بسم الله الرحمن الرحيم
امریکی قیادت اور نگرانی میں:
ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود عالم اسلام کو تباہ کرنے کے لیے یکجا ہیں
خبر:
ایک حساس دستاویز، جسے اسرائیلی دفاعی فورس ((IDF کے حملوں کے منصوبوں کا تجزیہ سمجھا جا رہا ہے، اس دستاویز کے منظر عام پر آنے نے تہران کے میزائل حملے کے ردعمل کے حوالے سے دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے... اس لیک سے انکشاف ہوا کہ اسرائیل نے تقریباً 200 ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے حملے سے پہلے ہی ان کا جواب دینے کے لیے تفصیلی منصوبے بنا رکھے تھے۔ یہ وہ ایرانی میزائل حملے ہیں جو رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں ایران کے پراکسی گروپس پر حملوں کے ردعمل میں فائر کیے گئے تھے۔ یہ انتہائی خفیہ دستاویز گزشتہ جمعہ کو ایک پرو-ایرانی ٹیلیگرام چینل پر شائع ہوئی اور بظاہر یہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے ممکنہ ردعمل کا تجزیہ تھا، جو سیٹلائٹ تصاویر اور دیگر انٹیلی جنس معلومات پر مبنی تھی۔ اپریل میں، اسرائیل نے ایرانی بیلسٹک میزائلوں، کروز میزائلوں اور ڈرونز کے ایک حملے کے جواب میں ایران کے وسطی علاقے اصفہان کے باہر ایک ریڈار اسٹیشن کو تباہ کر دیا تھا۔ امریکہ کی دستاویز میں ذکر کیے گئے ہتھیاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اسی طرح کا ایک اور حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ "روکس" ایک طویل فاصلے تک فضا سے زمین پر فائر کیا جانے والا میزائل ہے جو ایف-16 یا ایف-35 لڑاکا طیاروں سے فائر کیا جا سکتا ہے اور یہ اسرائیلی دفاعی کمپنی رافیل نے تیار کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق "گولڈن ہورائزن" ممکنہ طور پر "بلیو اسپارو" کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو کہ ایک فضا سے فائر کیا جانے والا بیلسٹک میزائل ہے جس کی حد تقریباً 1200 میل ہے۔ [ٹائمز]
تبصرہ:
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھ یہودی وجود کے لیے غزہ اور لبنان میں کیے جانے والے قتل عام کی کوئی حد نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں اتنی شدید نفرت اور انتقام بھرا ہوا ہے کہ انہیں غزہ میں بہنے والے خون کی ندیاں بھی تسکین نہ دے سکیں، اور اس کے بعد لبنان میں خون کا بہنا بھی جاری رہا۔ یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا جو مختلف حلقوں کی جانب سے طویل عرصے سے پوچھا جا رہا ہے کہ "غزہ کے بعد کا دن" کیا ہو گا، یعنی جب یہ معاملہ رک جائے گا تو اس علاقے کے معاملات کو کیسے چلایا جائے گا۔ یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ امریکی انتظامیہ، جو غزہ میں جرائم کی پشت پناہ ہے، اس کے پاس کوئی سیاسی منصوبہ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ لبنان میں قتل عام کو "غزہ کے بعد کا دن" کے جواب کے طور پر اپنایا جائے۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ امریکہ اور اس کا حامی یہودی وجود کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ مزید قتل، مزید خونریزی، تذلیل اور محکومیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمت عملی "تخلیقی انارکی" کی پالیسی سے ہم آہنگ ہے، جسے امریکی نو قدامت پسند (neoconservative) کے کیمپ نے اپنایا ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس انتشار سے ایک ایسا نظام ابھرے گا جو انہیں مطمئن کرے گا اور ان کے مفادات کی حفاظت کرے گا۔
امریکہ کی جانب سے ایران اور یہودی وجود کے درمیان جاری نمائشی حملوں کی منظم ترتیب کا مقصد یہ ہے کہ یہودی وجود کو غزہ اور لبنان میں باقی مزاحمتی قوتوں کو ختم کرنے کے لیے مزید وقت ملے۔ اس کے علاوہ، اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں ایران کو داخل کرنا ہے، اور اسے یہودی وجود کے ساتھ مل کر اس خطے کا انتظام ایسی صورت میں چلانا ہے جس سے صرف امریکہ کے مفادات پورے ہوں۔ امریکہ کی جانب سے یہودی وجود کو کھلی چھوٹ دینا، جو کہ ایران میں حماس کے رہنما کے قتل کے ایک ماہ بعد سامنے آیا، صرف اسی مقصد کے تحت ہے۔ یہ وہی رعایتیں ہیں جو امریکہ نے ماضی میں یہودی وجود کو دی تھیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔ امریکہ اور یہودی وجود کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایسی نفرت اور بغض ہے جو انہیں اندھا کر چکی ہے۔انہوں نے معاملہ کو سمجھداری سے سنبھالنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔ میں یہ بات کسی دنیاوی ذہانت کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا، بلکہ یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ ﴾
"یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، پس انہیں بہرا اور اندھا کر دیا" (سورۃ محمد،47:23)۔
یہ ہے تین بیلوں - امریکہ، ایران کی صفوی حکومت، اور یہودی وجود - کا فساد اور ان کی سازشیں، جو امت کے دل یعنی شام میں کی جا رہی ہیں۔ امت کو ان کے خلاف ہنگامی حالت کا اعلان کر دینا چاہیے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ مجرم اپنے ہر میدان میں، فوجی، سیاسی اور نظریاتی لحاظ سے، مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ صرف ایک خلافت راشدہ کا خلیفہ ہی یہودی وجود کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرے گا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ کے ساتھ کیا تھا۔ صرف ایک خلافت راشدہ کا خلیفہ ہی امریکہ کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کرے گا جیسے خلافت عثمانیہ نے کیا تھا، جب اس نے امریکہ کو شکست دی، اس کے بحری بیڑے کو سمندر میں غرق کیا اور اسے جزیہ ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور صرف خلافت راشدہ کا خلیفہ ہی ایران کے صفوی حکمرانوں کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرے گا جیسے سلطان سلیم یاووز نے کیا تھا، جنہوں نے صفوی سلطنت کو شکست دی، اور سلطان سلیمان عظیم نے ایران کو اسلامی ریاست میں شامل کیا۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے ولایہ پاکستان سے بلال المہاجر کی تحریر