بسم الله الرحمن الرحيم
خلیفہ کی طرف سے فوج کی قیادت کرنے کا مفہوم
خلافت اسلام کے شرعی قوانین کو نافذ کرنے اور دنیا تک اسلام کی دعوت کو پہنچانے کیلئے مسلمانوں کی عمومی قیادت کا نام ہے۔ لہٰذا شریعت کا نفاذ اور اسلامی دعوت کو دنیا تک لے جانا وہ دو معاملات ہیں جن کیلئے خلافت موجود ہوتی ہے، اس لیے یہ دونوں کام خلافت ہی کی ذمہ داری ہیں، کسی اور کیلئے یہ کام کرنا جائز نہیں اور نہ ہی خلیفہ کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو مقرر کرے جو خلیفہ کی بجائے ان دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرے۔ یہ اس لیے کہ یہ دونوں وہ معاملات ہیں جن پر بیعت دی جاتی ہے اور بیعت کا معاہدہ صرف خلیفہ سے ہی کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ ایسا کام کسی دوسرے کے سپرد کر دے جس کام پر اس نے ذاتی طور پر معاہدہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاہدہ کرنے والے شخص جیسے ملازم، ایجنٹ یا شریک وغیرہ کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کام کو کسی دوسرے کو سونپ دیں جس پر انھوں نے معاہدہ کیا۔ جب کسی مخصوص شخص سے خلافت کا معاہدہ کیا جاتا ہے تو اس شخص کے لیے جائز نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو وہ کام سونپے جس پر عقدِ خلافت اس مخصوص شخص کے ساتھ کیا گیا ہے، جو کہ شرعی قوانین کا نفاذ اور دنیا کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے مسلمانوں کی عمومی قیادت ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہوا کہ خلافت کے قیام کا مقصد دعوت کو پہنچانا تھا یعنی خلافت کا وجود اسی مقصد کو پورا کرنے کیلئے تھا۔ اسی لیے دعوت کو پہنچانے کی ذمہ داری صرف خلیفہ ہی کے سر ہے، اگرچہ جہادہر مسلمان پر فرض ہے اور ہر مسلمان یہ کام کر سکتا ہے۔ دعوت کو پہنچانے کی خاطر خلیفہ کیلئے ایک خاص طریقہ مقرر ہے جو جہاد ہے اور جہاد صرف مجاہدین کی موجودگی میں، لڑنے کی طاقت کی تیاری اور لڑائی کرنے سے قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا فوج کی موجودگی، اس کی تیاری اور جو کام اس سے انجام پاتا ہے، یہ ہی دنیا تک دعوت لے جانے کا طریقہ ہے۔ نتیجتاً یہ خلیفہ ہی ہو گا جو فوج کی قیادت کرے گا کیونکہ وہی ہوتا ہے جو دعوت کو پہنچانے کی نگرانی کرتا ہے، لہٰذا وہی جہاد کی بھی نگرانی کرتا ہے۔ اسی لیے کوئی اور نہیں بلکہ وہ بذاتِ خود فوج کی قیادت کرتا ہے۔ فوج کی قیادت کرنا کا مطلب اس کے انتظامی امور کو دیکھنا، تربیت یا اس طرح کے تکنیکی معاملات دیکھنا نہیں کیونکہ یہ تمام وسائل اور اسلوب ہیں۔ اگرچہ خلیفہ اس کا بھی عمومی نگران ہوتا ہے لیکن وہ یہ کام نہیں کرتا۔ فوج کی نگرانی کا مطلب فوج کی تشکیل، اسے اسلحے سے لیس کرنا اور اس کے کام کی نگرانی کرناہے۔ اس لیے کہ جو سپاہی جذبہ جہاد سے سرشار ہے وہی مجاہد ہے اور دشمن کو خوفزدہ کرنے کیلئے طاقت کی تیاری اور لڑائی ہی جہاد کے اعمال ہیں۔ لہٰذا جب اللہ نے جہاد کا حکم دیا تو دراصل انہی اعمال کا حکم دیا اور لڑائی تو بذاتِ خود جہاد ہے۔ اس لیے مجاہدین کی نگرانی، ان کی تربیت اور ان کو لڑائی کے لیے نکالناصرف خلیفہ ہی کیلئے ہے، کسی اور کیلئے نہیں۔ لہٰذا خلیفہ کی فوج کی قیادت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود، نہ کہ کوئی اور، فوج کی تشکیل، اسے اسلحے سے لیس کرنے، اس کی تیاری اور جنگ میں لڑنے کے عمل سے متعلق پالیسی کی نگرانی کرے گا۔ پھر وہ خود ہی اس پالیسی کے نفاذ کا ذمہ دار ہوتا ہے نہ کہ کوئی اور۔ لہٰذا یہ صرف خلیفہ ہی ہوتا ہے جو فوج کے لیے اندورنی اور بیرونی پالیسی مرتب کرتا ہے اور اندرونی اور بیرونی پہلوؤں سےجنگی پالیسی مرتب کرتا ہے اور کسی دوسرے کیلئے یہ ذمہ داری اٹھانا جائز نہیں۔ اگرچہ اس کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ اس پالیسی کوبنانے اور نافذ کرنے میں جس سے چاہے مدد لے لیکن وہ یہ ذمہ داری کسی اور کے سپرد نہیں کر سکتا۔ خلیفہ کی فوجی قیادت کا یہی مطلب ہے۔ خلیفہ کے علاوہ کسی دوسرے کیلئے یہ ذمہ داری اٹھانا کسی بھی طرح جائز نہیں۔
یہاں فوج کے حوالے سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اس کے اس طاقت ہونے کے حوالے سے جو خلیفہ کی طرف سے دعوت پہنچانے کے واحد طریقے کی حیثیت سے جہاد کرتی ہے، اور دوسرا اس طاقت ہونے کے حوالے سے جو اندرونی اور بیرونی طور پر خلافت کی اتھارٹی و اقتدار(سلطۃ) کی حفاظت کرتی ہے۔ جہاں تک اس کے اس طاقت ہونے کا سوال ہے جو خلافت کے دعوت پہنچانے کے طریقے کی حیثیت سے جہاد کرتی ہے، یہ ریاست کی خارجہ پالیسی سے متعلق اور اس میں فوج کے کردار سے متعلق ہے۔ چونکہ خلیفہ کا اسلامی دعوت کو پہنچانا جہاد ہی ہے، اس لیے اسلامی ریاست ہمیشہ حالتِ جہاد میں رہتی ہے۔ نتیجتاً پوری مسلم امت اس پر یقین رکھتی ہے کہ ان کی دیگر ریاستوں سے کسی بھی وقت جنگ ممکن ہے اور ریاستی پالیسی جہاد کی مسلسل تیاری پر مبنی ہونی چاہیے۔ چونکہ عملاً لڑائی اس وقت تک جائز نہیں جب تک پہلے اسلامی دعوت اس انداز میں نہ پیش کی جا چکی ہو جو توجہ حاصل کر لے، لہٰذا اسلامی ریاست کی پالیسی اپنے اور دیگر ریاستوں کے درمیان ایسی صورتحال قائم کرنے کا ہدف رکھتی ہے جو دیگر لوگوں اور اقوام تک اسلام کی دعوت کو توجہ طلب انداز میں پہنچائے اور اس کی بنیاد کسی بھی وقت جنگ کرنے کی تیاری پر رکھے، جب بھی دعوت کو اس کی ضرورت پڑے۔ ایسے حالات کا بن جانا ناگزیر ہے جو اسلامی افکار اور احکامات کی دعوت کو، توجہ طلب انداز میں، پہنچانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے درکار ہوں، کیونکہ یہ جہاد کے احکامات میں سے ہے اور جنگ شروع کرنے کی بنیادی شرط ہے۔ لہٰذا خلیفہ کیلئے ایسی صورتحال قائم کرنا واجب ہے اور اس کے قیام کیلئے بھرپور کوشش کرنا بھی لازم ہے۔ اس کے لیے حتی الوسع مال لگانا اور خطرہ مول لینا ضروری ہے جیسے وہ کسی فتح کیلئے یا اسلامی زمین کے دفاع کیلئے یا مسلمانوں کی عزت کے دفاع کیلئے کرتا ہے۔ لہٰذا فوجی طاقت مہیا کرنا، فوج کی تیاری پر توجہ دینا اور فوج کے تمام معاملات کی نگرانی کرنا ایسی صورتحال کے قیام اور تسلسل کیلئے ضروری ہے کونکہ فوجی قوت ہی کفر اور کافر ریاستوں کے خلاف واحد ڈھال ہے۔ یہ وہ امر ہے جو خلیفہ کی قیادت میں دعوت پہنچانے کے معاملے میں فوج یا فوجی طاقت کو ایک اثر مہیا کرتا ہے، یعنی فوج اور فوجی قوت کا خارجہ پالیسی میں ایک کردار ہے کیونکہ وہ اس کے ستون ہیں۔ اس وجہ سے خارجہ پالیسی معاملات میں یعنی خلیفہ کی دعوت کو پہنچانے کی نگرانی کے متعلق خطرہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا خلیفہ کی طرف سے دعوت کو پہنچانے کے عمل کی نگرانی کرنے میں یعنی ریاست کی خارجہ پالیسی کے معاملے میں ،فوج کے کی طرف سے ممکنہ خطرے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر اس خطرے کی حقیقت کو نہ سمجھا جائے تو ممکن ہے کہ دنیا تک دعوت لیجانے کا عمل رک جائے یا الجھن کا شکار ہو جائے جو خارجہ پالیسی میں تنزلی کا باعث بنے گا۔
اسلامی ریاست کی فوجی قوت کی تعمیر صرف دفاع کیلئے نہیں بلکہ یہ ایک واجب امر ہے جو خلیفہ کیلئے لازم ہے تاکہ وہ کام انجام دیا جا سکے جس پر مسلمانوں نے اسے بیعت دی یعنی ریاست کا دعوت کو پہنچانے کا عمل جسے اللہ نے لازم کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کیلئے یہ لازم ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی اس انداز سے چلائے جیسے اللہ نے حکم دیا اور اسے صحیح اور فائدہ مند طریقے سے جاری رکھے۔ لہٰذا حربی کفار اور ان کے حملوں کے خوف کے خلاف امت کی ڈھال کے طور پر فوجی طاقت کی تعمیر ہی ریاستی خارجہ پالیسی کو اسلامی پالیسی بنانے کا واحد طریقہ ہے۔
اسلامی ریاست کا ایک مضبوط فوجی ادارے کے ذریعے ایک زبردست فوجی طاقت کی تعمیر کے لازمی عمل کا یہ مطلب نہیں کہ فوجی ترجیحات ریاست کی خارجہ پالیسی پر غالب ہیں یا یہ کہ فوج کے ادارے کا خارجہ پالیسی پر کچھ یا زیادہ اثر ہے۔ یہ اس لیے کہ فوجی رائے ایک مخصوص پیشے سے وابستہ لوگوں کی پیشہ ورانہ رائے ہے جن کا کام ہی یہ ہے کہ اگر دوسری ریاستوں سے جنگ ہو جائے تو ریاست کو فوجی مہارت مہیا کی جائے۔ لہٰذا فطری طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ ان کی رائے تمام تر احتیاط کی بنیاد پر ہو گی۔ بہرحال یہ درست نہیں کہ ان کی رائے ایک مشورے کی حد سے تجاوز کرے، نہ ہی اس کی حیثیت اس مخصوص شعبے کی پیشہ ورانہ رائے سے تجاوز کرنی چاہیے جس کی سوچ اس معاملے میں ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتی۔ نتیجتاً اس رائے کو ہر معاملے میں لینا درست نہیں، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، نہ ہی اسے خارجہ پالیسی کی عمومی تعلیم کے علاوہ پڑھنا چاہئے جو اس کی اصل جگہ ہے۔ اسے اسی کے مخصوص مقام پر رکھا جاتا ہے جب وہ مقام آئے اور اس کی نصیحت خارجہ پالیسی میں درست جگہ پر ہو، لہٰذا یہ ایک مخصوص نصیحت ہے، عمومی مشورہ نہیں۔ لہٰذا خلیفہ اسے خارجہ پالیسی معاملات میں ہی سنتا ہے جیسا کہ اسے سننا جائز ہے جب یہ صرف سننے ہی کیلئے ہو لیکن اس شرط پر کہ وہ خارجہ امور سے اور اس نصیحت کی اس میں جگہ سے پوری طرح واقف ہے۔ اسے اس سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس لیے کہ اگر وہ اسے ایک نصیحت ہونے سے زیادہ اہمیت دے تو بلاشبہ خارجہ پالیسی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا یعنی خارجہ پالیسی الجھن اور زوال کا شکار ہو گی اور دعوت رک جائے گی۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ریاست زوال کا شکار ہو جائے اور اس کے علاقے اس کے اختیار سے نکل جائیں۔ لہٰذا فوجی رائے کو ایک نصیحت سے زیادہ اہمیت دینا درست نہیں۔
جب فوجی ایک فوجی کی حیثیت سے کام کرتے ہیں تو وہ اسے پیشہ ورانہ طور پر انجام دیتے ہیں۔ وہ دشمن کا سامنا کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ سے فائدہ اٹھانے کا نہیں سوچتے، نہ ہی اس معاملے پر غور کرتے ہیں کہ اسلام کی دعوت توجہ طلب انداز میں دی جا چکی ہے یا نہیں۔ وہ روحانی اور فکری صلاحیتوں کو خاطر میں لانے کی کوشش نہیں کرتے، نہ ہی دشمن کے علاقے میں موجود دعوت کے لیے گئے ہوئے حاملین دعوت کے اعمال کو سمجھنے کی پرواہ کرتے ہیں، نہ ہی وہ سفارتی ذرائع اور سیاسی اعمال کے عظیم اثرات کو سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے فوجی سوچ ایک مخصوص ذاتی رائے ہے نہ کہ ایک جامع سیاسی فکر۔ اگر ان کے مشورے کو مانا جائے تو وہ اپنے موضوع میں نادر نصیحت ہے لیکن اگر انہیں فیصلے اور نفاذ کا اختیار دے دیا جائے اور ان کی نصیحت کسی بھی طرح مشروط ہو تو اس سے بلاشبہ سیاسی فیصلوں اور سیاسی عمل کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ فوجی ادارے کا خارجہ پالیسی پر اثر ہو یا فوجی رائے کو ایک تکنیکی رائے سے زیادہ اہمیت دی جائے اور اسے ایک عمومی مشورے کے طور پر لیا جائے۔
لیکن فوجی آراء کو تکنیکی نصیحت تک محدود کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فوجی اندازوں کو نظرانداز کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہےکہ خلیفہ کی آراء فوجی آراء پر بھاری ہوں گی۔ لہٰذا حتمی فیصلہ کرتے وقت خلیفہ خالص فوجی اندازوں کو نظرانداز کرنے کیلئے، اگر وہ ایسا کرے، مکمل ذمہ دار ہو گا۔ اسے دیگر غیرفوجی لوگوں جیسے معاونین، والی، اہلِ حل وعقد کی آراء کو فوجی اندازوں سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے، اگرچہ خلیفہ کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے فوجیوں کے اعلیٰ مقام کی قدر کرے، چاہے زمین کے دفاع کے حوالے سے ہو یا کفار کے خلاف جہاد کا آغاز کرنے کے حوالے سے ہو۔ لہٰذا یہ اس پر اور پوری امت پر لازم ہے کہ فوجی طاقت کی اس طرح حفاظت کی جائے جیسے ایک شخص اپنی آنکھ کی حفاظت کرتا ہے لیکن یہ سیاست دان ہی ہوتے ہیں نہ کہ فوج جو خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں اور وہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جنگ کے خطرے کا کیسے سامنا کرنا ہے، کب جنگ کرنی ہے اور اگر جنگ کی ضرورت ہے تو کب ہونی چاہیے اور کتنی جلدی ہونی چاہیے۔ خلیفہ کیلئے لازم ہے کہ ہمیشہ فوجی طاقت کو ایک محتاج ادارے کے طور پر رکھے اور فوجی ادارے یا اس میں موجود کسی شخص کو پالیسی پر عمل درآمد کرنے سے زیادہ کا کردار نہ دے، نہ کہ اس پالیسی کو مرتب کرنے کا کردار دے۔ یہ تو فوجی ادارے اور اس کی آراء کے کردار کے حوالے سے تھا۔ جہاں تک خلیفہ کا فوجی اندازوں کو جانچنے کا تعلق ہے، تو یہ کافی نہیں کہ انھیں صرف تکنیکی مشورے کے طور پر لیا جائے اور پھر خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں یہ فوجی رائے ایک اثر رکھے، بلکہ خارجہ پالیسی پر اس کے کسی قسم کے اثر کو روکنا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں خارجہ پالیسی کا اس کی بنیاد پر مرتب ہونا درست نہیں نہ ہی اس کا اس میں کوئی عمل دخل ہے کیونکہ فوج کو خارجہ پالیس دینا خطرناک ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ فوجی آراء خارجہ پالیسی میں بالکل پیچھے ہوں۔ فوجی آراء کو بطور فوجی آراء، چاہے فوج سے آئیں یا عوام سے، خلیفہ کی خارجہ پالیسی کو مرتب کرنے پر اثرانداز ہونے سے دور رکھنا چاہیے۔
فوجی معاملات کی ایک مخصوص ظاہری شکل ہے۔ توپ، فوجی بحری جہاز، لڑاکا طیارے، اڈے، ایٹمی ہتھیار اور میزائیلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کامیابی یا ناکامی، فتح یا شکست اور آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے عمل پر بغیر کسی مشکل کے آسانی کے ساتھ قائل ہوا جا سکتا ہے۔ یہ مادی اشیاء ہیں جن کے حجم کا اندازہ ممکن ہے۔ ان کے اثرات مادی ہیں جن کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس روحانی اور فکری طاقت، سیاسی داؤپیچ اور علاقائی اور عالمی رائے عامہ مادی معاملات نہیں ہیں۔ ان کے اثرات اور نتائج کو محسوس کرنا آسان نہیں کیونکہ یہ غیر محسوس چیزیں ہیں جنھیں دیکھا یا محسوس نہیں کیا جا سکتا اگرچہ خارجہ پالیسی میں ان کی بہت اہمیت ہے اور جنگ اور فتح میں تو اور بھی زیادہ۔ لہٰذا فوجی آراء کو خارجہ پالیسی کے پیچھے ہی ہونا چاہیے اور ان کی حیثیت ثانوی ہونی چاہیے جبکہ روحانی اور فکری طاقتوں کو برسرِاختیار ہونا چاہیے۔ سیاسی داؤپیچ اور چالاکی کا اہم کردار ہونا چاہیے اور یہ تمام ایک سیاسی طاقت میں جمع ہوں جو تقسیم نہ ہو اور جس کی نگرانی صرف خلیفہ ہی کرے۔ اس سے ہم خلیفہ کی فوج کی قیادت کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں جس سے اس کے باقاعدہ قائد یا بالاترین قیادت ہونے کی حساسیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
کچھ خلفاء کی جانب سے فوجی آراء کو خارجہ پالیسی پر حاوی کرنے کے تباہ کن نتائج سامنے آئے جس سے دنیا کو دی جانے والی دعوت رک گئی جو عباسیوں کے دوسرے دور اور عثمانیوں کے آخری دور میں ہوا۔ اسلامی فتوحات رومی سرزمین میں شامی علاقوں کی جانب ترک سرحد پر آ کر رک گئیں۔ مغربی یورپ میں وہ فرانس سے واپس نکلے اور اسپین کی سرحد پر آ رُکے جبکہ روحانی جوش ابھی تک مضبوط تھا اور اسلامی افکار پہلے سے زیادہ گہرے اور مضبوط تھے۔ لیکن جب فوج نے اپنی طاقت اور دشمن کی طاقت کے بارے میں رائے دی اور ان آراء کو جنگ میں داخل ہونے یا نہ ہونے کیلئے اپنایا گیا تو فیصلے کے مطابق انھوں نے اپنے آپ کو گرمیوں اور سردیوں کے مہمات تک محدود کر لیا تاکہ جہاد شریعت کے مطابق جارے رہے اور سیاسی اعمال اور سیاسی ضابطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے آگے نہ بڑھے۔ عثمانیوں کے دور میں اسلامی افواج یورپ بشمول یونان ، بلغاریہ ، رومانیہ ، البانیہ اور یوگوسلاویہ کو فتح کر کے آسٹریا میں ویانا کی دیواروں تک پہنچ چکی تھیں اور انھوں نے ان تمام ممالک تک اسلام کی حکومت کو پہنچایا یہاں تک کہ یورپ میں یہ رائے عامہ قائم ہو گئی کہ اسلامی فوج ناقابلِ شکست ہے۔ جب اٹھارویں صدی میں یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے باعث فوجی آراء خارجہ پالیسی پر غالب آ گئیں تو اسلام کا پھیلاؤ رک گیا اور واپسی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں اسلام کا اختیار مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
یہ تو فوج کی اس طاقت ہونے کے حوالے سے تھا جو جہاد کرتی ہے۔ جہاں تک اس کی اس طاقت ہونے کا تعلق ہے جو اندرونی اور بیرونی طور پر حکومت کی حفاظت کرتی ہے، اس کا تعلق اس مادی قوت سے ہے جو اقتدار اور حکومت کی جان ہے۔ یہی اس کی حفاظت کرتی ہے، یہی اس کو تباہ کرنے یا قائم کرنے کی سکت رکھتی ہے، اگرچہ عارضی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا اقتدار کیلئے فوج اور فوجی طاقت کی اقتدار کیلئے موجودگی نہایت اہم ہے۔ اس کا یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ فوج کا اقتدار میں گہرا اثر ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ فوجی آراء کو خارجہ پالیسی میں مشورے کی حیثیت میں دیکھا جا سکتا ہے، فوجی ادارے یا اس میں موجود کسی شخص کیلئے اقتدار میں فوجی کی حیثیت سے موجود ہونا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اگرچہ فوجی ادارہ ہی حکومت کی حفاظت کرتا ہے لیکن اس میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ اقتدار کوئی محسوس مادی طاقت نہیں نہ ہی مادی طاقت پر منحصر ہے بلکہ وہ صرف معاشرے میں تعلقات کے نظام کو چلاتا ہے۔ اقتدار امت یا لوگوں سے حاصل کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اصل میں ان ہی میں موجود ہوتا ہے یا ان کے کسی مضبوط طبقے میں، فوج اور فوجی ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ اس کا نفاذ فوج ہی کے ذریعے ہوتا ہے جس کی مادی طاقت یعنی فوج کے بغیر یہ ممکن نہیں لیکن اس میں ان کا کردار صرف ایک وسیلے کا ہے اور کچھ نہیں۔ یہ جائز نہیں کہ ان کا کردار ایک سپاہی کے ہاتھ میں موجود بندوق سے زیادہ ہو جسے وہ اسے دشمن پر استعمال کرے لیکن اس میں اس کا کوئی زور یا رائے نہیں۔ حکومت کیلئے یہ خطرناک ہے کہ فوج کا کسی صورتحال کے فیصلے میں کوئی عمل دخل ہو۔ یقیناً ایسا کوئی بھی کردار ریاست کو ایک 'پولیس اسٹیٹ ' بنا دے گا جیسے جیل میں پولیس افسران کا قیدیوں کیلئے کردار ہوتا ہے جو تعلقات کو منظم کرنے کے حوالے سے نہیں ہوتا۔
اقتدار میں فوج کا کسی قسم کا کردار، چھوٹا ہو یا بڑا، حکمرانی حکمران اور ریاست کیلئے خطرہ ہے کیونکہ حکمرانی میں حق کی تلاش، شریعت کی پابندی اور انصاف کی فراہمی شامل ہیں۔ اس میں نہ تو حکمران نہ ہی عوام کے پاس موجود مادی طاقت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اس کی طاقت نفاذ کے ذرائع میں نہیں بلکہ اس کے لوگوں کے معاملات چلانے کے طریقے میں پنہاں ہے۔ اگر اس میں مادی طاقت شامل ہو جائے گی تو وہ اس کی حکمرانی کی فطرت کو خراب کر کے اسے محض غلبے اور اجارہ داری میں تبدیل کر دے گی اور تب وہ اپنی حکمرانی اور اقتدار کی حیثیت کو کھو دے گی۔ لہٰذا فوج یا فوجی ادارے کیلئے درست نہیں کہ ان کا حکمرانی میں کوئی عمل دخل ہو بلکہ انہیں حکمران کے ہاتھ میں ایک ذریعے کے طور پر ہونا چاہیے جس کی حکمرانی میں کوئی رائے نہ ہو بلکہ انھیں ایک سماعت سے عاری ذریعے کے طور پر ہونا چاہیے جس میں حکمرانی کی کوئی رائے نہ ہو۔ یہ تو حکمرانی کو اس سے لاحق خطرے سے متعلق تھا۔ جہاں تک حکمران کو اس سے لاحق خطرے کا تعلق ہے، تو فوج اور فوجی ادارے کے لوگ انسان ہی ہیں جن میں جبلتِ بقاء موجود ہے جس کا ایک مظہر اقتدار میں ہونا ہے۔ اگر انہیں اقتدار میں شرکت دے دی جائے اور وہ یہ دیکھیں کہ وہ حکمران کو تباہ کر سکتے ہیں اور وہی اس کی اور اس کے اقتدار کی حفاظت کرتے ہیں، تو وہ اپنے آپ کو طاقت کے منبع کے طور پر دیکھیں گے یعنی یہ سوچیں گے کہ حکمران کے اقتدار کی طاقت ان کے بل بوتے پر ہے۔ یہ سوچ ان میں طاقت میں آنے کی سوچ کو بھڑکا سکتی ہے کہ وہ حکمرانی میں کود پڑیں جبکہ مادی طاقت بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہے، اور وہ حکمران سے اقتدار چھین لیں۔ لہٰذا حکمران کیلئے یہ نہایت خطرناک ہے کہ فوجی ادارے یا فوج کو اقتدار میں کوئی بھی جگہ دی جائے۔ عباسیوں اور عثمانیوں کے دور میں یہی ہوا، کچھ خلفاء فوج کے سامنے کمزور ہو گئے اور پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ انھیں یا تو اقتدار سے ہٹا دیا گیا یا اثرانداز کر دیا گیا۔ نتیجتاً ان خلفاء کے ادوار میں اسلامی ریاست کی حکمرانی زوال کا شکار ہو گئی۔
جہاں تک امت اور ریاست کو فوج کے حکمرانی میں کردار سے لاحق خطرے کا تعلق ہے، تو اسلامی ریاست اپنی فکر کی فطرت کی وجہ سے دشمنوں سے گھری ہوتی ہے۔ وہ شرعی حکم جس کی ریاست اور امت نے اتباع کرنی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا یا تو دارالاسلام ہے یا دارالحرب ہے۔ وہ علاقے جب پر اسلام کی حکومت یا جھنڈا ہے وہ دارالاسلام ہیں جبکہ دنیا میں باقی سب علاقے دارالکفر یا دارالحرب ہیں۔ لہٰذا اسلامی ریاست ہر وقت دشمنوں سے گھری ہوتی ہے جو حملے کیلئے موقع کی تاک میں ہوتے ہیں۔ اگر فوج کو حکومت میں کردار دے دیا جائے، چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، تو دشمن کے ہاتھوں ان کا بِک جانا سیاست دانوں کی نسبت زیادہ آسان ہے کیونکہ ان کے کام کی نوعیت مادی فوجی کاموں کی ہے جس کے باعث ان کیلئے غیرمعمولی داؤپیچ اور خفیہ سیاسی نتائج کو سمجھنا مشکل ہے۔ لہٰذا انھیں اقتدار چھیننے یا حکمران تبدیل کرنے کیلئے ان کی رائے کے مطابق ملک میں کچھ فوائد یا ذاتی فوائد کی لالچ دی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے خطرہ صرف حکمران شخصیات یا حکمرانی ہی کو لاحق نہیں بلکہ امت اور ریاست کو بھی ہے کیونکہ امت کی اکائی کئی لوگوں، افکار، مقیاسات اور اعتقادات سے مل کر بنتی ہے اور ریاست کی اکائی قابل افراد کے گروہ جسے اختیار سونپا گیا، افکار، مقیاسات اور اعتقادات سے مل کر بنتی ہے۔ اگر فوج بیرونی لالچ کی وجہ سے طاقت سنبھال لے تو وہ فوج، ان افکار، مقیاسات اور اعتقادات میں چلی جائے گی جو ریاست کے علاوہ ہیں، جہاں سے ریاست کی اکائی میں نقصان آنا شروع ہو جائے گا، بلکہ اس کی وجہ سے کافر ریاستوں کا اثر بھی سرائیت کر سکتا ہے جو تباہی اور بربادی کا باعث ہو گا۔ لہٰذا فوج یا فوجی ادارے کا اقتدار یا حکومت میں موجود ہونے کی اجازت کا ہونا ایک بھیانک خطرہ ہے۔
امتِ اسلامی کے ساتھ یہی ہوا جب فوج کے اقتدار میں کردار کے باعث پوری ریاست اور امت کو خطرہ لاحق ہو گیا جس نے نتیجتاً اسلامی ریاست اور امتِ اسلامی کی اکائیوں کو مٹا دیا۔ عثمانی دور کے آواخر میں استنبول میں موجود کافر ریاستوں کے سفارتخانوں نے فوج پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا یہاں تک کہ غیراسلامی افکار، پیمانےاور اعتقادات ریاستی ادارے کا حصہ بن گئے۔ اس معاملے میں مِدہت پاشا اور افسران کا کردار اہم تھا جنہوں نے یہ افکار، پیمانےاور اعتقادات ترتیب دیے، خصوصاً حکومت الٹانے کی اس کوشش میں جب عبدالحمید (خلیفہ) کو لایا گیا اور وہ کوشش جب عبدالحمید کو خلیفہ کے منصب سے ہٹا کر محمد راشد کو خلیفہ نصب کیا گیا۔ اس سے پہلے مصر کے محمد علی کا کردار تھا جو فرانسیسی ایجنٹ بنا تاکہ استنبول میں اسلامی خلافت پر حملہ کیا جا سکے۔ پھر جنگِ عظیم اول میں عثمانی خلافت کی شکست کے بعد مصطفیٰ کمال کا کردار آیا جس نے انگریز کے ساتھ مل کر خلافت کو تباہ کرنے کی سازش کی اس کے بدلے میں اس نے استنبول سے اتحادیوں کے انخلاء اور امن کانفرنس میں مدد حاصل کی ۔ فوج کے ان کرداروں نے اسلامی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا اور پھر ختم کر دیا اور امتِ اسلامی کے اجتماعی وجود کو بھی ختم کر دیا۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ فوجی ادارے یا فوج کو اقتدار میں کسی قسم کی جگہ دی جائے۔
حزب التحریر کی تبنی کردہ کتاب "شخصیہاسلامیہ "جلد دوم سے اقتباس