بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز16اگست 2019
-سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں رہتے ہوئے قرض کے دلدل سے نہیں نکلاجاسکتا
-توانائی کے شعبے کی کمائی میں 121 ارب روپے کا اضافہ عوام کے خون پسینے کا سودا ہے
- کراچی میں بارشوں میں ہلاکتوں کی وجہ جمہوری نظام اور حکمران ہیں
تفصیلات:
سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں رہتے ہوئے قرض کے دلدل سے نہیں نکلاجاسکتا
9 اگست 2019 کواسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ جون 2019 تک وفاقی حکومت کا کُل قرض 31.784ٹریلین روپے تھا۔ اس قرض میں پچھلے ایک سال کے دوران 31.27فیصد اضافہ ہوا کیونکہ جون 2018 کو یہ قرض 24.212ٹریلین روپے تھا۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ-ن(پی ایم ایل-ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر ڈالتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے قرض کو پچھلے دس سال کے دوران 6 ٹریلین سے 24 ٹریلین روپے تک پہنچا دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کےصرف ایک سال کے دورہ اقتدار کے دوران پاکستان کے قرض میں سات ٹریلین کا اضافہ ہوگیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اس صورتحال پر پی ٹی آئی حکومت کے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور میاں حماد اظہر نے کہا کہ جو لوگ قرضوں میں اضافے پر تنقید کررہے ہیں وہ معیشت کے دیگر اصولوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ حیرت ہے کہ بہت جلد تبدیلی سرکار کا وزیر بھی وہی جواب دے رہے ہیں جو اس سے قبل پی ایم ایل-ن اور پی پی پی کے وزیر دیا کرتےتھے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "ایماندار" حکومت کے آجانے کے بعد بھی آخر قرض میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ریاست کے پاس ہمیشہ وسائل کی کمی ہی رہتی ہے کیونکہ بڑے بڑے قدرتی وسائل کو نجکاری کے نام پر معاشرے کے چند طاقتور لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جن سے بہت زیادہ دولت حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس ، کوئلہ، تانبہ، سونا، چاندی وغیرہ۔ اسی طرح معیشت کہ وہ شعبے جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نفع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے ، مثلاً ٹیلی کمیونیکیشن ، ریلویز، جہاز رانی، ایوی ایشن وغیرہ، تو ریاست "ملکیت کی آزادی" کے نام پر ان شعبوں میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور اس میدان کو نجی شعبے کے حوالے کردیتی ہے۔ یہ دو کام کرنے کے بعد ریاست کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل ہی نہیں رہتے اور وہ یا تو لوگوں پر ٹیکس لگاتی ہے یا پھر قرض حاصل کرتی ہے۔ ضروریات اور وسائل کے درمیان کی خلیج عموماً اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں پر ٹیکس لگانے سے بھی کم نہیں ہوتی لہٰذا حکومتوں کو بڑے پیمانے پر قرض لینا پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک کی حکومتیں بھی زبردست قرضو ں میں ڈوبی ہوئی ہیں جن میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا بھی شامل ہے جس کا کُل ملکی قرض اس کی کُل ملکی آمدنی کا 108 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی ملکی قرض بڑھنے کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا جاری رہنا ہے۔
پاکستان اس صورتحال سے صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو دفن کر کے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔ اسلام کے معاشی نظام میں بجلی، گیس، تیل اور دیگر قدرتی وسائل نجی ملکیت میں نہیں دیے جاسکتے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں عوامی ملکیت قرار دیا ہے اور ریاست عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان وسائل سے حاصل ہونے والی دولت کو بیت المال میں جمع کرتی ہے اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے معاشی نظام میں کمپنی کا ڈھانچہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ نجی شعبے کا کردارمعیشت کے ان شعبوں میں انتہائی محدود ہوجاتا ہے جہاں زبردست سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے اور اس طرح ریاست ٹیلی کمیونیکیشن، ریلویز، ایوی ایشن وغیرہ کے شعبوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور ریاست کا خزانہ ان شعبوں سے آنے والے زبردست نفع سے بھر جاتا ہے۔ لہٰذا حقیقی تبدیلی کے لیے خلافت کا نظام نافذ کیا جانا لازمی ہے کیونکہ اللہ ہی سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ
"بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے "(الحجرات 49:13)۔
توانائی کے شعبے کی کمائی میں 121 ارب روپے کا اضافہ عوام کے خون پسینے کا سودا ہے
11 اگست کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ توانائی کے شعبے کے محاصل میں 121 ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ اس میں 16 ارب کی بچت صرف نظامِ ترسیل اور رساؤ میں بہتری سے حاصل ہوئی۔ بجلی چوری کی مد میں 136 کروڑ کی رقم بجلی چوری کرنے والوں سے نکلوائی گئی۔ بجلی میٹروں کے upgradeکرنے ، نظامِ ترسیل کی بہتری اور بجلی چوری کی بچت جیسے اقدامات کے بعد اب بجلی کی 23 ہزار میگاواٹ سے زائد طلب دیکھنے میں آئی۔ اس میں حکومت نے circular debt کو کم کرنے کے لیے 200 ارب کے بانڈ بھی جاری کیے۔
پاکستان کی کُل بجلی کا14 فیصد تیل ، 31 فیصد گیس ، 16 فیصد کوئلہ، 29 فیصد پانی ،4 فیصد ایٹمی توانائی ، 5 فیصد سولر اور ہوا (RenewableEnergy) جبکہ باقی1 فیصد دیگر ذرائع سے بنتا ہے۔ اس میں سے تقریباً آدھی بجلی تیل و گیس سے بنائی جاتی ہے جبکہ ایک تہائی بجلی IPPs(نجی بجلی گھر)پیدا کرتے ہیں۔ حکومت ہر سال 422 ارب روپے IPPs کو صرف بجلی گھر کے موجود ہونے (capacitypayments) کی مد میں ادا کرتی ہے۔ حکومت کی جانب سے صرف سال 2019 میں Tariff Adjustment اور Fuel Adjustment کی بنیاد پر 6 سے زائد مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں تبدیلی کی گئی۔ ان تبدیلیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت چند IPPs کے منافع کو بچانے کی خاطر عوام پر دوہرا بوجھ ڈال رہی ہےیعنی تیل اور گیس کی قیمت بڑھنے کا بوجھ IPPs مہنگی بجلی کی صورت میں عوام پرہی ڈال رہے ہیں۔
اسلام اس مسئلے کا جامع سدِباب کرتا ہے۔ اسلام میں بجلی کے گھر ذاتی ملکیت میں ہونا جائز نہیں، کیونکہ یہ توانائی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کوئی شخص یا ریاست ان پر ذاتی منافع نہیں کما سکتی۔ ابو داؤد نے ابن عباس سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا،
«المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والكلأ والنار»
"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں۔ پانی ، چراگاہیں اور آگ (توانائی)"۔
حکومت بجلی کی پیداوار میں جی ایس ٹی، سرچارج اور دیگر ٹیکس نہیں لے سکتی کیونکہ اس طرح کے ٹیکسوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں اسلام کی توانائی کی پالیسی کے تحت عوام کو ان ذرائع سے بجلی نہیں دی جائے گی جو عموماً مہنگے ہیں جیسے تیل و گیس وغیرہ، بلکہ پانی، شمسی توانائی، ہوا وغیرہ جیسے سستے ذرائع استعمال کیے جائیں گے تاکہ بجلی کی پیداوار پر کم سے کم خرچ آئے اور عوام کو سستی سے سستی بجلی مہیا ہو۔ علاوہ ازیں، اسلامی ریاستِ خلافت سائنسی ریسرچ اور یونیورسٹیوں کے تعاون سے بجلی کی پیداوار کو مزید سستا کرنے اور بڑھانے پر پورا زور لگائے گی تاکہ آنے والے دور میں بجلی کی بڑھتی طلب کو کم سے کم خرچ میں احسن طریقے سے پورا کیا جا سکے۔
کراچی میں بارشوں میں ہلاکتوں کی وجہ جمہوری نظام اور حکمران ہیں
ڈان اخبار کی 15 اگست کی خبر کے مطابق 10 سے 12 اگست تک سندھ میں ہونے والی مون سون بارشوں کےدوران 27 لوگ لقمہِ اجل بن گے۔ پولیس سمری کے مطابق سندھ میں ہونے والی 27 اموات میں سے 24 صرف کراچی میں ہوئیں جن میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے کراچی میں 15 اموات بھی شامل ہیں ۔ان 15اموات میں سے تین ان نوجونوں کی تھی جن کی کرنٹ لگنے کی وجہ سے موت کے وقت کی وڈیو نے سوشل میڈیا پر عوام کو ہلا کر رکھ دیا اور اس واقع کے بعد ہر آنکھ اشکبار اور ذمہ داران کی تلاش میں ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی شہری حکومت سندھ حکومت کو اور سندھ حکومت وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے ۔
جمہوری حکومت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جمہوریت کے علمبردار سیاست دان، حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، ڈھٹائی سے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں ۔پاکستان میں بارش اور سیلاب ہر سال پابندی سے واقع ہوتے ہیں، مگر تمام جمہوری حکومتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے موزوں اقدامات کرسکیں۔ پاکستان کے مسلمان پچھلے کم از کم دس سالوں سے مسلسل جان لیوا مون سون بارشوں اور سیلابوں کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ملک بھر میں بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے 178 افراد ہلاک ہوئے اور کچھ 15 لاکھ شدید متاثر ہوئے۔2012ء میں 520 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1180 سے زائد تھی۔ 2010ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ایک بڑے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی تھی، اور اس میں 1800 ہلاکتیں ہوئیں اور 12 ملین لوگ متاثرین میں سے تھے۔ یکے بعد دیگر جمہوری حکومتوں کی انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ دراصل جمہوریت کی اپنی اصلیت ہے۔ جمہوری طریقہ ِحکومت میں حکومت کی ذمہ داری لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص سیاسی طبقۂِ اشرافیہ کے منافع کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ جہاں بھی جمہوریت کا وجود ہے، وہاں ایک اونچے طبقے کی طرف سے کیے جانے والا عوام کا استحصال اور لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی لا محالہ پائی جاتی ہے ۔ جمہوری نظام کے سب سے بڑے علمدار امریکہ میں بھی اس مسئلے کو دیکھا جا سکتا ہے ، جہاں 2005 میں کترینا طوفان اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں میں کم از کم 1833 افراد مارے گئےتھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان میں 108 ارب ڈالر کی جائیداد کا نقصان ہوا۔ کانگریس نے جب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ردِعمل کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ریڈ کراس اور FEMA کے پاس "رسد کی وہ موزوں استعداد نہ تھی جس سے وہ خلیج کے ساحل کے متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کر سکیں"۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں ہونے والے جان و مال کے نقصان کی ذمہ داری حکومت کی تینوں سطحوں پر عائد ہوتی ہے "۔ یہ ہے جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کہ سیاست دانوں کو صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ ایک اور مدت کو یقینی بنا سکیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کیا جا سکے جبکہ ان کی توجہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
اسلام نے سیاست کا مطلب لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا متعین کیا ہے اور اس کو ایک فرض عمل قرار دیا ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ
(بخاری)"کوئی حکمران ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کی رعیت کی ذمہ داری دی جائے اور وہ ان سے خیانت کرتا ہوا مرے، اِلّا یہ کہ اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے"۔
لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیاست دان امت کے امور کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے کہا : "اگر عراق کی سرزمین میں ایک جانور بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ اس کا حساب بھی مجھ سے لے گا کہ میں نے سڑک کی کیوں مرمت نہ کروائی"۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مکّہ میں سیلاب آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ کعبہ کی حفاظت کیلئے دو بند تعمیر کیے جائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے مدینہ میں بھی بند تعمیر کروائے تاکہ چشموں کے ابلنے سے سیلاب نہ آجائے اور اس طرح سیلاب کی وجہ کو جڑ سے ہی ختم کروادیا۔ لہٰذا مسلمان آج جن جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوریت کا قلع قمع کر کے خلافت کا نظام قائم کیا جائے۔