بسم الله الرحمن الرحيم
ربیع الاول کا سب سے بڑا تحفہ: رحمت انسانیت محمد ﷺ
تحریر:مصعب بن عمیر
محمد ﷺ کی امت کے لیے ربیع الاول انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے میں نہ صرف پوری انسانیت کے محسن آنحضرت ﷺ کی ولادت ہوئی بلکہ آپﷺ کو رسالت کے منصب پر بھی اسی مہینے میں فائز کیا گیا۔ اس مہینے نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کو نبوت کے منصب پر فائز ہونے کا شرف حاصل کیا بلکہ ہجرت کی صورت میں آپ ﷺ کو مدینہ منورہ کا حکمران بھی بنتے دیکھا۔ اسی مہینے ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ اپنے رب کی جانب لوٹ گئے تا کہ قیامت کے دن اس امت کے لیے شفاعت کا باعث بن سکیں۔
ربیع الاول کے مہینے میں آپ ﷺ کو پوری انسانیت کا محسن اور آخری نبی اور رسول کے منصب سے نوازا گیا۔ ابو الحسن علی بن حسین بن علی مسعودی نے اپنی کتاب التنبيه والإشراف میں مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے کہ :
فلما بلغ أربعين سنة بعثه الله عز وجل الى الناس كافة يوم الاثنين لعشر خلون من شهر ربيع الأول... وله صلّى الله عليه وسلّم يومئذ أربعون سنة وتنوزع في أول من آمن به من الذكور، بعد إجماعهم على أن أول من آمن به من الإناث خديجة
"اور جب وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ گئےتو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے پیر کے دن ربیع الاول کے پہلے دس دنوں میں انھیں پوری انسانیت کے لیے پیغمبر کے منصب پر فائز کیا۔۔۔۔اس دن رسول اللہ چالیس سال ﷺ کے تھے اور مردوں میں ایمان لانے والے پہلے مرد تھے اور اجماع صحابہ ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا خواتین میں ایمان لانے والی پہلی خاتون تھیں"۔
اور احمد بن محمد بن ابو بکر بن عبدل مالک القستلانی نے اپنی کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية میں لکھا ہے کہ:
"ولما بلغ رسول الله- صلى الله عليه وسلم- أربعين سنة...
وقال ابن عبد البر: يوم الاثنين لثمان من ربيع الأول سنة إحدى وأربعين من الفيل. وقيل: فى أول ربيع:
بعثه الله رحمة للعالمين، ورسولا إلى كافة الثقلين أجمعين"
"جب رسول اللہ ﷺ چالیس سال کی عمر کو پہنچے ۔۔۔۔اور ابن عبد البر نے کہا: پیر 8ربیع الاول ہاتھی کے واقع کے 41سال بعد۔۔یہ کہا گیا کہ ربیع الاول کے مہینے میں انھیں تمام انسانیت کے لیے رحمت اور تمام اقوام پر رسول بنا کر بھیجا گیا"۔
اور انبیاء کی شاندار اور منفرد تاریخ میں رسول اللہ ﷺ کا اس منصب پر فائز ہونا کتنا منفرد تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو تمام انبیاءؑ پر فضیلت عطا کی گئی۔پچھلے انبیاءؑ کی طرح رسول اللہ ﷺ کسی مخصوص قوم یا متعین زمانے کے لیے نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے جیسا کہ قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط یا بنی اسرائیل پر مخصوص انبیاء بھیجے گئے۔ رسول اللہ ﷺ تمام قوموں کے لیے اور تمام آنے والے وقتوں کے لیے ، جس دن سے انھیں اس منصب پر فائز کیا گیا اور اس وقت تک کہ جب قیامت آجائے گی، اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ ،
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
"اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء:107)۔
لہٰذا آپﷺ کو تمام لوگوں پر نبی اور رسول بنا کر بھیجا گیا ہے چاہے وہ عرب ہو ں یا غیر عرب، افریقی ہوں یا ایشیائی، یورپی ہوں یا امریکی۔ آپﷺ کا پیغام تمام انسانیت کے لیے رحمت ہے اور یہ تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے ، ان پر بھی جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں چاہے ان کو یہ ناگوارہی کیوں نہ گزرے۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ عظیم ترین ذمہ داری کس طرح اٹھائی، ایسی ذمہ داری جو اللہ کے کسی بندے پر اس پہلے نہیں ڈالی گئی تھی اورنہ آئیندہ کبھی ڈالی جائے گی۔ کس طرح رسول اللہ ﷺ نے بغیر آرام و سکون کے مسلسل جدوجہد کی، اس راہ میں عظیم مشکلات کا صبر کے ساتھ سامنا کیا، اپنے پیغام کو حکمت اور دانائی کے ساتھ بیان کیا، گناہ گاروں کو پاک کیا اور صحابہ رضی اللہ اجمعین کی شکل میں ایسے مضبوط لوگوں کی جماعت تیار کی جس پر اس عظیم امت کی عمارت تعمیر ہوئی۔ صحابہ کرام کے درمیان اس بات پر اجماع تھا کہ رسول اللہ ﷺ تمام اقوام کے لیے پیغمبر اور رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ صحابہ کی جماعت میں ہمیں صہیب جو کہ رومی تھے، سلمان جو کہ ایرانی تھے اور بلال جو کہ افریقی تھے اور بے شمار لوگ ملتے ہیں جن کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسلامی عقیدے کی بنیاد پر یکجا کردیا اور ان کے درمیان اس عقیدے کی بنیاد پر ایسا بھائی چارہ قائم کیا جو خون اور نسلی عصبیت کی بنیاد پر بننے والے رشتوں سے کہیں زیادہ مضبوط تھا ۔صحابہ کے درمیان یہ مضبوط تعلق اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی وجہ سے تھا۔پھر اس مضبوط رشتے میں جڑے یہ صحابہ قطار در قطار ایک ایسے شاندار اور عظیم ڈھانچے میں ظاہر ہوئے جس کے سامنے اس وقت کے قبائلی ڈھانچے ماند پڑ گئے۔ ان کے اس ایمانی بھائی چارے نے قبائلی، قومیت اور نسل پرستی جیسے فضول رشتوں کو توڑ ڈالاجس نے انسانیت کو رحم سے محروم کررکھا تھا جو محبت کی جگہ نفرت، تعاون کی جگہ عداوت اور تحفط کی جگہ عدم تحفظ کو پروان چڑھاتے ہیں۔
مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد اس پیغام رحمت کی شمع سے پورا جزیرۃ العرب منور ہو گیا۔ مظلوموں کے لیے یہ امید کا پیغام تھا جو قبائلی نظام میں جکڑے ہوئے تھے اور ظالموں کے لیے یہ پیغام ایک انتباہ تھا۔ اس سچائی کی جانب قرب و جوار سے ہر کوئی متوجہ ہوا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ظالموں نے اپنے تکبر اور گھمنڈ میں اس کو مسترد کردیا ۔کفر نے ان کے دلوں کو سخت اور بند کردیا ۔ انھوں نے اپنی طاقت اور حاکمیت کو رسول اللہ ﷺ اور ان تمام لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جو اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لائے تھے۔ انھوں نے اس پیغام اور اس پیغمبر کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائیں، ان کا پیچھا کیا اور ان پر اس قدر تشدد کیا کہ کئی صحابہ شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیغام کی اشاعت کے کام کو جاری رکھا اور اللہ کے سوا کسی کے خوف کو خود پر غالب نہ ہونے دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خفیہ طریقے سے اور ذہانت کے ساتھ جدوجہد کی تا کہ ان لوگوں سےنصرۃ (مادی مدد) حاصل کی جائے جو جنگیں لڑنے کے ماہر تھے تا کہ ان کی مدد سے اپنے پیغام کو حکومت کی شکل میں ڈھال دیں۔
اس سخت امتحان کے وقت میں ماہِ ربیع الاول نے ایک اور تحفہ بھی دیا جو کہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت ہے کہ جس کے ذریعے مدینہ منورہ میں اسلام کی بنیاد پر ریاست قائم ہوئی جو کہ آنے والے دنوں میں پوری دنیا کے لیے مینارہ نور بن گئی۔ مدینہ کے دو طاقتور قبائل ، اوس و خزرج سے مادی مدد مل جانے کے بعدرسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مکہ کی مظلومیت کے دنوں کا خاتمہ اور مدینہ میں اسلام کی حکمرانی کا دور شروع ہوا۔ بخاری نے اپنی صحیح میں ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ عروہ ابن الزبیر نے انھیں بتایا کہ:
وَسَمِعَ المُسْلِمُونَ بِالْمَدِينَةِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ... فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ اليَمِينِ، حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَذَلِكَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ...
"اور مدینہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے روانگی کا سُن لیا تھا۔۔۔۔اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا استقبال قبیلہ بنی عمر بن عوف کہ جگہ پر کیا، اور وہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔۔۔"
اور ابن ہبان نے اپنی صحیح میں البراء سے روایت کی کہ:
أَنَّ قُدُومَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ كَانَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ لِاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ
"رسول اللہ پیر کے روز بارہ ربیع الاول کی رات کو پہنچے"۔
اطبری نے اپنی کتاب"انبیاء اور حکمرانوں کی تاریخ" میں کہا ہے کہ:
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال: قدم رسول الله ﷺ الْمَدِينَةَ يَوْمَ الاثْنَيْنِ، لاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ
"ہم نے ابن حامد سے سنا کہ ، ہم نے سلاماہ سے، ابن اسحاق سے، اظہری سے سنا کہ: رسول اللہﷺ مدینہ پیر بارہ ربیع الاول کی رات کو پہنچے تھے"۔
لہٰذا ربیع الاول وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کو نبوت عطا کی گئی اور اسی مہینے میں اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو حکمرانی بھی عطا فرمائی۔ اب چونکہ اسلامی ریاست قائم ہو گئی تھی لہٰذا اسلام کے نفاذ کا عمل بھی بھر پور طریقے سے شروع ہو گیا۔رسول اللہ ﷺ نے مختلف علاقوں پر صحابہ کوحکمران بنا کر بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے جج تعینات کیے اور ایک متحرک اور بیدار عدلیہ کی بنیاد رکھی، آپ ﷺ نے ریاست کے مالی امور کو منظم کرنے کے لیے بیت المال قائم کیا جس کے ذریعے محصولات اکٹھے کیے جاتے اور شہریوں کی ضروریات پر انھیں خرچ کیا جاتا اور آپ ﷺ نے ایک مضبوط اور طاقتور فوج کی تشکیل کی۔ آپﷺ نے دوسرے قبائل اور اقوام کو اسلام کی دعوت دی اور اس مقصد کے لیے مختلف بادشاہوں اور شہنشاہوں کو خطوط بھیجے۔ آپ ﷺ اسلامی ریاست کی حدود کو مسلسل پھیلاتے رہے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ اسلام کی دعوت کو جو کہ انسانیت کے لیے رحمت ہے، پوری دنیا تک پہنچایا جائے اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ط وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
"جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لیں "(النصر:1-2)۔
رسول اللہ ﷺ نے اس امت کو اس بات سے باخبر کیا کہ ان کا مقصد مکمل ہوگیا جو کہ انسانیت کے لیے ایک رحمت ہے۔ آپﷺ نے اس مقصد کو واضح کیا جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں مبعوث فرمایا تھا اور وہ مقصد یہ تھا کہ پوری دنیا پر اسلام کی رحمت چھا جائے۔ اور پھر خلافت راشدہ کے دور میں امت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلام اس وقت کی دو عظیم سلطنتوں، روم اور فارس پر ، قائم ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات سے آگاہ کیا کہ مغرب میں استنبول فتح ہو گا اور یہ بشارت عثمانی خلافت کے دور میں پوری ہوئی۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے پوری مغربی دنیا پر اسلام کی حکمرانی کی بشارت بھی دی جو انشاء اللہ ایک بار پھر اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ضرور پوری ہوگی۔ اور انشاء اللہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ امت ایک بار پھر دنیا کی عظیم امت بنے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اسلام دنیا کے تمام دیگر نظام ہائے حیات پر مکمل طور پر حاوی ہوجائے تا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے مقصد کو مکمل کردیا جائے۔
تو ربیع الاول کا مہینہ اورماضی میں اس مہینےمیں ملنے والی خوشخبریاں ہمارے لیے جوش و جذبے کا باعث ہونی چاہیے کہ ہم ایک بار پھر اسلام کے جھنڈے کو سب سے بلند کریں، جو مظلوموں پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرے اور ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم پر خبردار اور ان کی گوشمالی کرے۔ اس مہینے کی عظمت ہمیں ظالم حکمرانوں کے ظلم کے باوجود اسلام کے نفاذ کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنے پر مجبور کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت ہمیں اس قدر عزیز ہو جائے کہ ہم ان قومیتوں کی جھوٹی دیواروں کو گرا دیں جس نے ہمیں پچاس سے زائد ممالک میں بانٹ دیا ہے اور ہم کلمہ طیبہ کے جھنڈے تلے ایک بار پھر یکجا ہوجائیں ۔ ربیع الاول کے مہینے میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کا ذکرہمارے فوجی افسران اور جوانوں میں یہ جوش و جذبہ پیدا کردے کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام اور اسلام کے نفاذ کے لیے مادی مدد فراہم کردیں۔ اور یہ مہینہ ہم میں وہ تڑپ اور بے چینی پیدا کردے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیغام ِرحمت کو پوری انسانیت تک پہنچانے کے لیے زبردست طریقے سے متحرک ہوجائیں۔ آئیں کہ ایک بار پھر ماضی کی طرح اس امت کو دوبارہ اس عظیم مقام پر پہنچا دیں کہ وہ پوری انسانیت پر گواہ بن جائے۔ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں نافذ کریں اور اس کی ہدایت کو تمام دیگر ادیان اور نظام ہائے حیات پر حاوی کردیں۔