بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 26 جنوری 2018
- پاکستان کے حکمران ایک طرف بھارت اور یہودی وجود کے گٹھ جوڑ کی مذمت کررہے ہیں
تو دوسری جانب مودی کے مطالبات پورے کررہے ہیں
- امریکہ بمباری میں اضافہ کررہا ہے جبکہ پاکستان کے حکمران افغان طالبان کو
مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جھوٹے فتوے جاری کروارہے ہیں
- سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے ذریعے پاکستان کبھی بھی خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کرسکتا
تفصیلات:
پاکستان کے حکمران ایک طرف بھارت اور یہودی وجود کے گٹھ جوڑ کی مذمت کررہے ہیں
تو دوسری جانب مودی کے مطالبات پورے کررہے ہیں
22 جنوری 2017 کو رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ کشمیر کی جدوجہد کی حمایت کرنے والے رہنما حافظ سعید کی سرگرمیوں کو محدود کریں گے۔ انہوں نے کہا، "ہاں، حکومت ان رفاحی اداروں کا کنٹرول حاصل کرلے گے جنہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے"۔ تو اس طرح حکومت نے مودی کے مطالبات کا جواب دیا ہے جس کی بزدل افواج مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی زبردست مزاحمت کاسامنا کررہی ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے تو اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ کچھ دن قبل 17 جنوری کو وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھارت اور یہودی وجود کے گٹھ جوڑ کو اسلام کے خلاف قرار دیا تھا۔ وزیر دفاع نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے کشمیر کی زمین پر قبضہ کرکھا ہے جبکہ یہودی وجود نے فلسطین کے وسیع علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
پاکستان کے حکمران مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے جوشیلے بیانات دیتے ہیں لیکن بھارت کی بڑھتی جارحیت کے سامنے امریکہ کے حکم کے تحت "تحمل" کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ حکمرانوں کے اس طرز عمل نے بھارت کی حوصلہ افزائی کی ہے اور مودی پاکستان کے حکمرانوں کاشکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ "تحمل" کامظاہرہ کررہے ہیں اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کررہے ہیں جو مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ 16 جنوری 2016 کو نئی دلی میں 'Raisina Dialogue' کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں یہودی وجود کے حکمران نیتن یاہو نے کہا تھا کہ، "اہم بات یہ ہے کہ جددیت کے سفر، ایجادات کے سفر کو ریڈیکل اسلام اور اس کی دہشت گرد تنظیموں کا چیلنج درپیش ہے اور اس سے بین الاقوامی نظام خراب ہوسکتا ہے۔۔۔۔اس چیلنج پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی دو عظیم جمہوریتوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کریں"۔
پاکستان کے موجودہ حکمرانوں سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی جنہیں اُن کے امریکی آقاوں نے یہ کام دیا ہوا ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کے آگے بڑھنے کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں۔ انہیں ہٹایا جانا اور ان کی جگہ مخلص قیادت کو لانا ضروری ہوچکا ہے جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرے گی۔ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت یقیناً موجودہ کرپٹ اور ظلم کے بین الاقوامی نظام کو تہس نہس کردے گی۔ وہ مسلمانوں کے درمیان سکائیس-پیکوٹ معاہدے کے تحت کھینچی گئی سرحدوں کو کاٹ ڈالے گی، مراکش سے انڈونیشیا تک مسلم علاقوں کو ایک واحد خلیفہ راشد کی قیادت میں یکجا کردے گی۔ وہ مسلم افواج کو ایک قیادت تلے جمع کرے گی اور مقبوضہ مسلم علاقوں کی یہودی وجود اور ہندو ریاست کی افواج سے آزادی کے لیے انہیں حرکت میں لائے گی۔ ثوبان نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ،
عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام
"میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہم کی آگ سے محفوظ کردیا ہے: ایک وہ جو ہند کو فتح کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسی ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا"(احمد، النسائی)۔
امریکہ بمباری میں اضافہ کررہا ہے جبکہ پاکستان کے حکمران افغان طالبان کو
مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جھوٹے فتوے جاری کروارہے ہیں
وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری سارہ سینڈرز نے 22جنوری 2018 کو کہا کہ، "ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً طالبان قیادت کو گرفتار یا نکال دے اور اس گروہ کو پاکستان کی سرزمین اپنی حمایت اور آپریشنز کے لیےاستعمال سے روکے"۔ امریکہ کی اس وقت یہ شدید خواہش ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر مجبور کردیا جائے تا کہ خطے میں امریکہ موجودگی کومستقل اور یقینی بنایا جاسکے۔ 16 جنوری 2018 کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ کہا گیا کہ، "سولہ سال میں پہلی بار سردیوں کے باوجود جنگ کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے۔ امریکی اور افغان فورسز نے دسمبر میں 455 فضائی حملے کیے ، اوسطاً ہر روز 15 حملے، جبکہ اس سے ایک سال قبل 65 حملے کیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ دسمبر 2012 میں جب افغانستان میں ایک لاکھ امریکی افواج موجود تھیں، صرف 200 حملے کیے گئے تھے۔ پچھلے سال اگست اور دسمبر کے درمیان 2 ہزار فضائی حملے کیے گئے جو کہ 2015 اور 2016 کے مجموعی حملوں کے برابر ہیں"۔ بمباری میں اضافے کے علاوہ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں کو حرکت میں لایا کہ وہ علماء سے ایک فتوی لیں تا کہ افغان طالبان کو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ لہٰذا 16 جنوری 2018 کو پاکستان کے ایوان صدارت میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں "پیغام پاکستان" کے نام سے ایک فتوی کی رونمائی ہوئی جسے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 1829 علماء کرام نے تیار کیا تھا تا کہ حکومتی ایماء پر امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکلنے میں مدد فراہم کی جائے۔
امریکی جنگ کے حوالے سے حکومت کے بے وقوفانہ موقف کو سمجھنے کے لیے ایک آدمی اگر اس پیغام کے نکات کا مطالع کرتا ہے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کے مسلمان اسلام کے بنیادی احکامات سے بھی ناواقف ہیں۔ کیا پاکستان کے مسلمان یہ نہیں جانتے کہ بے گناہوں پر حملے اور انہیں قتل کرنا حرام ہے؟ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ انبیاء کرامؑ، صحابہ کرام، ازواج مطہرات اور اہل بیت کی عزت و تکریم کرنا کتنا اہم ہے؟ کیا وہ فرقہ واریت کو پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرےکو کافر قرار دیتے ہیں؟ کیا وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام غیر مسلم شہریوں کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے اور اپنی مذہبی تقریبات منانے کی اجازت دیتا ہے اور ان کی جان و مال کا تحفظ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے؟ یقیناً پاکستان کے مسلمان ان تمام احکامات کو جانتے ہیں لیکن حکومت اور اس کے آقاوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان یہ بھی جانتے ہیں جب کفار مسلم علاقے پر حملہ اور قبضہ کریں تو اس کے خلاف لڑنا فرض ہوجاتا ہے چاہے وہ کشمیر ہو یا فلسطین ، یا افغانستان۔ لہٰذا نہ صرف پاکستان کے حکمران جہاد کی ذمہ داری سے منہ موڑتے ہیں اور افواج کو حرکت میں نہیں لاتے بلکہ وہ ان افراد اور تنظیموں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں جو قابض افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ یقیناً پاکستان کے حکمران ان ظالموں سے دوستی کرتے ہیں جو ہم سے لڑتے ہیں اور ہمارے دین سے نفرت کرتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے،
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُواْ عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلظَّالِمُونَ
"جن لوگوں نے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی، اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے دوستی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے ، جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ:9)۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے ذریعے پاکستان کبھی بھی خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کرسکتا
23 جنوری 2018 کو ڈان اخبار نے اوکس فام انٹرنیشل، (بین الاقوامی رفاحی اداروں کی تنظیم ہے جو عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کام کرتی ہے)، کی جانب سے عالمی سطح پر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے تازہ ترین اعدادوشمار شائع کیے۔ اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں جو نئی دولت وجود میں آئی اس کا 82 فیصد امیر ترین ایک فیصد کے پاس چلی گئی، دنیا کے پچاس فیصد غریب ترین افراد کا اس دولت میں حصہ صفر فیصد رہا۔ اسی طرح پچھلی ایک دہائی میں مزدوروں کے آمدنی میں دو فیصد اضافہ ہوا جبکہ ارب پتیوں کی دولت میں 13 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا، اوردنیا کے آبادی کا تقریباً 56 فیصد کی یومیہ آمدنی 2 سے 10 ڈالر کے درمیان ہے۔
دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے حوالے سے عالمی سطح پر جو رجحانات ہیں پاکستان کی صورتحال بھی عین اسی کے مطابق ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ کے مطابق 1968 میں ڈاکٹر محبوب الحق کی جانب سے 22 خاندانوں میں پاکستان کی کُل صنعتی پیداوار کا 66 فیصد جمع ہوجانے کے مسئلے کی نشاندہی کی گئی تھی اور یہ مسئلہ آج بھی درپیش ہے۔ ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جہاں امیر 20 فیصد غریب 20 فیصد سے سات گنا زیادہ اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کا کئی جہتی غربت کا انڈیکس یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے دیہاتوں میں غربت اہم بڑے شہروں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔
سرمایہ داریت کے دانشور اور استاد سرمایہ داریت میں رہتے ہوئے ہی دولت کی تقسیم میں اس قدر وسیع خلیج کو کم سے کم کرنے کی بھر پور کوششیں کررہے ہیں۔ لیکن ایسی کوئی بھی کوشش بے کار ہے کیونکہ بیماری کا علاج بیماری سے ہی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام اپنی ساخت کے حوالے سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بذات خود بنیادی وجہ ہے۔ کوئی بھی ایسی کوشش جس کے ذریعے امیروں کے نفع کو محدود کیا جائے، ٹیکس سے بچنے کی کوششں کی حوصلہ شکنی کی جائے یا عوامی بہبود کے منصوبوں پر زیادہ خرچ کیا جائے جیسا کہ تعلیم و صحت وغیرہ، تو وہ بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرے گی۔آمدنی پر ٹیکس اور خرچ کرنے سے متعلق سرمایہ داریت کے بنیادی تصورات، دولت کی تقسیم کو مارکیٹ فورسز کے حوالے کردینا اور انسان کی بنیادی ضروریات اور اشیائے تعیش کے درمیان فرق کوملحوظ خاطر نہ رکھنا اس بدعنوانی کی وجوہات ہیں۔
اسلام نے معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے گھمبیر مسئلے کو انسانی عقل کے حوالے نہیں کردیا جو کہ غلطی اور تعصب سے پاک نہیں ہے۔ اسلام نے مکمل معاشی نظام کے حوالے سے تفصیلی احکامات دیے ہیں جس کے ذریعے دولت کی گردش کو یقینی بنایا جاتا ہے یہاں تک کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ
"تا کہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے“(الحشر:7)۔
اسلام نے کئی احکامات دیے ہیں جس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ دولت معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان بغیر کسی امتیاز کے گردش کرتی رہے۔ یہ قوانین کرنسی، سود کی ممانعت، کمپنی کا ڈھانچہ، ملکیت کی اقسام جس میں عوامی ملکیت بھی شامل ہے، محاصل کی اقسام وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ اسلام نے منفرد انداز سے معاشرے میں موجود دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی کرپشن کو حل کیا ہے۔ اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاشرے کے ایک ایک فرد کی بنیادی ضروریات مکمل طور پر پوری ہوں اور اسے اِس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آسائشوں کو بھی حاصل کرسکے۔