بسم الله الرحمن الرحيم
اے پاکستانی فوج! ہماری مسلم علاقے تجربہ گاہیں نہیں ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی منظر نامہ ایک سنہری موقع ہے، جو صرف ایک بار آتا ہے۔
فوج میں قیادت کے لیے لڑنے والے دو عسکری دھڑوں، ایک طرف فیض حمید اور عمران خان اور دوسری طرف جنرل باجوہ، کے درمیان معاہدے کے بعد ، پاکستانی عسکری قیادت نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ طے کر لیا۔فوجی قیادت نے جنرل باجوہ کو فوج کی کمان سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ پاک فوج کی قیادت جنرل باجوہ کے دست راست ، جنرل عاصم منیر کو سونپ دی جائے ۔
اس کے بعد، ہر طرف سے، ایک دم یہ آوازیں سنائی دینے لگیں کہ جنرل منیر کو پاکستان کی جوہری صلاحیت رکھنے والی فوج کی قیادت میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے وقت دیا جائے۔تاہم، جنرل منیر نے کبھی بھی کسی حقیقی جنگی معرکے میں فوج کی قیادت نہیں کی، جبکہ حالیہ برسوں میں جب سے وہ فوجی قیادت کی صفوں میں آئے ہیں، وہ جنرل باجوہ کے دست راست تھے!کیا لوگ یہ نہیں جانتے کہ فوجی قیادت میں موجود جنرلز کوئی زبردست ہیروز نہیں ہیں؟ بلکہ دولت اور اقتدار کے ٹائکون ہیں۔ انہوں نے ہی خطے میں امریکہ کو طاقتور بنایا، جب انہوں نے جنرل مشرف کی قیادت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس طرح انہوں نے افغانستان پر قبضے میں امریکہ کی مدد کی۔ یہ ابھی تک افغانستان میں امریکی اثرو نفوذ کی حفاظت کررہے ہیں۔ ان کی خیانت اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے ازلی دشمن،پاکستان کے متبادل امریکی ایجنٹ اور اتحادی ہندو ریاست، کے قدم فغانستان میں جمانے کی راہ ہموار کی تاکہ ہندو ریاست امریکہ کی شراکت سے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرے!
جنرل عاصم منیر کو موقع دینے کےلیے اٹھنے والی آوازیں یا تو پاکستانی فوجی قیادت کی حقیقت کے حوالے سے لاعلم ہیں، وہ اس کلب کی حقیقت اور اس میں شامل ہونے کی شرائط سے واقف نہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ اس میں کس کی بات سنی جاتی ہے، اس کا رکن کیسے بنا جاتا ہے، اس میں ترقی اور ملازمت میں توسیع کیسے ملتی ہے، اور اگر وہ ان حقائق سے بے خبر نہیں ہیں تو پھر وہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کےلیے اس فیصلے کی حمایت کررہے ہیں۔ جب یہ حقیقت بے نقاب ہوگی تب فیصلہ ساز پہلے سے بڑھ کر کوئی اور من گھڑت کہانی لے کرنمودار ہوں گے۔ پاکستان میں عسکری اور سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں فوج کی قیادت کس کے حوالے کی جائے، اس کا فیصلہ بلا شرکت غیر اکیلے امریکہ کرتا ہے۔اس کی قوتِ فیصلہ اس حد تک ہے کہ پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے سی آئی اے افسران اور ملازمین کے ذریعے کیے جا تے ہیں ، اور اس بہت سے شواہد موجود ہیں۔ یہاں تک کہ راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈکواٹر، جی ایچ کیو، میں امریکیوں نے اپنا آفس کھول لیا! یعنی معاملہ فوجی قیادت میں امریکہ کے وفادار جنرلوں کی تعیناتی تک محدود نہیں بلکہ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور ان کو احکامات دئیے جاتے ہیں کہ خطے میں امریکہ کی خدمت کیسے کرنی ہے۔
یہ کڑوا سچ کوئی وہم یا ڈبل گیم نہیں ہے، جیسا کہ کچھ لوگ اس کی ہولناکی سے انکار کرتے ہیں، بلکہ اس صورت حال سے ہر وہ شخص واقف ہے جو واقعات اور خبروں سے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل منیر کو موقع دینے کےلیے بلند ہونے والی آوازیں یا اس کے بعد آنے والے کو موقع دینے کے لیے اٹھنے والی آوازیں ایسی ہی ہیں جو جنرل باجوہ یا اس سے پہلے والوں کی تعیناتی کےلیے اٹھی تھیں۔ یہ آوازیں اس حقیقت کو جانتی ہیں، مگر یہ بھی پاکستان میں امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا ایک اور کھیل ہے، جس کا مقصد ایجنٹ، سیکولر نظام کو سیاسی و فوجی مدد کے ذریعے کھڑا رکھنا ہے، تاکہ جب تک لوگوں کو حقیقت کا علم ہو تو متبادل تیار ہو چکا ہو۔ اِس کے بعد اِس کو پھر پرانے چہروں سے تبدیل کیا جائے، یوں اس ہیر پھر کو جاری رکھا جائے۔۔۔
اگر موجود ہ متبادل یعنی جنرل منیر اور اس کے کلب کے ممبران اپنے پیش روں سے مختلف ہوتے تو اس کے ثبوت ان کی تعیناتی کے پہلے ہی دن نظر آتے، بلکہ ان کی تعیناتی سے بھی پہلے ہی نظر آتے۔ ان کور کمانڈروں میں سے کوئی بھی ایک کور کمانڈر اگر چاہے اوراس کے پاس موجودہ قیادت کے نقطہ نظر سے مختلف نقطہ نظر ہو تو وہ پاکستان میں سیاسی اور عسکری صورتحال کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جنرل عاصم منیر جب شمال میں گجرانوالہ کور کے کمانڈر تھے ، تو وہ کشمیر کی طرف مارچ کرسکتے تھے جس کے بعد باقی کورز بھی کشمیر کی آزادی کےلیے مدد کرنے کرنے کے لیے متحرک ہونے پر مجبور ہوجاتیں۔ یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کسی بھی کور کمانڈر کا ایسا ارادہ ہو اور وہ صرف اسلام کے عقیدے کا حامل اور اس پر کاربند ہو۔
دشمن ہندو ریاست کی جانب سے جنر عاصم منیر کے حافظ قران ہونے کا چرچا کیا گیا اور ان کو " ملّا جنرل" کا نام دیا گیا۔ اگر یہ واقعی دیندار ہوتے تو یہ اپنا ہاتھ حزب التحریر کے ہاتھ میں دیتے اور خلافت کے قیام کےلیے حزب التحریر کو نصرہ(مدد) دیتے۔ اس کی بجائے یہ حزب التحریر کے نوجوانوں اور بعض افسران کا پیچھا کرنے اور ان کو ظلم کا نشانہ بنانے میں شریک اور اس عمل سے متفق تھے،جن کے بارے میں میڈیا میں بتایا گیا کہ ان افسران کی جانب سے نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کےلیے حزب التحریر کو نصرہ دینے کی کوشش کی وجہ سے ان کو عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔
پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے بارے میں افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلام، مسلمانوں اور اہل پاکستان، جن کی تعداد دو سو ملین سے زیادہ ہے، کے ساتھ وفاداری کےلیے اٹھنے والی ہر آواز کو دباتی ہیں۔پاکستان کے لوگوں کے ساتھ تجرہ گاہ کے چوہوں جیسا سلوک نہیں ہونا چاہیے،اور نہ ہی پاکستان کو کوئی عسکری کیمپ سمجھنا چاہیے جسے تربیت اور مشقوں کے لیے استعمال کیا جائے۔ جنرلز نے اپنا اخلاص اور صلاحیتیں منوانے کے مواقع بری طرح سے ضائع کیے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ اسلام اور مسلمانانِ پاکستان کے شرعی مفادات کی حفاظت کرنےمیں بھی ناکام ثابت ہوئے، جس میں سب سے پہلا شرعی فرض اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی ہے۔ اس لیے اِن قیادتوں کو موقع دینے کی بات کرنے والوں شرم آنی چاہیے۔ ان کو مزید وقت دینے اور مزید مواقع دینے کا مطلب اِن کو اور اِن کے آقا امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مزید کھلواڑ کرنے اور اہل پاکستان کو مزید اذیت دینے کے مواقع فراہم کرنا ہے، جس کے نتیجے میں اہل پاکستان مزید بدحال اور کمزور ہوجائیں گے اور امریکی غلامی بڑھتی جائے گی۔
ان قیادتوں کی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عسکری ادارے کے مخلص لوگوں پر سب سے پہلے اور گزشتہ کسی بھی وقت سے زیادہ اب یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس جہادی ایٹمی اسلامی عسکری ادارے کواِن تمام گندگیوں سے پاک کریں اور نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ کے قیام کےلیے حزب التحریر کو نصرہ دیں تاکہ خلیفہ اُن کی قیادت کرتے ہوئے زمین اور بندوں پر اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے ذریعے حکمرانی کرے، تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو اور ہمارے دشمنوں( امریکہ، ہندو ریاست اور یہودی وجود۔۔۔) کے خلاف ہماری مدد کرے، ہم کشمیر اور باقی اسلامی برصغیر کو ہندوں سے آزاد کرائیں، اورمختلف اسلامی سرزمینوں کو خلافت کے سائے میں یکجا کرنے کے بعد مسجد اقصی کو یہود کی گندگی سے آزاد کرائیں، یوں اس ریاست کے طول وعرض میں خوشحالی اور امن وامان کا دور دورہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فریا:
(يَكونُ في آخِرِ أُمَّتي خَلِيفَةٌ يَحْثِي المَالَ حَثْيًا، لا يَعُدُّهُ عَدَدًا)
"میری امت کے آخری حصے میں ایک ایسا خلیفہ آئے گا جو (رعایا پر)مال نچھاور کرے گا، مال کو گنے گا نہیںـ" (مسلم)
غیرت مند اسلامی امت خودکو اور اپنے وسائل کو استعمار کے پنجوں سے چھڑانے کے لیے تڑپ رہی ہے اور اس راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کےلیے تیار ہے۔ جہاں تک بین الاقوامی صورتحال کا معاملہ ہے تو وہ اس وقت منقسم ہے، اور اثرو رسوخ اور وسائل کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔یہ صورت حال خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی آزادی اور خودمختاری کے اعلان کو آسان بنا رہی ہے۔ آج امت کی صورتحال نبی ﷺ کی سورتحال کی طرح ہے جب آپ ﷺ نے روم اور فارس کے درمیان جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ پاکستانی فوج میں موجود مخلص لوگوں کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اور اُن کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہے۔ اُن کو حزب التحریر کو نصرہ دینا چاہیے جو اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی کی مکمل تیاری کرچکی ہے، اس کی سیاسی صلاحیتیں اور روشن طریقہ کار، اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سےتمام علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہے۔ اُن کی جانب سے نصرہ دینا انہیں کسی نئے تجربے کا شکار نہیں کرے گا، کیونکہ اسلام تیرا صدیوں تک نافذ رہا، اور اسی کے ذریعے مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی۔ اس کے ساتھ اس اسلام کے ذریعے حکمرانی اللہ کی رضا کا باعث ہے، جو کہ علیم اور حکیم ہے۔ انسانوں کےلیے اللہ کے نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں کیونکہ یہ انسان، حیات اور کائنات کے خالق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے اتارا ہوا نظام ہے۔
اے پاکستانی افواج کے مخلص لوگو!
اُن لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا * وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔"(النساء،61-60)
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا * فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
" اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ۔ تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔"(النساء، 65-64)
بلال مہاجر، ولایہ پاکستان