الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

حزب التحریرکے قافلے کی روانگی، مسجد اقصیٰ سے ایک نور کا ظہور

 

اللہ سبحانہ وتعالی کی مشیت کے عین مطابق ہم آخری زمانے میں ہیں،ایسا زمانہ جس میں ہر طرف فتنوں کی تاریک راتیں ہیں،جس سے کوئی بھی حلیم الطبع شخص ششدر جائے،زمین پر اللہ کی حکمرانی کو ختم کر دیا گیا ہے اور ظلم و سرکشی کا بازار گرم ہے۔  پھر اللہ کی مشیت سے ہی اس تاریک رات کا خاتمہ ہوگااور خلافت کی صبح طلوع ہوگی،جو کہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے بیقرار لوگوں کے لئے خوشخبری ہوگی۔ خلافت کا نعرہ، ناپید ہو نے کے بعد،آج ایک بار پھر زبان زدِ خاص وعام ہے،ذہنوں سے نکلنے اور بھلا دینے کے بعد دوبارہ ذہنوں میں زندہ ہو گیا ہے۔  اللہ کی مشیت کے مطابق وہ لوگ خلافت کی دعوت کے علمبردار بنے ہیں جو اس کے اہل ہیں،وہ لوگ جن کے مددگا ران کے اپنوں میں بھی کم ہی لوگ ہیں اور وہ اس قدر صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اِس کا اعتراف دشمن تک نے کیا،اور اب ،خلافت کا سورج ، تمام تر اندھیروں اور ظلمتوں کو چیرتا ہوا نہایت آب وتاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔

 

                  بے شک ہر راستے کے اپنے سنگِ میل ہیںاورجب ایک راستے پر چلنے والے یہ پہچان سکتے ہوں کہ ان کی ابتداء رسول اللہ ﷺ کی ابتدا کی طرح ہی ہے اور ان کا چلن رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر ہے تو وہ اس بات پر مطمئن رہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بھی اس منزل پر پہنچیں گے جس پر رسول اللہ ﷺ پہنچ گئے تھے اور جس چیز کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کو ضرور ملے گی:(یعنی نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ)۔

 

                  یقینا اس سے بڑھ کر کوئی فخرکی بات نہیں ہوگی کہ اللہ سبحانہ وتعالی حزب التحریرکو یہ توفیق دے دے کہ یہی مومنوں کا وہ گروہ بنے جس سے وعدہ کیا گیا ہے، اللہ کے اذن سے یہی وہ جماعت ہو جائے جو کامیاب اور کامران گروہ ہوگی۔  ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسی شرف اور عظمت کی امید کرتے ہیں جو ہر متقی پرہیزگار اور وفادار کی تمنا ہے۔

 

                  یہ اس حزب کے بانی اور اس کی داغ بیل ڈالنے والے عالم ،علامہ تقی الدین النبھانی رحمة اللہ علیہ کی زندگی کے کچھ حصوں کو جمع کرنے کی معمولی سی کاوش ہے۔  ساتھ ہی یہ حزب کی عمارت کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے والے اور شیخ کے بہترین جانشین عالم باکمال علامہ عبد القدیم زلوم رحمہ اللہ اور ان کے بعد حزب کی قیادت سنبھالنے والے، جن کی قیادت میں ہم اللہ کی نصر کے متمنی ہیں ،جلیل القدر فقیہ، اصول فقہ کے عالم بے مثال ،علامہ عطا ابو الرَشتہ حفظہ اللہ کی سیرت اور شخصیت کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش ہے۔

                  مزید برآں ، اس آرٹیکل میں حزب التحریر پر بھی کچھ روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ قاری کے لیے حزب کی فکر کے شفاف پن ،اس کے طریقے کی درستگی ،اس کی بنیاد کے حسن اور اس کی استقامت کی ایک جھلک نظر آئے۔

                  آخر میں حزب التحریرکے ابتدائی دور کے کچھ ارکان کے اقوال بھی شامل کئے گئے ہیں، جنہوں نے حزب کے شروع کے اُس دورانیے کا مشاہدہ کیا جو مصائب سے بھر پور تھا،لیکن وہ اللہ کی نصر کی امید کے ساتھ ڈٹے رہے ۔

 

1۔ حزب کے بانی شیخ تقی الدین النبھانی رحمہ اللہ

                  حزب التحریرکے بانی عالم ربانی علامہ تقی الدین بن ابراھیم بن مصطفی بن اسماعیل بن یوسف النبھانی کا نسب بنی نبھان سے تھا اور ان کا تعلق شمالی فلسطین کے علاقے حیفا کے دیہاتی علاقے  میں اجزم نامی بستی سے تھا،راجح قول کے مطابق حضرت شیخ النبھانی کی پیدائش،اجزم گاوں میں 1332ھ بمطابق1914میں ہوئی۔جس گھرانے میں آپ نے آنکھ کھولی وہ علم ،دینداری اورپرہیزگاری اور تقوی کے لیے مشہور تھا،آپ کے والد شیخ ابراھیم فقیہ اور فلسطین کے وزارت معارف میں علوم شرعیہ کے مدرِّس تھے،حضرت شیخ کی والدہ بھی علوم شرعیہ پر دستر س رکھتی تھیں جو اپنے والدِ ماجد شیخ یوسف النبھانی سے فیض یافتہ تھیں۔

 

                  شیخ یوسف جیسا کہ ان کے حوالے سے تراجم میں ذکر ہے :یوسف بن اسماعیل بن یوسف بن حسن بن محمد النبھانی الشافعی''ابو المحاسن''ادیب شاعر اور صوفی تھے،آپ کا شمار اعلی پائے کے قا ضیوں میں ہو تاتھا۔ آپ نابلس میں جنین کے علاقے کے قاضی رہے،پھر آپ قسطنطنیہ منتقل ہو گئے جہاںآپ موصل کے علاقے کوی سنجق کے قاضی مقرر کیے گئے،اس کے بعد الاذقیہ اور القدس میں دیوانی عدالت کے سربراہ کے طور پر آپ کا تقرر ہوا،اور پھر آپ بیروت کی حقوق سے متعلق عدالت کے انچارج بنائے گئے،آپ کی تصانیف کی تعداد اڑتالیس(48) ہے ۔

 

                  شیخ تقی الدین رحمہ اللہ کی اسلامی شخصیت میں اُن کے خاندانی پس منظر کا بڑا عمل دخل تھا ،چنانچہ آپ نے کم عمری میں ہی قرآن حفظ کرلیا جب آپ کی عمر تیرہ سال سے بھی کم تھی۔ آپ پر اپنے نانا کے تقویٰ اور بیدار مغزی کابہت گہرا اثررہا اور آپ علم کے اس سمندر سے خوب سیراب ہوئے۔ آپ ابتدا سے ہی سیاسی شعور سے بہرہ ور ہوئے خصوصاً ان سیاسی مہمات کے نتیجے میںجو آپ کے نانا نے عثمانی خلافت کے حق میں برپا کیں،شیخ نے ان فقہی مناظرات کی مجالس سے بھی خوب استفادہ حاصل کیا جن کا اہتمام آپ کے نانا شیخ یوسف کیا کرتے تھے، علم کی ان مجالس میں حاضری کے دوران،آپ اپنی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے نانا کی توجہ کا مرکز بن گئے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آپ کے والد کو آپ کو شریعت کی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ الازہر بھیجنے پر قائل کیا۔

 

علم کا حصول:

                  شیخ تقی الدین نے 1928 میں جامعہ الازہر میں درجہ ثانویہ(سیکنڈری)میں داخلہ لیا اور اسی سال امتیازی درجے میں پاس کیا اور آپ کو شہادة الغرباء کی سند دی گئی جس کے بعد آپ کلیہ دار العلوم (سائنس کالج) میں داخل ہوئے جو کہ اس وقت جامعہ ا لازہر کے ماتحت تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جامعہ الازہر کے ان شیوخ کے علمی حلقات میں حاضری دیتے رہے جن کے بارے میں آپ کے نانا نے آپ کی رہنمائی کی تھی جیسے شیخ محمد الخضر حسین رحمہ اللہ۔  جامعہ ازہر کے قدیم طریقہ تدریس میں اس کی اجازت تھی،شیخ النبھانی الازہر کے قدیم طریقہ تدریس اور دارالعلوم دونوں کو بیک وقت جاری رکھنے کے باوجود اپنی زبردست محنت کی وجہ سے ہمیشہ ممتاز رہے۔ آپ کے ہم عصر اور اساتذہ آپ کی گہری فکر ،صاحب رائے ہونے اور اس وقت قاہرہ اور دوسرے اسلامی علاقوں میں منعقد ہونے والی ڈیبیٹ اور مناظروں کی مجالس پر دلیل کی قوت سے حاوی رہنے کی وجہ سے آپ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

                  شیخ نے جو ڈگریاں لیں ان میں الثانویہ الازہریہ(جامع الازہر سے انٹرمیڈیٹ)شہادة الغربا من الازہر،قاہرہ دارالعلوم(قاہرہ ڈگری کالج) سے عربی زبان وادب میں گریجوایشن کی ڈگری،الازہر کے ماتحت شرعی عدالت کے لیے اعلی ادارے(معہد العالی )سے قاضی(جج) کی ڈگری اور 1932میں جامعہ الازہر سے شریعت میں الشہادہ العالمیہ(ماسٹر) کی ڈگری لے کر فارغ التحصیل ہوئے۔

 

شیخ نے جن منا صب پر ذمہ داریاں نبھائی:

                  شیخ نے 1938تک وزارت المعارف میں شرعی تعلیم کے محکمے میں فرائض انجام دئے،اس کے بعد ترقی کرکے آپ شرعی عدالت منتقل ہو ئے اور حیفا کی مرکزی عدالت میں اٹارنی منتخب ہوئے،اس کے بعد اسسٹنٹ جج بن گئے،پھر1948تک رملّہ کی عدالت کے قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے،اس کے بعد فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کے بعدشام گئے لیکن پھر اسی سال واپس آگئے اور آپ کو القدس کی شرعی عدالت کا قاضی مقرر کر دیا گیا۔اس کے بعد 1950تک ہائی کورٹ میں شرعیہ کے قاضی رہے،پھر یہاں سے استعفیٰ دے کرعمان میں علوم اسلامیہ کے کالج کے طلباکو 1952تک لیکچرز دیتے رہے۔  شیخ رحمہ اللہ علم و معرفت کا سمندر تھے،آپ کو ہر علم میں دسترس حاصل تھی اور آپ مجتہد مطلق اور اعلی پائے کے محدث تھے۔

مولفات:

                  1۔نظام الاسلام

                  2۔التکتل الحزبی (حزبی جماعت سازی)

                  3۔ مفاہیم حزب التحریر(حزب التحریر کے تصورات)

                  4۔ النظام الاقتصادی فی الاسلام(اسلام کا معیشتی نظام)

                  5۔ النظام الاجتماعی فی الاسلام(اسلام کا معاشرتی نظام)

                  6۔ نظام الحکم فی الاسلام (اسلام کا نظامِ حکومت)

                  7۔ الدستور

                  8۔ مقدمة الدستور

                  9۔ الدولة الاسلامیة (اسلامی ریاست)

                  10۔الشخصیة الاسلامیہ تین جلدوں میں(اسلامی شخصیت -تین اجزاء)

                  11۔ مفاھیم سیاسیہ لحزب التحریر(حزب التحریر کے سیاسی تصورات)

                  12۔ نظریات سیاسیہ(سیاسی افکار)

                  13۔ نداء حار(پرزور پکار)

                  14۔ الخلافة

                  15۔ التفکیر(فکر)

                  16۔ سرعة البدیہ

                  17۔ نقطة الانطلاق

                  18۔ دخول المجتمع

                  19۔ تسلح مصر

                  20۔ الاتفاقیات الثنا ئیہ المصتیہ السوریہ والیمنیہ

                  21۔ حل قضیہ فلسطین علی الطریقہ الامیرکیہ والانگلیزیہ

                  22۔ نظریہ الفراغ السیاسی حول مشروع  ایزن ہاور۔

 

                  مزید برآں ہزاروں فکری ،سیاسی اور اقتصادی مقالات اس کے علاوہ ہیں۔

جب آپ کی کتابوں کی نشر واشاعت پر پابندی لگادی گئی تو کئی ایک کتابیں لکھ کر حزب کے مختلف اراکین کے ناموں سے شائع کیاجن میں سے کچھ مندجہ ذیل ہیں:

 

                  1۔ السیاسة الاقتصاد المثلی(مثالی اقتصادی پالیسی)

                  2۔ نقض الاشتراکیة المارکسیة(مارکسس اشراکیت کا رَد)

                  3۔ کیف ھدمت الخلافة(خلافت کو کیسے تباہ کیا گیا)

                  4۔احکام البینات(اسلام میں گواہیوں کے احکامات)

                  5۔  نظام العقوبات(اسلام کا سزائوں کا نظام)

                  6۔ ا حکام الصلاة(نماز کے احکامات)

                  7۔ الفکر الاسلامی ۔(اسلامی فکر)

 

                  حزب کی بنیاد رکھنے سے قبل بھی آپ نے انقاذ فلسطین اور رسالة العرب لکھ کر شائع کی تھی۔

 

   آپ کے اوصاف اور اخلاق:

                  استاد زہیر کحالہ جو اسلامک سائنس کالج کے انتظامی امور کے انچارج تھے،وہ اس عرصے کے دوران کالج میں ملازم تھے جب شیخ تقی الدین نے کالج  میں کام شروع کیا، وہ بیان کرتے ہیں کہ ''شیخ ذہین شریف اورصاف ستھرے آدمی تھے،انتہائی مخلص باوقار اور طاقتور آدمی تھے،امت مسلمہ کے دل میں یہودی ناسور سے رنجیدہ اور آتش فشاں بنے ہوئے تھے''۔

 

                  آپ میانہ قد ،مضبوط اندام،زبردست متحرک مزاج کے تیز اوربحث میں ماہر،دلیل میں بے مثال،جس کو حق سمجھتے ہوں اس کے حوالے سے اٹل شخصیت کے حامل تھے۔آپ کی دھاڑی متوسط تھی جس میں سفیدی آچکی تھی۔ آپ کی شخصیت انتہائی طاقتورتھی ،اور آپ کی گفتگو انتہائی پُر اثر ہوا کرتی تھی۔دلیل دیتے تو سب لاجواب ہو جاتے تھے۔بے مقصد جدوجہد،ذاتیات پر اُتر نے اور امت کے مفادات سے روگردانی سخت ناپسند کرتے تھے۔شیخ کو اس بات سے بھی کراہت تھی کہ کوئی شخص اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں ہی مشغول رہے،آپ ہمیشہ امت کی بھلائی ہی کی فکر میں رہتے،آپ رسول اللہ ﷺ کے اس فر مان کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ(من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منھم)''جو شخص مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کا اہتمام نہ کر ے وہ ان میں سے نہیں،،آپ اس حدیث کو باربار دہراتے اور بطور دلیل پیش کرتے،احیاء العلوم کے مصنف امام غزالی کے اس رویے پر اکثر افسوس کا اظہار کرتے کہ صلیبی حملوں کے دوران امام مسجد میں بیٹھ کر کتابیں لکھ رہے تھے۔

 

حز ب التحریر کا قیام اور اس کا سفر:

                  شیخ تقی الدین نے چوتھی صدی ہجری کے بعد وجود میں آنے والی جماعتوں،تحریکوں اورتنظیموںکا انتہائی اہتمام اور گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ان کے اسالیب،افکار،ان کے پھیلنے یا ناکام ہونے کے اسباب کا بغور جائزہ لیا۔ان پارٹیوں کے بارے میں پڑھنے کا محرک شیخ کا وہ احساس تھا کہ خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے ایک حزب کا وجود لازمی ہے،کیونکہ مجرم مصطفی کمال (اتاترک )کے ہاتھوںخلافت کے انہدام کے بعد کئی اسلامی تنظیموں کی موجودگی کے باوجود مسلمان خلافت کو بحال نہ کر سکے۔ 1948میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام  اور اردن،مصر اور عراق میں  برطانیہ کی نمائندگی کرنے والی حکمتوں کے پر وردہ یہودی ٹولے کے سامنے عربوں کی بے بسی نے شیخ تقی الدین کے احساس کو جلابخشی ،یوں آپ نے ان واقعات کے اسباب پر غوروفکر شروع کر دیا جن سے مسلمانوں کو نَہْضَہ(نشاةِ ثانیہ)حاصل ہو سکے۔  شیخ تقی نے پہلے قومیت کے نظریے کے ذریعے سے امت کی نشاةِثانیہ کی کوشش کی اور دوکتابیں لکھیں:1۔رسالة عرب،2۔ انقاذ فلسطین۔  یہ دونوں کتابیں 1950میں شائع ہوئیں،ان دو کتابوں میں بھی صرف فکر،عقیدے اور امت کے حقیقی پیغام یعنی اسلام کے پیغام کا ذکر ہے۔  آپ کے اور دوسرے عرب قوم پرستوں کے پیغام کے درمیان یہ بہت بڑا فرق ہے جنہوں نے امت کواسکے حقیقی پیغام سے دور کرکے مختلف مذاہب اور ایسے مغربی نظریات کے پیچھے لگا دیا جو ان کے عقیدے،ان کے اخلاق واقدار کے ہی خلاف تھے۔  پھر شیخ تقی الدین نے ان افکار پر نظر ثانی کی جن کی روشنی میں وہ سرگرمِ عمل تھے اور اس موضوع پر آنے والی تمام تجاویز کو غور سے سنا لیکن آپ کسی تجویز سے مطمئن نہ ہوئے۔

 

      آپ نے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ان تمام علماء سے رابطہ کیا جن کو آپ جانتے تھے اور جن سے مصر میں ملاقات ہوئی تھی۔ شیخ سب کے سامنے مسلمانوں کی نشاةثانیہ اور ان کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے اسلام کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت بنانے کی فکر کا اظہار کرتے رہے۔اس مقصد کے لیے آپ نے فلسطین کے اکثر شہروں کے درمیان سفرکئے اور اپنے دل ودماغ پر چھائی اس فکرکو قد آور علماء اور دانشوروں کے سامنے رکھا۔اس مقصد کے لیے سیمیناروں کا اہتمام کیا،فلسطین کے مختلف شہروں سے علماء کو اکھٹا کیا ،ان اجتماعات میںآپ ان علماء سے صحیح نہضہ(نشاةِ ثانیہ)کے طریقے پر مباحثہ کیاکرتے اورزیادہ تر بحث اسلامی جماعتوں کے ذمہ داروں،سیاسی،قومی اور وطنی پارٹیوں کے عہدہ داروںسے کرتے اوران کو بتاتے کہ وہ غلط راستے پر گامزن ہیں اور ان کی محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا،اس کے ساتھ مسجد اقصی ،مسجد ابراھیم الخلیل اور دوسری مساجد میں مختلف موقعوں پر کئی ایک سیاسی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرتے،ان خطابات میں عرب تنظیم(عرب لیگ) کو یہ کہہ کر بے نقاب کرتے کہ یہ مغربی استعمار کی پیداوار ہے اور یہ مغرب کے وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے اس نے اسلامی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے،شیخ مغربی ممالک کے سیاسی منصوبوں کو بے نقاب کرتے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے ارادوں کو طشت ازبام کرتے،مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے اور صرف اسلام کی اساس پر ہی پارٹی بنانے کی دعوت دیتے۔

 

                  شیخ تقی الدین مجلسِ نمائندگان ،جو کہ ایک مشاورتی ادارہ تھی،کے امیدوار بھی بنے۔  لیکن آپ کے سخت موقف،سیاسی سرگرمی،اسلام کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت بنانے کی سنجیدہ کوشش، اسلام پر سختی سے کاربند ہونے کی وجہ سے حکومت نتائج پر اثر انداز ہوئی اورآپ کو کامیاب قرار نہیں دیا گیا۔

                  لیکن شیخ کی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی ٹھہرائو نہ آیا اور نہ آپ کی بلند ہمتی میں کوئی کمی آئی بلکہ آپ نے مسلسل اپنے روابط اور بحث و تمحیص کے سلسلے کو جاری رکھا یہاں تک کہ آپ بعض نامور علماء کرام،چوٹی کے جج صاحبان اور مشہور سیاسی مفکرین کو اسلام کی اساس پر ایک سیاسی جماعت قائم کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر ان کے سامنے اس فریم ورک اور ان افکار کو پیش کیا جو اس حزب کے لیے ثقافتی زادراہ بنے۔ علماء نے شیخ کے ان افکار کو قبول کیا اور اپنی رضامندی کا اظہار کیا یوں حزب التحریر کی تشکیل کے لیے آپ کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

 

                  القدس شہر کی با برکت زمین میں حزب کی داغ بیل ڈالنے کا عمل شروع ہو گیا جہاں آپ سپریم کورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔اس وقت آپ نے کئی اہم شخصیات سے رابطہ کیا جن میں قلقیلیہ کے شیخ احمد الداعور،مصر کے سیدان نمر،الرملّہ کے داود حمدان،الخلیل کے شیخ عبد القدیم زلوم،عادل النابلسی،غانم عبدو،منیر شقیر،شیخ اسعد بیوض التمیمی،وغیرہ شامل تھے۔

                  ابتداء میں بانی اراکین کے درمیان ملاقاتیں اچانک اور غیر منظم ہو اکرتی تھیں۔ اکثر ملاقاتیں القدس یا الخلیل میںہی ہوتی تھیں جن میں نئے افراد کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے آراء کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔گفتگو کا محور امت کے عروج کے لیے موثر اسلامی موضوعات ہوا کرتے تھے۔1952کے اواخر تک صورت حال ایسی ہی رہی یہاںتک کہ ان افراد نے ایک سیاسی جماعت بناے کا عہد کرلیا۔

 

                  17نومبر 1952حزب کے پانچ بانی اراکین نے اردنی وزارت داخلہ سے ایک سیاسی جماعت بنانے کے لیے رسمی طور پر (N O C)اجازت نامہ کا مطالبہ کیا،ان پانچ اراکین کے نام یہ تھے:  1۔تقی الدین  ۔حزب کے سربراہ  2۔ داود حمدان نائب سربراہ اور حزب کے سیکریٹری  3۔ غانم عبدہ مالیا ت کے انچارچ  4۔ عادل النابلسی رکن  5۔ منیر شقیر رکن۔ اس کے بعد حزب نے وہ تمام مطلوبہ قانونی کاروائی مکمل کرلی جو جمعیتوں کے حوالے سے عثمانی قانون میں موجود تھی۔ حزب کا مرکزالقدس تھا اوراس کے تمام اقدامات قانونی تھے۔

                  حزب کی جانب سے بنیادی نظامِ حکومت پیش کر نے اور اس کے کام کرنے کی کیفیت کا بیان ،الصریح اخبار کے شمارہ نمبر 176میں بتاریخ 14 03 1953 کو شائع ہونے سے حزب التحریر ہفتہ 28جمادی الثانی سنہ 1372ھ بمطابق 14مارچ 1953سے ایک قانونی پارٹی بن گئی اور اس کو براہ راست ان حزبی سرگرمیوں کو چلانے کا اختیار مل گیا جو جماعتوںکے بارے میں معمول بہ عثمانی قانون کے موافق تھا۔

 

                  تاہم حکو مت نے اس کے پانچوں بانیوں کو طلب کیا ،ان سے تفتیش کی اور ان میں سے چار کو گرفتار کر لیا۔پھر 7رجب 1372بمطابق 23.03.1953کو ایک بیان جاری کیا جس کی رو سے حزب التحریر کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے بانیوں کو کسی بھی حزبی(جماعتی)سرگرمی سے روک دیاگیا،پھر 01.04.1953کو القدس میں اس کے آفس میں لگے بینرز کو اتارنے کا حکم صادر کیا اور عملًا وہ بینرز اور پوسٹرز اتاردیے گئے۔

                  تاہم شیخ تقی الدین النبھانی رحمہ اللہ نے اس پابندی کو جوتے کے نوک پر رکھا اور اپنا کام جاری رکھنے پر اصرار کیا اور اُس پیغام کو لے کر آگے بڑھنا شروع کر دیا جس کے لیے حزب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔جس وقت  1956میںداود حمدان اور نمر مصری حزب کی قیادت سے الگ ہو گئے ان کی جگہ شیخ عبد القدیم زلو م رحمہ اللہ اور شیخ احمد الداعور رحمہ اللہ نے سنبھال لی۔ شیخ تقی الدین النبھانی کے فیصلے کے نتیجے میں یہ دونوں جلیل القدر علماء حزب کے قائدین بن گئے اور اللہ کے فضل سے اس دعوت کی ذمہ داری کا حق ادا کر دیا۔

                  حزب نے اسلامی زندگی کی واپسی کے لیے الاقصی کی اجتماع گاہوں میں لو گوں کی اجتماعی تربیت شروع کردی اور زبردست سرگرمی دکھائی جس کی وجہ سے حکمران حزب کے اپنے آپ کو تشکیل دینے اور اپنی تنظیم کو مضبوط کر نے سے روکنے کے لیے اوچھے ہتکھنڈوں پر اتر آئے جس کی وجہ سے 1953کے اواخر میں شیخ بنھانی کو اپنے علاقے سے نکلنا پڑا اورآپ کو دوبار واپس آنے سے بھی روک دیا گیا۔

 

                  نومبر 1953 میں شیخ نبھانی نے شام کا رخ کیا جہاں پہنچتے ہی شام کی حکومت نے آپ کو گرفتار کر کے لبنان کی طرف ملک بدر کر دیا جبکہ لبنانی حکومت نے آپ کواپنی سرزمین میں قدم رکھنے سے روک دیا۔ تاہم آپ نے وادی الحریر میں موجولبنانی پولیس اسٹیشن کے انچارج سے لبنان میں اپنے پہچان کے ایک شخص کو فون کرنے کی اجازت مانگی تو لبنانی عہدے دار نے آپ کو اجازت دے دی،شیخ نبھانی نے اپنے اس دوست سے فرمایا کہ لبنان کے مفتی شیخ حسن العلایا کو فون کریں،جب یہ خبر شیخ العلایا تک پہنچی تو وہ فورا حرکت میں آگئے اور لبنانی عہدہ داروں سے شیخ نبھانی کو لبنانی سرزمین میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا کہا،ورنہ وہ پورے ملک میں یہ خبر پھلادیں گے کہ جمہوریت کے دعویدار ایک جلیل القدر عالم دین کو اپنی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دے رہے ۔لبنانی عہدہ دار لبنان کے مفتی کی بات سننے پر مجبور ہوگئے۔

 

                  شیخ النبھانی لبنان میں آنے کے بعد اپنے افکار کی نشرو اشاعت میں لگ گئے اور 1958تک کسی خاص رکاوٹ کے بغیر سرگرم رہے ۔اس کے بعد جب لبنانی حکومت  کو آپ کے افکار کے خطرے کا احساس ہو گیا تو اس نے آپ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیاجس پر شیخ خفیہ طور پر بیروت سے طرابلس منتقل ہوگئے،آپ کے ایک قابل اعتماد قریبی ساتھی نے ہمیں بتا یا کہ (شیخ زیادہ وقت پڑھنے لکھنے میں صرف کرتے ،ریڈیو آپ کے سامنے ہو تا جس سے آپ دنیا کی خبریں سنتے اور زبردست سیاسی بیانات لکھتے،آپ اپنے نام کی طرح واقعی تقی (متقی) تھے،نظر ہمیشہ نیچی رکھتے زبان ہمیشہ قابو میں رکھتے،میں نے کبھی بھی آپ کو کسی مسلمان کو برا بھلا کہتے ہوئے نہیں سنا،کسی کی تذلیل وتحقیر کرتے ہوئے نہیں سنا خصوصا ًاسلام کے ان داعیوں کی جن سے آپ نے اجتہادات میں اختلاف کیا)۔

                  شیخ نے عراق میں نصرہ کے کا م کو بہت فوقیت دی ۔اس مقصد کے لیے خود کئی بار شیخ عبد القدیم زلوم کے معیت میں عراق کا سفر کیا،جو کہ کچھ انتہائی اہم روابط کی وجہ سے وہاںتھے جن میںعبد السلام عارف وغیرہ شامل تھے۔ ان سفروں میں وہ آخری سفر بھی تھا جس میں آپ کو عراق میں گرفتار کیا گیا اور آپ کو سخت جسمانی اور ذہنی سزائیں دی گئیں،لیکن پھر بھی آپ سے تفتیش کرنے والے آپ سے کچھ بھی نہ اگلوا سکے۔ آپ اپنے بارے میں بس یہی کہتے رہے کہ(میں ایک بوڑھا آدمی علاج کی غرض سے یہا ں آیا ہوں!)جب وہ شیخ کی زبان نہ کھلوا سکے تو انہوں نے مایوسی کے عالم میں شیخ کا بازوتوڑ کر ،درد ناک تشدد سے لہولہان کر کے اپنی سرحد سے باہر نکال دیا۔ اور ابھی انہوں نے شیخ کو بارڈر سے پار کیا ہی تھا کہ اردن کی انٹیلی جنس ایجنسی نے ان کو خبر دی کہ تمہارا یہی قیدی در اصل شیخ تقی الدین النبھانی ہے جو تمہیں مطلوب تھا،لیکن الحمد للہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور شیخ وہاں سے دور نکل گئے تھے۔

 

                  شیخ رحمہ اللہ نے انتہائی ثابت قدمی سے حزب کی بنیاد رکھی،آپ اپنی منزل مقصود کے انتہائی قریب تھے کہ داعی اجل نے آوازدے دی ۔

                  یکم محرم 1398ہفتے کے دن فجر کے وقت بمطابق 11.12.1977کو اس عظیم امت نے اپنے عظیم قائد ،علم کے سمند ر،بلا شک وشبہ دورجدید کے سب سے بڑے فقیہہ، اسلامی فکر کے مجدد ، بیسویں صدی کے سب سے

بڑے دانشور ، مجتہد مطلق ، عالمِ بے مثال ، علامہ تقی الدین النبھانی ،حزب التحریر کے بانی اور امیر کو الوداع کہا۔ حضرت شیخ کو بیروت کے الاوزاعی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ حضرت شیخ اپنے لگائے ہوئے پودے کا پھل ، کہ جس کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی، خود نہ دیکھ پائے ۔وہ اس خلافت راشدہ کی ریاست کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے جس کے قیام کے لیے حزب کی بنیاد رکھی گئی تھی،لیکن یہ امانت اپنے خلف راشد، اپنے ساتھی ، عالم ِبے مثال، شیخ عبدلقدیم یوسف زلوم کے کندھوں پر ڈال کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے،حضرت شیخ رحمہ اللہ اگر چہ اس ریاست کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے لیکن آپ کی محنت رنگ لائی اور آپ کی بنائی ہوئی حزب خوب پھلی پھولی اور آپ کے افکار چار دانگِ عالم پھیل گئے،کروڑوں انسانوں نے آپ کی فکر کو اپنایا اورآپ کے تربیت یافتہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئے اوردنیا بھر کے سرکشوں ظالموں کے عقوبت خانے آج بھی آپ کی فکر کے داعیوں سے بھرے پڑے ہیں۔

 

عبدالقدیم زلوم

حزب کی قیادت میں اپنے سلف کے بہترین خلف(جانشین)

       یہ نامور عالم دین شیخ عبد القدیم بن یوسف بن عبد القدیم بن یونس بن ابراھیم الشیخ زلوم تھے۔ آپ 1342ہجری بمطابق 1924میں راجح قول کے مطابق الخلیل شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان دین داری میں مشہور ومعروف تھا۔آپ کے والد بھی حافظ قرآن تھے اور عمر کے انتہائی آخری حصے میں بھی دن رات قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے ۔ آپ کے والد خلافت عثمانیہ کے زمانے میں مدرِّس تھے۔

                  آپ کے والد کے چچا عبد الغفار یونس زلوم خلافت عثمانیہ کے زمانے میں الخلیل کے مفتی تھے۔ زلوم خاندان کا شمار ان خاندانوں میں ہو تا ہے جو مسجد ابراھیمی کے متولّی ہیںاور اس بنیاد پر یہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے خداموں میں سے ہیں۔ یہی خاندان جمعہ کے دن منبر پراور مختلف موقعوں پر علم(اسلامی جھنڈے)کو لہراتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مواقع پر بھی علم کو یہ خاندان بلند کرتا آرہاہے۔

                  عثمانی ریاست الخلیل کی مسجدِ ابراھیمی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری وہاں کے مشہور خاندانوں کے سپرد کرتی تھی اور یہ ان خاندانوں کے لیے بڑی عزت اور شرف کا مقام ہوا کر تا تھا کہ انہیں مسجد ابراھیمی کی خدمت کا شرف حاصل ہے۔

 

شیخ عبدالقدیم الخلیل شہر میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنی عمر کی پندرہ بہاریں دیکھیں۔ ابتدائی تعلیم بھی الخلیل کے ابراھیمی مدرسے سے حاصل کی اوراس کے بعد آپ کے والد رحمہ اللہ نے آپ کو جامعہ الازہر روانہ کیا تاکہ فقہ میں مہارت حاصل کرکے داعی الی اللہ بن جائیں۔ یوں آپ پندرہ سال کی عمر میں جامعہ لاازہر کے لیے قاہرہ روانہ ہوگئے،یہ 1939کا سال تھا،1361ھ بمطابق 1939کوآپ نے جامعہ الازہر سے پہلی ڈگری (شہادة الاھلیة الاولی)حاصل کی ،پھر 1366ھ بمطابق1947میں جامعہ الازہر ہی سے العالیہ لکلیة الشرعیة کی ڈگری لی اور اس کے بعد  1368ھ بمطابق 1949 کو شہادة العالمیة کے ساتھ قضاء میں تخصص (اسپشلائزیشن)کیا جو موجودہ دور کی ڈاکٹریٹ(phd)کے برابر تھا۔

                  فلسطین اسرائیل جنگ کے دوران آپ نے جوانوں کو اکٹھا کیا اور جہاد کے لیے مصر سے فلسطین پہنچ گئے لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جنگ روک کر جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیاہے،یوں جس جہاد کی نیت سے آپ مصر سے فلسطین آئے تھے آپ کو اس کا موقع نہ مل سکا۔ شیخ جامعہ الازہر میں ایک محبوب شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے،سب آپ کو ''ملک''(بادشاہ)کہتے تھے اور آپ پڑھائی میں ہمیشہ ممتاز نظر آتے تھے۔1949میں الخلیل واپس آنے کے بعد درس وتدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے،دوسال بیت الحم کے مدرسہ تدریس سے وابستہ رہے،پھر1951الخلیل منتقل ہو گئے اورمدرسہ اسامہ بن منقذ میں مدرِّس بن گئے۔

 

                  1952 میں شیخ تقی الدین النبھانی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی اور حزب کے موضوع پر بحث اور گفتگو کے لیے مسلسل القدس آنے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جوں ہی حزب نے کام شروع کیا شیخ حزب میں شامل ہوگئے اور 1956تک آپ حزب کے اراکین میں سے ایک قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے ۔ آپ نہات اعلی پائے کے خطیب تھے اور لوگ آپ سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ جمعے کے دن نماز سے پہلے مسجد ابراھیمی الیوسفیة کے حصے میں بیٹھ کردرس دیتے تھے جہاں خلق کثیر جمع ہوتی تھی۔پھر نماز جمعہ کے بعد مسجد ابراھیمی کے صحن میں درس دیا کرتے تھے جس میں بھی لوگوں کا ایک جم غفیر اکھٹا ہو تاتھا۔ جب 1954میں پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا گیا تو شیخ بھی امید وار نامزد ہوئے اسی طرح 1956میں بھی آپ امید وار تھے لیکن ریاست کی طرف سے دھاندلی کر کے آپ کو جیتنے نہیں دیا گیا اور گرفتار کر کے الجفر الصحراوی جیل میں قید کردیا گیاجس میں کئی سال گزارنے کے بعد اللہ کی مہربانی سے آپ باہر آئے۔

                  اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرے، آپ بانی امیر کے لیے دایاں بازو تھے۔ ان کے تیر کش کے ایک تیر تھے،وہ بڑی بڑی مہمّات کے لئے آپ ہی کو روانہ کرتے تھے۔ کبھی آپ نے تردد کا اظہار نہیں کیابلکہ دعوت کو ہمیشہ بیوی بچوںاور فانی زندگی کی آسائشوں پر مقدم رکھا۔آج ترکی میں ہوتے تو کل عراق میں نظر آتے،اگلے دن مصر میں دیکھائی دیتے پھرپھر لبنان اور اردن میں پہنچ جاتے۔ جہاں بھی امیر طلب کرتے تو حق گوئی کے لیے ان کے شانہ بشانہ موجود ہوتے۔ عراق میں آپ کی مہم بہت بڑی تھی اوریہ ذمہ داری ایسی تھی کہ کوئی ایسا شخص ہی یہ کام کر سکتا تھا جس پر مردانگی ختم ہو۔ آپ نے امیر کے حکم سے انہی کی نگرانی میں اس ذمہ داری کو قبول کیااور انتہائی شاندار انداز میں یہ ذمہ داری پوری کی۔

 

                  جس وقت بانی امیر نے داعی اجل کو لبیک کہا توان کے بعد یہ امانت آپ کے کندھوں پر رکھی گئی۔ آپ نے اس امانت کا بوجھ اٹھا یا اور اس کو لے کر ترقی کے منازل طے کرتے گئے ۔ دعوت کا انداز مزید واضح ہوگیا،اس کا میدان عمل وسیع ہوتا گیا حتی کہ یہ وسطی ایشاء اور جنوبی مشرقی ایشاء تک پھیل گئی۔ بلکہ دعوت کی بازگشت یورپ وغیرہ میں بھی سنائی دینے لگا۔

                  اس جلیل القدر عالم کی امارت کے آخری دور میں ناکثین(عہد شکنوں)کا فتنہ رونما ہوا۔ مختصراً اس فتنہ کا بیان یوں ہے کہ بعض لوگ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے اور انہوں نے شیخ کے تحمل سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ ان ناکثین نے ایک رات ایک چال چلی اور کاروان کو صراط مستقیم سے بھٹکانے اور حزب کے جسم کو ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔اگر اللہ کی مہربانی اور شیخ عبدالقدیم ظلّوم کی فہم وفراست اور استقامت نہ ہوتی تو حزب کو ناقبل تلافی نقصان پہنچتا لیکن اللہ نے حزب کو محفوظ رکھا  اوریہ حزب پہلے سے زیادہ توانا اور طاقتور ہوکر ابھری جبکہ وہ ٹولہ ناکام و رسوا ہو کر نیست ونابود ہو گیا۔

 

                  اس عالم باکمال نے دعوت کے عَلم کو تھامے رکھا اور اس کی قیادت کرتے رہے حتی کہ عمر اسّی سال سے تجاوز کر گئی تو گویا ان کو احساس ہو گیا کہ اب اجل قریب ہے تو ارادہ کیا کہ اللہ سے ایسی حالت میں ملیں کہ وہ اپنی اس دعوت کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو نے سے مطمئن ہوں جس میں انہوں نے اپنی عمر کا دوتہائی حصّہ صرف کردیا،پچیس سال امیر کے دست راست بن کر جبکہ تقریبا پچیس سال خود حزب کے امیر کاروان کے طور پر، تو انہوں نے خود حزب کی امارت سے کنارہ کش ہوکر اگلے امیر کے لیے انتخابات کا مشاہدہ کرنے کا ارادہ کیااور پھر ایسا ہی ہوا اور آپ پیر 14محرم الحرام 1424ھ بمطابق 17.03.2003کو حزب کی امارت سے خود سبکدوش ہوگئے۔

 

                  اس کے تقریبا چالیس دن بعد علم کا یہ سمندر حزب التحریر کے امیر شیخ عبدالقدیم یوسف زلوم بیروت میں منگل کی رات 27صفر الخیر 1424بمطابق 29.04 2003کو اسّی سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی وفات پر الخلیل شہر کے دیوان(ابو غربیة الشعراوی)میں تعزیت کے لیے آنے والوں کا ایساسمندر امنڈ آیا کہ شہر کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی،شہر شہر اور گاوئں گاوں سے لوگوں نے الخلیل شہر کا رخ کیا،شعراء اور ادیبوں نے شیخ کی زندگی کے بارے میں شعر اور نثر میں اپنا کلام پیش کیا،دنیا بھر سے تعزیت کے لیے فون اور ریڈیو کے ذریعے پیغامات موصول ہوتے رہے۔ سوڈان،کویت،یورپ،انڈونیشیا،امریکا،اردن،مصر اور دوسرے ممالک سے  بے شمارتعزیاتی کلمات موصول ہوئے،اسی وقت لبنان کے شہر بیروت اور اردن کے شہر عمان میں بھی تعزیت کے لیے لوگں کا جم غفیر اکٹھا ہوا۔

 

                  شیخ رحمہ اللہ حق کے معاملے میں بڑے ہی جرات مند تھے اوراللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔بڑے چست اور سرگرم تھے، کبھی تھک کر یا ناامید ہوکر نہیں بیٹھتے تھے۔توضع اور حسن اخلاق کا پیکر تھے۔ اپنے آپ کو محرِّمات سے بہت دور رکھتے تھے۔انتہائی حلیم اور کریم تھے۔آپ کے قریبی لوگ آپ کے قیام اللیل اور اللہ کی آیتوں کو تلاوت کرتے ہوئے زاروقطاررونے کے بارے میں بتاتے ہیں۔دعوت میں حد درجے کے صابر اور پختہ تھے،پوری زندگی گمنامی میں گزار دی ،ظالم حکمران ہمیشہ آپ کو ستانے کے کوشش میں لگے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بلاوا آگیا اور آپ کا اجر اللہ ہی کے پاس ہے،آپ پراللہ کی بے انتہا رحمتیں ہو ں۔

                  آپ کی وہ تالیفات،کتابیں اور کتابچے جو حزب نے آپ ہی کے عہد میں شائع کیں:

 

                  1۔ الاموال فی دولة الخلافة(ریاستِ خلافت میں ذرائع اموال)

                  2۔ نظام الحکم کی توسیع اور تنقیح(کتاب اسلام کا نظامِ حکومت میں اضافاجات)

                  3۔ الدیمقراطیة نظام کفر(جمہوریت نظامِ کفر ہے)

                  4۔ حکم الشرع فی الاستنساخ ونقل الاعضاء وامو اخری(کلوننگ اور اعضاء کی پیوند کاری کا شرعی حکم)

                  5۔ منہج حزب التحریر فی التغیر(تبدلی لانے کے لیے حزب کا منہج)

                  6۔ التعریف بحزب التحریر(حزب التحریر کا تعارف)

                  7۔ الحملة الامیرکیة للقضاء علی الاسلام (اسلام کوتباہ کرنے کی امریکی مہم)

                  8۔ الحملة الصلیبیة لجورج بوش علی المسلمین(جارج بش کا مسلمانوں پر صلیبی حملہ)

                  9۔ ھزات الاسواق المالیة (سٹاک مارکیٹ کا بحران اور اسلام کا اس کے متعلق حکم)

                  10۔ حتمیة صراع الحضارات(تہذیبوں کا تصادم ناگزیر ہے)۔

 

اصول فقہ کے بڑے عالم عطا ابو الرشتہ

حزب التحریر کے موجودہ امیر

     گیار ہ  صفر الخیر 1424ھ بمطابق 13.04.2003م کو حزب التحریر کے دیوان المظالم  کے سربراہ نے اصول فقہ کے نامور عالم انجینئر (عطاء ابو الرشہ)ابو یاسین  کے حزب التحریر کے امیر منتخب ہونے کا اعلان کیا،جس کے بارے میں ہمیں اللہ سبحانہ وتعالی سے بھرپور امید ہے کہ ان کے ہاتھ سے اللہ کی مدد آئے گی،کیونکہ آپ نے دعوت کو عروج پر پہنچادیا ہے اور انتظامی لحاظ سے بھی حزب کے کام کو انتہائی منظم کر دیا ہے اورشباب کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔

 

    آپ کی زندگی کے بعض پہلو:

                  عطاء بن خلیل بن احمد بن عبد القادر الخطیب ابو الرشتة،راجح قول کے مطابق آپ 1362ھ بمطابق 1943م کو فلسطین کے علاقے الخلیل کی ایک چھوٹی سی بستی(رعنا)کے ایک انتہائی دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بچپن سے ہی فلسطین کی مصیبت اور یہودیوں کی جانب سے 1948 میں برطانوی پشت پناہی اور عرب حکمرانوں کی خیانت کی وجہ سے اس پر قبضے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس  کے بعد آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ الخلیل کے قریب مہاجر کیمپ منتقل ہوگئے۔

 

                  آپ نے اپنی ابتدائی اور مڈل تعلیم اسی کیمپ میں حاصل کی،پھر ثانویہ مکمل کر کے الثانویہ الاولی( میٹرک )کی ڈگری1959م میں الخلیل کے الحسین بن علی نامی سکول سے حاصل کی ،پھر الثانویہ العامہ (مصری سلیبس کے مطابق) 1960 میں القدس الشریف کی الابراھیمی درسگاہ سے پاس کیا۔اس کے بعد تعلیمی سال 1960/61 میں قاہرہ  یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیااور 1966 میں انجینئرنگ میں بچلر کی ڈگری حاصل کر لی۔ آپ نے یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کئی عرب ممالک میں بطور انجینئر کام کیا۔سول انجینئرنگ سے متعلق آپ نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام  ''الوسیط فی حساب الکمیات ومراقبة المبانی والطرق''ہے۔

 

                  آپ نے پچاس کی دہائی  کے وسط میں مڈل سکول کی تعلیم کے دوران حزب التحریر میں شمولیت اختیارکی۔اللہ کی راہ میں آپ کو ظالموں کے عقوبت خانوں میں وحشیانہ اذیتیں دی گئیں۔ آپ نے تنظیمی ڈھانچے میں تمام تنظیمی اور ادارتی ذمہ داریوںکو انجام دیا۔ آپ دارس،رکن،مشرف،محلیہ کے نقیب،ولایہ کے رکن، معتمد، ترجمان امیر کے آفس کے رکن رہے اور پھر 11صفرالخیر 1424 ھ بمطابق 13.04.2003 سے اللہ کی مشیت سے حزب کی امارت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی ۔آپ ہمیشہ اللہ سے دعاگو ہوتے ہیں کہ اللہ آپ کو اس ذمہ داری کواحسن طریقے سے نبھانے کی توفیق دے۔

 

   آپ کی مندرجہ ذیل اسلامی تالیفات ہیں:

 

                    1۔ سورہ بقرہ کی تفسیر جس کا نام ''التیسیر فی اصول التفسیر'' ہے

                    2- دراسات فی اٰصول الفقہ۔تیسیر الوصول الی الاصول

                    3۔ اور کتابچے ہیں جن میں

                                    ا ۔ الازمات الاقتصادیة(اقتصادی بحران)اس کی حقیقت اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا حل،

                                    ب۔ الغزوة الصلیبیة الجدیدة فی الجزیرة والخلیج (جزیرہ عرب اور خلیج میں نئی صلیبی جنگ)

                                    ج۔سیاسة التصنیع وبناء الدولة صناعیا(صنعتی پالیسی اور ریاست کو صنعتی بنا نا)

                  4۔آپ نے اپنے عہد میں اب تک حزب کے لیے یہ کتابیں شائع کی:

                                    ا)  من مقومات النفسیة الاسلامیة(مضبوط اسلامی نفسیہ کی تشکیل)۔

                                    ب)  قضایا سیاسیة ۔بلاد المحتلة(سیاسی مسائل- مقبوضہ علاقے)۔

                                    ج)  تنقیح وتوسیع کتاب مفاھیم سیاسیة۔

                                    د)  ا سس التعلیم المنھجی فی دولة الخلافة(ریاستِ خلافت کی تعلیمی پالیسی کی بنیادیں)۔

                                    ھ)  اجھزة دولة الخلافة فی الحکم والادارة(ریاستِ خلافت کی حکومتی اور انتظامی تنظیم)۔

 

     آپ اللہ سبحانہ وتعالی سے مدد اور اس امانت کو اس طریقے سے ادا کرنے کی توفیق کے لیے دعاگو ہیںجو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہواور اللہ تعالی خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے آپ کے ہاتھوں فتح عطاء فرمائے کیونکہ وہی سننے والا اور دعاوں کو قبول کرنے والا ہے۔

                  اپنے عہد میں آپ نے جو قابل دید اقدامات کیے ان میں سے ایک28رجب 1426ھ بمطابق 02.09.2005کو 84سال پہلے رونما ہونے والے خلافت کے انہدام کے دلخراش واقعے کی مناسبت سے امت مسلمہ سے حزب کی پرزور اپیل ہے ،اس اپیل کو حزب نے انڈونیشیا سے شروع کر کے مشرق میں بحرالکاہل کے کناروں سے مغرب میں بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک نماز جمعہ کے اجتماعات میں پڑھ کر سنایا،اس اپیل کا اثر قابل دید تھا،اس کے علاوہ آپ تسلسل سے حزب کی کانفرنسوں، اجتماعات اور سیمناروں میں انتہائی واشگاف انداز میں حق کی آواز کو بلند کررہے ہیں۔

 

                  آپ کے عہد امارت میں گزرے پہلے چند سال خیر سے بھر پور تھے۔ہم اللہ سے اس خیر کے جاری رہنے اور اس میں اضافے کی امید کرتے ہیں،اللہ کے اذن سے حزب کے موجودہ امیر کے دور میں نصرکے امکانات کے واضح اشارے نظر آرہے ہیں،آپ سے امیدیں وابستہ ہیں اور ممکن ہے کہ آپ ہی کے دور میں اللہ اپنی مدد کا فیصلہ فرمائیں۔

                  اس جلیل القدر امیرکا زہد وتقوی بھی اللہ کے فضل سے بے مثال ہے ۔اپنے مشن سے زبردست لگاؤ اور ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینا آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ  حزب کے انتظامی امور میںمختلف مناصب پر فائز رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے انجام دے کر اپنی قابلیت ثابت کر چکے ہیں۔ خصوصاً ترجمان ،معتمداورسابق امیر کے معاون کے طور پر کام کر تے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب کی قیادت کرتے ہوئے آپ کو اپنی تمام ذمہ داریوں کا ادراک اور احساس ہے۔آپ تمام سرگرمیوں کی انتہائی متحرک انداز سے نگرانی کرتے ہیں،اسی وجہ سے شباب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا امیر ہر چھوٹے بڑے کام میں ان کے ساتھ اور ان کے درمیان ہے اوراسی بنا پر آپ شباب کی صلاحیتوں سے زبردست کام بھی لے رہے ہیں۔

 

                  اس طر ح مسجد اقصی مبارک سے گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں حزب التحریر کا قافہ جادہ و پیما ہوا جس کے لیے ایک بنیادی ہدف مقرر کیا گیا جو کہ خلافت راشدہ کا قیام تھا،اس قافلے کے میر کارواں استاد العلماء علامہ تقی الدین النبہانی تھے اور اپنی وفات تک آپ ہی اس قافلے کو لے کر منزل کی جانب بڑھتے رہے،آپ نے تقریباً پچیس سال حزب کی قیادت کی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

 

                  1977 میں آپ کی وفات کے بعد نامور عالم شیخ عبد القدیم زلوم نے حزب کی قیادت سنبھال لی ،اس دوران حزب کا کام بہت پھیل گیا،حزب کے ممبران کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا،حزب دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ گئی،یوں حزب ہزاروں نوجوانوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئی،ربع صدی حزب کی قیادت کرنے کے بعد علماء کے یہ سرخیل بھی اسّی سال کی عمر میں ہم سے جدا ہوئے۔

                  آپ کے بعد 2003میں ایک اور اعلی پائے کے عالم اصول فقہ کے مستند عالم عطاء ابو الرشتہ نے حزب کے کاروان کی باگ ڈور سنبھال لی۔آپ شیخین کے دور میں بوئی گئی فصل کو اور اس کے بعد اپنی محنت کے پھل کو کاٹنے کی زبردست انداز میں تیاری کر رہے ہیں۔

 

    تینوں امراء کے بارے میں ایک شاب کا یہ کیا ہی اچھا مقولہ ہے کہ

    یہ تین تھے اللہ سبحانہ وتعالی نے ان تینوں کے ہاتھوں تین کام کیے

    پہلے نے بنیاد رکھی اور منظم کیا

    دوسرے نے فعّال کیا اوراس کوچار چاند لگائے

    تیسرے نے اللہ سے مدد مانگی اور اللہ کے اذن سے آپ کو مدد ملے گی(آمین)

     

اس مضمون کا عربی مسودہ اس linkسے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔

 

[Source: el-Waie Magazine - August & September 2006  Issue 234+235 ]

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک