بسم الله الرحمن الرحيم
بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
(عربی سے ترجمہ)
الواعی میگزین- شمارہ 458-459
39 واں سال
ربیع الاول - ربیع الآخر 1446ھ
بمطابق اکتوبر - نومبر 2024ء
موجودہ جنگ کی وجہ سے 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ کے قریب زخمی ہوئے اور ہزاروں بچوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ کچھ بچوں کی موجودگی کی اطلاعات قابض فوجیوں کے ساتھ پائی گئی، جس کا اعتراف ایک ”اسرائیلی“ فوجی نے کیا تھا جو کہ بعد میں خان یونس کے علاقے میں ہلاک ہو گیا۔ اس نے اپنے دوست کو بتایا کہ اس نے غزہ کی پٹی سے ایک فلسطینی معصوم بچے کو اغوا کیا تھا۔ ”سیو دی چلڈرن“ نامی ایک NGO کی جانب سے ”غزہ میں گمشدہ بچے“ کے عنوان سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ”اسرائیلی“ جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں 21ہزار بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں اغوا اور جبری حراست کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ”اسرائیلی“ قبضے کی جانب سے معصوم بچوں کا قتل کرنے، اغوا کرنے، انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور یہاں تک کہ ان پر طبی تجربات کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، خواہ وہ بچے ان کی طرح یہودی ہی کیوں نہ ہوں۔
دسمبر 2016 ء کے آخر میں عوام اور میڈیا کی جانب سے قابض حکومت پر دباؤ ڈالنے کے بعد ”اسرائیلی“ ریکارڈ خانہ نے ”اسرائیل“ میں یمنی بچوں کی گمشدگی کے معاملے سے متعلق 210,000 دستاویزات پر مشتمل 3500 فائلیں جاری کیں جبکہ ان بچوں کے اہل خانہ کو اب تک ان کے مقدر کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ اگرچہ مقبوضہ علاقوں میں ان بچوں کی آمد کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان دستاویزات میں متعدد سرکاری عہدیداروں کے درمیان الزامات کا تبادلہ اور ذمہ داری سے جان چھڑانا بھی شامل تھا اور جن یہودیوں کی اولاد نہیں تھی، ان کے لیے یمن سے آنے والے بچوں کے منظم اغوا کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اسرائیلی خبر رساں ادارے، وائی نیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹروں اور سماجی امور کی نگرانی میں یمنی بچوں کو علاج کے بہانے ان کی ماؤں سے الگ کیا جاتا تھا اور پھر یہودی اور امریکی خاندانوں کو ان بچوں کو گود لینے کے لئے پیش کیا جاتا تھا۔ 'اسرائیل ہیوم' اخبار کے مطابق ان میں سے کچھ بچوں کو منشیات پر تجربات کرنے کے لیے نمونوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ یمنی بچے، یہودی اشکنازی بچوں، مغربی بچوں اور یورپی یہودیوں کے مقابلے میں 'کم قیمتی' تھے۔ دوران تفتیش، بچوں کے اغوا کرنے میں ایک یہودی راہب کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
”چھ متصل ناموں کا استعمال کرتے ہوئے جن کی تشریح صرف وہی کر سکتے ہیں“، بیمار شہری بچوں کے ”کھو جانے“ کا جواز اکثر یمنیوں کے جامع نام سمجھنے میں دشواری سے جوڑ دیا جاتا تھا، اور ہیلتھ ورکرز کی طرف سے ان ناموں کو پڑھنے یا انہیں بیان کرنے میں دشواری سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ یمنی بچوں کے ساتھ اس قدر اچھا سلوک کیا گیا تھا کہ جس کی وجہ سے ان کے اپنے والدین جب بچوں کو لینے آئے تو وہ اپنے ہی بچوں کو نہ پہچان سکے تھے۔ ایسے بھی کئی لوگ ہیں جنہوں نے انکشاف کیا کہ ”سفید فام اشکنازی یہودیوں نے یمنی بچوں کی موت کا دعویٰ کیا، لیکن درحقیقت وہ ان بچوں کو اغوا کر رہے تھے کیونکہ ان کی اپنی اولادیں نہیں تھیں“۔
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا کہ ایتانیم کے نفسیاتی ہسپتال نے بہت سے شیر خوار بچے وصول کیے اور دعویٰ کیا کہ ان معصوم بچوں کو دماغی امراض لاحق ہیں، اور ان بچوں کو اگلے کئی برسوں تک علاج کے مراحل میں رکھا، جہاں ان پر تجربات کیے جاتے رہے تھے۔ یہ وقوعات 1950ء کی دہائی کے دوران ہوئے، جب نئے یہودیوں کی آمد ہوئی تو کیمپوں سے ایک ہزار سے زائد یمنی اور بلقان بچے اچانک غائب ہو گئے تھے۔
الواعی :
تو یہ ہے ”اسرائیل“، ایک پیچیدہ اور ملوث شدہ آفت، وہ ایسے لوگ ہیں جو رسوا ہوئے اور غضب کا نشانہ بنے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے خلاف ایسے لوگ بھیجے جنہوں نے ان کے چہروں کو خاک آلود کیا تاکہ وہ قیامت کے دن تک ذلیل وخوار ہوں کیونکہ ان کی خصلتیں ہی اسی قابل ہیں .... وہ تو انسانیت کے ہی دشمن ہیں۔ اسی لئے وہ تمام اقوام کی طرف سے عذاب اور جلاوطنی کا بھی شکار ہوئے اور ان کا انجام اور انسانیت کو ان سے نجات بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں ہوگی اور یہ اللہ عزوجل کی طرف سے ایک پکا وعدہ ہے۔