بسم الله الرحمن الرحيم
پریس ریلیز
عمران خان اور اس کے بندے بےشک یورپ کے غلام نہ ہوں لیکن بہرحال امریکی غلام ضرور ہیں!
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے یوکرین میں روسی جارحیت کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرنے پر یورپی یونین کے سفیروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ضلع وہاڑی کے میلسی ٹاؤن میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا "کیا آپ میں سے کسی نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے یا اس کے غیر قانونی اقدامات پر اعتراض کیا؟" اس کے بعد انہوں نے کہا، " کیا ہم تمہارےغلام ہیں کہ تمہاری مرضی کے مطابق کام کریں؟"۔ یوکرین کے معاملے پر عمران خان اور ان کی حکومت کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے، ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس مندرجہ ذیل نکات پیش کرتا ہے کہ اُن پر غور کیا جائے:
1۔ اصولاً اگر عمران خان اور ان کی حکومت مغربی استعماری ریاستوں کے دباؤ سے آزاد ہے تو ان کو چاہیئے کہ ان دشمن ریاستوں میں سے کسی کا بھی ساتھ دینے سے پرہیز کرے۔ کیونکہ بنیادی طور پراگرچہ ان ریاستوں کی انفرادی حقیقتیں بعض فروعی معاملات میں مختلف ہیں لیکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ان تمام کافر گروہوں کا مذہب ایک ہے، تاہم اس کے باوجود پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں غلامی کی حد تک امریکہ کی وفادار ہیں، اورواشنگٹن کا ایک بھی مطالبہ مسترد نہیں کرتی۔ وہ اس وقت بھی غلامی پر قائم رہتے ہیں جب امریکی مطالبے کی قیمت مسلمانوں کے مفادات، عزت، خون اور سلامتی کی قربانی کی صورت میں پاکستان میں یا پڑوسی مسلم سرزمین میں ادا کرنی پڑے۔ اس لحاظ سے وہ اپنے آقا کے احکامات پر یوں من و عن عمل کرتے ہیں جیسے کہ یہ وحی ہو، خواہ وہ یوکرین جیسے دور دراز علاقے کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح، ایک کے بعد ایک آنے والی پاکستانی حکومتوں نے "دہشت گردی" کے خلاف امریکہ کی جنگ میں حصہ لیا، پاکستان کے اندر امریکہ اور ہندوستان کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں سے لڑائی کی اور ملک کو فتنے کی آگ میں جھونک دیا۔ ہر حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے سامنے کمزور موقف اپنایا، یہاں تک کہ انہوں نے اسے مکمل طور پر ظالم مودی کے حوالے کر دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کی بقاء واضح طور پر خطرے کا شکار ہے، عمران خان سمیت حکومتی ستونوں کی طرف سے وقفے وقفے سے دیے جانے والے اشتعال انگیز بیانات صرف مقامی عوام اور میڈیا کے لیے ہیں اور ان کا مقصد محض سستی شہرت حاصل کرنےسے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔
2۔ یوکرینی تھیٹر کے اندر جو ریاستیں اس وقت تنازعے میں الجھی ہوئی ہیں وہ تمام مجرم ریاستیں ہیں، جو بے گناہ لوگوں کی روزی روٹی اور زندگیوں کی پرواہ نہیں کرتیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور نسل سے ہو۔ جب بھی ان کے مفادات کا تصادم ہوتا ہے تو ان کی بے حس نظروں میں انسان صرف جلنے اور خرچ کرنے کا ایندھن ہے۔ یوکرینی تھیٹر کے اندر متصادم ریاستیں، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ، وہ ریاستیں ہیں جنہوں نے دو تباہ کن عالمی جنگیں لڑیں۔ ان ریاستوں نے اپنے حکمران اشرافیہ کے مادی فائدے کے لیے لاکھوں معصوم شہریوں کی جانیں لیں، جبکہ وہ جان بوجھ کر بھاری آبادی والے رہائشی علاقوں میں جنگی محاذ کھولتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ یقیناً یہ وحشی ریاستیں عقل کی زبان نہیں سمجھتے اگرچہ یہ مہذب ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے ایک فریق مذاکرات کا مطالبہ کرتا ہے، تب بھی مذاکرات کی میز دوسرے فریق کی مکمل سر تسلیم خم کرنے کے لیے محض ایک قربان گاہ ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ اس مسئلے کے حقائق کیا ہیں یا کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ صرف روس ہی نہیں بلکہ ان تمام ریاستوں کی قیادت سٹالن اور ہٹلر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اور فاتحین اپنے کالے کرتوتوں کو صاف کرنے کے لیے تاریخ کو دوبارہ لکھ دیتے ہیں۔
3۔ امریکہ، جس نے پیوٹن کو لالچ دیا، ہری جھنڈی دکھائی، اکسایا اور ایک تباہ کن جنگ میں دھکیلا، اسی امریکہ نے عمران اور اس کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ پیوٹن کی حمایت اور ساتھ دینےکا ڈھونگ برقرار رکھیں، تاکہ پیوٹن یوکرین کی دلدل میں مزید دھنس جائے۔ امریکہ وہی ریاست ہے جس نے عمران خان کو یورپ کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا، اور عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمرانوں کو تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے کے مطالبے کو قبول نہ کرنے کا حکم دیا تا کہ یورپ میں توانائی کی کمی پوری نہ ہوسکے۔ یہ اس لیے ہے کہ یورپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ روس سے بچانے کے لیے اس کا کوئی نجات دہندہ نہیں ہے سوائے امریکا کے، تاکہ امریکہ پورے یورپ کو ایک نئے ’مارشل پلان‘ کو قبول کرنے پر مجبور کرے ، اور یوں یورپ کو امریکا کی اطاعت اور تابعداری پر مجبور کرے۔ درحقیقت، یورپی یونین کی ہلچل اور علاقائی بحران سے نمٹنے میں اس کی ناکامی یورپ کو امریکی جال میں پھنسائے گی۔ اور ایسے وقت میں امریکہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عمران ان کے ساتھ کھڑاہے یا اس کے خلاف۔
اس طرح، امریکہ نے یوکرین میں اپنے ایجنٹ زیلنسکی کو روس کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا، اور اسے اپنے مصائب کے ساتھ لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، جبکہ اب واشنگٹن یورپ کو گھیرنے کے لیے احتیاط سے جال بچھا رہا ہے۔۔۔پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا کے مسلمانوں پر، آسمانی رحمت کے پیغام کے فہم اور محافظ ہونے کے ناطے اب یہ واضح ہے کہ وہ اکیلے ہی اس غیر منصفانہ بین الاقوامی نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں، جس کے بعد ایک نیا بین الاقوامی نظام اسلام کے اعلیٰ اصول اور فکری اقدار کی بنیاد پرجنم لے گا ۔ یہ سب کچھ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے، جو ایک عادلانہ نظام کے ذریعے حکومت کرے گی جو اپنے زیر نگرانی تمام لوگوں کے جان، مال، عزت اور آبروکی حفاظت کرے گی۔ اس کے بعد ہی مسلم سرزمین ایک صالح خلیفہ کے سائے میں متحد ہو جائے گی، جبکہ دنیا کے باقی لوگ لشکروں کی شکل میں دین الٰہی میں داخل ہوں گے،اور آخر کار ظالم صلیبی، سرمایہ دار، بین الاقوامی نظام نیست و نابود ہوگا اور اس کی جگہ اسلام کی روشنی اور اس کا انصاف چھا جائے گا۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے اور انسانیت کو اس کی موجودہ مصیبت سے نکالنے کے لیےہم امت اسلامیہ کو دعوت دیتے ہیں۔ تو پھر ہمارا کیا فیصلہ ہے؟ اللہ عزوجل نے فرمایا،قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ " پوچھوکہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ دو کہاللہ ہی حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہاُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔تو تم کو کیا ہوا ہے ، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ "(یونس، 10:35)
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...