں۔ اکثر ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے لیے ایسے معاہدے بھی ہوتے ہیں جس کے تحت وہ ایک دوسرے کی اشیاء ایک دوسرے کی کرنسی میں ہی لیتے ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ یہ بات کررہا ہے کہ چین کے ساتھ یوآن کے ذریعے تجارت پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن (بیلنس آف پیمنٹس) کے حوالے سے فائندہ مندثابت ہوگا کیونکہ کم ازکم پاکستان کی درآمدات کا کچھ حصہ ڈالر کی قید سے تو آزاد ہوگا۔ لیکن یہ صورت پاکستان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگی۔ 2017 کے مالیاتی سال میں پاکستان نے صرف 1.62ارب ڈالر کی ایشیاء اور سروسز چین کوبرآمد کیں جبکہ چین سے 10.57ارب ڈالر کی اشیاء اور سروسز درآمد کیں گئیں۔ اس طرح جبکہ چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو شدید خسارے کاسامنا ہےتو پاکستان چین سے باقی کی درآمدات کے لیے یوآن کہا سے لائے گا؟ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان چین کو اپنی برآمدات میں اس قدر اضافہ کرے جو اس کی چین سے ہونے والی درآمدات کے برابر ہوجائے لیکن ایسا مستقبل قریب ہونا ممکن نہیں ۔ دوسری صورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ چینی بینکوں سے سود پر یوآن حاصل کیے جائیں۔ تو پھر حقیقت میں تجارت ڈالر میں کرنے یا یوآن میں کرنے میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ دونوں صورتوں میں غیر ملکی طاقتیں پاکستان کی معیشت کا استحصال کرتی ہیں۔ ابھی پاکستان سودی قرضے ڈالرمیں لیتا ہے اور آنے والے دنوں میں سودی قرض یوآن میں بھی لینا شروع کردے گا بلکہ حقیقت میں تو ایسا ہونا شروع بھی ہوچکا ہے۔
پاکستان کی کرنسی کی کمزوری کاغذی کرنسی کے نظام کو ختم کردینے میں ہے جس کے اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور اس کی جگہ ایسی کرنسی کو اختیار کرنا چاہیے جسے سونے اور چاندی کی پشت پناہی حاصل ہو کیونکہ ان کی اپنی ایک قدر ہوتی ہے۔ کیونکہ ڈالر اور یوآن بھی بذات خود کاغذی کرنسی ہیں لہٰذا چھوٹے ممالک خسارے میں ہی رہیں گے اور امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں، جن میں چین بھی شامل ہے ، کے ظلم و استحصال کا شکار رہیں گے کیونکہ کاغذی کرنسی اپنی طاقت اس کرنسی کو جاری کرنے والی ملک کی سیاسی، معاشی اور فوجی طاقت سے حاصل کرتی ہے۔ کاغذی کرنسی کی موجودگی کی وجہ سے کرنسی کی جنگیں ہوتی ہیں اور مختلف ممالک ایک دوسرے کو اپنی کرنسی میں اتار چڑھاؤ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تا کہ بین الاقوامی تجارت میں دوسرے ممالک پر برتری حاصل کرسکیں۔ لیکن اگر اس کے برخلاف عالمی تجارت میں سونے اور چاندی کو کرنسی کے طور پر استعمال کیا جائے تو بین الاقوامی تجارت میں استحکام آئے گا اور استعماری طاقتوں کو اپنی طاقتور کاغذی کرنسی کی وجہ سے عالمی تجارت میں جو بلا جواز بالادستی حاصل ہے اس کا بھی خاتمہ ہوگا کیونکہ اشیاء اور سروسز ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی کرنسی کی قدر بھی سونے اور چاندی کے معیار پر جانچی جائے گی۔
لیکن عالمی سطح پر سونے اور چاندی کے معیار پر واپس جانے کام صرف مسلم امت ہی کرسکتی ہے اگر وہ خلافت کا قیام عمل میں لے آئے۔ اسلام نے سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دیا ہے لہٰذا ریاست خلافت پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر سونے اور چاندی کو ہی کرنسی کے طور پر جاری کرے۔ کیونکہ ریاست خلافت بارحال ایک بڑی اور طاقتور ریاست بن جائے گی جس کی معیشت بھی بہت بڑی ہوگی، تو وہ بین الاقوامی سطح پر آسانی کے ساتھ سونے اور چاندی کو ایک بار پھر کرنسی کےمعیار کےطور پر متعارف اور قبول کروالے گی۔ ریاست خلافت اس مقصد کو اس لیے بھی آسانی سے حاصل کرسکے گی کہ وہ دنیا کی سب سے باوسائل ریاست ہو گی اور دنیا کے تمام اہم زمینی،بحری اور فضائی راستے اس کی حدود سے گذرتے ہوں گے۔ اس کے علاوہ چند استعماری ریاستوں کو چھوڑ کر ریاست خلافت کی جانب سے سونے اور چاندی کے معیار پر کرنسی کے اجرا کو دیگر تمام ممالک خوش دلی سے قبول کریں گے کیونکہ انہیں یہ نظر آئے گا کہ اب وہ امریکہ اور دیگر استعماری طا قتوں کی معاشی و مالیاتی غلامی سے نکل سکتے ہیں۔
تو ہمیں پاکستان کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کا نقطہ آغاز بنانے کے لیے پوری قوت سرف کردینی چاہیے جو اسلام کے معاشی نظام کے ایک اہم حکم کے نفاذ کے لیے سونے اور چاندی کو بطور کرنسی یا اس کی بنیاد پرکرنسی جاری کرے گی۔ صرف اور صرف اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ سے ہی ہم طاقتور اور آزاد ہوں گے اور پوری انسانیت کو موجودہ معاشی و مالیاتی نظام کی غلامی سے نجات ملے گی جس پر اس وقت مغربی استعماری طاقتوں کاغلبہ ہے۔
وَيَسْتَجِيبُ ٱلَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ
"وہ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ) ایمان والوں اور نیکوکار لوگوں کی سنتا ہے اور انہیں اپنے فضل سے اور بڑھا کردیتا ہے"(الاشوری:26)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان