بسم الله الرحمن الرحيم
پریس ریلیز
ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان، ایک عید: اور ایسا صرف ایک خلافت کے قیام سے ہی ممکن ہو گا
29 شعبان بمطابق 1 اپریل بروزجمعہ و دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر رحمتوں اور برکتوں والے ماہِ رمضان کے آغاز کیلئے ہلال کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ یقیناً ڈیڑھ ارب کی آبادی پر محیط یہ مسلم امت رسول الله ﷺ کے اس فرمان پر یکجا نظر آتی ہے، (صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ) "اس (ہلال) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس کے دیکھے جانے پر فطر (عید)کرو، اور اگر تم پر بادل چھا جائیں تو شعبان کے تیس (دن) پورے کر لو" (بخاری) دنیا بھر کے مسلمانوں کا اس ہلال کو ڈھونڈنے کے عمل کو اہمیت دینا پوری مسلم امت کا ایک اسلامی عقیدے کے ربط سے جڑے ہونے کا واضح پیغام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ایجنٹ حکمران امت کے ایک رمضان اور عید کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول الله ﷺ کا یہ حکم کسی علاقے یا زمانے کی قید سے آزاد ہے۔ یقیناً الله سبحانہ وتعالیٰ کی اس وحی کے آگے کسی انسان کی یہ جرات نہیں کہ وہ انگریزوں کی کھینچی ہوئی مسلسل بدلتی ہوئی لکیروں کی بنیاد پر اللہ کے اس حکم کو مصنوعی قومی سرحدوں تک محدود کر دے۔ اور قومی شہادتوں کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کی شہادتوں کو مسترد کر دیں جیسے کہ وہ کلمہ گو مسلمان نہیں بلکہ کسی اور دین کے پیرو کار ہوں۔ نہ ہی آدھے گھنٹے کے فرق سے بنے ہوئے ٹائم زونز کی بنیاد پر الگ رمضان اور عید کا جواز پیدا کریں جبکہ اکثریتی مسلم دنیا 11 ٹائم زونز کے اندر واقع ہے ، اورصرف ایک روس جیسے ملک میں 11 ٹائم زونز موجود ہے اور وہاں مسلمان ایک رمضان اور ایک عید مناتے ہیں۔ رسول الله ﷺ کے حکم نے ہمیں اس ماہِ مبارک کے آغاز کیلئے ہلال کی رویت کے علاوہ کسی دوسرے طریقہ کار کے استعمال سے بھی منع فرما دیا ہے، چاہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہو یا کوئی اور طریقہ کار ۔ عبداللہ ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،(إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ)"ہم ایک ان پڑھ قوم ہیں، ہم لکھتے ہیں اور نہ حساب کتاب کرتے ہیں ۔ مہینہ یا تو یوں ہوتا ہے یا یوں ہوتا ہے ، یعنی29 کایا 30 کا ( آپﷺ نے دسوں انگلیوں سے تین بار بتلایا )"(بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی) ۔ جبکہ مسلمان نہ صرف لکھتے تھے بلکہ پیچیدہ مالی حساب کتاب (زکواۃ، وراثت، محصولات، دیوان)بھی کرتے تھے۔ یہ حدیث دراصل ایک لطیف انداز میں اس حکم کا اظہار ہے کہ رویت کے معاملے میں سائنسی طریقہ کار کا استعمال نہ کیا جائے نہ ہی چاند کی پیدائش کو بنیاد بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے 1300 سالہ تاریخ میں کبھی بھی حساب کتاب کی بنیاد پر ماہِ رمضان کا آغاز نہیں کیا۔ تویہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارے آقا دوعالم محمد ﷺ نے ماہِ رمضان کے آغاز کیلئے ہلال کی رویت کو ہی شرعی سبب قرار دیا تو ہمارے حکمران ہمیں سائنسی بنیادوں جیسی غیر شرعی بنیاد پر اس مبارک مہینے کے آغاز کیلئے حکم شرعی کی خلاف ورزی پر مجبور کریں؟
اے ماہِ رمضان کے متمنی مسلمانو! یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس ماہِ مبارک کی تمام رحمتیں اور برکتیں سمیٹ سکیں، جبکہ ہم اس مہینے کا آغاز ہی رسول الله ﷺ کے حکم کے برخلاف کریں؟ جسے الله نے ایک امت بنایا،وہ الله کے اس حکم پر عمل کرنے کیلئے استعمار کی دی ہوئی سرحدوں میں تقسیم ہو جائیں جبکہ کفار اپنے کفریہ تہواروں میں ان سرحدوں کی تقسیم کا لحاظ نہیں کرتے؟ان شاءالله یہ تمام مسلمانوں کی ایک ریاستِ خلافت ہی ہو گی جو عملی طور پر اسپین سے لیکر انڈونیشیا تک تمام مسلمانوں کو ایک رویت تلے جوڑ دے گی، جس بنیاد پر پوری امت ایک ہی دن روزہ رکھے گی اور ایک ہی دن عید منائے گی۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس