بسم الله الرحمن الرحيم
ماہ رمضان میں نصرة کا حصول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلم افواج خلافت کے قیام کے لیے نصرة فراہم کریں
تحریر:معصب عمیر
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب قرآن میں فرماتے ہیں ،
وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
''ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے''(آل عمران:126)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِى يَنصُرُكُم مِّنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
''اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے''(آل عمران:160)۔
یہ آیات اُن ایمان والوں کو،جن کی آنکھیں اللہ کی آیات پڑھتے ہوئے بھیگ جاتی ہیں، یہ یقین دہانی کراتی ہیں کہ اس امت کے پاس جو سب سے زبردست ہتھیار ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد اور نصرة کا وعدہ ہے۔ جی ہاں ،یقیناً،مسلم افواج جو اپنے رب کے حکم کے مطابق اس قدر تیاری کرتی تھیں کہ دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب اور خوف قائم ہوجائے ،چاہے اس کے لیے انھیں میزائل بنانے پڑیں یا طاقتور بحریہ یا فضائیہ تیار کرنی پڑے لیکن وہ کامیابی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ہی دعا اور اسی پر انحصار کرتی تھیں۔یقیناً افواج کی قیادت اپنے دشمن پر قابو پانے کے لیے زبردست منصوبہ بندی کرتی تھی لیکن وہ کامیابی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرتی تھیں کہ وہ ان کے منصوبوں کو کامیاب بنائے۔ یقیناً مسلم افسران کو ایک ریاست کی سرپرستی حاصل تھی جو اللہ کے دین اسلام کو نافذ کررہی تھی اور جس نے امت کو خلافت کے جھنڈے تلے یکجاکررکھا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اللہ ہی پر بھروسہ کرتی تھیں۔
لہذا مسلم افواج دن میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتی تھیں اور اللہ سے کامیابی کے حصول کے لیے راتوں کو قیام کرتی تھیں تا کہ وہ اللہ کا قرب حاصل کریں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایمان والوں کی آنکھیں، کان اور ہاتھ بن جائیں۔ ایمان کی یہ قوت زبردست فوجی صلاحیتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی قوت میں ڈھل جاتی تھی کہ جس کے نتیجے میں مسلم افواج ایسی ایسی کامیابیاں حاصل کرتی تھیں جن کے متعلق کفار سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس طرح دشمن کفار کی افواج یہ سمجھنے لگیں کہ یہ انسانوں کی نہیں بلکہ جنوں کی فوج ہے جن کا خون سرخ نہیں بلکہ نیلا ہے۔ اور کافرافواج کے جرنلز صدیوں تک مسلمانوں کی فوجی صلاحیتوں پر رشک کرتے تھے یہاں تک کہ جرمنی کی افواج کے جنرل رومیل نے کہا کہ میدان جنگ میں اس کی کامیابی کا خفیہ نسخہ خالد بن ولید کی فوجی منصوبہ بندیاں اور چالیں ہیں۔
تو آج ہماری افواج رمضان کے مہینے میں کس قسم کی کامیابی کی جستجو کرتی ہیں؟رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمتوں کے خزانے کھول دیتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں،شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، روزے رکھے جاتے ہیں، تراویح پڑھی جاتی ہے اور اُس رات میں عبادت نصیب ہوتی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے! یہ رمضان کا ہی مہینہ تھا جس کے دوران اس امت نے عظیم ترین کامیابیاں حاصل کیں۔یہ رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں افواج کا سب سے طاقتور ہتھیار ،یعنی اللہ پر ایمان ، اپنی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ امت کے گزرے ہوئے تمام ادوار میں اس مسئلے کی انتہائی اہمیت کو اس رمضان 1437ہجری میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آج امت کی افواج کی تعداد 60لاکھ سے بھی زائد ہے یہاں تک کہ اپنے بدترین دشمنوں کی افواج سے بھی کئی گنا زیادہ۔ جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے توہماری افواج کے پاس ٹینک، جنگی ہوائی جہاز، جنگی بحری جہاز یہاں تک کے ایٹمی صلاحیت بھی موجود ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود امت دشمنوں میں گھری ہوئی ہے چاہے وہ فلسطین میں ہو یا شام میں، افغانستان میں ہو یا کشمیر میں۔ یہ دشمن نہ تو بوڑھوں کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عورتوں، بچوں کا ،یہاں تک کے جانوروں اور درختوں تک کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ امت کے بیٹے ، چاہے ان کا تعلق افواج سے ہو یا وہ عام شہری ہوں ، لازماً رمضان کو ایک بار پھرمسلمانوں کے لیے کامیابی کا مہینہ بنانے کے لیے سوچیں اور کام کریں۔
17رمضان2ہجری غزوہ بدر کے متعلق کیا خیال ہے؟مسلم افواج کے پہلے اور سب سے بہترین کمانڈر،رسول اللہ ﷺ،جو تمام انبیأ کے سردار ہیں، کے متعلق سوچیں جو مسلمانوں کو عربوں کے سب سے طاقتور قبیلے قریش کے خلاف بدر کے مقام پرمسلمانوں کو زبردست کامیابی دلاتے ہیں۔سوچیں اپنے بہادر آباؤ اجداد کے متعلق کہ میدان جنگ میں ان کی کتنی تعداد تھی، اپنے دشمن کے مقابلے میں کس قدر اسلحہ کی قلت تھی کہ وہ باری باری زرہ بکتر پہنتے تھے ۔ ان کا دشمن تعداد میں ان سے تین گنا زیادہ تھا لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنے دشمن کے سامنے، جسے جنگیں لڑنے کا نسلوں کا تجربہ حاصل تھا ، ایک مضبوط و متحد فوج کی طرح لڑے ۔اس وقت کو یاد کریں جب رحمت اللعالمین ،رسول اللہ ﷺ نے معمولی سے معمولی جزیات کو سامنے رکھتے ہوئے میدان جنگ میں افواج کی صف بندی کی اور پھر اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا مانگی جیسے ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے اور اللہ سے کامیابی کی دعا کی۔ تو رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ صرف اللہ ہی ہے جس کے اختیار میں کامیابی ہے جیسا کہ خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعلان کیا کہ،
وَلَقَدْ نَصَرَكُمْ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
''جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمھاری مدد فرمائی تھی جبکہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے،اس لیے اللہ ہی سے ڈرو!تا کہ تمھیں شکر گزاری کی توفیق ہو''(آل عمران:123)۔
20رمضان8ہجری کو مکہ فتح ہوا۔ایک ایسے وقت میں جب رسول اللہ ﷺ اسلام کی دعوت کو جزیرةالعرب سے باہر پھیلانے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہے تھے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کو جزیرةالعرب میں اپنے سب سے بڑے دشمن قریش مکہ پر فتح نصیب فرمائی۔ فتح مکہ نے جزیرة العرب میں بسنے والے دیگر عرب قبائل پر ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ کردیا جس کے نتیجے میں پورے جزیرة العرب میں اسلام کی دعوت میں حائل تمام روکاوٹیں دور ہوگئیں اور اسلامی ریاست بہت تیزی سے پھیلنے لگی۔رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں دس ہزار مسلمانوں نے روزے کی حالت میں مکہ کی جانب سفر شروع کیا یہاں تک کہ وہ القدید پہنچ گئے۔ ابو سفیان کو اس بات کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مختلف قبائل کو دیکھ سکے جو اب اسلامی ریاست کے جھنڈے تلے متحدایک سخت جان اور جنگجو فوج میں تبدیل ہوچکے تھے۔ اس نظارے کو دیکھ کر ابوسفیان اتنا مایوس ہوا کہ اسے شکست کا یقین ہوگیا ۔اور پھر کس طرح مسلمانوں نے ایک منظم منصوبے کے تحت ،اللہ کی مدد کے ساتھ اپنے دشمن کو ایک ہی دن میں بغیر کسی لڑائی کے شکست سے دوچار کردیا۔ توحید کی شمع کو مسلمانوں کے دلوں میں روشن اور مستحکم کرنے کے بعد فتح مکہ ایک اہم ترین کامیابی تھی جس کے بعد جزیرة العرب سے باہر کے علاقے بھی اب اسلامی ریاست کے زیر سایہ آنے کے لیے تیار تھے۔ فتح مکہ کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایاکہ،
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
''جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور لوگ جوق در جوق اللہ کے دین (یعنی اسلام) میں داخل ہونے لگے''(النصر:2-1)
رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد بھی امت نے اپنی افواج کو اسلام کی روشنی سے منور کیے رکھا۔ وہ رسالت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے اچھی طرح واقف تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ صرف کسی ایک زمانے یا کسی ایک قوم کے رسول نہ تھے بلکہ وہ تمام لوگوں کے لیے اوررہتی دنیا تک کے رسول تھے۔ لہذا مسلمانوں نے رمضان کی برکت سے فائدہ اٹھایا اور آنے والی کئی صدیوں تک اپنے دشمنوں پر کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ نہ صرف یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے جانے کے بعد بلکہ صحابہ اور تابعین کے جانے کے بعد بھی کئی صدیوں تک مسلمان اس مبارک مہینے میں اللہ سبحانہ و تعالی سے کامیابی مانگتے رہے اور اللہ تعالی مسلمانوں کو کامیابیاں عطا کرتا رہا۔
اندلس کی سرزمین 28رمضان92ہجری میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنی۔ خلیفہ الولید کی ہدایت پر موسی بن نصیر نے طارق بن زیاد کو اسپین کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ طارق بن زیاد کی قیادت میں سات ہزار کی فوج نے شمالی افریقہ سے سمندر کو پار کیا اور پہاڑی پر واقع قلع کو فتح کیا ۔یہ پہاڑی بعد میں ''جبل الطارق''کے نام سے مشہور ہوئی۔پھر اس نے جنوبی اسپین میں پیش قدمی کی ۔اس کے بعد موسی بن نصیر بھی اس مہم میں شامل ہوگئے اور ایک بڑی فوج کے ساتھ طریفہ پر اترے اور سویلی اور کارمونہ کو فتح کیا۔
صلیبی جنگوں کے دوران جنگ حتین بھی ماہ رمضان کے دوران 584ہجری(1187 عیسوی) میں پیش آئی۔کرک کے عیسائی بادشاہ نے 1187عیسوی میں،جس کو ارنات کہا جاتا تھا،مسلمانوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا جو حج کے لیے جارہا تھا۔ اس نے بے رحمی کا مظاہرہ کیا اور مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور عورتوں کی بے حرمتی کی۔ حاجیوں کو قتل کرتے ہوئے ارنات نے کہا کہ ''جاؤ محمد سے مدد مانگو اگر وہ تمھاری مدد کرسکتا ہے''۔ جب اس واقع کی خبر صلاح الدین ایوبی کو پہنچی تو غصہ کے باوجوداس نے بادشاہ ارنات کے نام ایک نرم پیغام بھیجا۔ خط میں صلاح الدین نے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدہ امن کی پاسداری کرے، تمام قیدیوں کو رہا کردے اور جو کچھ لوٹا ہے اسے واپس کردے۔ لیکن بادشاہ ارنات نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ عیسائیوں نے حتین کے مقام پر 50ہزار کی فوج جمع کی ۔ عیسائیوں کی قیادت یروشلم ، کرک اور تریپولی کے بادشاہوں نے کی لیکن انھیں عبرت ناک شکست ہوئی۔ عیسائیوں کے کئی شہزادوں اور نائٹس کو قیدی بنالیا گیا۔ یہ اللہ کا فیصلہ تھا کہ صلاح الدین بادشاہ ارنات سے ٹکرائے جس نے حاجیوں کا قتل عام کیاتھا۔ بادشاہ ارنات کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے سے قبل صلاح الدین نے اس سے کہا کہ وہ اسے اس لیے قتل کررہا ہے کہ اس نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور معصوم مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔
تاتاریوں کی یلغار کے خلاف عین جالوت کا معرکہ بھی مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی زبردست کامیابی پر ختم ہوا۔ یہ ٹکراؤ رمضان 658ہجری(1260عیسوی)میں ہوا تھا۔ 656ہجری کے اواخر میں تاتاریوں نے اسلامی خلافت کے خلاف ایک زبردست مہم شروع کی،جس کے نتیجے میں دارلخلافہ بغداد پر تاتاریوں کا قبضہ ہوگیا، خلیفہ مستعصم بااللہ کو قتل کردیا گیا اور اسلامی ریاست کے دو تہائی حصے پر تاتاریوں کا قبضہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے آخری مضبوط علاقوں، مصر اور مراکش کی جانب بڑھتے ہوئے تاتاریوں نے مصر کے امیر ، محمود سیف الدین قدز کے نام ایک دھمکی آمیز خط بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ ''ہم نے تمھاری زمینوں کو تباہ ،بچوں کو یتیم، لوگوں کو قتل،عورتوں کی عزتوں کو تارتار اور ان کے سرداروں کو قید کرلیا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہم سے بچ سکو گے؟کچھ ہی عرصے میں تم جان جاؤ گے کہ تمھاری جانب کیا آرہا ہے۔۔۔''۔ سیف الدین قدز نے ایک سخت جواب دیا ۔ اس نے تاتاری وفد کو قتل کردیا اور ان کی لاشوں کو شہر میں لٹکا دیا جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف اس کی فوج اور رعایا کی ہمت میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب دشمن ، ان کے جاسوس اور ان کے ہمدرد خوفزدہ ہو گئے۔ اس عمل نے جہاںمسلمانوں میں جوش وخروش پیدا کردیا وہیں تاتاریوں کو یہ احساس بھی ہوا کہ وہ ایک ایسے سربراہ کا سامنا کرنے جارہے ہیں جس کا تجربہ انھیں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ہے۔ قدز نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا ۔ اس کی قیادت میں مسلمانوں نے ایمان، اتحاد اور ضروری سازو سامان کے ساتھ دشمن کا سامنا کرنے کی تیاری کی۔ قدز نے علمأ اور حکمرانوں کی مدد طلب کی کہ وہ اسلام کے دفاع اور اسلامی سرزمینوں کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پھر جمعہ 25رمضان658ہجری کو مسلمانوں نے عین جالوت کے مقام پر اپنے دشمن کا سامنا کیا۔ قدز نے میدان جنگ میں مسلمانوں کی قیادت کی ۔ جنگ کی ابتدأ میں تاتاریوں کو برتری حاصل ہوگئی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر قدز ایک پہاڑی پر چڑھ گئے ،اپنالوہے کا خول سر سے اتار پھینکا اور چلائے ''وا اسلامہ ،وا اسلامہ''، افواج کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہنے اور ان سے جنگ کرتے رہنے کی ترغیب دی۔قدز کے سرخ چہرے،اس کی تلوار کی پھرتیوں اور دشمنوں سے بھڑتا دیکھ کر مسلمانوں میں ہمت پیدا ہوئی اور مسلم افواج نے جنگ کا پلڑا اپنے حق میں پلٹ دیا اور اس وقت تک لڑتے رہے جب تک تاتاری فوج تتر بترہو کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں گئی۔ اسلام اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ تاتاریوں نے جب دیکھا کہ مشرق میں ان کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے اور مسلمان دوبارہ طاقت پکڑ رہے ہیں تو وہ اپنے آبائی علاقوں کی جانب بھاگ گئے جس کے نتیجے میں قدز کے لیے شام (موجودہ شام، فلسطین، لبنان وغیرہ) کو آزاد کروانا آسان ہوگیااور ایک ہفتے میں اس مقصد کو حاصل کرلیا۔
اب اصل اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کس طرح رمضان کے مہینے کو ایک بار پھر اس کا اصل مقام واپس دلوایا جائے یعنی کہ اس کوایک بار پھر وہ مہینہ بنایا جائے جب مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں کے خلاف فتوحات نصیب ہوتی تھیں۔ آج آخر وہ کیا چیز ہے جو مسلم افواج کو زخمی مردوں، بے عزت کی گئی عورتوں اور یتیم بچوں کی چیخ وپکار بھی حرکت میں ّآنے پر مجبور نہیں کرتی؟یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کی جائے اور اس کا منہ توڑ جواب نہ دیا جائے اور اس کے نتیجے میں کفار بار بار یہ شیطانی کام کرنے کی جسارت کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں پر اسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کی جارہی اور ان کے حکمران خوف خدا رکھنے والے اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے والے نہیں ہیں۔آج مسلمانوں پر غدار حکمران مسلط ہیں جو مسلمانوں کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں اور اسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کرتے۔ آج یہ غدار دشمنوں کے نمائندوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ان سے احکامات وصول کرتے ہیں جبکہ انھیں اس قدر مضبوطی سے انکار کرنا چاہیے کہ دشمنوں کے تخت ہل جائیں۔ ان غداروں کا شام ، فلسطین، عراق، کشمیر اور افغانستان سے مسلمانوں کی آتی چیخ و پکار پر ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی افواج کو بیرکوں میں بند کردیتے ہیں اور اپنے کافر آقاؤں کے احکامات کا انتظار کرتے ہیں تا کہ ان مسلم افواج کو کفار اور ان کے لوگوں کے مفادات کی تکمیل میں مدد کے لیے دنیا میں کسی بھی جگہ پر بھیج دیا جائے۔ افواج میں موجود مخلص افسران پر فرض ہے کہ وہ خلافت کے فوری قیام کے لیے نصرة فراہم کریں۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی مسلم افواج اسلام کی رسالت کو پوری دنیا تک پہنچانے کے اپنے شاندارماضی کو واپس لاسکیں گی۔ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں،
إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الأَشْهَادُ
''یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے''(غافر:51)