الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ساتھ ساتھ

 

ہم یہ کئی بار  سُن چکے ہیں کہ ایمان تو دِل میں ہوتا ہے یا یہ کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی پر کوئی فیصلہ دینے والے؟

 

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

 

«أَنْ رجُلاً قال: "واللهِ لا يَغْفِرُ اللهُ لِفُلانٍ وإِنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ: مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَيَّ أَنْ لا أَغْفِرَ لِفُلان،فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفُلانٍ، وأَحْبَطْتُ عَمَلَكَ" »

"رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ فلاں شخص کو معاف نہیں کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ کون ہے جو مجھے پابند کرتا ہے کہ میں فلاں شخص کو معاف نہیں کرونگا۔ میں نے اس شخص کو معاف کر دیا اور تمہارے اعمال برباد کر دئیے"۔

 

اسی طرح کی ایک اور حدیث جو  ابوداؤد سے روایت ہے، اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ایک دیندار آدمی تھا جس کے گزشتہ نیک اعمال یہ خودساختہ دعویٰ کرنے پرضائع ہو گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کے بُرے اعمال کو معاف نہیں کریں گے۔ مسلم میں بھی اس کاحوالہ موجود ہے۔  ہم نہیں جانتے کہ کسی کے دِل میں کیا ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں فیصلہ دینے کی صلاحیت کسی کے پاس نہیں ۔

رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا :

 

«"ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَحَجَّ وَاعْتَمَرَ وَقَالَ إِنِّي مُسْلِمٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ"»

انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس کسی میں یہ تین خصلتیں ہوں تو وہ منافق ہے، خواہ وہ روزے رکھتا ہو، نماز کی پابندی کرتا ہو ، حج وعمرہ ادا کرے اور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرے۔ (وہ تین نشانیاں یہ ہیں): جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے"۔

 

  ذرا غور کریں، ہم میں سے کوئی بھی منافق ہو سکتا ہے، وہ بھی جو نماز کی پابندی کرتا ہو اور وہ بھی جو نماز نہ پڑھتاہو، وہ شخص بھی جو روزے رکھے اور وہ بھی جو نہ رکھتاہو، وہ عورت بھی جو حجاب کرتی ہو اور وہ بھی جو اس کی پرواہ نہ کرتی ہو۔ یہ تو دراصل دل کا معاملہ ہے ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے دِل میں موجود ایمان کے ایک ایک ذرّے سے بھی باخبر ہیں اور اس سے بھی جو کہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیوں اس کی پرواہ کریں کہ کس کا  "ایمان" زیادہ ہے؟ ہم آخر موازنہ ہی کیوں کریں ؟ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ہم دوسروں میں عیب تلاش کرکے موازنہ کر رہے ہوتے ہیں تا کہ یہ جان کر مطمئن ہوا جائے  کہ دوسرا شخص بھی کوئی   کامل مومن نہیں ہے؛ یا کبھی کبھی یہ موازنہ ہمیں اپنے آپ کیلئے مزید محنت نہ کرنے کا بہانہ فراہم کرتاہے اور کبھی کبھار ---- یہ واقعی اس لئے ہوتا ہے کہ ہم اپنا موازنہ ایسے شخص سے  کرنا چاہتے ہیں جو بظاہر بہت " متقی و پرہیزگار" نظر آتاہے۔

 

جوبات ہمیں جاننے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اس بات سے باخبر ہیں کہ ہمارے دِلوں میں کیا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی یہ معلوم ہے کہ ہم کیا اعمال کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا  نہیں کہا، یعنی  ایک مسلمان بھائی یا بہن  کی حیثیت سے ایک دوسرے کی رہنمائی کرنا اور ایک دوسرے کو نصیحت  کرنا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ توبہ، آیت 71 میں ارشاد فرمایا :

 

﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

"اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے"۔ ( التوبہ : 71)

 

ہم ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں ...ہم ایک دوسرے سے بھلائی کرنے کے لئے ہی ہیں تاکہ اس کی نشاندہی کرتے رہیں کہ کیا حق ہے اور کیا باطل، تاکہ یک جان ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ ہاں، یہ ضرور درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دلوں میں نہیں جھانک سکتے، البتہ ہم اس بات سے بھی ہرگز اختلاف نہیں کریں گے...کہ جب کسی کے دِل میں خالص اور حقیقی ایمان بھَر جاتا ہے تو وہ ایمان اس کے اعمال سے بھی جھلکنے لگتا ہے۔ یہ ایمان اس شخص کے اطوار سے بھی نظر آنے لگتا ہے، یعنی جب وہ بولتا ہے، جب وہ چلتا ہے، وہ جیسا لباس پہنتا ہے... ...غرض اس کے ہر عمل سے ایمان ظاہر ہونے لگتاہے۔ یہ ایمان بالکل روشن اور واضح نظر آتا ہے۔

 

یہ بات بھی واضح رہے کہ انسان گنہگار پیدا ہواہے۔

 

»كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ«

"تمام بنی آدم خطا کار ہے لیکن ان خطاکاروں میں سے بہترین وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں"۔

 

یہ ایسا معاملہ نہیں جس کا فیصلہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان پر چھوڑدیا ہو۔ یہ مباح اور مندوب کے زُمرے میں بھی نہیں آتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے فرض قرار دیاہے لہٰذا اگر ہم  اپنی فکر کا مزید  گہرائی میں تجزیہ کریں تو کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں زیادہ معلوم ہے ؟ استغفراللہ ! درحقیقت ہمیں معلوم ہے کہ ایسے خیالات، معاشرے سے  دین کا  فہم  مِٹ  جانے اورہر طرف سے آنے والے اختلافی دباؤ  کو محسوس کرنےکے نتیجہ کے طور پر پائے جاتے ہیں، خصوصاً  نام نہاد آزاد خیال معاشروں میں جو چاہے مغرب میں ہوں یا وہ جو مغرب جیسا بننا چاہتے ہیں۔

 

ہم کوئی کامل مومن نہیں ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کامل نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ہمیشہ اپنے فرائض  کو پورا کرنے کی  پوری کوشش کرنی چاہئے اور رسول اللہ ﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے اور اپنی خطاؤں و لغزشوں پر سچے دِل سے توبہ کرنی چاہئے۔ کیا  فرائض کی ادائیگی کے بغیر اسلامی شخصیت کی  اقدار یا  اخلاق کی کوئی  حیثیت ہے؟کیا  اسلامی  شخصیت کی اقدار، یعنی اخلاق  کے بغیر ادا کیے جانے والے فرائض  قابلِ قبول ہیں؟ اسلام اپنی مرضی سے چن لینے والے اعمال نہیں، یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ  اسلام پر چلنے میں ہماری مدد کرے تاکہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کی خاطر اسی طرح اس کی اطاعت کر سکیں جیسا اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں حکم دیا ہے۔

 

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 16:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک