بسم الله الرحمن الرحيم
امت مسلمہ اور اس کی افواج میں موجود طاقت اور قوت کے حامل افراد کو دلسوز صدا
(عربی سے ترجمہ)
https://www.al-waie.org/archives/article/19462
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 456
انتالیسواں سال، محرم الحرام 1446ھ، بمطابق اگست 2024ء
فلسطین کی بابرکت سرزمین سے یوسف ابو اسلام
غزہ کی سرزمین پر مسلمانوں کا لہو ہے کہ مسلسل بہتا جا رہا ہے۔ مدد کی پکار کے ساتھ مردوں، عورتوں اور بچوں کے حلق سے دُہائیاں دیتی صدائیں مسلسل کانوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس قدر تباہی، یہ کٹے پھٹے لاشے اور کان پھاڑتی ہوئی یہ چیخیں ثابت قدم پہاڑوں کو بھی ہلانے کے لیے کافی ہیں۔ تو پھر آخر اب تک انہوں نے امت کی افواج، اور اس کے زندہ دل دستوں کو وہاں کیوں نہیں بھیجا حالانکہ یہ ہولناک بربریت و قتلِ عام گزشتہ دس ماہ سے جاری ہے؟
اے اہلِ قوت اور طاقت !
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو امت کی ڈھال، اس کی قوت اور اس کی حفاظتی دیوار بنا کر آزمایا ہے۔ تو پھر آخر آپ کیوں بُت بنے بیٹھے ہیں اور غزہ میں اپنے لوگوں کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہو، جبکہ آپ دیکھ بھی رہے ہیں کہ چند مٹھی بھر یہود بِلا کسی خوف و خطر ان پر ظلم ڈھا رہے ہیں؟! اگر آپ فیصلہ کن کارروائی کریں اور ان کی چھاؤنیوں پر دھاوا بول دیں تو وہ آپ کے سامنے ایک گھنٹہ بھی نہیں ٹھہر سکیں گیں۔ آپ نے 7 اکتوبر کا دن تو دیکھا ہی تھا کہ کس طرح مؤمنوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے اپنے نہایت سادہ سے اسلحے کے ساتھ یہود کے قلعوں پر پیش قدمی کی تو جس شجاعت و دلیری کا مظاہرہ ان یہود نے آپ کے بھائیوں میں دیکھا تو وہ دہشت زدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے پرندوں کی مانند ان کے سامنے سے رفو چکر ہو گئے۔
تو ذرا سوچیں کہ اس وقت ان کی صورتحال کیا ہوگی کہ اگر آپ کے بھائیوں کے ہمراہ ان کے اطراف ممالک کی افواج بھی کھڑی ہوں؟ تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ غزہ کی سرحدوں پر ہی رک جائیں گے، یا وہ القدس کی طرف مارچ کرتے رہیں گے تاکہ برسوں سے القدس کو تنہا چھوڑ دئیے جانے کی شرمندگی کو دھو سکیں؟!!
اے اہلِ قوت اور طاقت !
آخر آپ کے احساسات و جذبات میں بھونچال کیوں نہیں آ جاتا، جب آپ کٹی پھٹی اور جلی ہوئی مسخ لاشوں کو اور مر جانے والوں کے تقدس کا احترام کئے بغیر قابض وجود کے بلڈوزروں کو اپنے بھائیوں کی لاشوں کو ایسے گھسیٹتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی کوڑے کا ڈھیر ہوں ؟!!
آخر آپ کے جذبات کیوں نہیں بھڑکتے، جب آپ عورتوں کی چیخ و پکار اور مدد کے لئے ان کی فریادیں سنتے ہیں؟! کیا آپ نہیں چاہتے کہ تاریخ آپ کو اسی طرح یاد رکھے جس طرح وہ معتصم، صلاح الدین، قطز اور بیبرس کو یاد کرتی ہے؟
اے اہلِ قوت اور طاقت !
کیا آپ کو اس بات سے بھی کوئی ڈر نہیں لگتا کہ آپ کا رب آپ سے غزہ میں اپنے لوگوں کو تنہا چھوڑ دینے کے بارے میں سے سوال کرے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
»ما من امرئ يخذل امرءًا مسلمًا في موطن يُنتقص فيه من عرضه وينتهك فيه من حرمته، إلا خذله الله تعالى في موطن يحب فيه نصرته، وما من أحد ينصر مسلمًا في موطن ينتقص فيه من عرضه وينتهك فيه من حرمته، إلا نصره الله في موطن يحب فيه نصرته «
’’جب کوئی مسلمان ایسے موقع پر کسی دوسرے مسلمان بھائی کا ساتھ چھوڑ دے جب اس کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہواور اس کی عزت پر انگشت نمائی کی جا رہی ہو تو اللہ بھی ایسے موقع پر اس شخص کی مدد نہیں کرے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اسے اللہ کی مدد حاصل ہو اور جب کوئی مسلمان ایسے موقع پر دوسرے مسلمان کی مدد کرے جہاں اس کی عزت پر الزام لگایا جا رہا ہو اور اس کی بےحرمتی ہو رہی ہو تو اللہ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد کرے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اسے اللہ کی مدد حاصل ہو‘‘۔ (احمد)
کل تمہارے پاس کیا عذر ہو گا جب تمہارا رب تم سے بے کار بیٹھے رہنے اور ان مسلمانوں کی مدد کرنے میں سستی کے بارے میں پوچھے گا ؟!! کیا تم یہ کہو گے کہ "حکمرانوں کے احکامات نے ہمیں روکے رکھا تھا"؟ کیا تم نے اپنے رب کی کتاب میں سرداروں اور اُن کے پیروکاروں کی حالت کے بارے میں اور گمراہ حکمرانوں کے احکامات کی تعمیل کرنے والوں کی حالت کے بارے میں نہیں پڑھا جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقَالُواْ رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَأَضَلُّونَا ٱلسَّبِيلَا۠۔ رَبَّنَآ ءَاتِهِمۡ ضِعۡفَيۡنِ مِنَ ٱلۡعَذَابِ وَٱلۡعَنۡهُمۡ لَعۡنٗا كَبِيرٗا﴾
’’اور وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو رستے سے گمراہ کردیا۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر‘‘ (سورة الأحزاب؛ 33:67،68)۔
کیا تم نے اپنے رب کی کتاب میں نہیں پڑھا جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے اہلِ قوت اور طاقت !
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے کہ آپ اپنے بھائیوں کو یونہی بے یارومددگار چھوڑ دیں جبکہ آپ انہیں دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ آپ کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ آپ کو رات کو نیند آ کیسے جاتی ہے، اور آپ کیسے اپنے کھانے پینے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جبکہ غزہ میں آپ کے بھائی بھوک کے مارے بلک رہے ہیں، کوئی ان میں روٹی کے ایک لقمے کو اور کوئی پانی کی ایک گھونٹ کو ترس رہا ہے ؟!!
کیا آپ نے سعید بن امیرؓ کا واقعہ نہیں سنا، جب انہوں نے مکہ میں خبیب ابن عدی کو قتل کئے جانے کا واقعہ دیکھا، جس دن مکہ کے کفار نے بدر میں اپنے لوگوں کے مارے جانے کے انتقام میں خبیب کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سولی پر چڑھا دیا تھا ؟ سعید بن امیرؓ اس موقع پر موجود تھے اور اس وقت وہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں اسلام کے نور سے منور کیا تو جب بھی وہ خبیب بن عدی کے سولی چڑھائے جانے کو یاد کرتے تو وہ غشی سے بے ہوش ہو جاتے جیسے انہیں کوئی دورہ پڑ گیا ہو۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے ان کے بیہوش ہو جانے کے بارے میں پوچھا، (يا سعيد، ما هذا الذي يصيبك؟)’’اے سعید ! یہ آخر تمہیں کیا ہو جاتا ہے؟ ‘‘ تو انہوں نے جواب دیا، (واللهِ يا أمير المؤمنين، ما بي من بأس؛ ولكني كنت فيمن حضر خبيب بن عدي حين قتل، وسمعت دعوته، فواللهِ ما خطرت على قلبي وأنا في مجلس قط إلا غشي عليَّ)’’ واللہ اے امیر المؤمنین، مجھے کوئی مرض نہیں ہے؛ لیکن میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے خبیب ابن عدی کو سولی چڑھتے ہوئے دیکھا تھا، اور میں نے ان کی دعا سنی تھی، اور اللہ کی قسم، جب بھی میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آتا ہے تو مجھے غشی کے دورے پڑ جاتے ہیں‘‘۔
اللہ کی قسم! اے اردن اور مصر کے سپاہیو :
تو آخر آپ کو کیا ہے کہ آپ کو سعید بن امیر کی غشی جیسا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ آپ تو کٹے پھٹے بدن، جلی ہوئی مسخ لاشیں، تباہی و بربادی اور کھنڈرات کو دیکھ رہے ہیں ؟!
خدارا ! کچھ تو جواب دیں : آخر آپ رات کو سو کیسے جاتے ہیں، جبکہ خواتین کی چیخیں کان پھاڑے ڈالتی ہیں، جیسے وہ ان کا ماتم کر رہی ہوں جنہوں نے انہیں یونہی بے یارومددگار چھوڑ رکھا تھا اور ان کی مدد کرنے میں ناکام رہے تھے ؟!
اے مصر، اردن، پاکستان اور الجزائر کی افواج میں موجود اہلِ قوت اور طاقت !
آخر آپ اس دنیا میں کتنا جی لیں گے ؟ زیادہ سے زیادہ سو سال، یا کم یا پھر چند ہی دن زائد ؟ اور پھر اس جی لینے کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟ کیا آپ کو مرنا نہیں ہے اور دفن نہیں کئے جاؤ گے اور کیا دو فرشتے (منکر و نکیر) آپ کے پاس نہ آئیں گے اور تم سے سوال نہ کریں گے، تو آپ کیا جواب دے پائیں گے ؟ کون ہو گا جو آپ کے لئے کوئی جواب دے سکے ؟ کون آپ کو بچا سکے گا ؟ کیا تمہارے یہ تمغے ؟ یا تمہارے یہ لیڈر جن کی تم اپنے رب سبحانہ وتعالیٰ سے بھی بڑھ کر اطاعت کرتے ہو ؟
اور پھر جب قبر کی اتھاہ گہرائیوں میں تمہیں یاد آئے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے، تو تمہیں اپنی ناکامی ونامرادی یاد آئے گی کہ تم نے الرباط کی سرزمین میں مظلوموں کی مدد کیوں نہ کی۔ تب تم پچھتاؤ گے جبکہ تمہارا پچھتاوا تمہارے کسی کام نہ آئے گا، تو آخر آج آپ اپنے آپ کو اس ندامت و پچھتاوے سے کیوں نہیں بچا لیتے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ؟
کیا آپ کو نہیں معلوم اور کیا آپ اس پر ایمان نہیں رکھتے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ؟ کیا آپ کا ایمان نہیں کہ ہر ذی روح کو اپنے مقررہ وقت پر موت کا مزہ چکھنا ہے ؟ تو کیوں نہ آپ شہداء کے سردار، حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوں ؟ کیوں نہ آگے بڑھیں اور انہیں نصرۃ دیں جو خلافت کی واپسی کے لئے کام کر رہے ہیں تا کہ آپ ان دو سعدؓ کی طرح ہوں، سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ ؟
امت کی افواج میں موجود اے اہلِ قوت اور طاقت !
آپ کو یقیناً یہ بات بخوبی طور پر معلوم ہو گی کہ آنے والا مستقبل اس دین کا ہی ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں، اور اللہ ان لوگوں کو بدل دے گا جنہوں نے اس دین کی مدد کرنے سے منہ موڑ لیا، جیسا کہ اللہ عزو جل نے فرمایا،
﴿وَإِن تَتَوَلَّوۡاْ يَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ ثُمَّ لَا يَكُونُوٓاْ أَمۡثَٰلَكُم﴾
’’اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے‘‘ ( سورۃ محمد؛ 47:38)۔
تو پھر آپ اس عظیم مرتبہ کی طرف کیوں نہیں لپکتے، کہ اپنے رب کے دین کی مدد کریں تا کہ آپ اس دین کے نئے انصار بن سکیں جیسا کہ اوس و خزرج کے انصار تھے ؟ ! ... یہ آپ کے لئے موقع ہے، جو شاید دوبارہ نہ آئے تو اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے رب پر توکل رکھیں۔ آپ کی اجل، زندگی اور رزق کا معاملہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔ پس اپنے حکمرانوں سے مت ڈریں کیونکہ وہ تمہارے معاملات پر کوئی اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔
پس اپنے معاملات طے کرو، اپنے حکمرانوں کا تختہ الٹ دو اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے آگے بڑھو۔ آپ پوری امت کو اپنے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دیکھیں گے۔ جان لیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور مومنین کو فتح دینا چاہتا ہے تو وہ ان لوگوں کو آگے بھیجتا ہے جو اس خیر کی قابلیت رکھتے ہوں، تو آگے بڑھیں اور اس اجر کے قابل لوگوں میں سے ہو جائیں۔
سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے، (لما أراد الله سبحانه إظهار دينه وإعزاز نبيِّه وإنجاز وعده له، خرج رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم في موسم الحَجِّ، فعرض نفسَه على قبائل العرب كما كان يصنع في كلِّ موسمٍ، فبينما هو عند العقبة ساق اللهُ له نفرًا من الخزرَجِ أراد الله بهم خيرًا، فكانوا طلائع هذا النور الذي أبى اللهُ إلا أن يكون من المدينة)’’جب اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا ارادہ کیا، اس نے اپنے رسول ﷺ کو اعزاز بخشا اور ان سے کیا اپنا وعدہ پورا کر دیا، رسول اللہ ﷺ حج کے موسم میں گئے اور عرب قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا جیسا کہ وہ ہر سال حج کے موسم میں کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب عقبہ کے موقع پر گئے تو اللہ نے خزرج سے آئے ہوئے ایک گروہ سے انہیں ملا دیا جن کے لئے اللہ نے خیر کا ارادہ کیا تھا، اور وہ اس نور کو قبول کرنے والے اولین لوگ تھے، جن کے لئے اللہ نے لکھ دیا تھا کہ وہ مدینہ سے ہوں‘‘۔ تو کیوں نہ آپ بھی اس نور کے محافظ بنیں ؟ !
آخر میں ہم آپ کو اپنے رب ذو الجلال کے قرآن کریم سے اس کلام کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں،
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيكُمۡۖ … ﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب وہ تمہیں اس طرف بلائیں جو تمہیں زندگی جاوداں بخشتا ہے‘‘ (الانفال؛ 8:24)
میں اللہ عزوجل سے دعاگو ہوں کہ وہ اس پکار کے لئے آپ کے دلوں کو کھول دے، اپنے دین کی مدد کرنے کے لئے آپ کے دلوں کو موڑ دے اور اس خلافت کی بحالی کے کارِخیر کے لئے آپ لوگوں کو استعمال کرے، جس خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے، اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔