بسم الله الرحمن الرحيم
باجوہ-عمران حکومت نے سرمایہ داریت کا عالمی تسلط برقرار رکھنے اور استعماری آقاؤں کے ڈولتے ہوئے معاشی آرڈر کوبچانے کیلئے پاکستان کے عوام کو قربان کر دیا
خبر:
12 اپریل 2020 کو حکومت نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان نے بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز سے التجاء کی ہے کہ وہ فوری طور پر ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کی واپسی میں سہولت فراہم کریں تا کہ یہ ممالک کورونا کی وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کا موثر طور پر سامنا کر سکیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس بات پر فکر مند ہیں کہ ترقی پزیر ممالک میں لوگ لاک ڈاون کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک سے اموات کا شکار نہ ہوجائیں۔ انہوں نے اپیل کی اور کہا،"میری بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اپیل ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو مثبت جواب دیں جو کوویڈ-19 وبائی مرض کا سامنا کررہے ہیں"۔
تبصرہ:
دنیا بھر میں کوویڈ-19 کے پھیلاؤ کے بعد آدھی سے زیادہ دنیا لاک ڈاون میں چلی گئی جس کی وجہ سے معیشت کا پہیا رک گیا۔ اپریل کے ورلڈ اکنامک آوٹ لُک نے 2020 میں عالمی معاشی ترقی کی جو پیش گوئی کی ہے اس کے مطابق عالمی جی ڈی پی منفی تین فیصد تک سکڑ جائے گا۔ ترقی پذیر ممالک کا بڑا حصہ سودی قرضے واپس کرنے کے پوزیشن میں ہی نہیں رہے گا۔ ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ حکومتوں کے محاصل کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ پہلے سے حکومتی خزانوں پر سودی قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا استعماری طاقتیں جانتی ہیں کہ سودی نظام پر کھڑی کی ہوئی ان کی عمارت خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گی اگر چند ممالک نے بھی خود کو دیوالیہ ظاہر کردیا جس کے بعد استعماری ممالک کا معاشی تسلط ختم ہوجائے گا جسے وہ امداد اور اعانت کے نام پرترقی پذیر ممالک پر مسلط کرتے ہیں۔
یقیناً باجوہ-عمران حکومت اپنے استعماری آقاوں کی خدمت گزاری کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتی لہٰذا اس حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے قرضوں کی واپسی میں سہولت کا مطالبہ کیا۔ لیکن اگر یہ حکومت مسلمانوں سے مخلص ہوتی تو وہ واضح طور پر قرضوں کی واپسی سے انکار کردیتی کیونکہ قرضوں کی ری شیڈولنگ سے وقتی طور پر کچھ عرصے کے لیے قرض کی رقم واپس نہیں کرنا پڑتی لیکن بعد میں اسی قرض کی واپسی پہلے سے زیادہ رقم دے کر کرنی پڑتی ہے اور اس طرح ملک مزید معاشی غلامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پچھلے سال پاکستان نے قرض دینے والے ممالک اور اداروں کو 11.6ارب ڈالر واپس کیے تھے جو کہ اس وقت مرکزی بینک میں ہمارے کُل زرمبادلہ کے ذخائر کے برابر ہے۔ ترقی پزیر ممالک زیادہ تر نئے قرض پچھلے قرض کو اتارنے کے لیے لیتے ہیں۔ حالیہ ایک تحقیق کے مطابق 2011 میں 62 غریب ممالک اوسطاً اپنے محاصل کا 5.2فیصد بیرونی قرض کی ادائیگی پر خرچ کرر ہے تھے۔ یہ اوسط 2019 میں 12 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2012 سے 2017 کے درمیانی صرف پانچ سال میں ، کم آمدنی والے ترقی پزیر ممالک کا قرض اور جی ڈی پی کی شرح 30.35فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد تک پہنچ گئی۔ کچھ عرصے سے پاکستان ایسی صورتحال کا شکار ہے کہ جہاں اس کے محاصل کا دو تہائی حصہ صرف قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے۔
اور اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ -فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ
"مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو)"(البقرۃ ، 279-278)،
پاکستان کے حکمران سودی ادائیگیوں کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار کررہے ہیں جو اب ہمارے بجٹ کے بڑےحصے کو کھا جاتا ہے جبکہ لوگ صحت کے شعبے پر موثر رقم خرچ نہ ہونے کی وجہ سے بدترین صورتحال کا شکار ہیں۔ حکمرانوں کو تو اس بنیاد پر سودی ادائیگیوں سےانکار کردینا چاہیےتھا کہ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ایک ہنگامی صورتحال ہے اور ہمارا دین سود کی اجازت بھی نہیں دیتا لیکن اس کے برخلاف وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی ری شیڈولنگ پر مذاکرات کررہے ہیں۔
نبوت کے نقش قدم پر آنے والی خلافت قرضوں کے شیطانی چکر کو ختم کردے گی۔ اور وہ خلافت انسانیت کو سودی قرضوں کے جبرسےنجات دلانے کے لیے بھر پور کردار ادا کرے گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔