بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز23اگست 2019
-ڈالر کی بنیاد پر سودی بچت اسکیم پاکستان کی جلتی معیشت پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہو گی
-تحریک انصاف حکومت کی ایک سال کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ جمہوریت کے ذریعے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی
- مسئلہ ِ کشمیر کو عالمی عدالت ِ انصاف میں لے جانا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے
تفصیلات:
ڈالر کی بنیاد پر سودی بچت اسکیم پاکستان کی جلتی معیشت پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہو گی
18 اگست کو ٹریبیون اخبار نے خبر شائع کی کہ یہ امکان ہے کہ وفاقی حکومت آنے والے دنوں میں ڈالر کی بنیاد پر بچت اسکیم شروع کرے گی۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی ڈائریکٹریٹ برائے قومی بچت پاکستانی روپے میں رقم وصولی کرے گا اور اس کے بدلے امریکی ڈالر پر مبنی بچت سند (US Dollardenominated Certificate) دے گا۔ اس پروصولی کے وقت کی شرح تبادلہ لاگو ہو گی۔ سودی مدت مکمل ہونے پر جو سود اور اصل رقم واجب الواپسی ہو گی، اس پر واپسی کے دن کی شرح تبادلہ لاگو ہو گی۔ اس طرح اس اسکیم کو استعمال کرنے والے نہ صرف لوگ ڈالر کی قیمت پر سود لے سکیں گے، بلکہ ان کی اصل رقم بھی روپے کی قدر میں کمی سے محفوظ رہے گی۔ وزارتِ مالی امور کے ایک ذرائع نے بتایا کہ وزارت نے یہ تجویز ابھی سرکاری سطح پر پیش نہیں کی، لیکن یہ گورنر اسٹیٹ بینک، رضا باقر کی تجویز ہے۔
پچھلے 18 ماہ میں پاکستانی روپے کی قدر میں45 فیصد سے بھی زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ آئی ایم ایف کے حساب کتاب کے مطابق، 2019 سے 2023 تک پاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً 47 فیصد کی مزید کمی آئے گی۔ روپے کی قدر میں اتنی کمی کے بعد، ڈالر کی بنیاد پر بچت اسکیم سے مارکیٹ میں روپیہ مزید کمزور ہو گا اور اس کے مقابلے میں ڈالر مزید مضبوط ہو گا۔ چونکہ لوگ پہلے ہی تیزی سے بدلتی شرح مبادلہ کی وجہ سے اپنے بچت کردہ پیسوں کی قدر میں کمی سے پریشان ہیں،اس لیے جو لوگ بچت اسکیم میں پیسہ ڈالتے ہیں یہ پیشکش ان کے لیے نہایت پرکشش ثابت ہو گی۔ اس کے نتیجے میں لوگ اپنا مال ڈالر کی شرح مبادلہ کی بنیاد پر رکھنا سود مند سمجھیں گے، بجائے یہ کہ اس کو کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس طرح جب اس معشیت میں پہلے ہی بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے کاروبار مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، وہاں اس طرح کے اقدامات حقیقی معیشت کو مزید ٹھیس پہنچاتے ہیں، جس سے حقیقی معیشت میں سے پیسہ نکل کر بینکوں اور بچت اسکیموں میں چلا جاتا ہے اور حقیقی کاروبار، جو دراصل نوکریوں کا ذریعہ بنتا ہے، وہ ختم ہوتا جاتا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے حکومت پیسہ حقیقی مارکیٹ سے بینکوں میں جمع کر لیتی ہے جس سے پیسے کا ارتکاز ہوتا ہے اور گردش میں کمی آتی ہے۔
حکومتی عہدیداروں سے ایسی تجاویز کاآنا پاکستان کی معیشت کے لئے نقصان دہ اور اسلامی اصولوں کی کھلی نافرمانی ہے۔ اسلام دولت کی گردش کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دولت کے ارتکاز کو صریحاً منع کرتا ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا،
كَىۡ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ
"تاکہ وہ (مال) تمہارے دولتمندوں میں نہ پھرتا رہے" (الحشر: 7)۔
اسلام کی اس پالیسی کی بنیاد پر ریاستِ خلافت ایسی اسکیمیں پیش نہیں کرے گی جو دولت کے ارتکاز کا باعث بنیں، بلکہ اس کی جگہ حکومت دولت مند اشخاص اور کاروباری ہنر رکھنے والے اشخاص کو آپس میں کاروباری معاہدے کرنے میں مدد فراہم کرے گی تاکہ اس دولت کی حقیقی معیشت میں سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو ترقی دی جا سکے، جس سے کئی لوگوں کو براہِ راست روزگار ملے گا۔ علاوہ ازیں، اسلام میں سود کو قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ سبحان وتعلیٰ نے فرمایا،
وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ
"الله نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے"(البقرۃ: 275)۔
سود کی اس قطعی حرمت کے پیشِ نظر اسلامی ریاستِ خلافت ایسے تمام معاہدات پر پابندی لگائے گی جو سود میں لین دین کی بنیاد پر ہوں، مثلاً سودی بچت اسکیمیں، سودی قرض وغیرہ۔ اس طرح اسلامی ریاستِ خلافت اس بات کی یقینی بنائے گی کہ معاشرہ سود کی لعنت سے پاک ہو جائے اور دولت، اللہ کے حکم کے مطابق، معاشرے میں گردش کرتی رہے۔
تحریک انصاف حکومت کی ایک سال کی کارکردگی نے ثابت کردیا
کہ جمہوریت کے ذریعے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی
18 اگست 2019 کو پاکستان تحریک انصاف نے اپنی ایک سال کی حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی اور یہ دعوی کیا کہ ملک کو صحیح راستے پر ڈال دیا گیا ہے اور لوگوں کو اس حکومت کے دوسرے سال میں فوائد ملنا شروع ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے اطلاعات، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وزیر اعظم آفس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا پہلا سال معاشی بحران کی وجہ سے کافی مشکل تھا جو اسے پچھلی حکومت سے ورثے میں ملا تھا لیکن ہم نے اصلاحات اور اچھی حکومت کی بنیاد ڈال دی ہے۔
تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل بہت بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو سو دن میں ملک کے حالات تبدیل کردیں گے۔ لیکن جب اہداف سو دن میں حاصل نہ ہوسکے تو کہا گیا کہ ہمیں کم از کم چھ ماہ تو دیں، اور پھر چھ ماہ میں بھی وہ اہداف حاصل نہ کرسکے تو کہا گیا کم از کم دو سال کا وقت دیا جائے ۔ اور اب جب ایک سال مکمل ہوگیا ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ انہیں ایک بار پھر جھوٹے وعدوں کے ذریعے تبدیلی کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے۔
پاکستان کے لوگوں نے حقیقی تبدیلی لانے کے لیےیہ دھوکہ پہلی بار نہیں کھایا بلکہ کبھی روٹی ، کپڑا اور مکان، اسلامی سوشل ازم، نظام مصطفی تو کبھی نفاذ شریعت کے نام پر کئی بار دھوکہ کھاچکی ہے۔ اور اب ریاست مدینہ کے نام پر اسے دھوکہ دیا جارہا ہے۔ لوگ اب یہ سوال کررہے ہیں کہ ایک "ایماندار" قیادت بھی لاکر دیکھ لی لیکن تبدیلی تو پھر بھی نہیں آئی تو آخر مسئلہ ہے کہاں کہ جسے درست کیا جائے؟ اور اس وقت سب سے ضروری بات اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی وحی کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے قوانین کو کبھی جمہوریت تو کبھی فوجی آمریت کے ذریعے ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہی بنیادی مسئلہ ہے۔جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کو نافذ کرنے والی حکمرانی بحال نہیں ہو گی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے معاملات اللہ کی اتاری وحی کے مطابق ہی طے کرنے چاہیے اور جو ایسا نہیں کرتے وہ ظلم کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
"اور جو اللہ کی اتاری وحی کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں"(المائدہ 5:45)۔
کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت بھی جمہوری نظام کے ذریعے ہی حکمرانی کررہی ہے جہاں فیصلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر نہیں کیے جاتےلہٰذا ہمیں معیشت سمیت ہر شعبے میں وہی ظلم نظر آرہا ہے جس کے خلاف پہلے یہی تحریک انصاف چیختی چلاتی نظر آتی تھی۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی اسلام کے نظامِ حکومت، خلافت میں ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو پورا کرنے اور حقیقی تبدیلی کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے جہاں ہر معاملہ، چاہے اس کا تعلق معیشت، عدالت، خارجہ امور، تعلیم یا کسی سے بھی ہو، صرف اور صرف اقرآن و سنت کے قوانین کے مطابق ہی حل کیے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثم تكون خلافة على منهاج النبوة
"اور پھر خلافت قائم ہو گی نبوت کے طریقے پر"(احمد)
مسئلہ ِکشمیر کو عالمی عدالت ِ انصاف میں لے جانا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے
19 اگست 2019 کی خبر کے مطابق حکومتِ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اے آر وائے نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، " ہم نے مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تمام قانونی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد کیا گیا ہے"۔
ایسی صورتحال میں جب کشمیر کےایک کروڑ سے زائد مسلمان ،جنہیں بھارتی درندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، افواجِ پاکستان کی طرف براہِ راست فوجی امداد کے لئے دیکھ رہے ہیں تو فیصلہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ افواجِ پاکستان کے شیروں کو حرکت میں لایا جارہا ہے۔ لیکن وزیرِ خارجہ کامعاملے کوعالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے کااعلان مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کےمترادف ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں عالمی انصاف یا قوانین نام کی کوئی چڑیا ہے نہ ہو سکتی ہے کیونکہ کسی بھی قانون کے نفاذ کے لئے طاقت درکار ہوتی ہے اور عالمی سطح پر کسی ملک کے پاس قانون کےنفاذ کے لئے درکار قوتِ نافذہ نہیں ہوتی۔ لہٰذاطاقتور ریاست دیگر ریاستوں سے تو اپنے مفاد کے قوانین نافذ کرواتی ہےلیکن کوئی ملک خود اس طاقتور ملک سے قانون کی پاسداری نہیں کرواسکتا۔ عالمی قوانین اور عالمی عدالتِ انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں کمزور کا تو استحصال کیا جا سکتا ہے لیکن طاقتور ممالک ان قوانین کو گھاس نہیں ڈالتے بلکہ صرف اپنے مفاد کے لئے ان اداروں کو استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی مثال حال ہی میں دیکھی جاسکتی ہے جب عالمی عدالت برائے جرائم نے امریکہ کی جانب سےافغانستان میں کیے جانے والے جرائم پر تحقیقات کا اعلان کیا تو امریکہ نے عالمی عدالت کے ججوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ تحقیقات سے بعض نہ آئے تو وہ ان پر سفری پابندی لگا دے گا ، جس پر عالمی عدالت نے امریکہ کے خلاف تحقیقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا ایسی عدالتوں سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے خصوصاًجب کشمیر کے معاملے میں بھارت نواز امریکہ کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان عالمی اداروں کی مسلمانوں کے معاملات میں بے حسی اوراسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جن معاملات میں آج سے پہلے ثالثی کر چکے ہیں ان کا کیا بنا ؟ کیا آبادی کےلحاظ سے مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کا الگ ہونا اور رقبے کے لحاظ سے مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک سوڈان سے جنوبی سوڈان کا الگ ہونا، واضع سبق نہیں دیتا؟ کیا فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر ہم نے ان کاموقف نہیں دیکھا جہا ں مسلم سرزمین پر یہود اور ہنودکےوجود کو ہمیشہ دوام بخشا گیا اورفلسطینی و کشمیری مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم پر ہمیشہ خاموشی اختیارکی گئی ۔ ان اداروں کی ستر سالہ مجرمانہ خاموشی اور اسلام دشمنی کے باوجودبے شرم وزیرِ خارجہ کشمیر کے مسئلے پرعوام کو دھوکہ دینے کے لیے عالمی عدالت انصاف جانے کی بات کر رہا ہے ۔
کشمیر کے مسئلےکے حل کے لئےپاک فوج کے ذریعہ منظم جہاد کر کے کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے کبھی عالمی عدالتِ انصاف اور کبھی ٹرمپ کی ثالثی کی بات کر کےپاکستانی حکمران جنرل باجوہ اور عمران خان، مشرف کی طرح اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانے سے منع فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
((أَلَمْ تَرَ إلى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إلى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيداً))
" کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے"(سورۃ النساء 4:60)۔
عمران اور باجوہ ہمارے معاملات طاغوت یعنی امریکہ، برطانیہ، چین یا روس یا استعماری اداروں اقوامِ متحدہ ، عالمی عدالت انصاف ، آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک ، ایف اے ٹی ایف کے سپرد کررہے ہیں جو ہمیں ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف دھکیلتے ہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں اور مسلم افواج پر فرض ہے کہ ان طاغوتی طاقتوں اور ان کے ایجنٹ حکمرانو ں کا انکار کریں اور خلافت کو قائم کریں جو کشمیر سمیت مسلمانوں کے تمام مسائل کو اللہ کی شریعت کے مطابق حل کرے گی اور خوشحالی اور امن اس دنیا میں بھی ہمارا مقدر بنے گا اور ہم آخرت میں بھی اِن شاءاللہ سرخرو ہونگے۔