بسم الله الرحمن الرحيم
ہندوستان کی تاریخ کوکیسےمسخ کیا گیا؟
محمد عمر, پاكستان
آپ کویاد ہوگا لڑکپن میں مطالعہ پاکستان کے پرچے میں قائداعظم کے14نکات کےعلاوہ جو ایک سوال تواترسےپوچھاجاتاتھاوہ تھامغلوں کےزوال کےاسباب بیان کریں۔اورجس طرح طالبعلم 14نکات کورٹتے تھےاسی طرح کوئی سولہ یاسترہ کےقریب زوال کے اسباب بھی یادکرتے تھے۔ان میں سےکچھ ابھی بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔مثلا مغل شہزادوں کی عیاشیاں،آپس کی ریشہ دوانیاں،سائنس اورٹیکنالوجی پرتوجہ نہ دینا،فوجی قوت کوجدیدتقاضوں سےہم آہنگ نہ کرنا،مراٹھوں کی بغاوت وغیرہ وغیرہ۔آج بھی اس سوال کاایساہی جواب بچوں کوپڑھایاجارہاہے۔معاشرتی علوم کی ساتویں جماعت کی کتاب چندروزقبل میری نظروں سےگزری، جس میں درج مغلوں کےزوال کاپہلاسبب پیش خدمت ہے۔
The Ruling class, especially Mughal Court, had rapidly grown corrupt both ethically and morally. After the death of Aurangzeb, his successors proved inept, abundance of wealth created problems, martial way of life became tough for rulers and drinking was the norm of the day.
زوال کےپہلےسبب میں اورنگزیب کےساتھ کچھ رعایت روارکھی گئی اوریہ تاثردیاگیاکہ زوال اورنگزیب کےبعدآیا۔مگردوسرےسبب میں اورنگزیب کی پالیسیوں کوبھی تنقیدکانشانہ بنایاگیاہے :
The Mughal Empire lacked the ideology base. It was only Aurangzeb (1658-1707) a later Mughal ruler, whodeclared Islam as a state religion and tried to put state affairs in line with Shariah. But as such a belated stage, it only promoted the anti-Mughal resentment in minorities of the subcontinent. As a result, Aurangzeb got engaged in a series of local insurgencies including the campaigns against the Sikhs of Punjab and Marathas of South India. The central government weakened and the provinces grew autonomous that created financial crunch for the centre.
مطلب پوری کی پوری مغل ایمپائرکسی بھی نظریہ پرکھڑی نہ تھی۔اورنگزیب پہلااورآخری حکمران تھاجس نےاسلام کوریاست کےمذہب کےطورپراختیارکیااورکوشش کی کہ ریاستی امورکوشریعت کےمطابق چلایاجائے۔مگرشریعہ کےنفاذکی یہ کوشش اقلیتوں کیلئےبےچینی کاباعث بنی اورسکھوں اورمراٹھوں کی بغاوت نےسراٹھالیا۔
یقیناً مغلیہ حکومت کے زوال کے کچھ اسباب بھی تھےظاہرہےکہ زوال کاسفر بےسبب تونہ تھا۔مگراوپربیان کئےگئےان دواسباب میں ہی ہمیں ایک تضادنظرآتا ہے۔پہلےسبب میں یہ کہاگیاکہ اورنگزیب کی وفات کےبعدان کےجانشین نااہل ثابت ہوئےاوردولت کی فراوانی بھی مسائل کاباعث بنی۔جبکہ دوسرےسبب میں یہ دعویٰ کیاگیاکہ ریاستوں کی خودمختاری کےباعث مرکزکمزورہوااوراسےمالی مسائل کاسامناکرناپڑا۔اسی طرح جہاں ایک طرف توشریعت کےنفاذکی تعریف کی گئی دوسری طرف اسی نفاذکوزوال کاسب سےبڑاسبب گرداناگیا۔
بہرحال زوال کےاسباب کےبارے میں اس سوال کاجواب تحریرکرتےکرتےمغل حکمرانوں کےبارےمیں ایک خاص نقطہ نظرپروان چڑھتاہے۔اوروہ 'نقطہ نظر'یہ ہےکہ یہ مطلق العنان بادشاہ تھے۔عیاشیوں میں ڈوبےہوئےتھے۔پڑھنےلکھنےسےان کادوردور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔اقتدارکےلالچ نےان کواندھاکردیاتھا۔ہروقت آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہتےوغیرہ وغیرہ۔
زوال کایہ نظریہ دھیرےدھیرےہندوستان کے بسنے والوں کےدماغوں میں ڈالاگیا۔اوراگرمغل حکومت کوزوال ہوبھی رہاتھاتواسےہندوستانی معاشرےکےزوال کےطورپرپیش کیاگیا۔اس نظریےکونہ صرف تاریخ بلکہ نصاب کی کتابوں کےذریعےبھی پروان چڑھایاگیا۔زوال کےاسی نظریےکےبارےمیں معروف پاکستانی مورخ ڈاکٹرمبارک علی اپنی کتاب برطانوی راج میں لکھتاہے،"ہندوستان میں برطانوی اقتداراوراس کےپھیلاؤکوزوال کےپس منظرمیں دیکھاجاتاہےاس سےیہ تاثرابھرتاہےکہ مغل زوال کےبعدہندوستان کامعاشرہ ٹکڑےٹکڑےہوکربکھررہاتھا،اس کی معیشت تباہ ہورہی تھی،اس کی اخلاقی اقدارگررہی تھیں۔اس کےسماجی اورثقافتی ادارےٹوٹ رہےتھے۔ان حالات میں جب طاقت واقتدارکاخلاتھا،اس وقت انگریزی حکومت نےاسےپُرکیااورہندوستان کےحالات کوسنبھالا۔انہوں نےخانہ جنگی کوختم کیا،ٹھگوں،ڈاکووں اورلٹیروں سےراستوں کومحفوظ کیا،ملک میں امن وامان کوبحال کیااورایک ایسی مضبوط ریاست کی بنیادڈالی کہ جس نےسیاسی اورمعاشی استحکام کوپیداکیا۔۔۔ جتنازوال اوراس کےنتائج کوبیان کیاجائےگااسی قدرانگریزی اقتدارکی اہمیت بڑھتی چلی جائےگی۔گویا انگریزوں نےہندوستان کی ایک تاریک تصویرکھینچی کہ جس میں وہ روشنی بن کرآتےہیں اورزوال کےعمل کوروک کریہاں استحکام پیداکرتےہیں۔"
معروف برطانوی ادیب اورمورخ بیورلی نکلس نےاپنی کتاب ورڈِکٹ آن انڈیامیں لکھاتھا۔"جلدیابدیرایک وقت آئےگاجبکہ دنیایہ محسوس کرےگی کہ برطانیہ کاذہنی اورعلمی اقتدارہندوستان سےکبھی زائل نہیں ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سےکچھ کوتاہیاں اورغلطیاں سرزدہوئیں۔کبھی کبھی جذبات کی رومیں ہم آپےسےباہربھی ہوگئےاوربارہاہم تنگ خیالی کےمرتکب ہوئے۔ان سب کےباوجودہم نےہندوستان کوامن عطاکیا۔وہ امن جس کی بنیادتباہ کاری پرنہ تھی۔ہم نےہندوستان کوقانون دیا۔وہ قانون جس میں جبروتشددکودخل نہ تھا۔اورسب سےبڑھ کریہ کہ ہم نےہندوستان کوآزادی کی دولت بخشی۔کیونکہ ملٹن،لاک،مِل،برائٹ اورگلیڈاسٹون کےاعلیٰ خیالات ہی کی بدولت سب سےپہلے ہندوستانیوں کےدماغ روشن ہوئےاورانہوں نےآزادی کےحقیقی مفہوم کوسمجھا۔"
نوآبادیاتی دورمیں مختلف علاقوں کی فتوحات کےبعداستعماری کفارنےمقبوضہ علاقوں کےعوام کوذہنی طورپرغلام بنانےکیلئےدقیق منصوبہ بندی کی۔تاریخ کی تبدیلی انہی کوششوں میں سےایک تھی۔تاریخی حقائق کو خاص مقاصد کے تحت مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ محکوم قوموں کودبانے ، انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے اوراپنے جابرانہ تسلط کا جواز گھڑنے کیلئےتاریخ کی بھیانک منظر کشی کی گئی۔تاکہ یہ قومیں اپنےماضی کےحوالے سےہمیشہ شرمندہ رہیں۔اوران شرمندہ قوموں کویہ سمجھادیاجاتاہے کہ جوقومیں ماضی میں کچھ نہ کرسکیں وہ حال میں بھی کچھ نہیں کرسکتیں اورمستقبل میں بھی ان کاکوئی حصہ نہیں۔
ہندوستان کی تاریخ بھی ایسی ہی ایک مسخ کردہ تاریخ ہے۔یہاں ہمیں ہردورکےحوالے سےمختلف قسم کی آراء مل سکتی ہیں۔مسلمان حکمرانوں کےادوارتوخاص طورپرمورخین کاتختہ مشق رہے۔محمدبن قاسم سےلیکر،غزنوی اورغوری اورپھرمغل حکمرانوں تک ،تمام ادوار کومتنازع بنایاگیا۔اکبراوراورنگزیب کےحوالے سےبھی ہمیں مختلف قسم کی آراء نظرآتی ہیں۔
تاریخ میں تخریب کاپہلواورینٹلزم یعنی استشراق سےبہت گہرائی سےجڑاہواہے،اگرہم چندسطروں میں اورینٹلزم کوسمجھ لیں گےتونوآبادیاتی دورمیں تاریخ سےکئےگئےکھلواڑکی وجوہات جاننےمیں مددملےگی۔اورینٹلسٹس یامستشرقین کی اصطلاح بنیادی طورپران مغربی دانشوروں اورمصنفوں کےلئےاستعمال کی جاتی ہےجومشرق کواپنی تحقیق کاموضوع بناتےہیں۔ابتدائی مستشرقین ایشیااورافریقہ کےباسیوں کوایک مختلف اندازسےدیکھتےتھے۔یعنی وہ ان اقوام کویورپی اقوام سےمختلف خیال کرتےتھے۔یہ وہ دورتھاجب یورپ میں سائنسی ترقی شروع ہوچکی تھی اوروہ صنعتی ترقی کی طرف گامزن تھے۔مستشرقین نےاپنےمعاشروں کےسامنےہندوستانیوں کی کم وبیش ایسی ہی تصویرپیش کی جیسی آج کل ہمارےسامنےکافرستان یاوادی کیلاش کی پیش کی جاتی ہے۔مستشرقین کاخیال تھاکہ مشرق کےباسی ذہنی صلاحیتوں کےلحاظ سےمغرب سےکمترہیں۔خصوصاہندوستان کےباسی تواس قابل بھی نہیں کہ وہ امورمملکت چلاسکیں۔اس لئےیہ بات ہندوستان کےباسیوں کیلئےباعث فخرواطمینان ہونی چاہئےکہ اب عظیم برطانیہ ان کی امدادکوآن پہنچاہے۔اوراب جلدہندوستان بھی اصلاح کےراستےپرگامزن ہوگا۔ یہ تھاوہ ساراماحول جس میں برطانوی استعمارہندوستان کی تاریخ کوبدلنےکےدرپےتھا۔
ہندوستان پراقتدارکےاستحکام کیلئےسب سےپہلےتویہ ضروری تھاکہ انگریزخودہندوستان کےبارےمیں آگاہی حاصل کرے۔ اس مقصدکےحصول کیلئے۱۷۸۴کوکلکتہ میں ایشیٹک سوسائٹی کاقیام عمل میں لایاگیا۔اس سوسائٹی کی میٹنگزمیں ہندوستان کی تاریخ، زبانوں، مذاہب اوررسوم ورواج کوزیربحث لایاجاتا۔یہ میٹنگز استعماری مقاصد کے تحت تھیں اسی لیے کئی سال تک کسی بھی ہندوستانی کیلئےاس سوسائٹی کی رکنیت ممنوع رہی۔حالانکہ سوسائٹی کےاجلاسوں میں اپنی معلومات پیش کرنےوالےبہت سےگورےمقامی اسکالرزسےاستفادہ حاصل کررہےہوتےتھے۔
یورپی مفکرین اور تاریخ دانوں نےہندوستان کومحض ہندواورسنسکرت تہذیب کےطورپرپیش کیا۔اورترک، افغان اورمغل حکمرانوں کےادوارمیں فارسی زبان میں تحریرکئےگئےان تمام تاریخی ماخذوں کویہ کہہ کرمستردکردیاکہ یہ ہندوستانی تہذیب سےمطابقت نہیں رکھتے۔باوجودیکہ ان ماخذوں میں ہندوستانی سیاست اورمعاشرت کوہی بیان کیاگیااوران کےلکھنےوالےبھی ہندوستان میں بسنےکےبعداسی معاشرےکاحصہ بن گئےتھے۔تاریخ میں محض ہندوازم اورسنسکرت کوہی اجاگرکیاگیاجبکہ دوسری ثقافتوں اورمذاہب جیساکہ بدھ ازم، جین ازم اوراسلام کوہندوستانی تہذیب کوپروان چڑھانےکےحوالے سےبمشکل ہی تسلیم کیاگیا۔ بھارتی مورخ رومیلہ تھاپڑکےبقول یورپ کی اسلام سےدشمنی کی تاریخی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں، جن کاآغازہمیں صلیبی جنگوں سےملتاہے۔
ابتدامیں یورپ کےصنعتی انقلاب اوراس سےآنےوالی تبدیلیوں سےخوفزدہ کچھ مستشرقین نےہندوستان سےاپنی پسندیدگی کااظہاربھی کیا۔ان میں جرمن مصنفین ہرڈر، ول ہیلم، آگسٹےشلیگل، نوالیس اورانگریزشاعرورڈزورتھ اورکالرج شامل ہیں۔مگرپسندیدگی کایہ وقتی اظہارانیسویں صدی میں مغربی تہذیب کی بالادستی کےاظہارمیں تبدیل ہوگی اورمشرقی تہذیبوں کےبارےمیں یہ خیال نمایاں ہواکہ کسی زمانےمیں یہ تہذیبیں عظیم توتھیں مگراب زوال کاشکارہیں۔ان خیالات نے انیسویں صدی کےاواخرمیں ہندوستان کی مڈل کلاس کی اپنےماضی کےبارےمیں سوچ کوبھی متاثرکیا۔رومیلہ تھاپر لکھتی ہے:
There was an attempt to formulate Indian culture as uniform, such formulations being derived from texts that were given priority. The So-called ‘discovery’ of India was largely through selected literature of Sanskrit.
یورپی مفکرین کی ایک بڑی جماعت ہندوستانی ثقافت پرتنقیدمیں مصروف ہوگئی۔ان میں سرفہرست جیمزمِل اورلارڈمیکالےکےنام شامل ہیں۔جیمزمِل وہ پہلامورخ تھاجس نےہندوستانی تاریخ کوتین مذہبی ادواریعنی ہندو،مسلم اوربرطانوی میں تقسیم کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نےپرانےہندودورکوگولڈن، مسلم دورکوڈارک اوربرطانوی دورکوماڈرن ادوارکےخطابات بھی دئیے۔جیمزمل کی کتاب ہسٹری آف برٹش انڈیابعدمیں آنےوالی تاریخ کی کتابوں کیلئے ایک اہم ماخذکےطورپراستعمال ہوتی رہی۔جیمزمِل نےہندوستان کی تاریخ پرایک ضخیم کتاب تحریرکی مگروہ کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا! تاہم کتاب لکھنےکےانعام میں جیمزمل کوبھاری تنخواہ پرایسٹ انڈیاکمپنی میں ملازمت مل گئی۔اوربعدمیں جیمزمل کابیٹااورمعروف فلاسفرجان اسٹیوارٹ مِل جواپنی تصنیف" آن لبرٹی" سےمشہورہوابھی کمپنی کاملازم ہوا۔جان اسٹیورٹ مل نےایسٹ انڈیاکمپنی میں قریب 35برس تک ملازمت کی۔
جان اسٹیورٹ مل اپنےوالدجیمزمل سےبھی چارہاتھ آگےنکلا۔جےایس مل نےہندوستان پربرطانوی قبضےکاخوب دفاع کیا۔جونیئرمل کاکہناتھاکہ مہذب اوروحشی معاشروں میں موجود بنیادی فرق کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔جان اسٹیورٹ کاخیال تھاکہ چین اورہندوستان دونوں کسی زمانےمیں ترقی پسندممالک تھےجواب جمودکاشکارہوچکےہیں۔جہاں مِل نےاپنی تصنیف آن لبرٹی میں فردکی آزادی پرمعاشرےکےاختیارکی حدودپربات کی۔وہیں مل نےیہ بھی واضح کیاکہ آزادی کایہ تصورتمام افراداورتمام معاشروں کیلئےنہیں ہے۔جان اسٹیورٹ مل کہتاہےوحشیوں سےنمٹنےکیلئےجابرانہ طرزحکومت ہی واحدحل ہے۔
ادھرلارڈمیکالےکاکرداربھی خاصہ اہم ہے۔میکالےجس نےہندوستان میں نام نہادجدیدنظام تعلیم متعارف کرایا۔وہ بھی ہندوستانی معاشرےکےبارےمیں جان اسٹیورٹ مل کاہم خیال تھا۔وہ سمجھتاتھادنیامہذب اورغیرمہذب اقوام میں تقسیم ہےجبکہ برطانوی معاشرہ تہذیب کی انتہائی اعلیٰ سطح پرموجودہے۔
میکالےنےہی یہاں انگریزی زبان کوذریعہ تعلیم کےطورپرپیش کیااورمغربی افکارکوتعلیمی نظام کاحصہ بنایا۔حیرت انگیزطورپرجب انگریزی ادب کامضمون ہندوستانی تعلیمی اداروں میں پڑھایاجارہاتھاتب یہ برطانیہ کی کسی یونیورسٹی کےنصاب میں موجودنہیں تھا۔
برطانوی دورمیں ہندوستان کی نئی تاریخ مرتب کرتےہوئےاس بات کابھی خیال رکھاگیاکہ غیرمسلموں کےسامنےمسلمان حکمرانوں کاظالم چہرہ پیش کیاجائے۔اوراسی کوشش میں ایک معاملہ ہندوستان کےمقامی افراد کوزبردستی مسلمان کرنےکےالزام کابھی ہے۔اس بات کوتاریخ کی کتابوں میں اس طورسےدہرایاگیاکہ اسےہی سچ سمجھاجانےلگا۔محمودغزنوی پرایک ہزارپندرہ میں کشمیرمیں لوٹ ماراورمقامی لوگوں کوزبردستی مسلمان کرنےکےالزام لگائےگئے۔اسی طرح بعدکےحملوں میں موجودہ یوپی کےشہروں ماٹھورااورکنوج اورراجھستان کےضلع باران میں بھی طاقت کےذریعےمذہب کی تبدیلی کی بات کی گئی۔محمدغوری کےبارےمیں بھی یہ کہاگیاکےان کےحملوں میں ہزاروں لوگوں کوغلام بنایاگیااور آزادی کیلئےمسلمان ہونےکی شرط رکھی گئی۔چودھویں صدی عیسوی میں کشمیرکےمسلمان سلطان سکندربت شکن اورمغل حکمران اورنگزیب کےبارےمیں بھی ایسی ہی باتیں دہرائی گئیں۔مورخین ٹائٹس مرے،رامیش چندراماجومدار،کےایس لال اورشری رام بخشی نے ان واقعات کوبیان کیاہے۔
رامیش چندراماجومداربرطانوی دورمیں کلکتہ یونیورسٹی میں تاریخ کاپروفیسرتھا۔1937 سے42تک یونیورسٹی آف ڈھاکہ کاوائس چانسلربھی رہا۔تقسیم ہندکےبعداسے تحریک آزادی کی تاریخ مرتب کرنےکیلئےقائم کی گئی حکومتی کمیٹی میں شامل کیاگیا۔تب سوال پیداہواکہ تحریک آزادی کی تاریخ کہاں سےشروع کی جائے؟بعض لوگوں کاخیال تھاکہ اسے1857 کی جنگ آزادی سےشروع ہوناچاہئے۔جبکہ رامیش چندرانےاس بات پربھارتی وزیرتعلیم مولاناابوالکلام آزادسےاختلاف کیااورکمیٹی کی رکنیت سےاستعفیٰ دےدیا۔رامیش چندرانےجنگ آزادی کومحض sepoy mutinyکانام دیا۔اس کاخیال تھاکہ تحریک آزادی صحیح معنوں میں اس وقت شروع ہوئی جب ہندوستان کی انگریزی تعلیم یافتہ مڈل کلاس سیاست میں آئی۔وہ تحریک آزادی کی شروعات کو1905 کی تقسیم بنگال کےخلاف تحریک بنگابھانگاسےمنسوب کرتا ہے۔ رامیش چندرابھی انگریزی نظام تعلیم کی پیداوار تھا۔اس کی مرتب کردہ تاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ مسلمانوں کےہندوں پرمظالم اورزبردستی مذہب کی تبدیلی کاذکرملتاہے۔وہ اپنی کتابوں میں ہربرٹ ہوپ رزلے، بیورلےنکلس اورڈبلیوڈبلیوہنٹرکی تحقیق کابھی ذکرکرتاہے۔رزلےاورہنٹردونوں ہی انڈین سول سروس کاحصہ تھے۔اورانہوں نےاپنی کتابوں میں اسلام کےتلوارکےزورپرپھیلانےکےنظریےکاپرچارکیاہے۔
نوآبادیاتی دورکےکسی بھی مورخ نےیہ وضاحت کرنےکی کوشش نہیں کی کہ طاقت کےذریعے مذہب کی تبدیلی عملی طورپرکس طرح ممکن ہوئی۔پھراگرتلوارکےاس نظریےکومان لیاجائےتواس کےمطابق ہوناتویہ چاہئےتھاکہ جن علاقوں پرمسلمانوں کااقتدارزیادہ مضبوط اوردیرپاتھاوہاں مسلمانوں کی آبادی بھی زیادہ ہوتی۔لیکن حقیقت اس کےبرعکس ہے۔مشرقی بنگال اورمغربی پنجاب،جہاں اسلام سب سےزیادہ تیزی سےپھیلا۔یہ وہ علاقے تھےجہاں مسلمان حکمرانوں کی تلوارسب سےزیادہ کمزورتھی۔ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کاسترسےنوےفیصدتھی۔دوسری طرف وہ علاقے جہاں مسلم حکمرانوں کااقتدارزیادہ مضبوط تھامثلادلی اورآگرہ،یہاں مسلمان کل آبادی کامحض دس سےپندرہ فیصدتھے۔
ایک اوراہم معاملہ محمودغزنوی کےسومنات پرحملےکاہے۔تاریخ کی کتابوں میں اس واقعےکوبھی مختلف اندازسےپیش کیاگیا۔ان حملوں سےمتعلق اتنی زیادہ کہانیاں ہیں کہ سچ تک پہنچنابہت ہی مشکل لگتاہے۔لیکن یہ بات طےہے کہ وہ بھی درست نہیں جسےآج بڑھاچڑھاکرپیش کیاجاتاہے۔محمودغزنوی نےسومنات پرآخری حملہ ایک ہزارچھپیس میں کیا۔ان حملوں سےمتعلق پانچ مختلف قسم کےبیانئےموجودہیں۔اورپانچوں بیانیوں میں بھی جگہ جگہ تضادات ہیں۔ترکی اورفارسی ماخذ،سنسکرت تحاریراورجینایعنی جین ازم کےماخذکےعلاوہ برطانوی پارلیمنٹ کی بحث اورپھربھارت میں ہندوقوم پرستی کابیانیہ۔کہیں کہاگیاکہ سومنات کےمندرمیں نصب بت پتھرکاتھا،کہیں یہ کہ وہ لوہےکاتھااورمقناطیس کی مددسےہوامیں معلق تھا۔کسی نےلکھاکہ پتھرکےبت کےپیٹ کوجب پھاڑاگیاتواس میں سےکئی من سونابرآمدہوا۔کسی نےیہ بھی لکھاکہ یہ وہ منات کابت تھاجوفتح مکہ کےوقت خانہ کعبہ سےغائب کردیاگیاتھا۔لات اورعزی نامی بتوں کوتوڑدیاگیاتھا۔کسی نےیہ وضاحت نہیں کی کہ محمودغزنوی غزنی سےگجرات تک ہزاروں میل کافاصلہ طےکرکےپہنچا۔اس نےہندوستان میں موجوددیگرہزاروں مندروں کوکیوں نہ نقصان پہنچایا؟اسی طرح اگرسومنات کےمندرپرحملہ اتناہی سنگین واقعہ تھاتواس کےبعدوہاں مسلمانوں اورہندوں کےدرمیان فسادات کیوں نہ پھوٹے؟
لیکن محمودغزنوی کےان حملوں کی کہانیوں سےاگرکسی کوکوئی فائدہ ہواتووہ انگریزتھا۔1843میں گورنرجنرل ایلن برونےاعلان کیاکہ سومنات کےمندرسےدروازے چراکرغزنی میں نصب کئےگئے۔ہندوستان کایہ اثاثہ واپس لایاجائےگا۔اس اعلان کےبعدبرطانوی پارلیمنٹ میں ایک بحث ہوئی جس میں یہ ثابت کیاگیاکہ مندرکی تباہی ہندومذہب کی توہین ہے۔ان دروازوں کوواپس لاکراس عزت کوبحال کیاجائے۔اس بحث کاایک مقصدافغانستان میں ہونےوالی جنگ کیلئے ہندووں کی فوجی بھرتی تھااوردوسراہندووں اورمسلمانوں کوآپس میں لڑانا۔بہرحال جب ان دروازوں کواکھاڑکرہندوستان لایاگیاتوان پرلکھی قرآنی آیات سےمعلوم ہواکہ ان کاتعلق مصرسےہے
!
اسی طرح تاریخ ہندوستان کےایک اورعظیم کرداراورنگزیب عالمگیرکی شخصیت کوبھی محض اس لئےمتنازع بنایاگیاکہ وہ مذہبی طورپرایک راسخ العقیدہ شخص تھا۔مورخین نےاورنگزیب پرتنقیدکیلئےفرانسیسی سیاح اورطبیب فرانسس برنیئرکی یادداشتوں کوماخذکےطورپرلیا۔برنیئراورنگزیب کےبڑےبھائی داراشکوہ کاذاتی معالج تھا،بعدمیں اورنگزیب کےساتھ بھی رہا۔فرانسس برنیئرجہاں داراشکوہ کواس کےلبرل خیالات کی وجہ سےپسندکرتاتھاوہیں اورنگزیب کومذہبی ہونےکی وجہ سےناپسندبھی کرتاتھا۔اورنگزیب پرجہاں غیرمسلموں سےبرےسلوک کےالزامات لگےوہیں یہ الزام بھی لگاکہ اس نےاقتدارکیلئے اپنےتینوں بھائیوں کوقتل کردیا۔حالانکہ تاریخی شواہدکودیکھیں تومعاملہ اتناسادہ نہیں جتنادکھایاجاتاہے۔
ہندوستان میں اقتدارکی منتقلی کاکوئی باقاعدہ طریقہ کاروضع نہیں تھا۔جس وجہ سےحکمران کےانتقال کےبعداس کے بیٹوں میں اقتدارکی رسہ کشی کے واقعات ملتے ہیں۔بعض اوقات یہ کام دربارمیں موجودبااثرامراء کی اکثریت کی حمایت حاصل کرکےپرامن طریقے سےہوجاتااوربعض اوقات اس کے لیے لڑائیان بھی ہوئیں۔شاہجہان کےچاروں بیٹےداراشکوہ،اورنگزیب،شاہ شجاع اورشاہ مرادمختلف علاقوں کےعامل تھے۔ اورنگزیب نےیقینی طورپراپنےبڑےبھائی داراشکوہ سےجنگ کی اوراسےقتل کیا۔لیکن اس کی وجہ داراکےملحدانہ خیالات تھے۔اورنگزیب اسلام سے شدید محبت کرتا تھا اورنہیں چاہتاتھاکہ ہندوستان کااقتدارکسی ایسےشخص کےسپردہوجس کااسلام سےدوردورکوئی واسطہ نہیں۔داراشکوہ کی موت کےبعداس کےبیٹے کودامادبنانا،داراکےدرباریوں اورفوجیوں کومعاف کردیا۔اورداراکاساتھ دینےوالی بہن جہاں آراء کےساتھ حسن سلوک ظاہر کر تا ہے کہ جنگ کا محرک محض دارا کی مخالفت نہیں تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اورنگزیب کے اسلام کے نفاذ پر خصوصی توجہ دینا اس بات کی توثیق کرتا ہے۔
استعماری تاریخ نےمسلمان حکمرانوں کومطلق العنان بادشاہوں کےطورپرپیش کیا۔اس تاریخ کوپڑھنےوالےاس سےمتاثرہوئےبغیرنہ رہ سکے۔اکثرمورخ گورے کےاس فریب کاشکارہوئے۔مثال کے طور پر ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب'مغل دربار'میں جہاں ایک طرف یہ لکھتاہے کہ نظریاتی طورپرمغل بادشاہت کی بنیاداس تصورپرتھی کہ بادشاہ شریعت سےبالاترہستی نہیں ہے۔اس لئےایسے خطابات اختیارکئےجاتےجن سےیہ ظاہرہوتاکہ وہ اسلام کامحافظ، دفاع کرنےوالااورقوت پہنچانے والاہے۔مغل بادشاہ خودکوہندوستان میں مسلمانوں اورہندوں دونوں کامحافظ سمجھتےتھے۔دوسری طرف وہ یہ بھی لکھتاہے کہ اس سب کےباوجودسلطنت کےانتظامی معاملات اورآئین جہان بانی وجہاں داری میں یہ بادشاہ لامحدودطاقت رکھتے تھےاوران معاملات میں وہ شریعت کےقطعی پابندنہیں تھے۔ یہ مورخین سیکولراورمغرب کے عطا کردہ جمہوری نظریات سے متاثر تھے چنانچہ انہوں نے استعمار کے پیدا کردہ تاثر کو اپنالیا اس پر مستزاد یہ کہ یہ مورخین حکمرانی سے متعلق اسلام کے احکامات اور ان کی عملی شکل کی سمجھ نہیں رکھتے تھے پس انہوں نے رونما ہونے والے واقعات کی تشریحات سیکولر پیمانوں پر کیں ۔
انگریزوں نے اس خطے کی تاریخ کے متعلق اپنی تشریح کو اس خطے کے لوگوں میں پھیلانے کے لیے سر توڑ کوشش کی۔تحریف شدہ تاریخ انگریزی زبان میں لکھ لی گئی مگراب اسےہندوستانیوں کےدماغوں تک پہنچاناضروری تھا۔ اس کےلئےمکمل لائحہ عمل تشکیل دیاگیا۔سرکاری نوکری کیلئےانگریزی سیکھناضروری قرارپایا۔نہ صرف یہ بلکہ انگریزی نظام تعلیم کوبھی ہندوستان کےطول وعرض تک پھیلانےکیلئےاسکولوں،یونیورسٹیوں اورکالجوں کاجال بچھایاگیا۔سب سےپہلے 1857 میں یونیورسٹی آف کللکتہ، یونیورسٹی آف بمبئی اوریونیورسٹی آف مدراس کاقیام عمل میں لایاگیا۔1864 میں گورنمنٹ کالج لاہورکی بنیادرکھی گئی۔جس کاالحاق شروع میں کلکتہ یونیورسٹی سےکیاگیا۔1882میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی۔انگریزکےعزائم پرعملدرآمدکیلئےسرسیدبھی پیش پیش تھےاورخصوصامسلمانوں میں انگریزی زبان اورنظام تعلیم کی ترویج کیلئےعلیگڑھ میں 1875میں محمڈن اینگلواورینٹل کالج بنایاگیا۔جو1920میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل گیا۔اس کےبعدڈھاکہ،دلی،میسور،پٹنہ،الہ آباد،لکھنو،ناگپور،آندھرااورکیرالہ یونیورسٹیوں کاقیام بھی عمل میں آیا۔
ان یونیورسٹیزکےعلاوہ بہت سےکالجزاوراسکولزبھی بنائےگئے۔اوران سب کامقصدایک ایسی ایلیٹ کلاس کی تشکیل تھی جومغربی افکاراورثقافت سےہم آہنگ ہو۔اوربرطانوی استعماری نظام کےاستحکام کیلئے انگریزحکمرانوں اورہندوستانی عوام کےدرمیان سہولت کارکافریضہ سرانجام دے۔ان یونیورسٹیوں سےفارغ التحصیل طلباء میں سےچنیدہ افرادکومزیداعلیٰ تعلیم کیلئےلندن بھی بھیجاجاتا۔حیرت انگیزطورپرنام نہاد تحریک آزادی کےتینوں سرکردہ رہنماگاندھی، نہرواورجناح بھی انہیں چنیدہ افرادمیں شامل تھے۔ان تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلباء کومقامی تہذیب وثقافت سےدورکرنےاورمغربی تہذیب کےزیراثرلانےکاپوراپورااہتمام کیاگیاتھا۔یہ ذہن سازی کس طرح ہورہی تھی۔اس کیلئے چندمثالیں پیش خدمت ہیں۔
1896میں ایم اےانگلش کےپرچہ میں اردوکاایک پیراگراف انگریزی میں ترجمہ کیلئےدیاگیا۔یہ پیراگراف کیاتھاملاحظہ ہو۔
"ہندوستان کی عورتوں میں جہالت بھری ہوئی ہے۔اونکےجتنےخیالات ہیں سب بھدے،انکی جتنی باتیں ہیں سب بونگی۔انکےجتنےطریقےہیں سب بےڈھنگے۔کن کن باتوں کوروئے۔ملک ان ہی کی وجہ سےتباہ ہورہاہے۔قوم ان ہی کی طفیل بربادہوئی چلی جاتی ہے۔ایک مثال لو،ایک نوجوان جوبی اےپاس کرچکاتھااپنی ماں سےکہنےلگاکہ مجھےلندن جانےدو۔تین برس بات میں نکل جائیں گےمیں بیرسٹری پاس کرکرچلاآونگا۔یہ سن کرجاہل ماں اسقدرپیٹی کہ ہمسایہ کی عورتیں آگئیں۔ہرچندعورتیں سمجھاتی رہیں مگراماں جان کی توہچکی بندھ گئی۔"
یہ پرچہ ابھی بھی پنجاب یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں محفوظ ہے۔اوردیکھاجاسکتاہے۔اسی طرح 1899میں ایم اےانگلش کےپرچےمیں دیاگیااردوکاپیراگراف دیکھئے:
"تاریخ سےظاہرہوتاہےکہ سکندروقیصرروماونپولین جیسےجیسےمردہوگزرےہیں جنہوں نےجوکچھ اونکےسدراہ ہوااوسکوپامال کیا۔اوراپنی کمال اولعزمی سےممالک وسیع کواطاعت پرمجبورکیا۔لیکن پہلےکبھی کسی قانون کےپابندبادشاہ کےتخت میں ایسی وسیع سلطنت نےنشوونمانہیں پایا،ستمبرگزشتہ میں مجھےاس امرپرذکرکرنیکااتفاق ہواتھاکہ گردش زمانہ نےحضرت ملکہ معظمہ کی کونسلوں میں سےحضرت موصوفہ کےوزیرونکوکسطرح ایک ایک کرکےاوٹھالیامگرمیں اس امرپرطویل تقریرنہیں کرونگانہ اوس غم کازیادہ ذکرکرونگاجس سےاونکی علیحدگی نےحضرت ملکہ معظمہ کےدل کوآزردہ کیا۔لیکن میں پھرکہتاہوں کہ جس حالت حکمرانی کوشایدایک ممالک فتح کرنےوالابادشاہ کمزوری خیال کرتا،اوسےحضرت ملکہ معظمہ نےادائیگی فرض کوہروقت مدنظررکھنےسےاوراپنی عورتوں والی فراست اورعظمت سےایساباعزت،مستحکم اورواقعی پرزوربنادیاہےکہ ان باتوں میں کوئی بھی تخت برطانیہ کےساتھ دعویٰ ہمسری نہیں کرسکتا."
ملکہ معظمہ کیلئےعورتوں والی فراست اورعظمت جیسےالفاظ۔اورہندوستانی خواتین کیلئےجاہل کےخطابات۔غرض دورغلامی کی یادگارپنجاب یونیورسٹی میں یہ تعلیم دی جارہی تھی۔اسی برس یعنی 1899کاایک اورپرچہ بھی دیکھنےکےلائق ہے۔یہ ایک نواب اورمس صاحبہ کےدرمیان مکالمہ ہے۔
”نواب: میں آپ سےکیاکہوں آپ توجانتی ہی ہیں کہ ہم لوگوں کےیہاں عورتوں کی تعلیم کی کیاحالت ہےاول کوئی عورت پڑھی لکھی ملتی ہیں نہیں جوپوری طرح سےتعلیم دے۔دوسرےیہاں کی مائیں ایسی اجہل اورلاپرواہ ہوتی ہیں کہ اس طرف کچھ خیال ہی نہیں کرتی ہیں۔میں اکیلاکیاکرسکتاہوں؟کدھردیکھوں کدھرنہ دیکھوں مجھکواموردنیاوی سےاتنی فرصت کہاں ہوگی کہ خوداپنی لڑکی کوتعلیم دوں۔
مس صاحبہ: لیکن اگرکوئی عورت ایسی لائق نہیں ملتی تھی توآپ کےیہاں مولوی توہیں انہیں سےتعلیم دلوائی ہوتی۔
نواب: یہ بھی نہیں ہوسکتادووجھوں سے۔ایک تویہ کہ جب لڑکی سیانی ہوئی تومولوی کےسامنےنہیں جاسکتی۔دوسری ہمارےیہاں کےمولوی بھی عقل کےپتلےہوتےہیں۔طریقہ پڑھانےکااچھانہیں جانتےہیں"
لیں جناب۔۔یہاں توایک ہی جست میں مسلمان عورتوں کےساتھ ساتھ، پردہ اورمولوی کوبھی نشانہ بنادیاگیا۔عورتیں جاہل ہیں،تعلیم حاصل کرنےمیں پردہ رکاوٹ ہےاورمولوی بھی عقل کےپتلےہیں۔ان پرچوں کوحل کرنےکےبعدایم اےانگلش کرنےوالےنوجوان کی ہندوستان کےباسیوں کےبارےمیں وہی سوچ پروان نہیں چڑھے گی جوآج حسن نثاراورمبارک علی کی ہےتواورکیسی سوچ پیدا ہو گی۔
اسی برس کایونیورسٹی میں داخلےکےامتحان کاانگریزی کاپرچہ بھی دیکھ لیں:
"ایک پادری صاحب چاندنی چوک میں سربازاروعظ کہاکرتےتھے۔مکتب سےآتےہوئےلوگوں کی بھیڑدیکھ کرمیں بھی کھڑاہوجاتاتھا۔پادری صاحب کےساتھ کتابوں کاایک بڑابھاری ذخیرہ بھی رہتاتھا۔اوراکثرلوگوں کواس میں سےکتابیں دیاکرتےتھے۔ہمارےمکتب کےکئی لڑکےبھی کتابیں لائےتھے۔انہوں نےکتاب کی جلدتواکھاڑی لی اورورقوں کوپھاڑکرپھینک دیا۔کتابوں کی عمدہ عمدہ جلدیں دیکھ کرمجھکوبھی لالچ آیااورمیں نےکہاچلوہم بھی پادری صاحب سےکتابیں مانگیں۔مکتب سےاٹھااورمیں سیدھاپادری صاحب کےپاس چلاگیا۔بہت سےلوگ انکوگھیرےہوئےتھے۔انمیں ہمارےمکتب کےدوچارلڑکےبھی تھے۔لوگ انکےساتھ کچھ مذہبی بحث کررہےتھے۔اس کومیں نےخوب نہیں سمجھا۔مگرایک بات تھی کہ اکیلےپادری صاحب ایک طرف تھے اورہندومسلمان سیکڑوں آدمی ایک طرف۔لوگ انکوبہت سخت سخت باتیں بھی کہتےتھے۔کوئی دوسراہوتاتوضرورلڑپڑتا۔مگرپادری صاحب کی پیشانی پرشکن بھی تونہیں آتی تھی۔سخت بات سنکرالٹےمسکرادیتےتھے۔"
اب اس پیراگراف سےیہ سبق ملاکہ مکتب کےطلباء اجڈاورگنوارہیں۔کتابوں کی قدرنہیں جانتے۔کتابیں لیں بھی تومحض جلدوں کےلالچ میں۔پادری صاحب توبہت خوب آدمی ہیں۔یہ اس صبروتحمل اوربرداشت کامظاہرہ کررہےہیں جوصرف مغربی تہذیب کی دین ہے۔اورہندوستان کےمقامی لوگ مہذب بحث کےبجائےسخت سخت باتیں سنارہے تھے۔
سن 1900میں ایم اےانگلش کےپرچےمیں جوپیراگراف ترجمہ کیلئے دیاگیا،وہ جنگ آزادی کےتناظرمیں تھا:
"غدرکےچوتھےدن کاذکرہے۔کہ ابن الوقت کوئی دوگھڑی دن رہےقلعے کی طرف چلاآرہاتھا۔ایک آپ تھااوردونوکر۔تینوں مسلح۔ان دِنوں جب دوآدمی آپس میں بات کرتےتھےتوبس غدرہی کامذکورہوتاتھا۔یہ لوگ بھی یہی تذکرہ کرتےچلےجاتےتھے۔جوں ہی محسن خان کےکٹہرےسےآگےاس کھلےمیدان میں پہنچےجومیگزین اورکالج کےدرمیان واقع تھا۔دیکھتےکیاہیں کہ سڑک کےبائیں طرف انگریزوں کی کچھ لاشیں پڑی ہیں۔یہ دیکھ کرابن الوقت کاکلیجہ دھک سےرہ گیا۔ابن الوقت لاشوں کےمقابل ذراساٹھٹھکا۔اورنہایت غصے اورافسوس کےساتھ اپنےساتھیوں سےکہنےلگا۔دیکھوتوظالمونےکیابیجاحرکت کی ہے۔معلوم ہوتاہے شہرپربڑاسخت عذاب آنےوالاہے۔خون ناحق کبھی خالی جاتےنہیں سنا۔"
جی تویہاں جنگ آزادی میں انگریزکاخون بھی ناحق ٹھہرا۔آپ اب کس سےآزادی چاہیں گے؟ یہاں توآپ کےتصورآزادی پرہی سوالیہ نشان لگ گیا۔حضرت ملکہ معظمہ کی حکمرانی توپہلے ہی ہندوستانیوں کےلئے باعث رحمت قراردےدی گئی تھی۔
یونیورسٹی کی لائبریری کے چندسالوں کےپرچوں کی ایک جھلک تو سامنے آگئی۔ اردوکےعلاوہ انگریزی،عربی، فارسی اورسنسکرت زبانوں میں بےشمارایسی باتیں نصاب کاحصہ بنادی گئیں کہ جنہیں پڑھنےکےبعدبالآخرایک ایسی نئی نسل نےجنم لیاجوانگریزوں سے مرعوب تھی، اپنی تہذیب کو کمتر سمجھتی تھی۔اوراس تعلیم نے اس نسل کواگلی کئی دہائیوں کیلئے مغرب کاذہنی غلام بنادیا۔
اگرچہ مسلمانوں کےدورحکومت میں ہندوستان ایک پرامن اورخوشحال ملک تھا۔1600عیسویں میں مغل ہندوستان کا جی ڈی پی دنیاکی کل جی ڈی پی کابائیس فیصدتھا اور1700تک بڑھ کر24فیصدہوگیا جواس وقت دنیامیں سب سےزیادہ تھا۔اگرچہ مغل دورحکومت میں آمدنی کاسب سےبڑاذریعہ ذراعت تھی مگرصنعت میں بھی ہندوستان نمایاں تھا۔اٹھارویں صدی تک دنیاکی پچیس فیصدصنعتی پیداوار ہندوستان میں ہورہی تھی۔سڑکوں کی تعمیراورعمارت سازی میں بھی ہندوستان کسی سےکم نہیں تھا۔مغل دورمیں آرٹیکچرکےایسے ایسےعجائب بنائےگئےجوکئی صدیاں گزرنےکےبعدآج بھی دنیاکوحیرت زدہ کررہےہیں۔علوم وفنون،سائنس اورادب کی دنیامیں بھی مغل ہندوستان اپنی بلندیوں پررہا۔ مغل حکمرانوں کےعلم نوازہونےکی وجہ سےمشرق وسطیٰ،ایران،ترکی اورعرب سےعلماء اوردانشورہندوستان کھنچےچلےآتےتھے۔اس سب کےباوجودمغلوں کاہندوستان آج تاریک دورکیوں سمجھاجاتاہے؟اس کی وجہ یقیناًوہ تاثر ہےجودورغلامی کےدوران انگزیزحکمرانوں نےہندوستانیوں کےذہنوں میں انڈیلا۔آج اس غلط تاثر کوختم کرناایک چیلنج ہے۔ مگر وہ وقت دور نہیں کہ جب نبوت کےنقشِ قدم پرقائم ہونےوالی خلافت کے تحت مسلمانوں کی کامیابیاں اور فتوحات قلیل عرصے میں اس خطے کے مسلمانوں کے ذہن سے مغرب کی ذہنی غلامی کے تمام تر اثرات کو مٹا دیں گی ۔ان شاء اللہ