الخميس، 30 رجب 1446| 2025/01/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سیاسی استحصال اور کرد مسئلے کے درمیان اوکلان کا مقدمہ

(ترجمہ)

تحریر: اسد منصور

 

10 جنوری 2025 کو، ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے اتحادی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹیMHP کے رہنما ڈیولٹ باہیلی  Devlet Bahçeli سے اُس کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات چالیس منٹ تک جاری رہی۔ یہ ملاقات ترکی میں علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹیPKK کے بانی عبداللہ اوکلان کی ممکنہ رہائی کے حوالے سے جاری سیاسی بات چیت کے دوران ہوئی ہے۔

 

22 اکتوبر 2024 کو باہیلی نے اوکلان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی رہائی کے بدلے PKK کی تحلیل کا اعلان کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آئیں۔ اردوان نے اس تجویز کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اردوان یہ تجویز اپنے اتحادی پارٹنر باہیلی کی طرف سے لانا چاہتے تھے، جس نے پہلے اوکلان کی پھانسی کی وکالت کی تھی۔ موقف کی یہ تبدیلی قابل ذکر ہے جب ہم باہیلی کے پچھلے موقف کو دیکھتے ہیں، 1998 کے ادانہ معاہدے کے بعد جب وہ Bülent Ecevit  کی حکومت کا حصہ تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں شام نے اوکلان اور اس کی پارٹی کے ارکان کو بے دخل  ، تربیتی کیمپ بند ، اور ترکی میں ان کی دراندازی کو روک دیا تھا۔

اوکلان، جس کے شام میں رہتے ہوئے امریکہ سے تعلقات تھے، 1999 میں کینیا میں پکڑے گئے تھے اور ترک انٹیلی جنس کے حوالے دیے گئے تھے۔

 

پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی HDP کے ایک وفد نے، جو ترکی میں کرد سیاسی جماعت کے طور پر شمار کی جاتی ہے، 29 دسمبر 2024 کو عبداللہ اوکلان سے ملاقات کی۔ اوکلان استنبول کے جنوب میں واقع مرمرہ سمندر کے جزیرے عمرالی میں  25 سال سے قید تنہائی میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔اس وفد کے دورے کا انتظام اردوان کی حکومت نے کیا تھا۔

 

اوکلان سے ملنے کے بعد، وفد نے پارلیمنٹ کے سپیکر نعمان قرتولموس Numan Kurtulmuşسے ملاقات کی، جو اردوان کی حکمراں جماعت کے رکن ہیں، اور ساتھ ہی باہیلی سے ملاقات کی تاکہ انہیں اپنی ملاقات کے نتائج سے آگاہ کیا جا سکے۔ بظاہر اردوان کی باہیلی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا مقصد اوکلان کی رہائی کے فیصلے کو حتمی شکل دینا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاید اوکلان اس تجویز سے تعاون کر رہے ہیں، خاص طور پر جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے اشارہ کیا ہے کہ وفد کی جلد ہی اس سے دوبارہ ملاقات  کا امکان ہے، اور اس طرح ممکنہ طور پر اس کی رہائی کی راہ ہموار  ہو گی۔

یہ پیش رفت ترک حکومت کے کرد مسئلے اور اس مسئلے میں اوکلان کے کردار میں اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ کامیاب ہوا، تو یہ اقدام دیرینہ تناؤ کو حل کرنے میں ایک اہم موڑ  بن سکتا ہے، لیکن یہ اردوان کی انتظامیہ اور باہیلی کے ساتھ اس کے اتحاد کے سیاسی محرکات اور مضمرات کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے۔

 

کردوں کا مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ دکھائی دیتا ہے جتنا کہ امریکہ کے ساتھ منسلک ترک حکمران پیچیدہ سمجھتے ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹیPKKکے ساتھ پچھلے مذاکرات ناکام رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پارٹی کے موجودہ رہنما برطانیہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ رہنما شمالی عراق کے قندیل پہاڑوں میں برزانی خاندان کی حفاظت میں مقیم ہیں جو برطانوی اتحادی ہیں۔ برطانیہ نے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کردوں کے معاملے میں جوڑ توڑ کر کے مسلم کمیونٹیز کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا ہے۔ امریکہ نے اسی طرح کے مقاصد کے لیے اسی استحصالی راستے کی پیروی کی ہے، جس کا مقابلہ خطے میں پراکسیوں اور وفاداروں کے ذریعے خفیہ طور پر جاری ہے۔

 

اگر عبداللہ اوکلان کو رہا اور مسلح جدوجہد ترک کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو اس بات کی بہت کم ضمانت ہے کہ ان کی جماعت اس کی تعمیل کرے گی۔ اگرچہ اس کی اپیل ترکی کے اندر کرد ووٹروں کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن اس سے PKK کے موقف میں نمایاں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، اردوان، اوکلان کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کا ایک موقع دیکھ رہا ہے کیونکہ وہ اپنی سیاسی خواہشات کے لیے کرد ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اردوان آئینی پابندی کے باوجود اپنےدوبارہ انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے جوڑ توڑ کر رہا ہے جو اسے تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے روکتی ہے۔ اردوان کا استدلال ہے کہ ان کی پہلی صدارت (2014–2018) کو مکمل مدت کے طور پر شمار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ 2017 کی آئینی ترمیم سے پہلے تھا جس نے ترکیہ کو پارلیمانی سے صدارتی نظام میں منتقل کیا،  اورصدر کے تحت ایگزیکٹو طاقت کو مستحکم کیا۔

 

28 نومبر 2024 کو، اردوان کے چیف قانونی مشیر، مہمت یوم (Mehmet Uçum)نے کہا کہ اردوان خصوصی پارلیمانی فیصلے کے ذریعے 7 مئی 2028 کے انتخابات میں ایک اور صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔مہمت نے اردوان کی "قومی قدر" پر زور دیا اور اس "غیر معمولی رہنما" کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر زور دیا۔ یہ تبصرہ باہیلی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جو اردوان کیAKP اور باہیلی کی MHP پر مشتمل عوامی اتحاد کے اندر مربوط کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ قانونی تدبیر اردوان کے اقتدار میں رہنے کے ارادے کی نشاندہی کرتی ہے، اس کے باوجود کہ گزشتہ انتخابات کے دوران اُس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں لڑے گا۔

 

اردوان کے وعدوں کو شکوک و شبہات نے گھیر رکھا ہے، جیسا کہ ناقدین نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ 2028 میں اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے اپنی حکمرانی میں توسیع کا کوئی راستہ تلاش کر لے گا۔ اردوان نے اقتدار چھوڑنے میں مسلسل ہچکچاہٹ ظاہر کی ہے، جسے اپنے علاقائی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ امریکی حکمت عملیوں کو نافذ کرنے میں ان کا کردار مختلف ممالک میں واضح ہے، حال ہی میں شام میں، جہاں اس نے امریکی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے ابو محمد الجولانی کی قیادت میں ایک انتظامیہ کے قیام کی حمایت کی۔ مزید برآں، غزہ میں ’اسرائیلی‘ قتل عام پر اردوان کی خاموشی اور ’اسرائیل‘ کو وسائل فراہم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات ان کی دوغلے پن کو ظاہر کرتے ہیں۔ اشتعال انگیز بیان بازی کے باوجود، اردوان نے غزہ پر حملے کے بعد سے سات ماہ سے زائد عرصے تک اسرائیل کو براہ راست سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ ایسے معاملات میں جہاں براہ راست ترسیل سیاسی طور پر حساس ہوتی تھی، دوسرے لوگوں کے ذریعے سامان 'اسرائیل' کو پہنچایا گیا جس میں غیر ملکی کمپنیاں اور فلسطینی اتھارٹی شامل ہیں۔

 

یہ پیش رفت قومی اور علاقائی خدشات پر ذاتی اور غیر ملکی مفادات کو ترجیح دینے کے لیے اردوان کی آمادگی کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ اوکلان کا مسئلہ اسے عارضی سیاسی فوائد کی پیشکش کر سکتا ہے، لیکن ترکی کے استحکام اور علاقائی حرکیات کے لیے وسیع تر مضمرات غیر یقینی ہیں۔ کئی دہائیوں سے بیرونی طاقتوں کے ذریعے جوڑ توڑ کا شکار کرد مسئلہ، قلیل مدتی سیاسی چالوں کے ذریعے حل ہونے کا امکان نہیں ہے، اور اردوان کے اقدامات طویل مدت میں تناؤ کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔

 

کردوں کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک سیاسی معاملہ ہے جس کا استحصال استعماری طاقتیں اپنے علاقائی تنازعات میں کرتی ہیں۔ اردوان، ان کی پارٹی، اور ان کے اتحادی باہیلی جیسی شخصیات کے تجویز کردہ حل بنیادی طور پر قلیل مدتی سیاسی فوائد  کےحصول کے لیے ہیں۔ باہیلی ، جس کی سیاسی بقا اردوان سے جڑی ہوئی ہے، کو اردوان جیسی قسمت کا ہی سامنا ہے۔ ان دونوں کی جماعتوں کو 31 مارچ 2024 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نمایاں نقصان اٹھانا پڑا تھا، جو ان کی پالیسیوں کی حمایت میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

 

کردوں کا مسئلہ اس وقت تک خطے کو پریشان کرتا رہے گا جب تک کہ اسے موجودہ قوم پرست تقسیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی ۔ استعماری طاقتیں، جنہوں نے ان تقسیموں کو منظم کیا — ترکی کو ایک قوم پرست ریاست کے طور پر قائم کرنا، عراق اور شام میں عرب قوم پرست ریاستوں کے ساتھ، اور ایران میں ایک فارسی قوم پرست ریاست — خطے میں عدم استحکام کو برقرار رکھنے اور اتحاد کو روکنے کے لیے کرد قوم پرستانہ خواہشات کا استعمال کرتی ہیں۔ نسلی تفریق کو ہوا دے کر، وہ تقسیم کو گہرا کرتی ہیں اور دائمی انتشار کا بیج بوتی ہیں۔ حقیقی حل اسلام میں ہے، جو ترکوں، کردوں، عربوں اور فارسیوں کا مشترکہ مذہب ہے۔ تیرہ صدیوں سے زیادہ عرصے تک، اسلام نے ان لوگوں کو نسلی تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک ریاست کے تحت یکجا رکھا ، قوم پرستانہ نظریات کو رد کیا، اور بھائی چارے کے احساس کو فروغ دیا۔

 

اس طرح، بنیادی حل کے لیے قوم پرست فریم ورک کو ترک کرنے اور ایک واحد متحدہ ریاست کے قیام کی ضرورت ہے جو اپنے مختلف النسل لوگوں کو اسلام کی عینک سے دیکھے۔ کوئی بھی دوسرا نقطہ نظر جزوی، عارضی اور محض سیاسی طور پر متحرک رہے گا، جو بالآخر اس مسئلے کی بنیاد کو حل کرنے میں ناکام رہے گا۔ اس طرح کے وحدت پر مبنی ویژن کے بغیر، خطہ تنازعات کے چکروں میں پھنسا رہے گا اور استعماری استحصال کا شکار رہے گا۔ صرف قوم پرست ریاستوں کو ختم کر کے اسلامی اصولوں پر مبنی واحد، جامع ریاست کے قیام سے ہی پائیدار امن و استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

Last modified onبدھ, 29 جنوری 2025 22:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک