بسم الله الرحمن الرحيم
غزہ نے حقیقت پرسے پردہ اُٹھا دیا ہے
7 اکتوبر، 2023 سے اب تک ان طویل اور درد بھرے ہفتوں کے دوران غزہ نے حقائق آشکار کر دیئے اور باطل کو عیاں کر کے رکھ دیا۔ اس عرصہ نے اہلِ غزہ، بحیثیتِ مجموعی مسلم امت اور دنیا بھر میں منصف مزاج غیر مسلموں کے بارے میں سچائی کو کھول دیا۔ غزہ نے صیہونی وجود کی، مغربی طاقتوں کی جو کہ اس صیہونی وجود کی حمایت کرتی ہیں اور اس یہودی وجود سے اشتراک کرنے والے مسلم حکمرانوں کی حقیقت بے نقاب کر کے رکھ دی۔ یہ سب حقائق نمایاں طور پر عیاں کرتے ہوئے، غزہ نے مسلم امت اور اس کی افواج کو یہ راہ دکھلا دی ہے کہ اب کیا کرنا ضروری ہے۔
غزہ نے اپنے عوام میں موجود خیر کو واضح طور پر ظاہر کر دیا ہے۔ غزہ کے لوگ شدید ترین نقصان ہونے پر بھی نہایت صابروشاکر ہیں۔ وہ اس انتہائی جارحیت کے سامنے دلیر اور نڈر ہیں۔ وہ ان شدید آزمائشوں کا شکوہ بھی نہیں کرتے۔ وہ دوسروں کو تسلی دینے کے لئے مسکراتے ہیں جبکہ وہ خود دکھ و آلام کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ شدید ترین قلت اور فاقہ کشی کے باوجود بھی ایک دوسرے میں کھانا بانٹتے ہیں۔ وہ اپنا اس قدر بھاری نقصان کےازالے کے لئے بھی صرف دعا کے لئے ہی ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔ غزہ کے لوگوں نے اللہ جل شانہ کے مقرب بندے ہونے کی جستجو میں اپنے ایمان کی طاقت سے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بے شک، جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ اسے آزمائش میں ڈالتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ صَبَرَ فَلَهُ الصَّبْرُ وَمَنْ جَزِعَ فَلَهُ الْجَزَعُ »
”جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو وہ انہیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ پس جو اس پر صبر کرتا ہے تو اسے صبر عطا کر دیا جاتا ہے۔ اور جو اس پر جزع فزع کا اظہار کرتا ہے، تو اس کے لئے جزع فزع ہے“(احمد نے محمود بن لبید سے روایت کیا)۔
غزہ نےامت میں موجود خیر کو ظاہر کردیاہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اہلِ غزہ کے مصائب پر درد سے بے چین ہیں۔ وہ اپنی طرف سے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے رب سے ہاتھ اُٹھائے اس قدر دعائیں مانگ رہے ہیں کہ ان کے بازو شل ہو چکے ہیں۔ وہ صدقات و خیرات دیتے ہوئے اپنے گھروں تک کو خالی کر رہے ہیں۔ وہ دشمن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے کافی حد تک نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مسلمان سرحدوں کو کھول دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے بیٹوں کو وہاں بھیج سکیں۔ مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی افواج کو حرکت میں لایا جائے۔ یقیناً مسلمان ایک جسمِ واحد کی طرح ہیں جو کہ ایمان سے جڑے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
« تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى»
”تم مومنین کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی بھی عضو تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ، اس کی نیند اُڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔
غزہ نے دنیا کے منصف مزاج لوگوں میں اسلام سے اثر کو قبول کرنے کی صلاحیت ظاہر کر دی ہے۔ بہت سے غیر مسلموں نے غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر اپنے غم و غصے کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگ اب صیہونیت اور یہودیت کے درمیان فرق کرنے لگے ہیں۔ بہت سے لوگ غزہ کے مسلمانوں کے صبر سے انتہائی حد تک متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض نے تو اس قدر صبر کے مصدر کو تلاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض لوگ اسلام کو گلے لگا چکے ہیں اور امت مسلمہ نے ان کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا ہے۔ آج اسلام کے حوالے سے یہ مقبولیت ایک ایسے دور میں ہو رہی ہے جب کہ اسلام کو نافذ کرنے والی کوئی ریاست موجود نہیں ہے۔ تو ذرا سوچئے کہ اس وقت کیا عالم ہو گا جب اسلام کا ایک ریاست کے ذریعہ نفاذ کیا جائے گا، اور اسلام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ مکمل شان سے نظر آتا ہو گا ؟ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا»
”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی حکومت پہنچ کر رہے گی“۔ (مسلم)
غزہ نے صیہونی وجود، اس کی بربریت اور اس کی نفرت بھری عداوت کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور بزدلی کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہودی وجود نے اپنی نفرت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر قسم کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے معصوم بچوں تک کو اسنائپرز سے نشانہ بنایا، بالکل اسی طرح جیسے اس نے بمباری سے اسپتالوں کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔ پہلے پہل تو یہودی وجود کے جرائم کو امریکہ کی طرف سے گھڑے گئے جھوٹ اور حیلے بہانوں کے پردے سے ڈھانپا گیا اور پھر تو اس خبیث وجود نے بغیر کسی عذر کے ہی اپنے جرائم کا ارتکاب کرنا شروع کر دیا۔ یہودی وجود اس قدر بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ قتل وغارت گری کرتا ہے اورکسی بھی قسم کے ان "اخلاقیات" یا "اصولوں" یا "انسانیت" سے مکمل طور پر عاری ہے جو ضوابط انسانوں نے عمومی طور پر جنگ کے لیے اپنا رکھے ہیں۔ بیشک اس خبیث وجود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قول بالکل برحق ہے؛
﴿لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ﴾
’’ کسی مسلمان کے حق میں قرابت کا بھی لحاظ نہ کریں اور نہ عہد کا، اور وہی ہیں زیادتی پر‘‘ (التوبۃ؛ 9:10)۔
یہ سب اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ غزہ نے قابض افواج کے بودے پن کو بے نقاب کر دیا۔ ان کے پاس موجود جدید ہتھیاروں کے باوجود، بزدل صیہونی فوجیوں کا جتھہ معمولی اسلحہ رکھنے والے لیکن دلیر اور نڈر مجاہدین کے چھوٹے سے گروہ کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔ تو اس وقت اس وجود کی کیا حالت ہو گی جب اسے صرف کسی ایک مسلمان فوج کا سامنا کر پڑ ے ؟
غزہ نے صیہونی جارحیت کی حمایت کرتی مغربی حکومتوں کی حقیقت سب کے سامنے عیاں کر دی ہے۔ صیہونی ریاست جھوٹے اور منافق مغرب کے سامنے اپنی بربریت کا ارتکاب کرتی رہی ہے۔ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق اور جانوروں کے حقوق کے حوالے سے پرچار کرنے والے مغرب کی قلعی واضح طور پر کھل کر سامنے آ گئی۔ نیز یہودی وجود امریکہ کے میڈیا پروپیگنڈے، فنڈنگ اور اسلحہ کی فراہمی کے ذریعے امریکہ کی فعال شرکت اور حمایت کے ساتھ امریکی ایماء اور شہ سے ہی مسلمانوں کا قتل عام کرتا رہا ہے۔ 8 دسمبر2023ء کو جنگ بندی کے لئے اقوامِ متحدہ کی مجوزہ قرارداد کے خلاف امریکہ کی شرکت اس کے ویٹو کر دینے سے کسی طور کم نہیں ہے۔ یہ سب امریکہ کی جانب سے بدنیتی پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک ظالمانہ امریکی منصوبہ ہے جس کا مقصد "فلسطینی ریاست" کی آڑ میں ایک غیر مسلح اور معمولی سے وجود کو چھوڑتے ہوئے اس مبارک سرزمین کا زیادہ تر حصہ اس کے جارحانہ قابضین کے حوالے کرنا ہے۔ بے شک مغربی حکومتیں اور یہودی وجود ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾
” اے ایمان والو ! یہود و نصٰرٰی کو دوست مت بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں“ ( المائدہ؛ 5:51)
غزہ نے مسلمانوں کے حکمرانوں کی اصلیت آشکار کر دی ہے۔ یہاں تک کہ جب یہودی وجود نے ہسپتالوں اور اسکولوں تک کو بمباری سے مسمار کر ڈالا، تب بھی اردن کی حکومت نے یہودی وجود کو ضروری امریکی رسد کی فراہمی جاری رکھنے کے لئے اپنی فضائی راہداری کی فراہمی برقرار رکھی۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے دبئی اور حیفہ کی بندرگاہوں کے درمیان ایک زمینی راہداری چلانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو سعودی عرب اور اردن کے علاقے سے گزرتا ہے، جس کا مقصد بحری گزرگاہوں کو درپیش خطرات سے بچاؤ کرنا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے حکمران دنیا کے بحری، زمینی اور فضائی راستے منقطع کر دیتے، تیل کی سپلائی روک دیتے اور غزہ میں جاری خونریزی روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرتے جبکہ وہ ایسا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، انہوں نے یہودی وجود کو یہ سب سہولیات جاری رکھیں۔ مصر نے رفح بارڈر کراسنگ کو بند کئے رکھا ہے، حالانکہ اس کی فوج غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے مکمل راضی ہے اور مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان اور ترکی کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو وہ واشنگٹن کے مفادات کے لیے تو دنیا بھر میں اپنی افواج کو بھیج دیتے ہیں، پھر بھی انہوں نے تڑپ رکھنے والے اور قابل فوجیوں کواشد ضرورت کےاس وقت میں غزہ کی مدد کرنے سے روکے رکھا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں اور مسلم امت کوناکام کردینے کے بعد، یہ غدار حکمران اب ایک اور غداری کا نفاذ کرنے پر کام کر رہے ہیں، جو کہ 'امریکی دو ریاستی حل' ہے۔ اور یہ غدار حکمران یہ سب حرکتیں کرتے ہیں حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ،
﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾
”اللہ تمہیں ان سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے تمہارے دین کی وجہ سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور دوسروں کو ایسا کرنے میں مدد کی؛ اور جو کوئی ایسوں سے دوستی کرے، پس وہ ظالموں میں سے ہیں “( الممتحنہ؛ 60:9)
غزہ نے سب کچھ منکشف کر کے رکھ دیا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم اپنی ذمہ داری میں پیچھے نہ رہیں۔ غزہ نے ہمیں صحیح صورتحال دکھلا دی ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ غزہ کے مسلمان بہت ہی اچھےاور نیک ہیں۔ امت مسلمہ اپنے دین کی راہ پر چل پڑی ہے۔ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ایک طرف تو یہودی وجود اور اس کی حمایت کرنے والی مغربی حکومتوں کی ناانصافی کو دیکھ سکتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے بہترین ارادوں اور برتاؤ کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہودی وجود ایسی قوم نہیں ہے جو معاہدوں اور وعدوں کا احترام کریں۔ مغربی حکومتیں وہ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ میں یہودی وجود کی حمایت کر رہی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھنے والی افواج کی راہ میں مسلمانوں کے حکمران ہی واحد رکاوٹ ہیں۔ اب آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ امت اور اس کی افواج کو مسلمانوں کے حکمرانوں کو لازمی ہٹانا ہو گا۔ تبھی امت مسلمہ اپنے دشمنوں کو اپنی سرزمین سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لہٰذا امت کو چاہئے کہ وہ اپنی افواج سے مطالبہ کرے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو اپنی نصرہ فراہم کریں۔ آئیں اور غزہ کی تباہی کے اس سانحے کو ، 1924ء بمطابق 1342 ہجری میں ہونے والے خلافت کے انہدام کے بعد کا آخری باب بنا دیں۔
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان