بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 2 فروری 2018
- مخلص مجاہدین نے امریکہ کو گرتی ہوئی دیوار بنادیا ہے اب صرف خلافت کی ضرورت ہے جو اسے مکمل طور پر گرا دے
- جمہوریت بذات خود منظم جرائم کا گڑھ ہے
-- امریکہ گرم تعاقب کی دھمکی دے کر پاکستان آرمی کو اس کی جنگ لڑنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے
تفصیلات:
مخلص مجاہدین نے امریکہ کو گرتی ہوئی دیوار بنادیا ہے
اب صرف خلافت کی ضرورت ہے جو اسے مکمل طور پر گرا دے
امریکی میڈیا نے 29 جنوری 2018 کو یہ خبر شائع کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حملوں میں اچانک اضافے کے بعد کابل کی مدد کے لیے مزید افواج افغانستان بھیجنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ افواج پہلی سیکیورٹی فورس اسسٹنس بریگیڈ (SFAB) کا حصہ ہوں گی ۔ ایسی چھ یونٹس بنائیں جارہی ہیں اور ہر ایک یونٹ میں ایک ہزار سپاہی ہوں گے جن کو خصوصی طور پر مزاحمت سے لڑنے کے لیے بیرونی افواج کی "مدد اور مشورہ" دینے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ پچھلے ہفتے امریکی فضائیہ نے اے-10 تھنڈر جیٹس طیارے افغانستان منتقل کیے ہیں۔ پچھلے تین سال کے دوران پہلے مرتبہ ان طیاروں کو امریکی افواج کو مدد فراہم کرنے کے لیے حرکت میں لایا گیا ہے۔ امریکی فضائیہ کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جیفری ہیریگین نے فاگس نیوز کو بتایا کہ افغانستان میں جدید ترین ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ ان امریکی کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد طالبان کو "مفاہمت یا شکست کا سامنا" کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالنے والی حرکتوں اور پاکستان پر الزام تراشیاں کہ وہ ٹرمپ کے دشمنوں کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش نہیں کررہا دراصل امریکہ کی شدید پریشانی و مایوسی کامظہر ہے۔ یہ پریشانی و مایوسی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے کیونکہ "ریاستوں کے قبرستان" افغانستان میں امریکہ کی ذلت و رسوائی بڑھتی جارہی ہے۔ یقیناً امریکہ اب تک شکست کا شکار ہو چکا ہوتا اگر پاکستان کے حکمران امریکہ کی مدد سے دستبردار ہو گئے ہوتے اور اس کی جگہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب موجود مخلص مجاہدین کو مدد فراہم کررہے ہوتے۔
مخلص مسلمان کا سب سے طاقتور ہتھیار اس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان ہے۔ یہ ایمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر کامل بھروسے کا سبب بنتا ہے ۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے اور کامیابی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی عطا فرمائیں گے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر کامل یقین کے سبب چند ہزار ہلکے ہتھیاروں سے مسلح مجاہدین نے امریکہ کے منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو اس قدر شدید زخمی کردیا ہےکہ وہ خودکو بچانے کے لیے مجاہدین کو مذاکرات کا رستہ دیکھا رہا ہے لیکن اس پیشکش کو کسی صورت قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ امریکہ سے مزاکرات کرنا امریکی قبضے کو ختم نہیں بلکہ مستحکم کرے گا۔
ہماری افواج کی جانب سے جہاد ہی وہ واحد رستہ ہے جو امریکی قبضے کو ختم کردے گا۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص آفسران پرلازم ہے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرہ فراہم کریں۔ اس کے بعد خلیفہ راشد جہاد کا اعلان کرے گا اور پاکستان کی عظیم مسلم افواج کو حرکت میں لائے گا تا کہ ہمارے علاقے کو امریکی قبضے کی نجاست سے پاک کردے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِى صُدُورِهِمْ مِّنَ ٱللَّهِ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ
"(مسلمانو) تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں اللہ سے بھی بڑھ کر ہے، یہ اس لیے کہ یہ بے سمجھ لوگ ہیں"(الحشر:13)
جمہوریت بذات خود منظم جرائم کا گڑھ ہے
30 جنوری 2018 کو پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علی زیدی نے الزام لگایا کہ پی پی پی نے سندھ کو "منظم جرائم کے گڑھ میں" تبدیل کردیا ہے۔ اُسی دن پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان جاری کیا جس میں خیبر پختونخوا حکومت کی "واضح غفلت" پر پریشانی کااظہار کیا اور کہا کہ اس کی پولیس ان مجرموں کو باہر نکال رہی ہے جو زنا بل جبر اور قتل کے گئی مقدمات میں ملوث ہیں۔ سپریم کورٹ نے 30 جنوری 2018 کو نواز شریف کو دوبارہ نوٹس بھیجا جب وہ کورٹ نمبر 1 میں بڑے بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔ یہ بینچ اس بات کا تعین کررہا ہے کہ آرٹیکل 62-1-ایف کے تحت نااہلی عمربھر کے لیے ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے نااہلی ہے۔
اب جبکہ انتخابات بہت قریب آچکے ہیں تو جمہوریت کے داعیوں کے درمیان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ عجلت میں شروع ہو گیا ہے۔ جمہوریت سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات لیے گئےجیسے امیداواروں کے لیے گریجوٹ ہونے کی شرط، آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا جانا اور قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام، لیکن کرپشن پھر بھی موجود رہی کیونکہ جہاں جہاں جمہوریت کا قیام عمل میں لایا گیا وہاں وہاں ہمیشہ اقتدار کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہی گیا۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی انفرادی کرپشن عام ہے۔ جمہوریت کرپشن کی سرپرستی کرتی ہے اور اسی لیے کرپٹ اس کے جانب دوڑے چلے جاتے ہیں جیسے مکھیاں شہد کی جانب جاتی ہیں۔
جمہوریت کے برخلاف خلافت میں اقتدار اعلیٰ، قانون سازی کا حق،نہ تو حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی عوامی نمائندوں کے پاس ہوتا ہے اور اس طرح کرپشن کی بنیاد کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف شارع، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، مالک کائنات کا حق ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلہِ
"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے“(یوسف:40)۔
لہٰذا اسلامی خلافت میں قوانین صرف اور صرف وحی یعنی قرآن و سنت سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں۔ خلافت نہ تو کسی حرام کو حلال کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی حلال کو حرام قرار دے سکتی ہے۔ خلیفہ بغیر کسی شرعی ثبوت کے عوام کو کسی مباح عمل سے روک نہیں سکتا کیونکہ اس کو اپنی مرضی سے قوانین بنانے کا اختیار ہی نہیں دیا گیا۔ اس طرح ریاست خلافت میں خلیفہ اپنے بینک بیلنس میں اضافے کے لیے قوانین میں تبدیلی نہیں کرسکتا کہ ان تبدیل شدہ قوانین کی مدد سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ریاست کے وسائل کی لوٹ مار کرسکیں۔ اسی طرح خلیفہ زرعی زمین پر خراج اور زرعی پیداوار پر عشر ختم نہیں کرسکتا کہ جاگیردار خوش ہو جائیں کیونکہ یہ اسلامی محاصل ہیں جنہیں شرعی دلائل پر لاگو کیا گیا ہے۔ خلیفہ کمیشن کھانے کے لیےمنافع بخش توانائی اور معدنیاتی کمپنیوں کی نجکاری نہیں کرسکتا کیونکہ اسلام نےان کی ملکیت کو عوامی ملکیت کے زمرے میں رکھا ہے اور کوئی فرد یا کمپنی اس کی ملکیت حاصل نہیں کرسکتی۔ خلافت میں ایسی صورتحال کبھی نہیں ہوسکتی جیسا کہ آج ہے جہاں بلوچستان کے لوگ قحط اور پانی کی قلت سے مررہے ہیں، جبکہ اسی صوبے میں اربوں روپے کی لاگت سے کھیل کا میدان بنایا جارہا ہے۔ خلافت میں حکمرانوں کے دفاتر کے تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ نہیں کیے جائیں گے کیونکہ اسلام میں بنیادی ضروریات کو پورا کرنا فرض ہے اور اس کے بعد آسائشوں کا نمبر آتا ہے۔ خلیفہ بغیر شرعی دلائل کے بیت المال سے ایک دینار بھی خرچ نہیں کرسکتا۔ خلیفہ کواس بات کا حق نہیں کہ وہ صنعتوں کے لیے درکار بنیادی اشیاء پر ڈیوٹیوں میں کمی یا اضافہ کرے اور نہ کسی مخصوص فرد یا کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی میں کمی بیشی کرے۔ اس طرح جب حکمران کے پاس قانون سازی کا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا تو اس طریقے سے اسلام نے حکمرانوں کو لوگوں سے ناجائز فوائد حاصل کرنے یا ان کا استحصال کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ خلافت میں خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مقرر کردہ والیوں پر نظر رکھے اور مسلسل ان کے اعمال کی نگرانی کرے۔ جہاں تک بذات خود خلیفہ کا تعلق ہے تو مجلس امت اس کے اعمال پر نظر رکھتی ہے اور اس کی جانب سے کسی بھی کوتاہی یا غفلت پر اس کا احتساب کرتی ہے اور اگر تنازع پیدا ہوجائے تو معاملے کو قاضی مظالم کی عدالت میں لے جاتی ہے۔
امریکہ گرم تعاقب کی دھمکی دے کر پاکستان آرمی کو اس کی جنگ لڑنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے
30 جنوری 2018 کو وائٹ ہاوس میں نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس فیکٹ شیٹ جا ری کی گئی جس کا عنوان تھا: "صدر ڈونلڈ جےٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے پہلے امریکہ کو آگے رکھا"( President Donald J. Trump’s Foreign Policy Puts America First) ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ،"صدر ٹرمپ کی شرائط پرمبنی جنوبی ایشیا کے حکمت عملی کمانڈروں کو افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی سے روکنے کے لیے اختیار اور وسائل دیتی ہے "۔ لہٰذا عملاً ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی افواج کو "گرم تعاقب " کے نام پر پاکستان کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے کا اشارہ دے دیا ہے تا کہ وہ عزم و حوصلے سے لبریز قبائلی مسلمانوں کو کچل سکیں جنہوں نے اب تک افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم نہیں ہونے دیا ہے۔
افغانستان میں ناکامیوں اور کمزوری سے شدید پریشان امریکہ کے پاس مسئلے کے حل کے لیے نئے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ تاریخ کے کوڑے دان سے بش انتظامیہ کا حل نکال کر لائی ہے جو اس نے مشرف کے دور میں دیا تھا۔ امریکہ کے وفادار ایجنٹ مشرف نے "گرم تعاقب" کا خوف دلا کر پاکستان آرمی کو قبائلی مسلمانوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے علاقے کو اپنا علاقہ سمجھنے کی ہمت کررہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اور امریکی وفادار ایجنٹ کیانی نے امریکہ کو "گرم تعاقب" کرنے کی اجازت دی۔ امریکی اسٹبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی سیمیول ہرش نے 21مئی 2015 کو ایک مضمون "اسامہ بن لادن کا قتل" کے نام سے لکھا ۔ اس نے لکھا کہ، " پاشا اور کیانی اس بات کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ پاکستان آرمی اور فضائی دفاع کی کمانڈ اس مشن میں استعمال ہونے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کو نہ تو تلاش کرسکیں اور نہ ہی انہیں للکارسکیں۔ تربیلا غازی کے مقام پر امریکی سیل کو یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ آئی ایس آئی ، افغانستان میں موجود سینئر امریکی فوجی افسران اور دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے ؛ ہدف یہ تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرحد پر گشت کرتا ہوا کوئی بھی پاکستانی جنگی طیارہ حملہ آروں کی نشان دہی اور انہیں ایکشن کرنے سے روک نہ سکے"۔ اُس وقت سے اوباما انتظامیہ نے ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں میں اضافہ کردیا اور ٹرمپ انتظامیہ اسی پر عمل پیرا ہے اور اب "گرم تعاقب" کی بات کررہی ہے۔
یہ معاملات اس حد تک اس لیے پہنچ گئے ہیں کیونکہ پاکستان پر اب تک اُن لوگوں نے حکومت کی ہے جو اسلام کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے طرز عمل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ظالم کے سامنے جھکنے سے ظلم میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت امریکہ کو اس کے خول میں ہی محدود کردے گی کیونکہ اسلام کسی بھی جارح بیرونی قوت کے ساتھ اتحاد یا تعاون سے منع کرتا ہے۔ خلافت اس رسی، سپلائی لائن، کو ہی کاٹ ڈالے گی جس کے بل بوتے پر امریکہ کی موجودگی برقرار ہے اور اس کی انٹیلی جنس اور نجی فوجی تنظیموں کو ملک سے نکال باہر کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"جن لوگوں نے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی، اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے دوستی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے، جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ:9)