بسم الله الرحمن الرحيم
عرب اور مغربی وزرائے خارجہ کی ریاض کانفرنس کا مقصد
شام پر قابو پانا اور اسے بوسیدہ عرب نظام میں ضم کرنا ہے۔
(ترجمہ)
تحریر: ابو حمزہ الخطوانی
بروز اتوار 12/01/2025 کو ریاض میں منعقدہ عرب-بین الاقوامی اجلاس کے اختتامی بیان میں کہا گیا ہے: "اجلاس کے دوران، برادر شامی عوام کی حمایت کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا اور یہ کہ تاریخ کے اس اہم مرحلے میں ان کو ہر طرح کی مدد اور حمایت فراہم کی جائے، اور ایک متحد، آزاد عرب ریاست کے طور پر شام کی تعمیر نو میں ان کی مدد کی جائے، جہاں اس کے تمام شہریوں کے لیے ایک محفوظ مقام ہو، جہاں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو، اور نہ ہی اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی یا کسی بھی فریق کی طرف سے اس کی علاقائی سالمیت پر کوئی حملہ ہو۔"
اس اجلاس میں، جس کی دعوت سعودی عرب نے دی تھی، مغربی استعماری ممالک نے شرکت کی اور اس میں شامی وزیر خارجہ اسعد حسن الشیبانی کے ساتھ ساتھ امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، اسپین، ترکی، مصر، عراق، اردن، کویت، لبنان، شام، عمان، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، عرب لیگ، یورپی یونین، خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل اور شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے شرکت کی۔ یہ اجلاس گزشتہ ماہ بشار الاسد کے زوال کے بعد شام کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ "یہ اجلاس شام کی حمایت کے لیے کوششوں کو مربوط کرنے اور اس پر سے پابندیاں ہٹانے کے لیے منعقد کیا گیا ہے"۔ انہوں نے شام پر پابندیوں سے متعلق چھوٹ کے بارے میں امریکہ کی جانب سے عمومی رخصت جاری کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر عائد یکطرفہ اور بین الاقوامی پابندیاں ہٹائیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے "شامی انتظامیہ کی جانب سے ریاستی اداروں کو برقرار رکھنے، شامی گروہوں کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے، دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم اور شامی عوام کے مختلف اجزاء کو شامل کرنے والے ایک سیاسی عمل کے آغاز کے لیے اٹھائے گئے مثبت اقدامات کو بھی سراہا، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ شام کا مستحکم ہو، اس کی علاقائی سالمیت کی حفاظت ہو، اور شام خطے کے ممالک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ نہ ہو"، جس کا مطلب ہے کہ ریاست کے اداروں کی واپسی کے لیے واضح اقدامات کرنا، یعنی ایک سیکولر ریاست جو اسلام سے لڑے اور سائیکس-پیکو کی حدود کی پابند رہے۔
یہ کانفرنس، جو سعودی عرب میں عرب اور مغرب کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہے اور خاص طور پر شام کے لیے ہے، اس بات پر زور دینے کے لیے ترتیب دی گئی ہے کہ خطے میں کوئی بھی نئی حکومت ان بین الاقوامی اور علاقائی معیارات کے تابع ہونی چاہیے جنہیں مغربی استعمار نے وضع کیا ہے، اور جن کو مشرق وسطیٰ میں آنے والی کسی بھی نئی حکومت پر لاگو یونا چاہیے، اور ان میں سرفہرست دہشت گردی کے پردے کے پیچھے چھپ کر اسلام کا مقابلہ کرنا اور حکومت میں مختلف اجزاء کو شامل کرنا ہے تاکہ ریاست میں فیصلہ سازی کی مرکزیت کو کمزور کیا جا سکے، اور اس کا حقیقی مقصد اس کو عذر بنا کر اسلام نافذ ہونے سے مکمل طور دور کرنا اور اس کے احکام کو نظر انداز کرنا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور اسپین اس کانفرنس میں شامی ریاست کے مستقبل کے سیاسی، اقتصادی اور قانون سازی کے رخ کے رہنما اور فیصلہ کن ارکان تھے۔ مثال کے طور پر، جرمنی، جو سب سے بڑا یورپی فینانسر ہے، نے سمارٹ پابندیاں عائد کرنے کی فکر پیش کی جو نئی حکومت کو حکمرانی میں مغربی معیارات کی پاسداری کرنے پر مجبور کریں گی جبکہ امریکہ نے نئی حکومت کے رہنماؤں کی جانب سے قول و عمل کی ہم آہنگی پر شام پر سے کچھ پابندیاں ہٹا دی تھیں۔ فرانس آئین کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال کر نئے شام میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور برطانیہ شام کے اندر اپنے وفادار لوگوں کو شامل رکھنے کی شرط لگا رہا ہے جن کے ذریعے وہ امریکہ کے ساتھ سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے دراندازی کر رہا ہے۔ اٹلی اور سپین بحیرہ روم میں شام کے ساتھ واقع دو ممالک کے طور پر شام میں اپنے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں۔
اور اسی طرح ایسی کانفرنسوں میں ممالک کو مطیع کیا جاتا ہے اور انہیں مغربی سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، چنانچہ شام میں نئی سیاسی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس اس نظام کے تابع اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے لیے جائز حدود اور ممنوعہ لکیریں طے کی جاتی ہیں، جبکہ عرب وزرائے خارجہ اس فاسد، بوسیدہ عرب تنظیم جسے عرب لیگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے ذریعے حکومت کو تسلیم کروانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جو ان تمام حکومتوں کو اہل بناتا ہے جن کی اہلیت پر مغربی استعماری کافر ممالک متفق ہوتے ہیں۔ شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے کے اقدامات کے لیے عرب لیگ کا ایک وفد دمشق بھیج کر اس کو تسلیم کروانے کے عملی اقدامات شروع کیے جا چکے ہیں۔
یہ بوسیدہ عرب ممالک جو آج شام میں احمد الشرع کی حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں، وہی ہیں جنہوں نے کل اس کے پیشرو مجرم بشار الاسد کے نظام کو تسلیم کیا ہوا تھا۔ یہ ممالک غلام ہیں، ان کے پاس نہ تو سیاسی مرضی ہے، اور نہ ہی سیاسی آزادی ہے بلکہ وہ صرف اپنے کافر آقاؤں کی طرف سے آنے والی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔
یہ وہی ہیں جو کل شام کے انقلاب کے خلاف تھے اور مجرم بشار کے اتحادی تھے، اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس نئی حکومت کے ساتھ اس کو تسلیم کروانے کے لیے کھڑے ہیں اور اسے اس ناکام سرکاری عرب نظام کے معیار کے تابع کر رہے ہیں جسے مغربی ممالک نے بہت سوچ سمجھ کر بنایا ہے۔
کانفرنس میں مغربی ممالک کی شرکت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ عرب ممالک اس علاقے کو مغرب کے براہ راست اثر و رسوخ کا علاقہ سمجھتے ہیں، اور یہ کہ یہ علاقہ سیاسی طور پر مغرب کے مکمل تابع ہے۔ اگر کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام غیر ملکی وزراء مغرب سے تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خطے میں حقیقی اثر و رسوخ کے حامل ہیں، ورنہ مثال کے طور پر روس یا چین اس میں کیوں غیر حاضر تھے، اور انہیں کانفرنس میں کیوں نہیں بلایا گیا؟
خطے میں قائم ہونے والی کسی بھی نئی حکومت کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک، کافر مغرب یا اس کے خبیث استعماری ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر بھروسہ کرنا ہے، یا سعودی عرب، اردن، خلیجی ممالک اور مصر جیسے اس کے ایجنٹ عرب ممالک پر بھروسہ کرنا ہے، کیونکہ یہ بھروسہ آخرکار اس کی ہلاکت اور اس کے فیصلے کی آزادی میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔