الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

امریکہ کے علاقائی منصوبوں کے تناظر میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

 

 

ایرانی صدر 22 اپریل 2024 کو پاکستان آئے تاکہ جنوری میں مشترکہ سرحد پر دونوں جانب سے ہونے والے حملوں کے بعد بگڑے ہوئے تعلقات کو ٹھیک کیا جا سکے۔ جہاں تک اس دورے کی اہمیت کا تعلق ہے، تو ایرانی صدر ایران کے حکمران ڈھانچے میں سپریم لیڈر کے بعد دوسرے اہم ترین حکمران ہیں۔ ایرانی صدر خارجہ تعلقات میں ایک اہم شخصیت ہیں جیسا کہ خاص طور پر صدر رفسنجانی کے دور میں دیکھا گیا تھا۔ چنانچہ 24 اپریل 2024 کے مشترکہ اعلامیہ کی ایک اہمیت ہے۔

 

اس دورے کے تین اہم مقاصد ہیں؛ مستحکم مشترکہ سرحد، تجارت میں اضافہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات۔

 

ایک مستحکم مشترکہ سرحد کے حوالے سے، ایرانی صدر نے 22 اپریل 2024 کو پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کی۔ ملٹری میڈیا ونگ نے کہا، " چیف آف آرمی سٹاف نے پاک ایران سرحد کو'امن اور دوستی کی سرحد' قرار دیا۔" [1] اس بات سے قطع نظر کہ جنوری میں ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے مقامی اور علاقائی اداکاروں کے کیا محرکات اور جواز تھے ، ان چھڑپوں سے امریکی خارجہ پالیسی نے فائدہ اٹھایا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی فوج ، ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر مصروف رہے، تاکہ بھارت کو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اپنی سرحدوں پر کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو اور وہ مطمئن رہے۔ اس طرح امریکی پالیسی بھارت کو پاکستان کے ساتھ اپنی روایتی دشمنی اور پریشانی سے آزاد کرتی ہے، تاکہ وہ چین کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔

 

دوطرفہ اقتصادی تجارت کو بڑھانے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی، جس پر امریکی محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ میں بات کی گئی ۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے 23 اپریل 2024 کو اس حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا کہ، "پاکستان اور ایران نے آٹھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے اور دو طرفہ تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر بھی اتفاق کیا۔" اِس پر اُس نے جواب دیا، "ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی شخص کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔" [2] امریکی پالیسی ایران کے ساتھ پاکستانی تجارت میں اضافے کو اس حد تک برداشت کرتی ہے جو پابندیوں کو متحرک کرنے کا باعث نہ بنیں۔ واشنگٹن میں اس بات کو پسند کیا جاتا ہے کہ پاکستان چین کے مقابلے میں ایران کے ساتھ اقتصادی روابط کو ترجیح دے۔ امریکہ درحقیقت پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی موجودہ سطح کے بارے میں بے چین ہے، بشمول بلوچستان میں گوادر کی گہرے سمندری بندرگاہ کے، جس کی سرحد ایران سے ملتی ہے۔

 

بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایران اور پاکستان کا مشترکہ بیان جو 24 اپریل 2024 کو جاری کیا گیا تھا، اُس پربھارت میں کچھ تشویش پیدا ہوئی تھی ۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ،"دونوں فریقوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو اجاگر کیا۔" [3] اگلے دن، 25 اپریل 2024 کو، ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ "ان کے مشترکہ بیان میں کشمیر کے ذکر پر ہندوستان کا ردعمل کیا ہے؟" ترجمان نے جواب دیا کہ ہم نے یہ معاملہ ایرانی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔ [4] پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی دشمنی اور لفظی جنگ کے نیچے ایسے معاملات ہیں جو قابل توجہ ہیں۔

 

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اسے اگست 2019 میں پہلے ہی بھارت کے حوالے کر دیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی جہاد کو "خیانت" قرار دے دیا تھا۔ بھارت کے حوالے سے، بھارت پہلے ہی ایران کے ساتھ اہم اقتصادی تجارت میں مصروف ہے، جس میں چابہار گہری سمندری بندرگاہ میں خاطر خواہ بھارتی سرمایہ کاری بھی شامل ہے، جو گوادر گہرے سمندری بندرگاہ میں چینی سرمایہ کاری کا حریف منصوبہ ہے۔ امریکہ چین کے خلاف ہندوستانی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھی اقتصادیات کو معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔

 

اے ایران اور پاکستان کے اہل قوت میں موجودمسلمانو!

ان دو طاقتور مسلم ریاستوں، پاکستان اور ایران کی حالت افسوسناک ہے۔ ان کی سرحدوں پر کشیدگی ہے،ان کے درمیان تجارت انتہائی محدود ہے ، مسلم مقبوضہ زمینیں کفار کے حوالے کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خطے میں وسیع تر امریکی مفادات کی خدمت کرتے ہیں ۔ عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ آپ تمام قوم پرست اور فرقہ وارانہ رجحانات کو ترک کر دیں، جس کا فائدہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اٹھاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے کام کریں۔ یہ خلافت ہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان قومی ریاست کی سرحدوں کو ختم کر دے گی، جو کہ تقسیم اور تصادم کا سبب ہیں۔ یہ خلافت ہی ہے جو امت کے عسکری اور معاشی وسائل کو روئے زمین کی واحد طاقتور ترین ریاست میں یکجا کرے گی، جو کشمیر اور فلسطین کو آزاد کرائے گی اور اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا دے گی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ؕ اَتُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ عَلَيۡكُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا

"اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو؟"(النساء،4:144)

 

مصعب عمیر، ولایہ پاکستان

حوالہ جات:

 

[1] https://www.ispr.gov.pk/press-release-detail?id=6821

[2] https://www.state.gov/briefings/department-press-briefing-april-23-2024/

[3] https://mofa.gov.pk/press-releases/joint-statement-between-islamic-republic-of-pakistan-and-islamic-republic-of-iran-at-the-culmination-of-the-visit-by-the-president-of-iran

[4]https://www.mea.gov.in/media-briefings.htm?dtl/37786/Transcript+of+Weekly+Media+Briefing+by+the+Official+Spokesperson+April+25+2024

Last modified onہفتہ, 29 جون 2024 06:41

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک