بسم الله الرحمن الرحيم
شرعی احکام کا غلط نفاذ اسلام کو نقصان پہنچاتا ہے، اور لوگوں کو اسلام سے دور کرتا ہے
خبر:
افغان حکومت نے تمام غیر ملکی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک بھر میں خواتین کو کام کرنے سے روک دیں۔ افغان سیکیورٹی فورسز نے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے خاتمے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو بھی منتشر کردیا۔ وزارت اقتصادیات نے تبصرہ کیا کہ اس نے دیکھا ہے کہ غیر ملکی اور مقامی اداروں میں خواتین ملازمین اسلامی حجاب اور امارت اسلامیہ کے قوانین کی پابندی نہیں کرتی ہیں۔
افغان حکومت نے اس سے قبل افغانستان بھر میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا اور امریکہ نے اس فیصلے کی فوری طور پر مذمت کی۔ ایک حکومتی ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا کہ طالبان تحریک کے رہنما، ہیبت اللہ اخندزادہ نے اعلیٰ تعلیم کی وزارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کرے۔ یہ فیصلہ گزشتہ موسم گرما میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، لڑکیوں کے لیے مڈل اور ہائی اسکول بند رکھنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان میں 40 سرکاری یونیورسٹیاں اور تقریباً 140 نجی یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 68 دارالحکومت کابل میں ہیں۔ (الجزیرہ ڈاٹ نیٹ)
تبصرہ:
تقریباً 16 ماہ قبل ا مریکہ کے ساتھ اتفاق کرنے کے بعد کہ وہ، طالبان تحریک، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار سنبھالے گی ، تحریک نے کسی ایسے نظامِ حکومت کا اعلان نہیں کیا، جس میں وہ تفصیلات موجود ہوں جس کے ذریعے تحریک ملک میں حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تیجتاً، ملک کبھی ایک سمت تو کبھی دوسری سمت میں جاتا ہے اور لوگ اس طرز حکمرانی کی نوعیت کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔۔۔یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ طالبان کی تحریک نے اسلام، اسلام کی حکمرانی اور امارت اسلامیہ کا نعرہ بلند کیا تھا۔تاہم، اس نے اسلام کے کافی حصے کو نافذ نہیں کیا۔ اس نے نظام حکومت سے متعلق شرعی احکام کا اطلاق نہیں کیا جو خلیفہ کی بیعت پر مبنی ہے۔ اس نے امارت اسلامیہ کا خلافت کے طور پر اعلان نہیں کیا جو قرآن اور سنت نبویﷺ کے مطابق اسلام نافذ کرتی ہے اورامت کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس کے بجائے طالبان کی تحریک نے مغربی طرز پر ایک سول ریاست بنائی جس میں وزراء اور سفیر وغیرہ شامل ہیں۔اس نے اسلام کے معاشی نظام کو بھی لاگو نہیں کیا جو ملکیت کو انفرادی ملکیت، ریاستی ملکیت اور عوامی ملکیت میں تقسیم کرتی ہے۔ اس کے بجائے، اس نے کچھ معاملات میں رسمی تبدیلی کے ساتھ ا شرف غنی کے دور کے مالیاتی لین دین اور معیشت کے نظام کو برقرار رکھا۔
طالبان تحریک کی جانب سے جو سب سے نمایاں قوانین نافذ اور طرز عمل لوگوں کے سامنے اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کے طور پر پیش کیے گئے،وہ خواتین سے متعلق تھے۔ ان میں خواتین کو یونیورسٹیوں میں جانے، کمپنیوں اور میڈیا میں کام کرنے سے روکنے والے قوانین شامل تھے۔یہ قوانین بظاہر شرعی قانون نظر آئیں ، لیکن جس طرح ان کا اطلاق ہوتا ہے وہ شرعی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر عوامی زندگی میں حجاب کا مطلب خواتین کو گھروں سے نکلنے سے روکنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو بغیر حجاب کے گھر سے باہر جانے سے روکا جائے ۔یونیورسٹیوں میں مرد و خواتین کا آزادانہ اختلاط (میل جول)کو روکنے کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم روک دیا جائے ۔ اس کے بجائے، یہ حکم یونیورسٹیوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ تعلیمی کلاسوں میں مردوں کو عورتوں سے الگ کریں، یعنی نماز کی صفوں کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے کلاسز کا اہتمام کریں، یعنی مرد اگلی صفوں میں اور خواتین پچھلی صفوں میں بیٹھیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ شرعی لباس کے ضابطوں کی پابندی کریں۔یہی حکم عوامی زندگی میں خواتین کے کام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اختلاط یا اسلامی لباس کے ضابطوں کی پابندی نہ کرنے یا اسی قسم کے کسی بھی دوسرے جواز جو بہانہ بنا کر خواتین کو کام کرنے سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، قانون نافذ کرکے اور غلط طرز عمل کی نگرانی کرکے، خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، اور جو قانون کی خلاف ورزی کریں ان کا احتساب کیا جائے ،چاہے وہ چند ہی کیوں نہ ہوں۔چند لوگوں کی جانب سےقانون کی خلاف ورزی کرنے یا غلط طرز عمل اختیار کرنے کا جواب یہ نہیں ہے کہ تمام خواتین کو کام کرنے سے روک کر اجتماعی سزا دی جائے بلکہ اسلامی قوانین کے بھر پورنفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
معاشرے میں اسلام کا مکمل نفاذ فرض ہے۔ اس کا مکمل نفاذ وہ ہے جو معاشرےکے اندر اعتماد قائم کرے۔ اسلام کے بعض احکام کا نفاذ، اور بعض کا عدم نفاذ ، معاشرے کو ایک یکساں اسلامی معاشرہ نہیں بناتا۔اس کے علاوہ بعض شرعی احکام کا مسلمانوں پر غلط طریقے سے نفاذ خود اسلام کے خلاف منفی ردعمل پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت یہی کچھ پڑوسی ملک ایران میں ہوا، جہاں شرعی احکام کی من مانی تاویل اور اُن کے غلط استعمال نےبہت سے لوگوں خصوصاً خواتین کے اسلام کے خلاف تعصب کا براہ راست سبب بنا۔یہ سب اس لیے ہے کہ وہ جو ان احکام کا غلط استعمال کرتے ہیں، اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ ان کے علمائے کرام ان کے شرعی جواز پر فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ اُن کی جانب سےاحکام کے غلط استعمال کو عام لوگ اسلام کا نفاذ سمجھتے ہیں، جو اسلام اور سیاسی کھیل سے ناواقف ہیں۔لہٰذا، عام لوگ اسلام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ حکام کے طرز عمل سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ یہی صورتحال ایران میں مظاہروں کے پھیلنے اور ان کے جاری رہنے کی ایک وجہ تھی۔مزید برآں، شاید، خواتین کی یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کی مذمت کرنے میں امریکہ کی جلد بازی کا مقصد طالبان تحریک کو اپنے فیصلے پر اڑے رہنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ اس طرح لوگوں میں اسلام کے حکم کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، جس نے خمینی کو اقتدار میں لانے میں مدد فراہم کی تھی، اور افغانستان میں طالبان تحریک کے لیے اقتدار میں آنے کے لیے دروازے کھول دیےتھے، ایرانی تجربے کو افغانستان میں دہرانا چاہتا ہے۔ یہ طریقہ کارخمینی انقلاب کے بعد لوگوں میں اسلام کے خلاف عدم اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان (ایران)پر حقیقی اسلام کی حکمرانی نہیں ہے، بلکہ ملاؤں کے فرقے کی حکمرانی ہے، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس طرز عمل نے لوگوں کو دکھی کیا، ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو مفلس کردیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام کی حکمرانی سے متنفر اوردور ہو گئے۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایرانی تجربے کو دہرانا چاہتا ہے، اس طرح اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ مسلمان اسلام کی حکمرانی کا مطالبہ نہ کریں، جبکہ جو لوگ اسلام کی حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں وہ غیر منصفانہ، جاہل یا غیر معقول نظر آنے لگ جائیں۔کیا طالبان نے اسلام کے خلاف صلیبی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے؟! اور کیا طالبان کی تحریک کو مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ان مخلصین کے سامنے رکاوٹ بن جائے جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں؟!طالبان تحریک کے مخلص اور سمجھدار لوگوں کو اپنے معاملات کو درست کرنا چاہیے، اپنے رہنماؤں کا احتساب اور اُن کے ہاتھ پکڑنا چاہیے، جنہوں نے دانستہ یا نادانستہ اپنے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اورانہیں ملک کی قیادت حزب التحریر کے مخلص افراد کے حوالے کرنی چاہیے جنہوں نے مکمل طور پر، شفاف، خالص اور عدل کے ساتھ حقیقی اسلام کی حکمرانی کے لیے مکمل تیاری کر رکھی ہے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے پاکستان سے بلال المہاجر نے یہ مضمون لکھا