بسم الله الرحمن الرحيم
باربی کا حالیہ جنون
باربی فلم نے ستمبر 2023ء کے وسط تک عالمی باکس آفس پر حیران کن 1.38 ارب ڈالر سے زیادہ کمائے۔ باربی اب بھی سینما گھروں میں ہفتے کے اختتام پر پہلے نمبر پر تھی۔ تاہم، کیا باربی کے اس جنون کے پیچھے ہماری بیٹیوں کے لیے کوئی ایجنڈا ہے؟ آئیے مختصراً اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ باربی ہمارے بچوں پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، یا ہو سکتی ہے۔
فلم خواتین کو بااختیار(women’s empowerment) بنانے پر مرکوز ہے۔ باربی لڑکیوں کو بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ بن گئی، اور ان کے کیریئر(پیشہ وارانہ زندگی) کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم اکثر باربی کو پلاسٹک کی اس گڑیا کے طور پر دیکھتے ہیں جسے ہم اپنی بیٹیوں کے لیے 3، 4، 5 یا 6 سال کی عمر میں خرید سکتے ہیں۔ روتھ ہینڈلر(Ruth Handler) نے 1959ء میں باربی کی بنیاد رکھی، جب اس کی بیٹی اپنے خوابوں اور امنگوں کو کاغذ کی گڑیوں میں پیش کرتی تھی۔ باربی کے پیچھے فلسفہ یہ تھا کہ ایک چھوٹی لڑکی کے پاس انتخاب کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جو چاہے بن سکتی ہے۔
اس خیال کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بیٹیاں گڑیوں کے ساتھ کھیلیں کیونکہ اس کے ذریعے ان میں موجود تخلیقی صلاحیتوں، تخیل، مادرانہ جبلتوں،ہاتھ پاؤں کے استعمال، بات چیت کرنے کی صلاحیت اور ہمدردی کے جذبات کو باہر لایا جائے۔ لڑکیاں صدیوں سے گڑیوں سے کھیلتی چلی آ رہی ہیں۔
ہماری پیاری ام المؤمنین، عائشہ ؓ گڑیا سے کھیلا کرتی تھیں جیسا کہ فرمایا:
عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ يَنْقَمِعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي
عائشہ ؓ فرماتی ہیں، "میں نبی کریم ﷺ کے پاس گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری بہت سی سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی کریم ﷺ اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں پھر نبی کریمﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں"۔
تاہم، یہاں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ لالچ اور حقوقِ نسواں کی تحریکوں کے ذریعے، جس کا مقصد خاندانی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے، ہماری بیٹیوں سے معصومیت چھین لی جاتی ہے،اور یہ سب ایک فلم کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گڑیا بچے کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اسے حقیقی بچہ سمجھتے ہوئے اسے کھلانے، پکڑنے، اس کے کپڑے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال کرنے کا طریقہ سیکھے اور اس طرح اُس میں پرورش کرنے کی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
یہ بچے کے تخیل کے احساس کو بھی فروغ دیتا ہے کیونکہ بچہ یہ سمجھتا ہے کہ گڑیا ایک بچہ ہے جسے دیکھ بھال کی ضرورت ہے، یا یہ کہ بچہ خود کو ایک استاد اور گڑیا کو طالب علم سمجھتا ہیں، اور اسے سِکھانے کے ذریعے بچے کی اپنی بات چیت کرنے کی صلاحیت کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح بچے کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ ہم نے ایسی تصویریں بھی دیکھی ہیں جن میں لڑکیوں نے اپنی گڑیوں کو حجاب پہنایا ہوا ہے اور انہیں نماز کے لیے قطار میں کھڑا کیا ہوا ہے، جبکہ وہ اپنی گڑیا کی نماز میں امامت کرتی ہے، اور اللہ ﷻ سے قرب کے رشتوں کو بڑھا رہی ہے۔
باربی گڑیا کی اثرپذیری میں 64 سال گزرنے کے بعد بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ باربی نے تین سال کی عمر سے شروع ہونے والی لڑکیوں کو دکھایا ہے کہ خوبصورتی کے معیار کیا ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان لڑکیوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس اندیشےپر کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ باربی گڑیا نقصان دہ کیسے ہو سکتی ہے؟
یہ گڑیا چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے سامنے ان کی معصومیت کے آغاز سے ہی خود اعتمادی کو بڑھانے، خود توقیری کو پروان چڑھانے اور خود پسندی جیسے خوبصورتی کے معیاروں کی تصویر کشی کرتی ہے، یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ اللہ ﷻ ہی بہترین تخلیق کار ہے۔تاہم، جب یہ لڑکیاں مسلسل ان گڑیوں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں تو اس سے ان کے معصوم ذہن نسوانیت کے اس تنگ اور تخیلاتی تصور کی طرف کھچ سکتے ہیں۔
یہ لڑکیاں اپنے جسم کا باربی کے غیر حقیقی دبلے پتلے جسم سے موازنہ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو لڑکیاں باربی سے کھیلتی ہیں، ان کی نظر میں اپنےجسم کی عزت کم ہوجاتی ہے اور وہ دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں پتلی جسمانی شکل کی زیادہ خواہش مند ہوجاتی ہیں۔حقیقت میں اگر کوئی (لڑکی) باربی کے قد کے متناسب وزن رکھنا چاہتی ہے تو اس تناسب کو حاصل کرنے کی کوشش میں وہ خوراک کی کمی کا شکار ہو جائے گی جس سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ ماہواری سے قاصر ہو جائے۔
باربی کے فیشن کا معیار: باربی کے لیے جو اکسانے والے مختصر لباس یا اسکرٹس فروخت کیے جاتے ہیں، جنہیں لڑکیاں اپنی باربی کو تیار کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، انھیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ خوبصورتی کے معیار یہ ہیں، اور یہ کہ لڑکیوں کا ایسا لباس پہننا قبول کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جوتوں تک کی تشہیر کی جاتی ہے کہ ایک بیٹی کے پیروں میں پہننے کی چیز کی خوبصورتی کا معیار کیا ہے۔ فلم میں اداکارہ کو اونچی ایڑی والے جوتے اتارتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور یہ کہ وہ اپنے پیروں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہونے کے قابل ہے۔ یہ منظر "باربی فیٹ چیلنج" کا باعث بنا ہے۔بہت سی بچیاں اس منظر کی نقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن کچھ پاوٴں کے معالجوں(podiatrists) نے بتایا ہے کہ اس چیلنج کی وجہ سے کئی بچیوں کے پاؤں میں چوٹ آئی ہے اور انہوں نے اس قسم کے چیلنجوں کو روکنے پر زور دیا ہے۔ اونچی ایڑیاں نہ صرف پاؤں بلکہ کمر، ریڑھ کی ہڈی، کولہوں، گھٹنوں اورپیروں کی انگلیوں پر بھی دباؤ ڈالتی ہیں۔تاہم، 55 ارب ڈالر کی حامل اس صنعت کی وجہ سے یہ سرمایہ دار، خواتین کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھتے۔ سرمایہ داریت صرف ڈالر دیکھتی ہے۔
باربی کی ایسی تصاویر، جس میں وہ ہمیشہ جوان نظر آتی ہے، اس نے خواتین پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔ ہم مسلم اکثریتی ممالک میں مغربی خوبصورتی کے معیار کو حاصل کرنے کے لیے کاسمیٹک طریقہ کار میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ مغرب نے مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا ہے جو خوبصورتی کے حوالے سے اسلام کی اقدار کی جگہ مغرب کے خوبصورتی کے معیار قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ہماری بہت سی مسلمان بیٹیاں تقلید کی غرض سے اور غیر اسلامی معاشرتی دباؤ میں گھروں سے باہر اپنی خوبصورتی کو ظاہر کر رہی ہیں۔
میمونہ بنت سعد، جو رسول اللہ ﷺ کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ الرَّافِلَةِ فِي الزِّينَةِ فِي غَيْرِ أَهْلِهَا كَمَثَلِ ظُلْمَةِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ نُورَ لَهَا
"اپنے گھر والوں کے علاوہ غیروں کے سامنے بناؤ سنگھار کر کے اِترا کر چلنے والی عورت کی مثال قیامت کے دن کی تاریکی کی سی ہے، اس کے پاس کوئی نور نہیں ہو گا"۔
مسائل کی فہرست جاری ہے! فلم باربی جس کی ریٹنگ PG-13ہے (یعنی 13 سال سے کم عمر بچے نہ دیکھیں) اب تک ایک ارب ڈالر سے زیادہ کما چکی ہے، اس نے آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں بہت سے فاسد تصورات متعارف کرائے ہیں۔ فلم میں کراس ڈریسنگ کو بھی پیش کیا گیا ہے یعنی لڑکوں نے لڑکیوں والے لباس اور لڑکیوں نے لڑکوں والے لباس پہنے ہوئے ہیں، اس طرح ٹرانسجینڈر کے خیال کو درست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ان کی ذاتی پسند ہے، انہیں اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر مناسب لباس پہننے کا حق ہے۔ یہاں ایک بار پھر ہم مغرب کا منافقانہ معیار دیکھتے ہیں۔ فرانس نے عبایا کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ وہ عبایا سے خوفزدہ ہے حالانکہ وہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے!
ہم بحیثیت مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور بچوں کی پرورش اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ والدین کی حیثیت میں، ہمیں حکم دیا گیا ہے،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ
"مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔۔۔" (التحریم، 66 :6)
اب ہمارے لیے والدین کی حیثیت سے یہ ایک نازک وقت ہے کہ ہم اپنے بچوں سے بات کریں قبل اس سے کہ ان کے دوست، اساتذہ، یا ساتھی ان کے ذہنوں کو کرپٹ تصورات سے آلودہ کر دیں۔ ہم اپنے بچوں کو ایسے حالات میں رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں ان کے خیالات، اقدار، طرز ِعمل، صحت اور اسلام سے تعلق متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔
ہمیں تبرج (یعنی خواتین کا اپنی خوبصورتی کو اپنے محارم رشتے داروں کے سوا کسی اور کے سامنے ظاہر کرنے) والی آیات اور احادیث کا علم ہے پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان معاملات میں ہماری بیٹیاں یوں ہی گھروں سے باہر نکل جاتی ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ابھی چھوٹی ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام پر رہتے ہوئے بزرگ ہوجانے والے شخص کی مدح بیان فرمائی ہے اور یہ بھی کہ وہ بزرگوں کی کتنی تعظیم فرماتے تھے۔ تو پھر ہم ہمیشہ جوان رہنے کو کیسے مثالی قرار دے سکتے ہیں؟ہاں اسلام نے بطور امت ہماری رہنمائی کی ہے اور زندگی گزارنے کے لئے ہمارے لیےایک معیار مقرر کیا ہے۔ تو آئیے دورِجاہلیت کے طریقوں سے دور رہیں۔ ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ اس فلم کے پسِ پردہ تصورمحض پلاسٹک کی ایک گڑیا کا نہیں ہے بلکہ یہ (عزائم )اس سے کہیں زیادہ وسیع اور خطرناک ہیں۔
ہم اس دنیا میں مسافروں کی طرح ہیں اور یہ دنیا ہمارے لیے قید خانہ ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ
"دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے"۔
اللہ تعالیٰ ہماری تمام بیٹیوں کو اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مسلمانوں کے خاندان، برادری اور معاشرے کے لیے مضبوط ستون بنائے۔