الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

آزمائشوں کی دنیا

 

یہ تو ہم سب کو معلوم ہی ہو گا کہ یہ دُنیا آزمائشوں کا گھر ”بیتُ الاِبتِلاء“ ہے۔ہم ہرطرح کے امتحانوں سے آزمائے جانے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور اپنا صبر واستقامت پیش کرتے ہوئے  اپنا سچا ایمان ثابت کرتے ہیں، جس کے بدلے میں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری کوتاہیاں اور  بُرے اعمال مٹادیتے ہیں یہاں تک کہ ہم زمین پر ایسے ہوجاتے ہیں کہ ہمارے نامۂ اعمال میں ایک بھی گناہ  باقی نہیں رہ جاتا اور ہم فخر و خوشی کے ساتھ  روزِ قیامت اپنے رب سے ملاقات کے لئے تیار ہوتے ہیں۔  اگرکبھی ہم بہت مایوس ہوجائیں تو ہم کیا کریں گے ؟ جب ہم کسی چیز کو ، جو کچھ الگ اور مختلف ہو ، اور ”بہتر“ ہو، بہت شدت سے چاہ رہے ہوں ؟ جب ہم طمانیت کا احساس  کھو چکے ہوں ؟ کبھی کبھی تو ہم دُنیا میں اپنے آنے کا مقصد بھی بھُولنے لگ جاتے ہیں ...    اور اپنے آپ میں ایسے بننے لگ جاتے ہیں جو کہ شاید ہم اصل میں کبھی نہ بننا چاہتے ہوں۔

 

انسانی  جبلت میں رضا وقبولیت ہے، ہم وہ سب توقبول کرلیتے ہیں جوکہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں عطاکیاہےجب کہ ہم اس میں مزید کی کوشش کرتےرہتے ہیں، جوکچھ بھی ہم ہیں اس سے بَرتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ہم جو ممکن بہتری دیکھتے ہیں اس کے لیےتگ ودَوکرتے ہیں، اِن کوششوں سے ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اطمینان،سکون و راحت کا احساس مل جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہم اُس مقام پر پہنچنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتے جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہوں اور جیسا خود کو دیکھنا چاہتے ہوں،وہ مقام جہاں ہمارے خواب حقیقت کےرُوپ میں نظر آئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم تارے پکڑنے کی کوشش کررہے ہوں۔کبھی تو ہمیں اپنے  خواب بہت ہی قریب لگنے لگتے ہیں لیکن  شاید بہت ہی دُور ہوتے ہیں۔

 

اللہ پر ہمارا  ایمان ہمیں یہ یقین دِلاتا ہے کہ ہماری کامیابی  بس نزدیک  ہی ہے لیکن یہ دُنیا ہمارے دِلوں میں ایسے گھر کر جاتی ہے کہ  ہمارے تصور کو ہی بدل دیتی ہے اور ہمیں سب کچھ بہت دور لگنے لگتا ہے۔ کسی کامیابی کا قَصد دِل میں کریں تو یہ دُنیا (یا شیطان) اسے ہماری پہنچ سے دُور اور ناممکن  کر کے دِکھاتی ہے،  ہمیں متزلزل کرنے کے لئے ہم پر ہر طرح کے خیالات اورایسے الفاظ کی بوچھاڑ کردیتی ہے  اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت سے  ہمارے  ایمان کو ڈگمگانے کو کوشش کرتی ہے، استغفراللہ۔ ایسے  الفاظ جیسے ”ہاں بھئی ٹھیک ہے ...جیسے ایسا کبھی ممکن بھی ہو سکےگا“ یا ”اگر میرے پاس صرف یہ ہوتا تو...اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو...اگر میں صرف یہ نہ کرتا“ یا ”میں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا، یہ ہونا کبھی ممکن ہی نہیں“ یا ” تم یہ کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے ، کوشش کر کے وقت ضائع مت کرو“۔ یہ تمام باتیں راہِ حق سے ہمیں بھٹکانے کے لئے شیطان کی طرف سے صریح دھوکے ہیں، تا کہ ہم نہ صرف اطمینان و قناعت چھوڑ دیں ،رَضَا کے بغیر رہنے لگیں بلکہ تبدیلی کی کوشش کرنا بالکل ہی تَرک کردیں۔ 

 

ہمارے لئے اپنی حالت میں بہتری کی کوشش کرنا حرام نہیں ہے لیکن  ہمارے لئے یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ آخر ”بہتر“ کیا  ہے۔  اس بہتری کی واضح وشفاف "تعریف" کی ضرورت ہے اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ ہی اس بہتری کی  واضح تعریف کرسکتے ہیں۔ اپنے تمام فیصلوں میں صرف قرآن و سنت کو ہی اپنی رہنمائی کے طور پر لے کر ہم اس بہتری کو جان سکتے ہیں۔قرآن و سنت سے اس رہنمائی کے بعد ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہے، کسی حال میں کسی بھی قضائے الٰہی  پراپنی رضا کو نہیں کھونا،  اپنے آپ کے اندر قناعت و سکون کو نہیں کھونا۔  یہ ٹھیک ہے کہ ہم بہک بھی سکتے ہیں ! اور یہ فطری بھی  ہے ۔ ہمارا ایمان ذرا سا ڈگمگا بھی جاتا ہے  لیکن  وہ پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن ان شاءاللہ  جب وہ دوبارہ  اُٹھے گا  تو پہلے سے مضبوط وقوی ہوگا اور یقیناً ہم  کم ہی بھٹک پائیں گے۔ 

 

رسول اللہ ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ سے ہماری مزید رہنمائی ہوتی ہے :  

ابوعثمان نے حنظلہ الاُسیدیؓ ، جو کہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبِ وحی بھی تھے ، سے روایت کیا ہے،  کہ حنظلہؓ ، ابوبکرؓ کے پاس سے روتے ہوئے گزرے تو ابو بکررضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا:

 

»مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْىَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا ‏.‏ قَالَ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْىَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا ‏.‏ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً ‏"‏«

  ”او حنظلہ ! تمہیں کیا ہُوا ؟، تو انہوں نے جواب دیا: اے ابو بکر! حنظلہ منافق ہو گیا ہے،  کیونکہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہم جنت و دوزخ کو ایسے یاد رکھتے  ہیں جیسے ہم انہیں بالکل اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں اور جب ہم وہاں سے واپس آتے ہیں تو اپنی زندگی اور بیوی بچوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور  ہم اکثر  بھول جاتے ہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا  :اللہ کی قسم ! میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ آؤ ، رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھے چلتے ہیں۔ حنظلہؓ نے بتایا : پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اُنہیں دیکھا تو آپ ﷺنے  کہا: اےحنظلہ! تمہیں کیا ہوا ؟، حنظلہؓ نے جواب دیا :  یا رسول اللہ ﷺ ! حنظلہ منافق ہو گیا ہے،  کیونکہ جب ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہم جنت و دوزخ کو ایسے یاد رکھتے ہیں جیسے ہم انہیں بالکل اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں اور جب ہم وہاں سے واپس آتے ہیں تو اپنی زندگی اور بیوی بچوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور  ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔حنظلہؓ بتاتے ہیں کہ: پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا:  اگر تم اسی حالت پر قائم رہو جس  پر تم اس وقت ہوتے ہو جب تم میرے ساتھ ہوتے ہو تو  فرشتے تم سے تمہاری مجلسوں میں ، تمہارے بستروں میں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں گے، لیکن اے حنظلہ ! اس کا بھی ایک وقت ہے اور اُس کا بھی ایک وقت ہے“ (ترمذی) ۔

 

جب ہم ابوبکرؓ کا ذکر کررہے ہیں تو ہم صرف رسول اللہ ﷺ کےصحابۂ کرام ؓ میں سے  سب سے بہترین کا ذکرنہیں کررہے ہیں ، اور صرف عائشہؓ کے والد کا ذکر نہیں کررہے ہیں یا وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ کے لیے دوسری عزیزترین ہستی تھا،نہ ہم صرف اُس ہستی کا ذکر کر رہے ہیں جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے  اور نہ ہی ہم صرف اُن عظیم ترین خلفائے راشدین  میں سے ایک  کا ذکر کر رہے ہیں  بلکہ یہ ذکر اس شخص کا ہے جن کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ   نصف دُنیا کا ایمان  اُنؓ کے پاس  ہے ! اور وہ عظیم ترین شخصیت بھی حنظلہؓ کے احساسات و جذبات سے متفق تھی!

 

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ”اگر ابوبکرؓ  کے ایمان کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں پوری دُنیا کے لوگوں کا ایمان رکھا جائے  تو ابو بکر ؓ     کا ایمان تمام دُنیا کے انسانوں کے ایمان سے بھاری ہوگا “۔

 

غورکریں، ہماری زندگیوں میں اُتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں،  جدوجہد کا احساس، مزاحمت کا احساس، نفاق کا احساس،   ...لیکن جب تک ہمارے پاس رضا ہے  اور ہم جدوجہد کرتے رہتے ہیں، مزاحمت کرتے رہتے ہیں اور اُس نفاق کے خلاف  لڑتے رہتے ہیں ، یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو بہترہو، کیونکہ ہمیں یہ جان کراطمینان کااحساس ہوگاکہ ہمارے پاس اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضاوخوشنودی ہے۔ باذن اللہ ! جو شخص یہ جان لیتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُسے وہ عطا کریں گے  جس کی اُسے ضرورت ہے ،نہ کہ وہ جو وہ چاہتا ہے اور کبھی کبھی وہ بھی عطاکریں گے جو کہ ہم چاہتے ہیں!  لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تو  ...جب وہ وقت آئے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اتنا کچھ عطا کریں گے جو کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا ! اس سے بھی بہت زیادہ جو کہ ہم نے کبھی چاہا ہوگا ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اتنا کچھ عطا کریں گے کہ وہ اس سے پہلے ہماری زندگی میں آنے والی تمام مشقتوں کو بھُلا دے گا۔ اور اس آزمائشوں کی دُنیا کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے یہ بہت عظیم تحفہ ہو گا۔  

 

اللہ سبحانہ وتعالی سے دُعا ہے کہ وہ ہماری تمام آزمائشیں و مصیبتیں آسان کریں  ...آمین۔

 

Last modified onجمعرات, 14 دسمبر 2023 00:57

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک