بسم الله الرحمن الرحيم
کیا امت کےبیٹے امریکہ کے زوال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
امت کو اسکاصحیح مقام واپس دِلواپائیں گے؟
تحریر: عبدالمجيد بھٹی
چند سال پہلے، امریکہ کے زوال پر مضامین تلاش کرنا انتہائی مشکل تھا۔ آج، امریکی طاقت کا زوال ایک مقبول موضوع بن گیا ہے۔ ایسی شہ سرخیاں جیسے"کیا امریکہ زوال پزیر ہے؟"،"امریکہ تیزی رفتار زوال کا شکار ہے ..."،"مستقبل: چین کا عروج، امریکہ کا زوال"، اور" امریکہ کا سامراجی زوال جمہوریت کو بچانے کے لئے سب سے بہتر امید ہے" ، اب اکثر دکھائی دینے لگی ہیں اور کم متنازعہ سمجھی جاتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کا داخلہ اور اس کا"سب سے پہلےامریکہ" کا نعرہ اور اس نعرے پر اصرار نہ صرف امریکہ کے زوال کے بارے میں خیالات کےفروغ کو روکنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ اس نے اسے مزید بڑھا دیا ہے۔
جنوری 2018 کے 134 ممالک کے گیلپ سروے کے مطابق دنیا میں امریکہ کے عالمی کردار پر پسندیدگی کا تناسب، جو اوباما دور میں 48 فیصد تھا، ٹرمپ کی حکمرانی کے ایک سال بعد ہی کم ہو کر 30 فیصد ہوگیا ہے۔ عالمی قیادت کے حوالے سے گیلپ سروے کا یہ اب تک ریکارڈ کیا جانے والا سب سے کم تناسب ہے۔
صرف چند دہائیوں پہلے، امریکہ روس کی سرخ (کمیونسٹ) سلطنت کو بغیر ایک گولی چلائے شکست دینے کے نشے میں مست تھااور بڑے بڑے بیانات ،جیسے کہ"امریکہ دنیا کی واحد عالمی طاقت کی نہج پر پہنچ گیا"اورامریکی "ہائپر پاور"جیسی شہ سرخیوں نے ہر جگہ کو گھیررکھا تھا۔مگر آج ،وہ دن ایک پرانی حسرت بن گئے ہیں۔
افغانستان کے انتہائی کم تربیت یافتہ اورمعمولی ہتھیاروں سے لیس جنگجو، جنہیں طالبان کہتے ہیں، نے دنیا کی سب سے طاقتور فوج کو ذلت سے دو چار کر رکھا ہے۔امریکہ کی سب سے طویل جنگ نے اپنے لوگوں کے حوصلے اور اپنے فوجیوں کی ہمت کو توڑا دیا ہے۔سولہ سال سے زیادہ عرصے تک لڑنے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، افغانستان کی صورتِ حال کا سیاسی حل ایک سراب ہے۔ طالبان کو شکست دینے کے بجائے خدشہ یہ ہے کہ امریکہ اشرف غنی کی حکومت سےمحروم ہوسکتا ہے۔
ایک حالیہ بی بی سی کی رپورٹ امریکی حکومت کی کارکردگی کومسترد کرتی ہے اور واضح طور پریہ بتاتی ہے کہ طالبان کا اثرورسوخ 70 فیصد افغانستان میں پایا جاتا ہے۔حیرت انگیز طورپر،امریکی محکمہ دفاع نے اس رپورٹ کے جوا ب میں افغان تعمیراتی منصوبے(سیگار) کے لئے متعین خصوصی تحقیقاتی جنرل کو طالبان کے زیرِ اثر علاقوں کی تعداد شائع کرنے سے روک دیا۔
امریکہ کی کمزوری کی ایک اور نشانی شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو روکنے میں اس کی ناکامی ہے۔ 1994 سے واشنگٹن نے سختی سے پیانگیانگ کو جوہری توانائی حاصل کرنے سے روکا ہوا تھا،لیکن 2006 امریکہ کو اُس وقت شدید دهچکہ لگا جب شمالی کوریا نے ایٹمی دھماکہ کیااور دنیا کے طاقتور ایٹمی کلب میں داخل ہوگیا۔ امریکہ اور شمالی کوریا کاتناؤ جوں کا توں ہے۔ مزید پابندیوں اور چین کے ساتھ بھرپور براہِ راست ایٹمی جنگ کے علاوہ امریکہ کے پاس اب اس مسئلے کے حل کے آپشنز بہت ہی محدود ہیں۔ پیانگیانگ نے امریکہ کے گھٹتے ہوئے مواقعوں کا فائدہ اٹھایا اور جنوبی کوریا کے صدر کودو طرفہ مذاکرات کے لئے مدعو کر کے واشنگٹن کی طرف سے کسی سفارتی حل کی کوششوں کو ناکام کردیا۔
جیسا کہ دنیا کی سیاسی بساط پر اکثر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیاسی مقاصد دشمن کے ساتھ جنگ کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں یا فوجی طاقت کے مظاہرے کے ذریعہ مخالف ریاست کو مجبور کر کے حاصل ہوتے ہیں۔لیکن ابھی تک افغانستان اور شمالی کوریا دونوں کے معاملے میں امریکہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ اگر دنیا کی واحد سپر پاور طویل مسائل پر سیاسی حل پیش نہ کر سکے تو اس کی فوجی بالادستی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اِن دو ممالک کے معاملات کے حل میں تاخیر امریکہ کے زوال کی اصل حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر واشنگٹن افغانستان کے لئے کوئی مستحکم سیاسی حل پیش نہیں کرسکتا یا شمالی کوریا کو ایسے ایٹمی ہتھیار بنانے سے نہیں روک سکتا جو امریکہ تک مار کر سکتا ہو، تو پھر چین اور روس جیسی دیگر طاقتور قوتوں یا پاکستان اور ترکی جیسی کم طاقتور قوتوں کو کیسے روکے گا کہ وہ اس کے مفادات کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
پاکستان امریکی قیادت کے لئے ایک دلچسپ چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں جاری مزاحمت، جس میں افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر عسکری گروہ شامل ہیں ،پاکستانی فوج کے ارد گرد گھومتے ہیں، اور جب بھی امریکہ مزاحمت کاروں کی قیادت کے ساتھ امن مذاکرات پر بات چیت کرنے کا خواہاں ہوتا ہے، اسے اسلام آباد کی لازمی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اس بات کے باوجود کہ پاکستان تضویراتی گہرائی (اسٹریٹیجک ڈیپتھ) سے محروم ہوچکا ہےلیکن پھر بھی افغان مزاحمت پر اس طرح کے اثر و رسوخ کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان امریکہ کو زک پہنچانے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے، لیکن یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اسلام آباد ایسا کرنے کی ٹھان لے۔ اور پھراس کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ کچھ اندازوں کے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد جلد ہی 240 تک پہنچ جائے گی۔اگر شمالی کوریا صرف چند ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، تو تصور کریں کہ اسلام آباد واشنگٹن کے لئے کن مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر پاکستان کے پاس ایک مخلص اور بہادر قیادت موجود ہو تو پاکستان کے لیے عین ممکن ہے کہ وہ افغانستان کو ضم کر لے جس کے بعد وہ خطے سے امریکہ کو نکال پھینکے اور اپنے بہترین ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کے بل بوتے پر ہندوستان کے ساتھ جنگ کے روایتی خطرے کا سدِ باب کر دے۔
اسی طرح ترکی، اگر چہ وہ ایک غیر ایٹمی طاقت ہےمگر یورپ میں امریکی اثر و رسوخ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ترکی براعظم یورپ میں اب تک سب سے زیادہ طاقتور نیٹو ملک ہے اور اس کی فوج براعظم یورپ میں امریکی اثرات کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسٹرٹ فور
(Stratfor)کے امریکی جیوپولیٹیکل فورکاسٹراورحکمت کار جارج فریڈمن (George Freidman)کے مطابق،ترکی کی مسلح افواج بغیر کسی رکاوٹ کے جرمنی تک ایک گھنٹے میں اور فرانس تک آدھے گھنٹے میں پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکہ کے علاوہ نیٹو کی کوئی بڑی طاقت جوترکی کی مغرب کی جانب پیش قدمی کوروک سکتی ہے تووہ صرف برطانیہ ہے۔
بدقسمتی سے یہ پاکستان اور ترکی کی منافقانہ قیادتیں ہی ہیں جو ان دونوں ممالک کوامریکی برتری کو چیلنج کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔صرف خلافت کے اسلامی پرچم کے تحت کام کرنے والی مخلص قیادت ہی یورپ اور برِصغیر میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو ختم کرے گی اور دنیا میں ایک نئے اسلامی اثر و رسوخ اور حکمرانی کو قائم کرے گی۔لیکن کیا مسلح افواج میں کوئی ہے جو خلافت کو قائم کرکے اس اسلامی اثر و رسوخ اور حکمرانی کو قائم کرے؟
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
"اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ جب رسول تمہیں اُس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشی گی، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے"( الانفال :24)