الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

انسانوں میں سے کوئی فرشتے نہیں

 

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے اپنے کسی قریبی عزیز دوست سے یا پھر کسی  رشتہ دار کی طرف سے  دھوکا محسوس کیا ہو اور آپ اس احساس سے جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہوں؟ ہر دفعہ جب بھی آپ اُنہیں دیکھتے ہیں یا اُن سے بات کرتے ہیں تو آپ کے دِل میں اس دھوکے یا پھر غُصہ کا احساس  شدید ہونے لگتا ہے اور ایسا کئی سالوں تک چل سکتاہے۔ اکثر اوقات ہمارے لئے اُن باتوں کو بھُلانا ممکن نہیں ہوتا جو کچھ لوگ ہمارے ساتھ کرچُکے ہوں۔

 

تو وہ کون سی وجوہات ہیں جو ہمیں اُن  رنجشوں سے چھُٹکارا پانے سے روکتی ہیں جو ہم اپنے دِل میں لئے پھرتے ہیں ؟ 

اکثر اوقات ہم دوسروں سے بہت زیادہ توقعات لگا لیتے  ہیں اور ہم یہ بھُول جاتے ہیں کہ وہ بھی ، ہماری طرح، غلطیاں کرسکتے ہیں۔

 

وہ کوئی فرشتہ نہیں ہیں بلکہ خطاکا پُتلا ، یعنی انسان ہی ہیں۔

اسلام ، انسان کی کمزور فطرت کو تسلیم کرتا ہے۔ تخلیقِ آدمؑ کے سب سے پہلے سبق  سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے پاس محدود صلاحیتیں ہیں ، جب آدم ؑ سے خطا سرزَدہوگئی اور اُنہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مغفرت چاہی۔ اور اسی لئے اسلام  دوسروں کی خطائیں درگزر کردینے کے لئے ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

 

لیکن آخر کیوں ہم دوسروں کو اتنا آسانی سے معاف نہیں کرسکتے ؟

شاید ہم یہ کہہ بھی دیتے ہوں کہ " میں نے اُس شخص کو معاف کردیاہے" لیکن چونکہ ہم وہ بات نہیں بھُول سکتے جو بِیت چُکی ہو تو یہ سب ایسے شخص کے لئے ہمارے برتاؤ میں پھر بھی جھلکتا نظر آتا ہے اور اس طرح اس سے چھُٹکارا نہیں مل سکتا کہ کیا ہُوا تھا۔

 

معاف کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اُس شخص سے کترانے کی بجائے دِل میں اُس کے لئے  کوئی بھی  رنجش باقی نہ رہے بلکہ اپنے دِل میں اس کے لئے کسی بھی ناراضی کے بغیر،  اس کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کیا جائے ۔

یقیناً، یہ ایک اسلامی نفسیہ کا معاملہ ہے ۔ جب ہمارا اعتماد اور اَنا مجروح ہو تی ہے تو ہم اس مسئلہ کو اپنی اسلامی شخصیہ کی مضبوطی سے حَل کرتے ہیں۔

 

ایسی حالت میں ، کسی شخص کو سورۃ نور، آیت نمبر 22،  میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے یہ الفاظ ضرور یاد رکھنے چاہئیں :

  

﴿وَلْيَعْفُوا۟ وَلْيَصْفَحُوٓا۟ ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اور ان کو چاہئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم نہیں پسند کرتے کہ اللہ تم کو معاف کردے، اور اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے( النور : 22)   ۔

 

سرمایہ دارانہ معاشروں میں، جہاں ہم رہ رہے ہیں، ہمارے اِردگِرد پھیلا مغربی ماحول  لوگوں کے لئے یہ بہت مشکل بنا دیتا ہے کہ وہ  سَبقت لے جائیں ، درگزر کریں اور بھُول جائیں۔

 

اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر طرزِ زندگی نے ہمارے باہمی تعلقات کے ہر ہر پہلو کو متأثر کردیا ہے۔

اگر ہمارے وہ رویّے ، جن سے ہم ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں، مضبوطی کے ساتھ ہمارے عقیدہ سے نہ جُڑے ہوں تو پھر یقیناً ہم اپنی اَنا کے مطابق ہی  ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کریں گے۔ اور پھر باہمی تعلقات کا مقصد ، خالق کی رضا سے ہٹ کر  باہمی مفاد اور اطمینان تک ہی رہ جائے گا۔

 

یہ انسانی خواہشات پر مشتمل تعلق کی وجہ  ہی ہے کہ ہم خود فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں اگر کوئی ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرے اورہم اپنے دِل میں رنجشیں پال لیتے ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ نظام ایک سیکولر سوچ کوفروغ دیتا ہے  جو خالق کی رضا کے لئے ایثار وقربانی دینے کی بجائے  باہمی مفادات کی ترغیب دیتا ہے۔

 

تعلقات کی بہتری کے لئے معاف کردینا ایک ایسی قربانی ہے جو کہ نفس میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بنیادی مقصد میں حقیقی اطمینان کا حصول ہونا چاہئے۔اور ہمیں اس کی بہترین مثالیں اپنے پیارے نبی محمد ﷺ کی سُنتِ مبارکہ کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی۔ جب آپ ﷺ نے  اُن کو معاف فرما دیا جنہوں نے آپ ﷺ کے چچا  حمزہؓ  کو شہید کردیا تھا  اور پھر اُن کا کلیجہ نکال کر چبا ڈالا تھا، یا جب آپ ﷺ نے  اُن کومعاف کردیا جنہوں نے آپ ﷺ پر آوازیں کسیں  اور طعنہ زَنی کی، حالانکہ اس وقت آپﷺ بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

 

اگر آپﷺ  ان انتہائی حد تک دِل کو چھلنی کردینے والے اعمال کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر معاف کرسکتے ہیں تو پھر ہم ان خطاؤں کو درگزر کیوں نہیں کرسکتے جو شاید کبھی اتنی شدید نوعیت کی نہ ہوں؟

بحیثیت مسلمان، ہمیں  اپنی سوچ کے دَر کھولنے کے لئے خلوصِ دل سے کوشش کرنی چاہئے اور جب بھی ہم دوسروں کے لئے کوئی رنج و غصہ محسوس کریں تو ہردفعہ اپنے دل میں انہیں درگزر کرنے کے ارادہ کی تجدید کرتے ہوئے ہمیں ان رنجشوں کو مٹا دینا چاہئے جو ہم دوسروں کے لئے اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔

 

بہرحال ، ”معاف کردینے “ کی صفت اختیار کرنے میں بے پناہ اجر و ثواب ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے  رحمت کی یہ اُمید ہے کہ وہ  معاف کردینے والے کی اپنی لغزشیں اور گناہ  بھی معاف کردیں گے۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ  ہمیں دوسروں کی خطائیں معاف کرنے کی ہمت وحوصلہ عطا کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دُعا ہے کہ وہ ہماری کوتاہیاں بھی معاف فرمائیں۔ آمین!

 

Last modified onبدھ, 13 دسمبر 2023 23:03

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک