الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت زمین پر اللہ کا سایہ ہے جو صدیوں تک ظلم وجبر سے بچاؤ کا باعث بنا اور دوبارہ بھی ایسا صرف اسی سے ہو گا، ان شاءاللہ

 

امام مالک نے اپنی موتہ میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَادِلٌ،"سات لوگ ایسے ہیں جو اس دن اللہ کے سائے میں ہوں گے جب اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا: ایک عادل امام۔۔۔"۔ایک عادل امام،مسلمانوں کا حکمران اُن سات میں وہ پہلا شخص ہے جو روزِ قیامت اللہ سبحانہ وتعالی کے سائے تلے سکون پائے گا جب لوگ شدید گرمی اور بے انتہا پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔آخری نبی اور اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام کی بنیاد پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمران کو زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سایہ قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:السلطانُ ظِلُّ الله في الأرض،"سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے"(امام سیوطی نے اسے اجماع الصغیر میں اور ابنِ تیمیہ نے مجموعہ الفتاویٰ میں اسے صحیح گردانا ہے)۔

سلطان زمین کے لوگوں کیلئے سکھ کا باعث اس لیے بنتا ہے کیونکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اوامرونواہی کی پابندی اختیار کرتا ہے۔ یہ صرف اسلام ہی ہے جو طاقتور کو کمزور کا استحصال کرنے سے روکتا ہے ،چاہے وہ حکمران ہو جو عوام کا استحصال کرنا چاہے،یاامیر ہو جو غریب کا استحصال کرنا چاہے،یااکثریت ہو جو اقلیت کا استحصال کرنا چاہے یا مرد ہوجو عورت کا استحصال کرنا چاہے۔رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے پہلے حکومت کرنے والے آپ ﷺ کے خلیفہ، ابو بکر صدیق ؓ نے اعلان کیا: وَالضّعِيفُ فِيكُمْ قَوِيّ عِنْدِي حَتّى أُرِيحَ عَلَيْهِ حَقّهُ إنْ شَاءَ اللهُ, وَالقَوِيّ فِيكُمْ ضَعِيفٌ عِنْدِي حَتّى آخُذَ الحَقّ مِنْهُ إنْ شَاءَ اللهُ  ، "تم میں سے کمزور میرے نزدیک طاقتور ہےحتی کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں ،ان شاء اللہ، اورتم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے حق لے لوں، ان شاء اللہ"۔

 

یقیناً،آسمانوں اور زمین میں رہنے والی مخلوق، اسلامی دور میں اسلام کی حکومت کے ذریعے قائم ہونے والے عظیم عدل کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ اسلام کی حکومت کو افسوسناک طور پر طویل مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا جب100 ہجری سال قبل رجب 1342ہجری بمطابق مارچ 1924ء کو خلافت کو تباہ کیا گیا۔آج خلافت کے خاتمے کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے جب اس دنیا کے لوگ اپنی دولت، نسل، جنس اور مذہب سے قطع نظر، موجودہ ورلڈ آرڈر کی ظلم و ستم سے پناہ طلب کر رہے ہیں۔

اسلام میں حکمران عوام کا استحصال یا ان پر ظلم نہیں کر سکتا کیونکہ حکمران اور عوام، دونوں ہی اسلام کے پابند ہیں۔ مسلمانوں کیلئے حکمرانی کا ماخذ صرف اسلام ہی ہے اور انسانوں کی رائے یا اتفاقِ رائے کسی صورت بھی کسی بھی معاملے میں اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ ﴾،"اور ان کے درمیان  اس سے حکومت کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کرو اور ان سے ہوشیار رہو(اے محمدﷺ) کہ کہیں وہ آپ کو اللہ کے نازل کردہ کچھ کے بارے میں بہکانہ دیں"(المائدۃ، 5:49)۔ لہٰذا سلطان نہ تو  آمر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی جمہوری حکمران،وہ نہ تو اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے اور نہ ہی کسی اسمبلی کے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر،بلکہ وہ قرآن و سنت ہی کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے اور اپنی حکومت میں کسی بھی تنازعے کی صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قانون کا ہی پابند ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾،"اور اگر تم کسی معاملے میں تنازعہ کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو،اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو"(النساء، 4:59)۔

 

اسی طرح ہم دوسرے خلیفہ راشد ، جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ کے دور میں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سایہ دیکھتے ہیں۔عمر الفاروقؓ نے بحیثیت حکمران اعلان کیا:لَا تُغَالُوا فِي مُهُورِ النِّسَاءِ،"عورتوں کے مہرمیں تجاوز نہ کرو"۔عوام میں سے ایک عورت نے اعتراض کیا اور کہا:لَيْسَ ذَلِكَ لَكَ يَا عُمَرُ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ،"اے عمر، ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: ﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارً،"اور ان میں سے ایک کوبہت زیادہ دے چکے ہو"،(النساء، 4:20)۔ اسلام کی بنیاد پرتنازعات کو حل کرنے والے سلطان کی حیثیت سے عمرؓ نے فوراً اپنی بات سے رجوع کیا اور اپنا فیصلہ واپس لے لیا ، اورکہا:إِنَّ امْرَأَةً خَاصَمَتْ عُمَرَ فَخَصَمَتْهُ،"بے شک ایک عورت نے عمر سے اعتراض کیا اور اس میں وہ حق پر ہے"۔پس پوری امت پر بااختیار حکمران نے ایک عورت کی رائے کے حق میں اپنا فیصلہ واپس لے لیا کیونکہ اس کا مؤقف وحی کے وزن کی وجہ سے بھاری تھا۔لیکن آج زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں  مسلمانوں کوصرف اسلام کی رو سے اپنا حق مانگنے پر بھی قید یا اغوا کر لیا جاتا ہے ۔آج تو سیاسی معاملات میں اسلام کا اظہار بھی دہشت گردی کے قوانین کی زد میں آتا ہے!

 

زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سائے کی حکمرانی تلے امیر کو قوم کی بیشتر دولت پر کھلا ہاتھ دیے بغیر کمزور اور غریب کوان کا حق ملتا تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ﴾"تاکہ وہ (دولت) تمھارے امیروں ہی کے درمیان نہ گردش کرتی رہے"،(الحشر، 59:7)۔اسلام کے کئی احکامات اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ دولت کی معاشرے میں گردش کے ذریعے اس کی منصفانہ تقسیم ہو۔

 

کتاب الاموال میں امام ابو عبید القاسم نے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں روایت کیا ہے:كتب عمر بن عبد العزيز إلى عبد الحميد بن عبد الرحمن وهو بالعراق أن أخرج للناس أعطياتهم، فكتب إليه عبد الحميد إني قد أخرجت للناس أعطياتهم وقد بقي في بيت المال مال، فكتب إليه أن انظر كل من أدان في غير سفه ولا سرف فاقض عنه، قال: قد قضيت عنهم وبقي في بيت المال مال، فكتب إليه أن زوج كل شاب يريد الزواج، فكتب إليه: إني قد زوجت كل من وجدت وقد بقي في بيت مال المسلمين مال، فكتب إليه بعد مخرج هذا أن انظر من كانت عليه جزية فضعف عن أرضه، فأسلفه ما يقوى به على عمل أرضه، فإنا لا نريدهم لعام ولا لعامين،"عمر بن عبدالعزیز  نے عراق میں موجود عبد الحمید بن عبدالرحمن کو لکھا کہ لوگوں سے مال لے کر ان میں تقسیم کرو۔ عبدالحمید نے واپس لکھا،'بے شک میں نے لوگوں سے مال لیا اور ان میں تقسیم کیا لیکن بیت المال میں پھر بھی بچ گیا ہے'۔ لہٰذا عمر نے انہیں واپس لکھا،'دیکھو کہ اگر کوئی بغیر حماقت یا فضول خرچی کے مقروض ہے تو اس کا قرضہ اتار دو'۔ انھوں نے جواب دیا،'میں نے ان کا قرضہ اتار دیا لیکن بیت المال میں پھر بھی بچ گیا ہے'۔لہٰذا عمر نے لکھا،'ہر نوجوان جو شادی کرنا چاہتا ہے اس کی شادی کروا دو'۔ انھوں نے جواب دیا،'میں جس کی بھی شادی کروا سکتا تھا ،کروا دی لیکن مسلمانوں کے بیت المال میں پھر بھی بچ گیا ہے'۔عمر نے لکھا،'اس خرچے کے بعد دیکھو کہ کس کا جزیہ واجب الادا ہے اور وہ اپنی زمین میں کمزور پڑ گیا ہے، اسے اس کی زمین پر کام کی مضبوطی کیلئے کچھ دے دواور ہمیں ان سے ایک یا دو سالوں تک کچھ نہیں چاہیے"۔

 

لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے زمین پر سائے کی عدم موجودگی میں ایک خطیر دولت چند طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے جس کی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت کا طریقہ کار اور کرپشن، دونوں ہیں۔سوئیس بینک UBS کی ایک رپوٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت اپریل سے جولائی 2020 کےدوران 27.5فیصد اضافے کے ساتھ 102 کھرب ڈالر(79 کھرب پاؤنڈ) تک جا پہنچی۔اس کے مقابلے میں عالمی بینک نے 7 اکتوبر 2020 کو خبر دی کہ دو دہائیوں میں پہلی بار شدید غربت جنم لے رہی ہے۔جمہوریت تلے پسنے والے غریب کسانوں کے مظاہروں نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ اسلام تلے یہی برِصغیر پاک و ہند دنیا کی معیشت میں 23فیصد حصہ ڈالتا تھا جو اورنگزیب عالمگیر کے دور میں 27فیصد تک جا پہنچا تھا۔

 

ان شاء اللہ یہ زمین پر اللہ کا سایہ ہی ہو گا جو سود کی برائی کا خاتمہ کر کے دنیا کو بینکوں کی اشرافیہ کے ہاتھوں میں کثیر دولت جمع ہو جانے سے چھٹکارا دے گا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ * فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾"اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ،اگر تم ایمان والے ہو ۔اگر تم نے نہ چھوڑا تو الله اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارےخلاف اعلان جنگ ہے اور اگرتوبہ کرلوتو اصل مال تمہارا تمہارے واسطے ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا "،(البقرۃ،278-279)۔یقیناً یہ خلافت ہی ہو گی جو پاکستان کو آسانی مہیا کرے گی جہاں کمرتوڑ ٹیکس محصولات کا زیادہ تر حصہ صرف اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔

 

ان شاء اللہ یہ زمین پر اللہ کا سایہ ہی ہو گا جو توانائی اور معدنیات کو تمام عوام کی ضرورت کیلئے عوامی ملکیت بنا کر ریاستی اور نجی ملکیت سے نکال دے گا تاکہ دنیا کو کارپوریٹ اشرافیہ کے ہاتھوں میں کثیر دولت جمع ہو جانے سے چھٹکارا مل سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: »الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ«،"مسلمان تین چیزوں میں برابر شریک ہیں،پانی،چراگاہیں اور آگ(توانائی)"،(احمد)۔یہاں "آگ" سے مراد توانائی کے وہ تمام ذرائع ہیں جنھیں صنعت، مشینوں اور بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں گیس اور کوئلے کے ایندھن پر چلنے والے بجلی گھر بھی شامل ہیں۔ یہ تمام عوامی ملکیت میں شامل ہیں۔ یقیناً خلافت مذہب، جنس اور نسل سے قطع نظر،اپنے تمام شہریوں کے  معاملات کی دیکھ بھال کیلئے کثیر محصولات پیدا کرے گی۔

 

ان شاء اللہ یہ زمین پر اللہ کا سایہ ہی ہو گا جو دنیا کو کرپٹ افسران کے ہاتھوں میں کثیر دولت جمع ہو جانے سے چھٹکارا دلائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: »مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ «،"جس کسی کو ہم نےکوئی کام سونپا اور ہم نے اسے (مال)دیا، تو جس نے اس میں (ناجائز طور پر) لے لیا وہ غلول(کرپشن) ہے"،(ابوداؤد)۔روایت کیا جا تا ہے کہ عمر بن خطابؓ اپنے عاملوں کو تعینات کرنے سے پہلے ان کے مال کا حساب کتاب کرتے تھے اور پھردوبارہ حساب کتاب کرتے جب ان کو معزول کرتے تھے۔اگر ان کے پاس کوئی بھی بلاجواز اضافی دولت ہوتی، تو وہ ان سے لے لیتے تھے۔ انھوں نے کچھ والیوں کی بھی دولت کا حساب کیا اور اس میں کچھ لے لیا،کیونکہ ان کی کمائی کے ذریعے میں یہ شک تھا کہ انھوں نے اپنے مرتبے اور اثرورسوخ کو استعمال کیا۔وہ ایسی دولت کو لے کر بیت المال میں جمع کرا دیتے تھے۔

 

ان شاء اللہ یہ زمین پر اللہ کا سایہ ہی ہو گا جو عورتوں کو مردوں کے ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے گا،خاص طور پر آج جبکہ مغرب میں ایک بڑی تعداد میں اکیلی مائیں اپنے بل بوتے پر صرف اپنےگزر بسر کیلئے ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اکیلی ہی بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی بھی ذمہ دار ہیں، خاص طور پر آج جبکہ مشرق میں خواتین کو وہ بنیادی حقوق بھی میسر نہیں جو اسلام نے  آج سے چودہ سو سال قبل انہیں دیے تھے جیسے شادی میں مرضی کا حق، مال کی ملکیت کا حق اور حکمران کا احتساب کرنے کا حق۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی یقین دہانی کروائی ہے جس کا سبب ان کی خوبصورتی، دولت یا خاندان نہیں بلکہ ایک انسان ہونا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبردار بندی ہونا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّه وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ،"اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کےمددگار ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر الله رحم کرے گا ،بے شک الله زبردست حکمت والا ہے"،(التوبہ،9:71)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نَعَمْ. إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ،"ہاں، بے شک عورتیں مردوں کی جڑواں ہیں"،(ابوداؤد)۔

 

رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا: اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا،"عورتوں سے خیر سے پیش آؤ"،(ابنِ ماجہ)۔اسلام میں  مرد اور عورتیں متعین کیے گئے حقوق اور فرائض کے تحت کام کرتے ہیں جو کسی ایک جنس کو دوسرے پر ظلم نہیں کرنے دیتا۔ شوہر پر اپنی بیوی کیلئے نفقہ (روز مرہ کے اخراجات) مہیا کرنا واجب ہے، چاہے وہ عورت مسلمان ہو، عیسائی ہو یا یہودی ہو، اور اس میں لاپرواہی ظلم ہے جس کا تدارک سلطان کرتا ہے۔شوہر پر بیوی کی ذمہ داری لازم ہے جبکہ وہ اس کے بچوں کی پیدائش اور دیکھ بھال کیلئے اپنی جوانی خرچ کرتی ہے۔ لہٰذا مسلمان مرد اور عورت اپنی گھریلو زندگی میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں کیونکہ خاندان اسلامی معاشرے کا قلع ہے۔

 

اسلام کے تحفظ ہی کے نیچے اسلام میں ایسی خواتین بھی تھیں جنہوں نے زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سایہ قائم کرنے کیلئے کام کیا۔سیدہ خدیجہ ؓ نے نبوت سے آخر تک  رسول اللہ ﷺ کی مدد وحمایت کی۔سُمیّہ ؓ اسلام کی پہلی شہید تھیں جنھوں نے اسلام کی دعوت پیش کرنے میں تمام مشکلات کا استقامت سے سامنا کیا۔اُمِ عمارۃ اور اُمِ منیعہ جنہوں نے دوسری بیعتِ عقبہ میں رسول اللہ ﷺ کوبیعت دی، جو نصرت اور حکمرانی کی بیعت تھی۔اسلام میں ایسی خواتین بھی تھیں جو زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سائےتلے خوب منوّر ہوئیں۔سیدہ عائشہ ؓ ایک فقیہۃ اور ایک عالمۃ تھیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث روایت کیں۔رفیضہ الاسلامیہ اسلام میں طب کی سائنس میں  اولین لوگوں میں سے تھیں۔ام المومنین اُمِ سلمہؓ نے حدیبیہ میں اپنی مضبوط رائے پیش کی۔ فاطمہ الزہرۃ ؓ نے جنت کے دو سرداروں،حسنؓ اور حسینؓ کی پرورش اور تربیت کی۔ زینب بنت حسین  نےکربلا کے سانحے سے نکل کر یزید کا سامنا کیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے اور حسینؓ  کو شہید کرنے پر سخت ترین الفاظ سے اس پر تنقیدکی۔

 

ان شاء اللہ یہ زمین پر اللہ کا سایہ ہی ہو گاجو غیر مسلم شہریوں کو ان کے مسلم حکمرانوں کے ظلم سے محفوظ رکھے گا،جیسا کہ اسلام خود ہی غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کرنے اور حق تلفی نہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا،"بے شک جس کسی نے ایک معاہد کو قتل کیا ،جس کا معاہدہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا،تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ معاہدہ توڑا،وہ جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا،جبکہ اس کی خوشبو کو 70 جاڑے(کے موسم کی مسافت)کے فاصلے سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے"،(ترمذی)۔لہٰذا اسلام نے خلافت کے غیر مسلم شہریوں کے مال وجان کی مکمل حفاظت کی یقین دہانی کروائی اور ان کے انفرادی مذہبی معاملات میں کسی قسم کی زور زبردستی کو روک دیا۔سیف اللہ خالد بن ولیدؓ کے جنوبی عراق میں الحرہ کو فتح کرنے کے فوراً بعد انھوں نے خلیفہ ابو بکرؓ کو ایک خط میں یہ بتایا کہ انھوں نے کیسے جزیہ نافذ کیا اورغیر مسلم جو غریب، بوڑھے اور آپاہج تھے، انھیں مستثنیٰ کر دیا۔خط میں کہا، طُرِحَتْ جزيتُه وعيلَ من بيت مال المسلمين وعياله:،"جزیہ سے معافی اور مسلمانوں کے بیت المال سے اس کیلئے اور اس کے گھر والوں کیلئے(خرچہ دیا جائے گا) "۔

 

اگر خلافت غیر مسلموں کی حفاظت کے معاہدے کی پاسداری نہ کر سکے تو اس کیلئے جزیہ لینا جائز نہیں۔الشام کا علاقہ مسلمانوں نے فتح کیا لیکن جیسے ہی رومی عیسائیوں نے اسے واپس حاصل کرنے کیلئے فوج اکٹھی کرنی شروع کی تو عظیم صحابی ابو عبیدہؓ غیرمسلموں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری نہ کر سکے۔ پھر جزیہ کو اس اعلان کے ساتھ واپس کر دیا گیا:وَإِنَّمَا رَدَدْنَا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ لِأَنَّا كَرِهْنَا أَنْ نَأْخُذَ أَمْوَالَكُمْ وَلَا نَمْنَعَ بِلَادَكُمْ،"ہم آپ کا مال آپ کو واپس کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ ناپسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کا مال لیں اور آپ کے علاقے کا دفاع نہ  کر سکیں"۔رومی عیسائیوں کی طرفداری کرنے کی بجائے الشام کے عیسائیوں نے یہ کہا:رَدَّكُمُ اللهُ إلينا، ولَعَنَ اللهُ الذين كانوا يملكوننا من الروم، ولكن والله لو كانوا هم علينا ما ردُّوا علينا، ولكن غصبونا، وأخذوا ما قدَرُوا عليه من أموالنا، لَوِلايتُكُم وعدلُكم أحبُّ إلينا مما كنا فيه من الظلم والغُشْم،"اللہ تمہیں بحفاظت ہماری طرف واپس لوٹائے اور روم سے ہم پر قبضہ کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو،اللہ کی قسم اگر وہ ہم پر آ جاتے تو واپس نہ آتے بلکہ غصب کرتے اور ہمارے مال میں سے جو پاتے، لے لیتے۔یقیناً،آپ کی سربراہی اور عدل ہمیں اس ظلم اور بدبختی سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم پہلے تھے"۔ پھر خلافت فتحیاب ہو کر لوٹی اور صدیوں تک الشام کے غیر مسلم اس کے سائے تلے محفوظ رہے۔

 

آج جب مذہبی اقلیتوں کو پوری دنیا میں ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یقیناً زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سائے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔2 اگست 1492 عیسوی کی آدھی رات کو پالوس کے کسی نامعلوم بندرگاہ سے کولمبس کا بیڑہ نکلا ،کیونکہ کیڈیز اور سیویل کے سمندری راستے  سیفارڈک یہودیوں سےبھر چکے تھے جنھیں اسپین کے ملکہ اسابیلہ اور بادشاہ فرڈینینڈ (Ferdinand )نے شاہی حکم نامے سے اسپین سے ملک بدر کر دیا تھا۔یہودیوں کو مجبور کیا گیا کہ یا تو عیسائی ہو جائیں یا اپنا مال و متاع چھوڑ کر  ملک بدر ہو جائیں۔ اسپین سے یہودیوں کی ظالمانہ ملک بدری کا سن کر سلطان بایزید ثانی نے خلافت کی سمندری فوج (Navy) بھیجی تاکہ یہودیوں کو بحفاظت ریاستِ خلافت کی سرزمین پر،تھیسالونیکی اور ازمیر کے شہروں میں لایا جا سکے۔اس نے کہا:" تم فرڈینینڈ (Ferdinand )کو عقلمند کہتے ہو جبکہ اس نے اپنے ہی ملک کو غریب کر کے میرے ملک کو تقویت بخشی ہے!"۔

 

زمین پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سائے کی عدم موجودگی میں لوگوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کرنے کے بارے میں کیا کہا جائے؟ شام کے  مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہی غیر محفوظ ہیں اور یہودی وجود اور بشار کی جابرانہ حکومت کے ہاتھوں شدید تکلیف میں ہیں۔شام  کے مظلوم لوگ دنیا کے کونے کونے میں تحفظ حاصل کرنے کیلئے پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں  لیکن  راستے میں ہی ڈوب جاتے ہیں یا  نفرت سے ان کا استقبال کیا جاتا ہے، انھیں ایسے رکھا جاتا ہے جیسے وہ کسی تباہ حال  مرغی خانے کے نظر انداز کر دیے گئے چوزے ہوں۔ملک ِ شام کے علاوہ بھی ایسے ہی سانحے ہیں۔مشرقی ترکستان میں ایغوروں اور برما میں روہنگیا کی چیخوں سے بہرے مسلم حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور پاکستان کے حکمران تو ان پر ظلم و ستم کی داستانوں کو ماننےسے انکار ہی کر دیتے ہیں۔افغانستان پر  غیر ملکی قبضے سے بچ کربھاگنے والے مسلمانوں سے پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے نفرت  انگیز اور توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے جو انہیں مضبوطی کی بجائے بوجھ کے طور پر دیکھتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو سفاک مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے لاکھوں کی تعداد میں قابل اورتیار فوجیوں کوہندو ریاست سے لڑ کر کشمیر آزاد کروانے سے روک رکھا ہے۔مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کو دشمن کے قبضے میں ہونے کے باوجود ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾،"اور اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی نصرت فرض ہے"،(انفال، 8:72)۔ان کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے افواج کو روانہ نہیں کیا جاتا جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکم دیا:﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾،"انھیں قتل کرو جہاں بھی پاؤ اور انھیں نکال باہر کرو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہے"،(البقرۃ،2:191)۔

 

علاوہ ازیں، زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سائے کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کے موجودہ حکمران  ظالموں کے ساتھ فوجی اور اقتصادی  معاہدات کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"،(الممتحنہ،60:9)۔وہ افغانستان میں امریکی صلیبیوں کے ساتھ، یہودی وجود کے ساتھ اور ہندو ریاست کے ساتھ  صلح صفائی کیلئے سہولت کار بن کر مسلمانوں کو ذلیل  اور رسوا کرتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا جائے جب تک کہ قابض کو باہر نہ نکال دیا جائے۔دشمنوں سے  اپنے معاہدات کی آڑ میں  مسلم حکمران نہ صرف مسلم افواج  کوبیڑیاں ڈال دیتے ہیں بلکہ ان مسلم افراد  کا بھی شکار کرتے ہیں جو دشمنوں سے لڑتے ہیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا: »مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ إلاّ ذُلّوا«،"جو قوم جہاد ترک کر دیتی ہے وہ ذلیل ہو جاتی ہے"،(احمد)۔

 

اے مسلمانو!

اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سائے کے بغیر یہ دنیا تباہی میں جا گری ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی شاندار اسلامی میراث کو سیکھیں اور دل سے قبول کریں۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس فرض کو سمجھیں اور اسلامی حکومت کی بحالی کیلئے پوری ذمہ داری اٹھائیں۔ یہ ہم میں سے ایک ایک شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلافت کے داعیوں کے ساتھ شانہ بشانہ  مل کر خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے نبوت کے طریقہ کار پر کام کرے ،یہاں تک کہ خلافت دوبارہ قائم ہو جائے۔زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سایہ ختم ہوئے 100 ہجری سال ہو گئے ہیں، تو اے مسلمانو، اسے بحال کرو!۔بے شک اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے ،جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے،کہ وہ انھیں زمین میں خلافت عطا ء کرے گا:

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾،

"اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ وہ ضرور انھیں زمین میں خلافت عطاء کرے گا جیسے اس نے ان سے پہلے والے لوگوں کو عطاء کی تھی" (النور،24:55)۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کیلئے لکھا گیا

تحریر: مصعب عمیر - پاکستان

Last modified onمنگل, 02 مارچ 2021 19:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک