بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے
15 مئی 2021
نیتنیاہوکی اشتعال انگیزی کے باوجود بائیڈن فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے
ناجائز یہودی وجودتنازعے کو بڑھانے کے لیے شہری حملوں کے بعدپولیس کی کارروائی اور پھرغزہ پر فضائی حملوں کا اپنا روایتی طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ امریکی صدر بائیڈن تنازعے کو دور سے قابو کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔اب تک بائیڈن نے ناجائز وجود کے لیے اپنے سفیر کا تقرر تک نہیں کیا۔ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے، امریکی صدر بائیڈن مسلم علاقوں کو دور سے قابومیں رکھنےکے سیاسی اصلوب کوشدت سے استعمال کررہا ہے جسےامریکہ نے 15 سال قبل عراق اور افغانستان میں قبضے کی تباہ کن ناکامی کے بعد اختیار کیا تھا۔باوجود بےپناہ مادی طاقت کے، امریکہ کو وہی مشکل سبق دہرانا پڑا جس نے یورپی استعماری قوتوں کو پچھلی صدی میں مسلم علاقوں سے فوجی انخلاء پر مجبور کیا تھا۔بہرحال امریکہ زیادہ تر مسلم ممالک سے یورپیوں کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اب وہ ان ثمرات کو دوام دینا چاہتا ہے تاکہ وہ چین کی طرف سے لاحق فوری خطرے کی جانب اپنی توجہ مبذول کر سکے۔
بنیامین نیتن یاہواپنی داخلہ سیاست میں جیسا چاہے کھیل کھیل سکتا ہے کیونکہ امریکہ موجودہ حالات سے مکمل طور پر مطمئن ہے۔ اس دفعہ اشتعال انگیزی اور فلسطین میں تنازعے میں شدت کا فائدہ نیتن یاہو کو ہوا جواپنے اقتدار کو طول دینا اور کرپشن کے الزامات میں مقدمات سے بچنا چاہتاہے۔ اس سے قبل ہی نیتن یاہو ناجائز وجود کا سب سے طویل عرصے تک رہنا والا وزیرِاعظم بن چکا ہے مگر اس نے یہ سب ،اپنے گرد موجود سیاسی قوتوں کے مابین مسلسل داؤ پیچ اورشدید متعصب اورقوم پرست انتہائی دائیں بازو کی خدمت اور ان کا سیاست میں کردار بڑھانے کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ مگر 2019 سے نیتن یاہو کوکرپشن کے الزامات اور سیاسی تعطل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے انتخابات پر انتخابات کر وا رہا ہے اور اس کا زیادہ تر وقت عبوری حکومتوں کے سربراہ کے طورپر گزر رہا ہے۔ایک دفعہ پھر، جیسے ہی اس کے عہدے کی میعاد ختم ہونے کو آئی تو موجودہ حالات نے اسے بچا لیا۔ Naftali Bennet کا ترتیب دیا گیا اپوزیشن کا اتحاد جو کہ مضبوط نظر آرہا تھا، اب منتشر ہو گیا ہے کیونکہ تنازعات سے ہمیشہ تجربہ کار سابق حکمران کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔اس لیے قدرتی طور پر زیادہ تر لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ نیتن یاہو ہی تھا جس نے ان تنازعات کو شروع کیا تاکہ اپنے اقتدار کو جاری رکھ سکے اور اپنے خلاف کرپشن کی کارروائیوں کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دے۔
غیر قانونی وجودکو مسلم دنیا کے قلب میں ایک استعماری چوکی کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ مغرب یہ جانتا ہے کہ مسلمان اسے کبھی بھی قبول نہیں کریں گے اس لیے وہ غیر قانونی وجودکی جانب سے فلسطینی لوگوں کو طاقت کے ذریعے کچلنےکو مکمل حمایت فراہم کرتا ہے۔اس دوران، مسلم حکمران جو سب کے سب مغرب کے اہلکار ہیں، فرض شناسی کے ساتھ بے معنی لفظی احتجاج کرتے ہیں تاکہ اپنی عوام کو مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک بھی عملی قدم اٹھائے بغیر'رام 'کر سکیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ مسلم امت گہری نیند سو رہی ہے مگر ہر دفعہ غیر قانونی وجود ظالمانہ دہشت پھیلا دیتا ہے اور مسلم امت کو بیداری کے لیے جھنجوڑتا ہے۔ اسلام کی خالص افکار و احساسات دوبارہ امت کو حاصل ہو رہے ہیں۔ مسلمان اپنے حکمرانوں کی فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر اہم امور کے ساتھ عدم دلچسپی، عدم اخلاص اور کھوکھلےپن کو سمجھنا شروع ہو چکے ہیں اور اپنے کرپٹ حکمرانوں کے خلاف پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بولنا شروع ہو گئے ہیں۔یہ باشرف امت اب بیدار ہونا شروع ہو چکی ہےاور جلد ہی یہ ایجنٹ حکمران طبقے کو اکھاڑ دے گی جنہوں نےمختلف بہانوں کے ذریعےمسلم زمینوں میں مغربی استعماریت کو نافذ کر رکھا ہے۔اور اللہ کے اذن سے، مسلم امت جلد نبوت کے نقش قدم پراسلامی خلافتِ راشدہ کودوبارہ قائم کرنے والی ہےجو اسلامی علاقوں کو متحد کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروائے گی، اسلامی شریعت کو مکمل طور پر نافذ کرے گی اور اسلامی طرزِ حیات کا احیاء کرے گی اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
سعودی ایران مذاکرات، ترکش لیرا
اس ہفتے ایران نے تصدیق کی کہ وہ عراق کی میزبانی میں سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار نشر ہونے والی نیوز کانفرنس میں کہا، "خلیج فارس کے دو مسلمان ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی خطے اور دونوں ممالک کے مفاد میں ہے"۔ سوال یہ ہے کہ ایک تلخ ماضی کے بعد اب ہی کیوں یہ تبدیلی آئی ہے؟ بلوم برگ( Bloomberg )نے لندن میں مقیم تجزیہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "امریکہ اپنے خلیجی حلیفوں کو ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے پر دباؤ ڈال رہا ہے"۔ یقیناً مسلم دنیا کے ایجنٹ حکمران اپنے مغربی آقاؤں کی اجازت کے بغیر ایک انچ حرکت بھی نہیں کر سکتے۔جب مغرب کے پہلے ایجنٹ شریف حسین نے زیادہ فرمائشیں شروع کر دیں تو برطانیہ نے اپنی آشیربادی میں ابن سعود کو عرب پر قبضے کے لیے متحرک کیا،تب سے سعودی عرب مغربی کنٹرول میں ہے۔ اور ایران بھی خمینی کی امریکہ کے ساتھ ڈیل کے بعد سے امریکہ کے کنٹرول میں ہے جو شاہ سے ملک کے اقتدار کو چھیننا چاہتا تھا جبکہ شاہ برطانیہ کا وفادار تھا۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ بائیڈن امریکہ کی حالیہ کامیابیوں کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ امریکہ کے کلیدی ایجنٹوں کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس کہ تحت وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ بطور دشمن برتاؤ کریں ، بلکل برطانیہ کی پرانی 'تقسیم اور حکومت' کی پالیسی کی طرح، جس سے امریکی کنٹرول کا دوام یقینی رہے گا۔مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کاصحیح حل اس کے مختلف حکمرانوں کے درمیان تعاون نہیں بلکہ ان حکمرانوں کو تبدیل کر کےتمام مسلمانوں کے لیے ایک واحد قیادت کا قیام ہے۔حقیقی اتحاد تمام مسلمانوں کے لیے ایک واحد امام ، ایک واحد ریاست اور ایک واحد مربوط فوجی قوت کے ذریعے ہی قائم ہو گا جو کہ آغاز سے ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہو گی۔
اس ہفتےترکش لیرا کی قیمت اس سال کی کم ترین سطح تک گر گئی جس کے ترکی کی معیشت کے لیے سنگین نتائج ہوں گے جوکہ پہلے ہی سخت ترین لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنی معاشی پالیسی حقیقی پیداوار کو بڑھانے کے بجائے 'برآمدات پر مبنی' اور پرائیوٹ سیکٹر کے تعمیراتی منصبوں کےلیے بھاری غیر ملکی قرضوں پر قائم کر رکھی ہے جو کہ ترقی کا ایک مصنوعی تاثر دیتی ہے مگر اصل میں یہ فضول اخراجات ہیں جو کہ معیشت کو مزید مشکلات کا شکار کرتے ہیں۔لیرا کے گرنے سے، قومی اور نجی قرضوں کا بوجھ تباہ کن حد تک بڑھ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام مغربی ممالک میں ناکام ہو چکا ہے اور جو بھی خوشحالی وہاں پرہے وہ مقامی معیشت کی وجہ سے نہیں بلکہ استحصالی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہےجو کہ باقی دنیا کی افرادی قوت، دولت اور وسائل خرچ کرکے اور اُن میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سخت نفاذ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔ کوئی بھی ریاست حقیقی طاقت نہیں حاصل کر سکتی جب تک وہ اپنی مقامی معاشی ترجیحات کی طرف توجہ نہ دے خاص طور پر اپنی سٹریٹیجک اور فوجی ضروریات پر۔ غیر ضروری تعمیراتی منصوبوں پر خطیر داخلی اخراجات، معیشت کو اصل ضروریات کو پورا کرنے سے موڑ دیتے ہیں۔اسی طرح، برآمدات پر مبنی معیشتیں جیسا کہ ترکی کی معیشت، مغرب کے ساتھ منسلک رہتی ہے اور مغربی ممالک کی ضروریات اورطلب کو اپنی ضرورت پر فوقیت دے دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بیرونی دھچکوں سے متاثر ہونے کے شدید خطرے سے گھری رہتی ہے۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ مغربی معیشتیں خوشحالی کی ضمانت ہیں جبکہ اصل میں یہ ہماری معیشتوں کے اندر سے کھوکھلا ہونے کی وجہ ہیں۔ اس کے برعکس، یہ اسلام کا معاشی نظام ہی ہے جوحقیقی معاشی قوت پیدا کرتا ہے، یہ اسلامی معاشیات ہی تھی جس نے نہ صرف مسلم علاقوں کو پوری دنیا میں خوشحال ترین بنایا ہوا تھا بلکہ اسلام کی اوپن ٹریڈ پالیسی کی وجہ سے چین اور یورپ میں بھی خوشحالی کو پیدا کیا تھا۔ بہرحال، عنقریب پھر دنیا اسلامی معاشیات کے کارناموں کا مشاہدہ کرے گی جب اسلامی دولتِ خلافت دوبارہ قیام کے بعد اسلام کو نافذ کرنا شروع کرے گی۔