بسم الله الرحمن الرحيم
بحرانوں اور تنازعات میں الجھا ہوا امریکہ، خلافت کے دوبارہ قیام کا موقع فراہم کررہا ہے
پیارے نبی ﷺ کی قیادت میں اسلام کا عالمی سطح پر ظہور پذیر ہونے سے قبل اس وقت کی بڑی عالمی طاقتوں، سلطنتِ روم و فارس کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بحرانوں اور چیلنجوں کا سامنا تھا۔ موجودہ دور میں دنیا آج کی صفِ اول کی عالمی طاقت، امریکہ کو بحرانوں میں گھرا دیکھ رہی ہے، اور یہ بحران اب دوسری طاقتوں کوبھی گھیرنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ صورتحال مسلم دنیا کے لیے ایک موقع ہے جس سے بھر پورفائدہ اٹھانا چاہیے۔
سب سے پہلے، مسلمان اس بات پر غور کریں کہ کس طرح، اندرونی طور پر، امریکہ ایک گہری سیاسی تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہو گیاہے۔۔۔ 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات پردونوں جماعتوں کے توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے، اسقاطِ حمل کے قوانین، ہتھیار رکھنے اور امیگریشن کے حق پر دو طرفہ سیاسی لڑائیاں شدید تر ہوتی جارہی ہیں۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے درمیان جاری مقابلہ آرائی اب عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے تک پہنچ چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے سابق امریکی صدر بن گئے ہیں جن پر34 کاروباری ریکارڈز میں جعل سازی کے الزام پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، اور اس نے اپنے قصوروار ہونے سے انکار کیا ہے۔ روس، چین، ایران اور سعودی عرب کے معاملے میں شدید باہمی تضاد کے باعث، یہ تنازعہ امریکہ کی مربوط خارجہ پالیسی بنانے کی صلاحیت کو کمزور کر رہا ہے۔
کیا یہ وقت مسلم دنیا میں تبدیلی لانے کا ایک زبردست موقع نہیں ہے جبکہ امریکہ اندرونی سیاسی کشمکش میں الجھا ہوا ہے؟
دوم، مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ امریکہ معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے۔۔۔ فیڈرل ریزرو بورڈ آف گورنرز کی رکن لیزا ڈی نیل کک (Lisa DeNell Cook)نے 31 مارچ 2023 کو' کلیولینڈ ، اوہائیو، میں '2023 مڈویسٹ اکنامکس ایسوسی ایشن کے 87ویں سالانہ اجلاس میں اپنے بیان میں کہا کہ، "معیشت کے سودی حوالوں سے حساس شعبے (interest sensitive sectors) (زیادہ شرح سود کی وجہ سے) سُست روی کا شکار ہو چکے ہیں۔۔۔ درحقیقت، اس وقت مہنگائی کی صورتحال سال کے شروع کی نسبت زیادہ خراب ہے۔۔۔ جنوری اور فروری میں ملازمتیں حاصل کرنے میں کمی واقع ہوئی"۔ سنگین ہوتےاس معاشی بحران پر خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔
درحقیقت امریکی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ناکام ہو رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر سود کی ادائیگیاں معیشت پر بوجھ بن گئی ہیں۔ امریکہ کا مالیاتی نظام، رباء (سود) پرتشکیل دیا گیا ہے، خواہ وہ قرضوں کی شکل میں ہو یا مالی اسکیموں کی ایک بڑی تعدادہو۔مزید یہ کہ بینکاری کے شعبے میں مالیاتی بحران اب کرنسی کا بحران بن چکا ہے۔ ڈالر کے تیزی سے گرنے کے عمل کو روکنے کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو نے شرح سود کو ریکارڈ سطح تک بڑھا دیا ہے۔ چونکہ بڑھتی ہوئی شرح سود کے باعث، کاروباری قرضہ جات مہنگے ہوچکے ہیں لہٰذا صنعتی پیداوارمتاثر ہورہی ہے، کاروبار مشکلات کا شکار ہیں اور جاب مارکیٹ ابترہو رہی ہے۔
جب امریکہ کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے،تو کیا یہ صورتحال مسلم دنیا کو خلافت کے دوبارہ قیام کا موقع فراہم نہیں کررہی؟
سوئم، مسلمانوں کو دنیا بھر میں امریکی ڈالر کےانحطاط کے اثرات پر غور کرناچاہیے۔۔۔بین الاقوامی تجارت اور قرضوں کے لیے امریکی ڈالر پر عالمی انحصارکے ساتھ ساتھ ممالک کے مابین بینکوں کے مضبوط روابط کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے اندرونی بحران کے ہمہ گیر اثرات دنیا کے چاروں طرف ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی ریاست جو امریکی ڈالر کی بالادستی سے جڑی ہوئی ہے، وہ امریکہ کی اندرونی اقتصادی پالیسیوں کے اثرات کا شکار ہوتی ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے بعد جیسے جیسے ڈالر مضبوط ہوتا ہے، دنیا بھر کی ریاستوں کے قومی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس طرح درآمدات کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
مزید برآں، ڈالر کی صورتحال کے حوالے سے اپنی کرنسیوں کے تحفظ اورافراطِ زر کے سدِباب کے لیے، دوسری ریاستیں اپنے شرح سود میں اضافہ کردیتی ہیں، جس سے صنعتوں میں بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ 23 مارچ کو، بینک آف انگلینڈ کی مانیٹری پالیسی کمیٹیMPC) )نےاہم ترین بینک ریٹ کو 0.25 فیصد پوائنٹس سے بڑھا کر 4.25 فیصد کر دیا، جو 15 سال میں اس کی بلند ترین سطح ہے۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک نے 4 اپریل 2023 کو اپنی کلیدی شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھا دیا۔ صورتحال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ اب دنیا بھر میں "ڈی ڈالرائزیشن" (ڈالر سے نجات)کے حوالے سے بحث جاری ہے۔
کیا عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی برتری اور تسلط پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد مسلم دنیا کو یہ موقع فراہم نہیں کررہا کہ وہ اس خسارہ زدہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے جان چھڑائے؟
چہارم، مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ جیسے جیسے امریکہ کمزور ہورہا ہے، وہ عالمی سطح پر اپنے حریفوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دے رہا ہے تا کہ انہیں تنازعات میں الجھا کر اس قدر تھکادے کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں ۔۔۔آج بین الاقوامی منظر نامہ ان بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش سے پُر ہے جو کہ پہلے آپس میں اتحادی تھے۔ امریکہ، یوکرین پر تباہ کن جنگ کے ذریعے یوکرین اور یورپ کو روس کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔4 اپریل 2023 کو صدر جو بائیڈن نے فن لینڈکے نیٹو میں شمولیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، "جب پیوٹن نے یوکرین کے لوگوں کے خلاف اپنی وحشیانہ جارحیت کی جنگ شروع کی، تو پیوٹن نے سوچا کہ وہ یورپ اور نیٹو کو تقسیم کر سکتا ہے"۔
چین کے حوالے سے، امریکہ عالمی سپلائی چینز پر انحصار سے پیدا ہونے والی اپنے معاشی کمزوری کے بارے میں فکر مند ہے، یہ وہ سپلائی چینز ہیں جو امریکہ نے بیرون ملک قائم کیں تا کہ سستی مزدوری اور وسائل کا استحصال کرسکے۔ چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے اب یہ سپلائی چینز ایک بوجھ بن رہی ہیں۔ 3 اپریل 2023 کی اپنی پریس ریلیز میں، امریکہ کے نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی سینٹر نے اپنی تشویش کو دہرایا کہ، "قومی ریاستوں اور دیگرمُضر عوامل نے امریکی حکومت اور صنعت سے منسلک اہم سپلائی چینز سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں" یہ بیان خاص طور پراکیلے چین کی نشاندہی کررہا ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ اب تائیوان کے مسئلہ کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا اور تبت کے مسئلے پر بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب شدیدمشکل اقتصادی چیلنجوں کے باوجود عالمی سطح پر تنازعات کی آگ بھڑک رہی ہے ،امریکی فوج نے مزید فنڈنگ پر زور دیا ہے ۔ 29 مارچ 2023 کو، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف آرمی جنرل مارک اے ملی، جس نے آج ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت میں محکمہ دفاع کی مالی سال 2024 کے بجٹ کی درخواست کے بارے میں تصدیق کی،نے کہا، " اگر امریکہ، چین اور روس کے درمیان امن کو جاری رکھنا ہے توکرۂ ارض پر امریکہ کو سب سے طاقتورریاست کے طور پر رہنا ہوگا"۔
کیا بڑی طاقتوں کے درمیان بین الاقوامی تنازعہ خلافت کے دوبارہ قیام کا موقع فراہم نہیں کررہا؟
پانچویں بات یہ ہے کہ مسلمان اس بات پر بھی غور کریں کہ امریکہ، افغانستان اور عراق میں بدترین شکست کے بعد دوبارہ مسلم دنیا میں داخل ہونے سے شدید خوفزدہ ہے۔امریکی پالیسی ساز اندرونی طور پر عراق اور افغانستان کی ناکامیوں سے حاصل ہونے سبق پر بحث کر رہے ہیں۔ 6 اپریل 2023 کو، وائٹ ہاؤس نے "افغانستان سے امریکی انخلاء" کی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا۔رپورٹ میں، ڈیموکریٹک حکومت نے سابقہ ریپبلکن حکومت پر "چار سالہ غفلت" کا الزام لگایا۔ جی ہاں، یہ رپورٹ امریکہ میں دو طرفہ شدید سیاسی تقسیم کی نشان دہی کررہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی تصدیق بھی کررہی ہے کہ امریکی فوج اپنی بزدلی کی وجہ سے مفلوج ہے۔ جب امریکی فوجوں کو انتہائی حوصلہ مندمسلم جنگجوؤں کا سامنا کرنا پڑا، جو شہادت اور فتح کے متلاشی تھے، تو امریکی فوجیں خونی مزاحمت کی دہشت کے مارے ڈپریشن(ذہنی دباؤ) کا شکار ہو تی گئیں اور ان میں خودکشی کے رجحان اور واقعات بڑھنے لگے۔
اس کے علاوہ، امریکہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ٹھنڈا کرنے کی کاوشیں کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی توجہ چین کے ساتھ صف آرائی پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔ 11 اپریل 2023 کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان السعود کو فون کیا۔اس کال کے حوالے سے وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کا بنیادی نکتہ یہ تھا: "یمن میں جنگ کے خاتمے سے متعلق جاری سفارت کاری" اور "خطے میں کشیدگی میں کمی کی جانب وسیع تر رجحانات"۔
اس وقت کہ جب امریکہ، روس اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیےمسلم دنیا سے اپنی توجہ ہٹارہا ہے، توکیا یہ خلافت کے دوبارہ قیام کا موقع نہیں ہے؟
چھٹی اور آخری بات یہ کہ مسلمان اس بات پر غور کریں کہ مسلمانوں کے موجودہ حکمران امریکہ کی گرتی ہوئی طاقت اور بین الاقوامی صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔کیونکہ ان کی اپنی بقا کا انحصار امریکی بین الاقوامی نظام کے تسلسل پر ہے۔ اس موقع سے اسلامی امت صرف مسلح افواج میں موجوداپنے بیٹوں کے ذریعے ہی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مسلمانوں کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اس سے پہلے کہ یہ موقع ختم ہوجائے۔ مسلمان، مسلم افواج میں موجود اپنے بیٹوں، بھائیوں اور والدوں سے مطالبہ کریں کہ وہ عظیم انصار ؓکے راستے پر چلیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکمرانی کے قیام کے لیے نُصرۃ(مادی مدد) فراہم کریں۔ یہ نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت ہی ہو گی جو امت اسلامیہ کو اس کے مستحق مقام تک پہنچا دے گی، پوری انسانیت کا خیال رکھنے والی سرپرست ریاست، جیسا کہ یہ صدیوں تک رہی تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کو یہ موقع کسی صورت نہیں کھونا چاہیے، اورفوری حرکت میں آنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایسے کام کریں جواللہ عزوجل کی اطاعت والے ہوں، تاکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نصر حاصل کرسکیں۔
اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا،
﴿ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
”اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اللہ انہیں زمین پر (ان حکمرانوں کی بجائے) ضرور حکمرانی عطا فرمائیگا جیسی اس نے پہلوں کو دی“۔(النور، 24:55)
مصعب عمیر، پاکستان